غیر قانونی سپیڈ بریکر اور ۔۔۔۔۔۔ اندھے گٹر

کہتے ہیں زندگی موت کی امانت ہے،اسلیئے اس سے ڈرنا نہیں چاہیےکیونکہ یہ بات تو اٹل ہے کہ ہر شے نے موت کا مزا چکھنا ہے،اور ماسوائے خدا ئے بزرگ و برتر کی ذات کے کوئی شے ہمیشہ قائم رہنے والی نہیں،اللہ تعالیٰ نے دنیا بنائی اور اس میں طرح طرح کی مخلوقات کا وجود کر کے دنیاکی خوبصورتی میں مزید اضافہ کر دیا،چرند پرند اور ایسے دیگر حشرات و جانور پیدا کیئےجو دنیا کی خوبصورتی کو چارچا ند لگانے کے لیے کافی ہیں ان میں ایسے جانور بھی تھے یا ہیں جن کی ہیبت انسانوں میں بھی پائی جاتی تھی۔
لیکن انسان کو اللہ نے ا شر ف ا لمخلوقات کا درجہ دے کر سب پر افضل کر دیا،انسان غاروں اور پتھروں کے زمانے سے نکلا اور ترقی کی منازل کو طے کرتا آج کے جدید ترقی یافتہ زمانے میں پہنچ گیا۔کبھی کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ انسان بھی پرندوں کی مانند اڑتا پھرے گامگر یہ عقل انسانی اور شعورجو صر ف خدا نے انسان کو بخشا ہے،اور اسی کے طفیل آج انسان اپنے آپ کو ان داتا سمجھ بیٹھا ہےاور یہ بھول چکا ہے کہ جو بساط بچھا سکتا ہے وہ بساط لپیٹنے پر قادر بھی ہےبات صر ف سمجھنے کی ہےلیکن اس کے ساتھ ساتھ جہاں انسان نے خرابیاں پیدا کی وہیں بہت سی اچھائیاں بھی انسان کے حق میں آتی ہیںبہت سے ایسے کام جو ناممکن دکھائی دیتے تھےلیکن انسان نے ممکن کر ڈالے،اور یہی وہ کام ہیں جن کی بدولت انسان ایک بہت بلند مرتبہ رکھتا ہے۔

انسان جہاں بھی رہتا ہے وہاں اپنے رہن سہن کے مطابق معاشرہ بھی تشکیل دیتا ہے،جس میں رسوم و رواج ،آداب معاشرت،اور ایسی حدود متعین کرتا ہےجن کے اندر رہتے ہوئے لوگ اپنی زندگیاں بسر کرتے ہیں،اور ان حدود کو قانون کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔جس کے اندر رہا جائے تو ٹھیک ا ور اگر ان حدود سے تجاوز کیا جائے تو قانون شکنی تصور کی جاتی ہےجس کا با قاعدہ سدباب ہونا ضروری ہوتا ہے۔اگر ایسا نہ کیا جائے تو معاشرے میںخرابیاںپیداہوجائیں گی جو بلآخر انارکی، اور افراتفری کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔لیکن اگر قانون کی بالا دستی قائم ہوگی توتو سارا نظام بہت خوش اسلوبی اوربہت بہترین انداز میں چل پائے گا۔
جب ہم قانون کی بات کرتے ہیں تو بہت سے ایسے ممالک بھی دکھائی دیتے ہیںجہاں اس کی پاسداری بہت سختی سے کرائی جاتی ہے۔امیر ہو یا غر یب سب پر وہ قانون یکساں لاگوہوتا ہے۔جس ملک میں ہم رہتے ہیں وہاں بھی قوانین موجود ہیںبہت مکمل اور جامع مگر افسوس کی بات ہےکہ عملدرآ مد نداردً۔کسی بھی محکمے میں چلے جائیں برا حال ،رشوت ستانی کا بازار گرم ۔ترقی یافتہ ممالک میں کوئی بھی منصوبہ اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک ہر نقطہ زیر بحث نہ آجائے۔اس منصوبے سے کس کو فائدہ ہوگا کس کو نقصان یہ تمام نقاط جن پر بحث کی جاتی ہے تب جا کر معاملہ پائیہ تکمیل تک پہنچتا ہےمگر یہاں گنگا ہی الٹی بہتی ہے۔کسی منصوبے سے کسی کو نقصان پہنچے جانے کسی کی بلا۔اپنی سڑکوںکی صورتحال دیکھ سکتے ہیں کارپٹ روڈز ہیں لیکن ان کے بیچوں بیچ موت کے دھانے سر اٹھائے یا سر چھپائے تاک میں دکھائی دیتے ہیں یعنی آپ دیکھیں کہ جن سڑکوں پر آپ سفر کرتے ہیں وہ بہت کشادہ و خوبصورت اور کارپٹڈتو ضرور ہیںلیکن ان کے درمیان گٹر کااچانک سے آجانا اکثر و بیشتر حادثات کا با عث بن جاتا ہے، ایسے گٹر جو کہ سڑک سے ذرا اونچے ہوتے ہیں اور کچھ ایسے ہیں جن سے سڑک اونچی ہوتی ہے۔یہ دونوں اقسام کے گٹر بہت خطرناک ہوتے ہیں ایسے افراد جو کہ شاذونادر ہی ان سڑکوں سے گزرتے ہیں خاص کر رات کے وقت ان کے لئے یہ خطرناک گٹر نا گہانی آفت کھڑی کر دینے کے لئے کافی ہیں۔اس کے علاوہ صرف یہ گٹر ہی نہیں بلکہ گلیوں محلوں میں بنا دئیے جانے والے غیر قانونی اسپیڈ بریکر بھی حادثات کا سبب بنتے ہیں۔

