کہیں ایسا۔۔۔اور کہیں ویسا نہ ہو جائے

8ستمبر کے اخبارات میں بھارتی وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات راج وردھن سنگھ راٹھور کا یہ بیان شائع ہوا ہے کہ "بھارت داؤد ابراہیم اور حافظ سعید کو پکڑنے کے لیے پاکستان میں اسپیشل یا مخفی آپریشن کر سکتا ہے ،انھوں نے کہا بھارت اپنے دشمنوں کو پکڑنے کے لیے ہمیشہ تیار رہتا ہے اور بھارت کے دشمن کو کبھی یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ ہم ان کے متعلق کچھ منصوبہ بندی نہیں کررہے ۔ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا ہم بمبئی حملوں کے ملزموں کے خلاف حکمت عملی بنارہے ہیں جس کا پہلے اعلان نہیں کرنا چاہتے "جب سے امریکا نے ایبٹ آباد پر حملہ کر کے اسامہ بن لادن کو گرفتار کیااس وقت سے بھارت کے پیٹ میں بھی درد ہو رہا ہے کہ وہ بھی پاکستان میں کوئی بھی بہانہ بنا کر اس طرح کا کوئی حملہ کر کے پوری دنیا پر یہ ظاہر کرے کہ پاکستان ایک دہشت گرد ملک ہے یہ اپنے یہاں دہشت گردوں کو پناہ دیتا ہے اسامہ بن لادن بھی یہاں ہی چھپا ہوا تھا اور بھارت کو مطلوب دہشت گرد بھی یہاں ہی تھے جنھیں ہم نے پکڑلیا ۔اس کے بارے میں پاکستان پہلے ہی کہہ چکا ہے کہ بھارت کی طرف سے کسی بھی قسم کی چھوٹی یا خفیہ کارروائی کوبڑی جنگ کا آغاز سمجھا جائے گا اور پاکستان اس کا نہ صرف منہ توڑ جواب دے گا بلکہ اس جنگ کا اختتام پھر پاکستان کی مرضی سے ہو گا اور ہم اپنے تحفظ کے لیے تمام آپشن پر عمل کرنے کے لیے آزاد ہو گے اور اس میں ایٹمی حملے کا آپشن بھی شامل ہے ۔

اس دن کے اخبارات میں امریکی جریدے نیوز ویک کی ایک رپورٹ بھی شائع ہوئی ہے جس میں خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ کا حقیقی امکان آج بھی موجود ہے۔پاکستان اور بھارت جوہری جنگ کے دہانے پر پہنچ سکتے ہیں ۔اس ممکنہ منظر نامے کے بعد امریکا کی زمینی فوج کا صورتحال سے الگ تھلگ رہنا تقریباَ ناممکن ہو گا ایک ایٹمی تصادم جنوبی ایشیا کے لیے بربادی لائے گا اور خصوصاَ عالمی معیشت کے لیے تباہ کن اور کرہ ارض کے لیے انتہائی خطرناک ہو گا۔مستقبل میں جوہری تنازعے نے شدت اختیار کی تو جنگ بندی کے لیے ایک غیر ملکی فوجی کردار کا ممکنہ عمل دخل ہو سکتا ہے۔

امریکی جریدے کی یہ رپورٹ بہت خطرناک ہے ۔دیکھیے ہم کوئی نجومی نہیں ہیں کہ پیشنگوئیاں کریں اور نہ اتنے اعلیٰ درجے کے تجزیہ نگار ہیں کہ اپنی عقل و دانش سے "کیا ہونے جارہا ہے "کی تفصیلات پیش کر سکیں ۔ایک اخبار کے قاری کی حیثیت سے جب خبریں پڑھتے ہیں تو ان خبروں کے بین السطور جو کچھ چھپا ہوتا ہے وہ زہنوں میں وسوسے اور دلوں میں خدشات پیدا کرتا کے کہیں ایسا تو نہ ہو جا ئے اور کہیں ویسا نہ ہو جائے ۔اس رپورٹ کا یہ جملہ اپنے اندر وسیع معنی رکھتا ہے کہ "اس ممکنہ منظرنامے کے بعد امریکا کی زمینی فوج کا صورتحال سے الگ تھلگ رہنا ناممکن ہو گا "۔اب سے تقریباَ 20-22سال قبل کی بات ہے عراق میں متعین امریکی خاتون سفیر عراقی صدر صدام حسین سے ملتی ہیں اور یہ یقین دلاتی ہیں کہ اگر عراق کویت پر حملہ کرے گا تو اس پر امریکا کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا ۔پھر جب عراق کویت پر حملہ کرکے اس پر قبضہ کرتا ہے تو یہی امریکا خم ٹھونک کر میدان میں آجاتا ہے ۔کویت کی آزادی کے لیے گلف وار چھڑ جاتی ہے امریکا ،یورپی ممالک اور دیگر تمام عالمی قوتیں کویت کی آزادی کے لے یکجا ہو جاتی ہیں ،اور اسی بہانے امریکا سعودی عرب میں اپنی فوج میں اتار دیتا ہے ۔گلف وار ختم ہو گئی لیکن یہ فوجی آج تک ہیں اور ان کا خرچ بھی سعودی عرب ہی اٹھا رہا ہے ۔ایک مسلمان ملک کی مدد کے بہانے عرب خطے میں امریکی فوج اصلاَ تو اسرائیل کے تحفظ کے لیے یہاں آئی ہے کہ کل اگر اسرائیل کسی مصیبت میں پھنس جائے تو امریکی فوج اس کی مدد کے لیے موجود ہو گی ۔

