7ستمبر یوم فضائیہ٬ مجاہدین افلاک کا دن

7ستمبر پاکستان میں یوم فضائیہ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ ملک پر جب بھی مشکل وقت آیا۔ پاک فضائیہ نے ہمیشہ ملک کی حفاظت کے لیے اپنا کردار ادا کیا۔ 1965 کی جنگ میں پاک فضائیہ نے بھارتی جارحیت کا ایسا منہ توڑ جواب دیا جو پوری دنیا نے دیکھا۔ پاک فضائیہ نے 1965 کی جنگ کے دوران اپنے محدود وسائل کے ساتھ اپنے سے تین گنا زیادہ اسلحہ اور لڑاکا طیارے رکھنے والے ملک کو پسپا ہونے پر مجبور کر دیا تھا۔

یکم ستمبر 1965ء کی شام بھارتی فضائیہ نے اکھنور سرحد پر پاکستان آرمی کی 12ڈویژن کی پیش قدمی روکنے کی بھرپور کوشش کررہی تھی۔ بھارتی ویمپائرز طیاروں کو وادی کشمیر کے بارڈر پر امداد تعاون فراہم کرنے کے لئے مناسب سمجھا گیا اور انہیں جلدی سے مشن سونپا گیا۔ نمبر 45سکواڈرن کو پونا سے پٹھان کوٹ منتقل کردیا گیا۔ نازک زمینی صورتحال کے پیش نظر ویمپائرز کو فوری طور پر آنا پڑا۔4ویمپائرز کے لگاتار تین حملے شام تک جاری رہے۔

میجر جنرل جی ایس سندھو اپنی کتاب History of Indian Cavalry میں لکھتے ہیں کہ کس طرح ویمپائر نے پہلے چار حملوں میں بھارت کی اپنی ہی 20لانسر کے اے ایم ایکس 13ٹینکوں کو تباہ کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ اکلوتی امدادی اور اسلحہ بردار گاڑیاں بھی تباہ ہو گئیں۔ دوسری جھڑپ کے دوران انڈیا انفنٹری کی کئی گن پوزیشنز اور اسلحہ بردار گاڑیاں تباہ ہو گئیں۔ ابھی بھارتی فوج اپنے ہاتھوں ہی زخم اٹھا رہی تھی کہ اچانک پاک فضائیہ کے دو سیبرز نمودار ہوئے۔ سکواڈرن لیڈر سرفراز رفیقی اور فلائٹ لیفٹیننٹ امتیاز بھٹی چھمب سیکٹر پر 20ہزار فٹ پر پرواز کررہے تھے۔ ریڈار سے اطلاع ملنے کے بعد انہوں نے شام کے اندھیرے میں دو ویمپائرز اپنی طرف بڑھتے ہوئے دیکھے۔ سرفراز رفیق آگے بڑھے تو دو اور ویمپائرز اچانک سیبرز کے سامنے آ گئے جن کو انہوں نے چند لمحوں میں شکار کرلیا اور امتیاز بھٹی کے ساتھ آ گئے جو کہ دوسرے ویمپائرز کے ساتھ نبرد آزما تھے۔ جب رفیق عقب سے ہٹ گئے تو امتیاز بھٹی نے ایک ویمپائر کو نشانہ بنایا جو کہ بری طرح لڑکھڑا کر درختوں میں جا گرا جس کی خوفناک داستان فلائنگ آفیسر سندھی نے بیان کی تھی۔ اس ایک جھڑپ نے دشمن فضائیہ پر پاک فضائیہ کے شاہینوں کی ہیبت طاری کردی۔ بدحواس بھارتی فضائیہ نے اپنے 80ویمپائرز طیاروں کو گراؤنڈ کردیا جس سے ان کی فضائی طاقت 35فیصد کم ہو گئی جو کہ رفیقی اور امتیاز بھٹی کی شاندار کامیابی کے مرہون منت تھی۔

