مضر صحت اشیاء کے خلاف کریک ڈاؤن

صوبائی حکومت کی ہدایت پر پنجاب فوڈ اتھارٹی کے تحت گاؤں سے لیکر بڑے شہروں میں موجود ہوٹلوں بیکریوں اور مضر صحت کا سبب بننے والے کارخانوں و فیکٹریوں کے خلاف آپریشن جاری ہے جس میں بڑے نامی گرامی بیکریاں سویٹ ہاوس اور صاف پانی فراہم کرنے والے کمپنیوں کے نام سامنے آئے ہیں جو کہ اشتہار بازی کے زریعے صارفین کو بہترین اور معیاری اشیاء کی فراہمی کا دعوی کررہے تھے لیکن جبکہ عملی طور چیک کیاتو وہاں حفظان صحت کے حوالے سے کوئی اقدامات نہیں نظر آئے جس کی وجہ سے پنجاب بھر میں سینکڑوں بیکریاں و کارخانے سیل کردیئے گئے شہریوں نے حکومت کے ان اقدامات کو سراہا ہے صارفین کو معیاری اور اعلیٰ کوالٹی کی اشیاء کی مناسب وارزاں قیمتوں میں فراہمی حکومت کی اولین ذمہ داری ہے جس کے لیے ہر آنے والی حکومت نے مثبت اقدامات کرنے کی کوشش کی ہے لیکن ماضی میں دیکھا جائے تو اتنا وسیع سطح پر چیک اینڈ بیلنس کو مد نظر نہیں رکھا گیا افسران اور فوڈ و ڈرگ انسپکٹرنے عملی طور پر چیک کرنے کی بجائے دفاتر ہی میں بیٹھ کر فائلوں کی خانہ پری کرکے افسران بالا کو سب اچھا کی رپورٹ دیتے رہے اور بعض علاقوں میں عرصہ تک تعینات رہنے والے افسران نے متعلقہ کارخانوں بیکریوں اورمیڈیکل سٹورز کے مالکان کے ساتھ مبینہ ساز باز کرکے ان کو کھلی چھٹی دی ہوئی تھی جس کی بناء پر میڈیکل سٹور وں اور کلینک میں بغیر نسخہ چیک کیے اور غیر میعاری اور نشہ آور ادویات کو سر عام فروخت کیا جارہا تھا حتی کہ بورڈ کوالیفائیڈ عملہ ایم بی بی ایس ڈاکٹرز کے نصب ہوتے ہیں جبکہ عملی طورعطائی سرعام انسانی جانوں سے کھیل رہے ہیں بعض علاقوں میں یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے اس کے ساتھ امر بھی افسوس ناک ہے کہ پیسے کی حوس میں حرام اور مردار گوشت کی سپلائی کا دھندہ بھی جاری ہے گزشتہ دو ماہ سے گدھوں کا گوشت کے علاوہ مردہ جانوروں اور مرغوں کے گوشت فروخت کی خبریں بھی میڈیا کی زینت بن رہی ہیں پانی ملااور لاغر اور بیمارجانوروں کی فروخت کا دھندہ تو تقریباََ ہر شہر میں کسی نہ کسی صورت میں موجود ہوتا تھا جو کہ سادہ لوح شہریوں کو تھماد یا جاتا تھا لیکن اب حرام جانور وں گوشت کا دھندہ بھی سرعام آنے کی وجہ سے شہریوں کا انتظامیہ پر اعتماد اٹھتا ہوا نظر آرہاتھا جس کی وجہ سے حلال روزی کمانے والوں لوگوں کا کاروبار بھی ٹھپ ہونے لگا تھا شہریوں کے احتجاج اور میڈیا کی جانب سے معاملہ کو اجاگر کرنے پر گزشتہ چند ہفتوں سے انتظامیہ حرکت میں نظر آررہی ہے تحصیل سے یونین کونسل کی سطح تک کے بازاروں کی اسسٹنٹ کمشنر خود نگرانی کررہے ہیں جس کی بناء پر آپریشن کا دائرہ کار چھوٹے چھوٹے قصبوں تک پھیلا ہوانظر آرہا ہے صارفین حکومت