پون صدی قبل کی اس مثال کو اگر سامنے رکھ کر نیوز ویک کی رپورٹ دیکھیں تو مستقبل کا نقشہ یہ نظر آرہا ہے کہ امریکا پاکستان اور بھارت کے درمیان کسی بڑی جنگ کا خواہاں نہیں ہے اس لیے کہ امریکا سمیت پورے یورپ کے مفادات بھارت سے وابستہ ہیں ۔بڑی اور خوفناک جنگ میں ان کے مالی مفادات بھی جل کر بھسم ہو جائیں گے نیوزویک نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے نا کہ پاک بھارت ایٹمی تصادم عالمی معیشت کے لیے تباہ کن ہو گا ۔وہ ایک ایسے چھوٹے تصادم کا خواہشمند ہے کہ جس میں کشمیر فلیش پوائنٹ کے طور پر سامنے آئے اور امریکا اس جنگ کے بہانے اپنی فوج کشمیر میں یہ کہہ کر اتارے کہ کشمیر برصغیر کا متنازعہ علاقہ ہے جو عالم امن کے لیے خطرہ ہے اس لیے اس کو بھارت کے تسلط سے نکال کر اقوام متحدہ کے زیر نگرانی دیا جاتا ہے ۔اور یہاں پر امن قائم کرنے کے لیے اقوام متحدہ کی فوج جو در اصل امریکا ہی کی فوج ہو گی کو تعینات کیا جاتا ہے ۔امریکا پاکستان کو یہ کہہ کر راضی کرنے کی کوشش کرے گا کہ ہم بھارت کے اٹوٹ انگ کو اس کے قبضے سے چھڑا رہے ہیں مناسب وقت پر استصواب بھی کرا لیا جائے گا ۔چاہے بعد میں کشمیر میں پاکستان کے حامی عناصر کا یہ کہہ کر قلع قمع کیا جائے کہ یہ دہشت گرد ہیں جو کشمیر کی آزادی کے خلاف ہیں اور پاکستان کی شہ رگ کشمیر کو پاکستان سے کاٹ ڈالا جائے گا ۔مقبوضہ کشمیر میں پاکستان کا کوئی عمل دخل نہیں ہوگا۔

دوسری طرف بھارت سے یہ کہا جائے گا کہ کشمیر میں اصل حکمرانی تو آپ ہی کی ہوگی بس صرف ٹائٹل تبدیل ہوا ہے اور یہ کہ چین تمہارا ازلی دشمن ہے ،لہذا اس کے خلاف مشترکہ حکمت عملی تشکیل دینے کے لیے ضروری ہے کہ امریکا کا ساتھ دیا جائے ۔ اور امریکی فوج کی تعیناتی کو بھارت خوشدلی سے تسلیم کر لے گا ۔دراصل پاک چائنا کوریڈور ایک ایسا پروجیکٹ ہے جو امریکا یورپ بھارت اور اسرائیل کو ہضم نہیں ہو پارہا ہے اس کی تکمیل کے بعد چین پوری دنیا کی مارکیٹ پر حاوی ہو جائے گا ۔

نیوزویک کی رپورٹ کا اگرتنقیدی جائزہ لیں تو اس پوری رپورٹ میں پاک بھارت ایٹمی جنگ میں امریکا کی زمینی فوج کی کیا ضرورت ہے ۔ہماری دعا ہے کہ یہ سب باتیں خدا کرے کے غلط ہوں اور ہمارے خدشات بے بنیاد ثابت ہوں لیکن ماضی میں امریکا کے کرتوت اس طرح کی خوفناک سوچ کے پیدا ہونے کا باعث بنتے ہیں ۔
 
Jawaid Ahmed Khan
About the Author: Jawaid Ahmed Khan Read More Articles by Jawaid Ahmed Khan: 80 Articles with 50694 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.