6ستمبر کی شب ائر کموڈور نجیب خان جالندھر کے نزدیک بھارتی فضائیہ کے ایک اہم اڈے آدم پورپر 4B57بمبار طیاروں کے ایک مشن کی کمان کررہے تھے۔ یہ ان کے کیریئر کا پہلا بڑا اور مشکل مشن تھا جبکہ پاک فضائیہ کا پہلا بمبار مشن۔ ڈیک لیول پر پرواز کرتے ہوئے یہ فارمیشن آدم پور کی جانب بڑھ رہی تھی۔ جب حملے کے لئے وہ فضاء میں بلند ہوئے تو دیکھا کہ آدم پور کی فضائی بیس کو پوری طرح روشن کیا گیا تھا۔ دشمن نے ان کی فارمیشن کو حیرت زدہ کردیا تھا۔ انہوں نے حیران ہونے کی بجائے دشمن کو حیران کردینے کا فیصلہ کیا۔ائرکموڈور نجیب خان نے بلندی سے نیچے کی جانب غوطہ لگایا اور اس جگہ کو نشانہ بنایا جہاں سے رن وے شروع ہوتا تھا۔ بٹن دباتے ہی آٹھ ہزار پونڈ وزن کے چار بم لہراتے ہوئے رن وے پر قہر بن کر گرے۔ بموں نے ائر بیس پر آگ لگا دی اور پورا بیس دن کا منظر پیش کرنے لگا۔ اچانک نیچے بیس پر جلنے والی روشنیاں بجھا دی گئی اور ایئر کرافٹ گنز کے دہانے کھول دیئے گئے۔ نجیب خان نے شدید گولہ باری کی صورت حال میں ائر بیس کے تین چکر لگائے اور اپنا مقررہ مشن کامیابی سے پورا کیا۔ آخری چکر میں ان کے نمبر 2کا طیارہ 40ایم ایم شیل کا نشانہ بن گیا مگر پیشہ وارانہ مہارت سے سنبھال لینے کے سبب ان کی پوری فارمیشن بحفاظت واپس پہنچ گئی۔

اسکوارڈرن لیڈر رئیس احمد رفیع نے چھ اور سات ستمبر کی شام 6بجکر 45منٹ ٹی او ٹی پر جام نگر ائر فیلڈ پر حملہ کرنے والی 6 بی 57بمبار طیاروں کی فارمیشن کے ڈپٹی لیڈر کی حیثیت میں رات کے اندھیرے میں اپنے پہلے بمبار مشن کے لئے اڑان بھری۔ اس حملے نے دشمن کو مکمل طور سے ششدر کردیا اور پاک فضائیہ کی فارمیشن نے اپنے سارے بم جام نگر پر بالکل درست نشانے پر داغے۔ کامیاب حملے کے بعد یہ فارمیشن بحفاظت ماڑی پور پر اتری اور ذرا دیر آرام کے بعد اسکوارڈرن لیڈر رفیع اپنے دوسرے بمبار مشن کے لئے تیار ہوگئے۔ اسی رات اپنے دوسری مشن پر وہ ایک بار پھر جام نگر گئے۔ یہ مشن انہوں نے اکیلے ہی انجام دیا۔