کے اقدامات سے مطمن نظر آرہے ہیں لیکن اس کی زد میں ہونیوالے لوگوں نے بے عزتی سے بچنے اور اپنے برانڈکی ساکھ کو بچانے کیلئے ہاتھ پاؤں مارنا شروع کردیئے ہیں جوکہ نہ صرف انتظامیہ کو خریدنے کی کوشش کرتے ہوئے نظرآرہے ہیں جبکہ ان کو سنگین نتائج کی دھکمیاں بھی دے رہے ہیں لیکن حکومت کی جانب سے سختی اور ہر صورتحال میں ان خلاف کاروائی کرنے کی ہدایت پر انتظامیہ ایکشن لینے پر مجبور ہوچکی ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سلسلہ کب تک جاری رہیگاعموماََ یہ دیکھنے میں آیا ہے جب بھی کوئی بڑا واقعہ رونما ہوتا ہے تو حکومت فوری پر اس کے سدباب اور مستقبل میں اس سے بچاؤ کے متعدد اقدامات کرنے کیلئے انتظامیہ کو فعال کردیتی ہے لیکن جیسے ہی کچھ وقت گزرتا ہے یا کوئی اور ایشو سامنے آنے پر حکومت کی توجہ دوسری مبذول ہوجاتی ہے اور ماضی میں ہونیوالے معاملات کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے انسان دشمن اور ملک دشمن عناصر کو ایک مرتبہ پھر موقع مل جاتا ہے اور اپنادھندہ دوبارہ دھڑلے سے شروع کردیتے ہیں اگر اس حوالے سے راولپنڈی اسلام آباد کے مضافاتی علاقوں میں دیکھاجائے تو حٖفظان صحت کے برعکس مختلف نوعیت کے کاروبار جاری ہیں جن میں آئس کریم کی فیکٹریاں ‘بیکرزاور ہوٹل سہر فرست ہیں ہوٹلوں اور بیکرز میں استعمال ہونیوالا اگر گھی کا مشاہدہ کیا جائے تو اکثریت کھلا اور غیر رجسٹرڈ برانڈکا سستے داموں والا گھی استعمال کررہے ہیں اس طرح آئس کریم میں خالص دودھ کی بجائے پوڈر استعمال کیا جارہا ہے اس کو استعمال کرنے والوں میں اکثریت کا تعلق غریب طبقہ سے ہوتا ہے جو پیٹ اور گلے کی بیماریوں میں مبتلاء ہوتے ہیں جب علاج کیلئے بازار کا رخ کرتے ہیں تو وہاں کوالیفائیڈ ڈاکٹر نہ ہونے اور اگرکئی ایم بی بی ایس ڈاکٹر کا کلینک موجود بھی ہے تو اس کی ریٹ زیادہ ہونے کی بناء پر وہ غربت کی مجبوری کے باعث عطائی ہی کے ہتھے چڑھ رہے ہیں دوسرے لفظوں میں آوے کا آواہ کی بگڑا ہوا ہے سرکاری ہسپتال ہر یونین کونسل کی سطح پر بنیادی مرکز صحت کی صورت میں موجود تو ہیں لیکن اگر ڈاکٹر ز صاحبان کی دستیابی ہے تو ادویات کا فقدان ہے ادویات بازار سے لینی پڑیں تومیڈیکلوں سٹوروں میں جعلی کمپنیوں کی موجود ہوتی ہیں جو کہ شہری کو موت کی وادی میں ابدی نیند سلادیتی ہیں حکومت کی جانب سے پنجاب فوڈ اتھارٹی کا متحرک ہونا خوش آئندہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ اس پر چیک اینڈ بیلنس کا نظام بھی سخت اور مستقل ہو
Abdul Khateeb Chohdury
About the Author: Abdul Khateeb Chohdury Read More Articles by Abdul Khateeb Chohdury: 20 Articles with 13922 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.