ایئر کموڈور (ریٹائرڈ)امتیاز احمد بھٹی کے مطابق سات ستمبر کی صبح تین جبکہ دوپہر کے بعد بھارتی ائر فورس نے ایک حملہ سرگودھا پر کیا گیا۔ پہلے حملے کے ختم ہونے کے بعد ہمیں دوسرے حملے کی اطلاع ملی تو بھارتی ائیر فورس چھ چھ جہازوں پر مشتمل فارمیشن میں حملہ کرتے تھے جن میں سے چار جہاز حملہ کے لئے استعمال ہوتے تھے جبکہ دو جہاز ان جہازوں کے دفاع کے لئے استعمال ہوتے تھے، جب دوسراحملہ شروع ہوا تو ہمیں اڑان کے احکامات ملے، ہم نے ایک ساتھ اپنے اپنے جہاز اڑائے اور حملہ کو روکنے کے لئے روانہ ہو گئے۔ ہم نے حملہ شروع کیا اور کڑانہ پہاڑیوں پر پہنچے تو ایک انڈین جہاز میرے حملے کی رینج میں آیا میں اس پر گولیاں برسانے لگا تو میں نے دیکھا کہ بھارتی جہاز کے عین نیچے ایم ایم عالم کا جہاز تھا جس پر میں نے فوری طور پر فائرنگ کا ارادہ بدل دیا، تاہم ایم ایم عالم نے انڈین جہاز کو میزائل مار کر تباہ کر دیا جبکہ اس کے پائلٹ نے پیراشوٹ کے ذریعے چھلانگ لگا دی۔بعد میں معلوم ہوا کہ وہ اسکواڈرن لیڈر ہے اور ہلواڑہ سے اس نے اڑان بھری، کچھ آگے گئے تو لالیاں کے قریب انڈیا کی 6 جہازوں پر مشتمل ایک اور فارمیشن سے ہماری مڈھ بھیڑ ہو گئی جو کہ حملہ کے لئے سرگودھا کی طرف بڑھ رہی تھی، ایم ایم عالم نے اپنا جہاز ان کے پیچھے لگا دیااور ان پر ہلہ بول دیا، جبکہ میں انھیں دیکھتا ہی رہ گیا، ایم ایم عالم نے آن کی آن میں ان کے متعدد جہاز گرا دیئے ۔

7ستمبر 1965ء کی شام جودھ پور پر حملے کے مشن میں اپنا نام بھی شامل دیکھ کر گروپ کیپٹن افتخار احمد غوری کو انتہائی خوشی ہوئی تھی۔ غوری اور ان کے پائلٹ اسکواڈرن لیڈر رفیع نے آپریشن روم میں کافی دیر انتظار کیا تھا۔ مشن کے مطابق چار بی 57بمبار طیاروں کے ایک حصے کو پندرہ منٹ کے وقفے سے جودھ پور پر حملہ کرنا تھا۔ شب 3بجے ٹارگٹ پر پہنچ کر طیارہ آٹھ ہزار فٹ کی بلندی پر لے جاکر انہوں نے 360ڈگری کا زاویہ بنایا، ٹارگٹ کو نشانے پر لیا اور پہلے ہی حملے میں ایک ہزار پونڈ وزنی 8بم رن وے پر گرائے۔ رن وے پر بموں کے دھماکوں کے ساتھ ہی دشمن کی ایئر کرافٹ گنز آگ برسانا شروع ہو گئیں۔ گولوں سے بچنے کی غرض سے قلا بازیاں کھاتے ہوئے ان پھرتیلے ہوا بازوں نے دوسرے حملے کے لئے فضاء میں غوطہ لگایا اور بالکل ٹھیک نشانے پر بم گرائے۔ ائر کرافٹ گنز کی شدید گولہ باری کے باوجود انہوں نے تین بار ائر فیلڈ پر غوطے لگا کر حملے کئے اور پھر وطن واپس لوٹ آئے۔

8ستمبر کی شب ائر کموڈور نذیر لطیف کو بھارتی فضائیہ کی ایک انتہائی محفوظ ائر بیس انبالہ پر حملے کے لئے دو B57طیاروں کی فارمیشن کی شکل میں بھیجا گیا۔ ان کے نیوی گیٹر، فلائٹ لیفٹیننٹ مظہر نے انتہائی چابکدستی اور مہارت سے دونوں طیاروں کی انبالہ تک رہنمائی کی جہاں سے بھارتی فضائیہ مغربی پاکستان پر حملے کررہی تھی۔ لیڈر کے عقب میں لڑائی کی پوزیشن اختیار کئے ہوئے ایک اور بی 57بمبار طیارہ تھا جو اسکوارڈرن لیڈر بخاری اڑا رہے تھے اور ان کے نیوی گیٹر کے فرائض اسکواڈرن لیڈر اورنگزیب خان انجام دے رہے تھے۔ وہاں ہونے والی تمام تر فائرنگ اور گولہ باری کے باوجود ان کی فارمیشن نے ائر فیلڈ کی مکمل تباہی کو یقینی بنانے کی غرض سے اس کے دو چکر لگائے۔ اسی اثناء میں ان کے طیارے کو شدید جھٹکا لگا۔ ان کے نیوی گیٹر نے اطلاع دی کہ ایک انیٹی ایئر کرافٹ گن کا گولہ طیارے کو لگا ہے۔ اس صورتحال پر بھی نذیر لطیف نے خود کوپُرسکون رکھا اور تیزی سے ڈیک لیول پر آئے اور انتہائی مہارت سے طیارے کو لگی آگ سے بچاتے ہوئے کامیابی سے پشاور لے آئے۔ فلائٹ کے بعد طیارے کے معائنے پر عملے نے دیکھا کہ گولہ طیارے کو اس طرح لگا تھا کہ اس نے ونگ پر ایک سوراخ کردیا تھا۔ جنگ میں بدستور حصہ لیتے ہوئے ائر کموڈور نذیر لطیف دشمن کے علاقے میں اندر تک گھس کر کارروائیاں کرتے رہے اور آدم پور، پٹھان کوٹ، سرسا، سرینگر اور جودھ پور جیسی اہم بیسز پر حملے کرکے وہاں تباہی مچائی۔ ان کا آخری مشن آگرہ کی فضائی بیس پر حملہ تھا جو دشمن ملک میں کافی اندر واقع تھی۔ اس بیس کی حفاظت مگ 21طیاروں، سام میزائل اور لائٹ اور ہیوی اینٹی ائر کرافٹ توپوں سے کی جاتی تھی۔
اسکوڈرن لیڈر رئیس احمد رفیع 9ستمبر 1965ء تک ہر رات دو مشنوں پر جاتے رہے اور جنوب میں جنگ کی شدت کم ہونے پر بمبار فورس کا کم و بیش 3/4حصہ شمال میں آپریشنز کی غرض سے پشاور منتقل کردیا گیا۔ 9ستمبر کو آدم پور پر کامیاب بمبار مشن کے بعد رفیع شمال میں برسرپیکار بمبار فورس کی کمک کے طور پر پشاور میں اترے۔ 10اور 14ستمبر تک اسکواڈرن لیڈر رفیع مختلف ٹارگٹس پر بے شمار بمباری مشنوں پر گئے جن میں 11ستمبر کو سمبا کے علاقے میں اعانتی مشن، 12ستمبر کو ہلواڑہ ائر فیلڈ پر حملہ اور 13ستمبر کو پٹھان کوٹ پر ائر کرافٹ، بیرج کے ذریعے آٹھ ہزار پونڈ بم گرائے جانا شامل ہے۔ انتہائی بے جگری کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہوں نے 14ستمبر کو ٹاپ کور کے ساتھ سری نگر فیلڈ پر دن کی روشنی میں حملہ کیا۔ ان کی زندگی کا یادگار ترین مشن 20ستمبر کی شب درپیش ہوا۔ انہیں دشمن کے علاقے میں کافی اندر گھس کر انبالہ ائر فیلڈ پر بمباری کرنے کا حکم دیا گیا۔ اس حملے کا مقصد بھارتی فضائیہ کے اس انتہائی اہم اسٹیشن کو ناکارہ بنا کر دشمن کے دفاع کو مفلوج کرنا اور بھارتی صدر مقام دہلی پر حملے کا خطرہ پیدا کرنا تھا۔ وہ دشمن کے علاقے میں گھس کر اس پر کاری ضرب لگانے میں کامیاب رہے۔ اسکواڈرن لیڈر رئیس احمد رفیع نے جنگ کا اپنا آخری آپریشنل مشن 23ستمبر 1965ء کو سیز فائر سے چندگھنٹے قبل انجام دیا۔ یہ سیالکوٹ میں ایک اعانتی مشن تھا اور ٹارگٹ تھا بھارتی آرمی، اس کے توپ خانے اور کیولری رجمنٹ کو تلاش کرنا۔

ایک پُرسکون چاندنی رات میں ونگ کمانڈر یوسف علوی نے اڑان بھری۔ سرحد تک انہوں نے اوسط بلندی پر سکیسر پر نصب ہمارے اپنے راڈار(کال سائن ’’بابر‘‘) کی نگرانی میں پرواز کی جس کے بعد وہ زمین سے صرف پانچ سو فٹ کی بلندی پر پرواز کرنے لگے۔ پورے علاقے میں بلیک آؤٹ تھا البتہ نہروں میں موجود پانی، چاندنی میں چمک رہا تھا جو اس شب راستہ دکھا رہا تھا۔ مقررہ مقام پر پہنچ کر علوی طیارے کو پوری رفتار پر لائے اور آٹھ ہزار فٹ کی بلندی پر جانے لگے۔ اوپر جاتے ہوئے اپنے بائیں شانے پر چاندنی میں انہیں رن وے دکھائی دیا جب وہ پروں کو سیدھا کرکے وہ غوطہ لگا کر حملہ کرنے کی پوزیشن میں آ رہے تھے تو دشمن کی ایئرکرافٹ گنز گرج اٹھیں۔ ان کی پروانہ کرتے ہوئے انہوں نے رن وے پر نظریں جمائے رکھیں اور ایک ہزار پونڈ وزنی چار بم گرا دیئے۔ یہ حملہ انتہائی انہماک سے کیا گیا تھا اور ایئر کرافٹ گنز سے نکلنے والے گولوں سے بچتے ہوئے، نیوی گیٹر نے بموں کو رن وے پر تباہی پھیلاتے دیکھا۔ بم گرانے جانے کے بعد طیارہ ہلکا ہو گیا لہٰذا انہوں نے تھروٹل 100فیصد تک بڑھا دیا اور 390میل کی رفتار سے کسی دشمن طیارے سے بچنے کی غرض سے پانچ سو فٹ کی بلندی پر زگ زیگ بناتے ہوئے ٹارگٹ ایریا سے نکل آئے۔ جب وہ وہاں سے نکلے تو پاک فضائیہ کی دوسری بمبار فارمیشن علاقے میں داخل ہوئی۔ علوی نے انہیں اطلاع دی کہ ان کی شدید بمباری کے باعث ہلواڑہ پر خوفناک آگ لگی ہوئی ہے جس سے حملہ کرنے میں انہیں کافی مل سکتی ہے۔ ان کے طیاروں نے پندرہ منٹ سے نصف گھنٹے کے وقفے سے حملے کئے اور باحفاظت پاک سرزمین پر واپس لوٹ گئے۔

شاید ہلواڑہ پر جنگ کا مشکل ترین مشن وہ تھا جو 11اور 12ستمبر کی شب بھیجا گیا تھا۔ چار بی 57بمبار طیاروں کی فارمیشن کے ایک حصے کو مشرقی پنجاب میں قائم ہلواڑہ کی انتہائی محفوظ ائر بیس پر بھرپور حملہ کرنے کا حکم دیا گیا۔ مقصد رن ویز اور ٹیکسی ویز پر حملے کرکے آئندہ روز کے آپریشنز کے لئے انہیں ناکارہ کرنا تھا اس طرح لاہور اور سیالکوٹ کے قریب لڑنے والے پاک فوج کے زمین دستوں پر بھارتی فضائیہ کا دباؤ کم ہوجاتا۔ اسکواڈرن لیڈر سعادت محمد اختر اور اسکواڈرن لیڈر رئیس احمد رفیع کو اس مشن کی سربراہی سونپی گئی۔ پائلٹ جب اپنے طیاروں کے پر سیدھے کرکے غوطہ لگا کر حملہ کرنے کی پوزیشن اختیار کررہے تھے تو دشمن کی ائر کرافٹ گنز آگ اگلنے لگیں۔ واپس اوپر اٹھ کر انہوں نے ہیوی فائر کا پیٹرن بنایا۔ اختر چیخ کر طیارے کی بلندی بتانے لگے ’’سیون، سکس فائیو، فور، اسٹینڈ بائی اینڈ فائر‘‘ رئیس نے ٹریگر دبایا اور نیچے سے کی جانے والی فائرنگ سے بچنے کی خاطر فوراً ہی کنٹرول کالم کو کھینچا۔ اختر نے ریڈیو پر اعلان کیا کہ دوسرے حملے میں بھی ان کے بم ٹھیک نشانے پر لگے تھے۔

سکواڈرن لیڈر شعیب عالم خان کو ایک مشکل ترین مشن 14ستمبر 1965ء کو سونپا گیا۔ ان کا مشن بھارت میں کھیم کرن روڈ پر دشمن فوج اور اس کی نقل و حرکت پر حملے کرنا تھا۔ اس دن پاک آرمی، بھارتی علاقے میں داخل ہو چکی تھی اور بھارتی فوج، جنگ بندی سے قبل اپنا کھویا ہوا علاقہ واپس لینے کی سرتوڑ کوشش کررہی تھی۔ چند منٹ بعد ہی انہیں بتایا گیا کہ سرگودھا سے اسکواڈرن لیڈر ارشد اپنے چار ایف 86طیارے کے ساتھ ان کے غیر مسلح بمبار کو بحفاظت واپس لانے کی غرض سے بھیج دیئے گئے ہیں۔ انتہائی کم بلندی پر پہنچنے کا شعب کا فیصلہ درست ثابت اور انہیں دشمن دکھائی دے رہے تھے۔ شمس نے بم برسانے کے ساتھ ہی علاقے پر گولیوں کی بوچھاڑ کردی۔ پہلے حملے میں انہوں نے چار بیرونی بم گرائے تھے۔ بم جب بھارتی دشمن پر فہر بن کر گرے تو ریڈیو ٹرانسمیٹر پر ایف اے سی کی آواز آئی ’’شاباش! اس جگہ پر حملے کرتے رہو‘‘ بعد ازاں انہوں نے دوسری بار حملہ کیا اور اپنے باقی رہ جانے والے چار بم بھی دشمن پر گرا دیئے بعد میں پاک آرمی نے تصدیق کی کہ یہ مشن توقعات سے زیادہ کامیاب رہا۔ زمین پر دشمن کو کاری ضرب لگی تھی اور اسے شدید نقصان پہنچا تھا۔

16ستمبر 1965ء کی شب گروپ کیپٹن سکندر محمود خان دو طیاروں کی اس بمبار فارمیشن میں شامل تھے جسے پندرہ منٹ کے وقفے سے ہلواڑہ ائر فیلڈ پر حملے کا حکم دیا گیا تھا۔ ڈیک لیول پر پرواز کرتے ہوئے بھاری بمبار طیارہ اپنے ٹارگٹ کی طرف بڑھ رہا تھا۔ شمالی بھارت میں سب سے بڑی اس کی بھارتی ائر بیس کی تنصیبات واضح ہونے لگیں اور طیارے کے پائلٹ نے خود کو حملے کے لئے تیار کرلیا۔ ٹارگٹ کے قریب پہنچ کر سکندر آٹھ ہزار فٹ کی بلندی پر پہنچے اور غوطہ لگا کر ایک ہزار پونڈ وزنی چار بم داغ دیئے۔ اس پورے علاقے کو بمباری کرکے نیست و نابود کرنے کا حکم ملا تھا۔ جیسے ہی بموں نے رن وے پر گر کر تباہی مچائی دشمن توپیں جاگ اٹھیں اور ان کے دہانوں سے نکلنے والاگولہ بارود نے آسمان روشن کردیا۔ گولہ بارود سے بے پروا ہو کر سکندر نے طیارے کے کنٹرول کو کھینچا اور دوسرے حملے کے لئے ایک بار غوطہ لگایا۔گولہ بارود اور گولیاں ان کے قریب سے گزر رہی تھیں مگر وہ طیارے کی ناک کا رخ زمین کی جانب کئے وہاں لگی آگ کی جانب بڑھتے رہے۔ بالکل درست نشانے پر باقی رہ جانے والے بم گرا کر سکندر اپنے بمبار طیارے کو درختوں کی بلندی پر لے گئے اور برق رفتاری سے بحفاظت اپنی سرزمین پر لوٹ آئے۔ ان کا مشن کامیابی سے پورا ہو چکا تھا۔
Raja Majid Javed Ali Bhatti
About the Author: Raja Majid Javed Ali Bhatti Read More Articles by Raja Majid Javed Ali Bhatti: 57 Articles with 39567 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.