اول تو ایسے اسپیڈ بریکر غیر قانونی ہیںدوسرا ان کو فوری طور پر ختم ہونا چاہیئےاس کی وجہ یہ ہےکہ ان اسپیڈ بریکروں کی بناوٹ اس معیار کے مطابق نہیں جو کہ ہونی چاہیے اکثر سپیڈ بریکر آڑھے ترچھے انداز میں بنا دیئے جاتے ہیں مزید یہ کہ بہت سے اسپیڈ بریکرز ایسے ہوتے ہیں جو کہ بلکل سڑک کا حصہ معلوم ہوتے ہیںاور اچانک نزدیک جانے پر پتا چلتا ہے۔ہونا یہ چاہیئےاگر اسپیڈ بریکر بنایا جائے تو اس کا حجم ایسا ہو کہ نہ تو اوپر سے گزرنے والی گاڑی کو کوئی نقصان پہنچے اور مقصد بھی پورا ہو جائے جس کے لئے اسپیڈ بریکر بنایا گیا۔ دیگر یہ کہ جب بھی اسپیڈ بریکر بنایا جائےتو ان پر نشاندہی کیلئے مارکنگ کی جائے،عام طور پر مرکزی شاہراہوںپر جو اسپیڈ بریکر بنائے جاتے ہیں ان پر واضع مارکنگ ہوتی ہےاور چونکہ وہ مرکزی شاہراہیں ہوتی ہیں لہٰذا ان اسپیڈ بریکروں کا حجم بھی بڑا ہوتا ہے۔لیکن گلیوں محلوں میں جو اسپیڈ بریکر بنائے جاتے ہیں ان میں قطعی طور پر اس بات کا خیال نہیں رکھا جاتا بلکہ جب کبھی محلے کی سڑک بنائی جاتی ہے تو محلے والے ٹھیکیدارکو ملکر یا پھر تھوڑی بہت رشوت دے کر اسپیڈ بریکر بنوا لیتے ہیں چونکہ یہ اسپیڈ بریکر مطلوبہ معیار کے نہیں ہوتے اور پھر یہی اسپیڈ بریکر بعد میں حادثات کا باعث بنتے ہیں۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس قسم کی کوتاہیوں کا زمہ دار کون ہےمحلے دار ؟ٹھیکیدار اور یا پھر پروجیکٹ انسپکٹر؟ذی شعورلوگوں کی نظر میں یہ تینوں عناصر ہی ذمہ دار ہیں۔ کیونکہ محض چند لوگوں کے کہنے سے آپ اتنی بڑی غلطی کر رہے ہیں۔ہر کام کا ایک طریقہ ہوتا ہے اگر کام اس طریقےسے کیا جائے تو کوئی وجہ نہیں کی حادثات کی روک تھام ہو سکے۔ اس ضمن میں صوبائی حکومت کو بھی چاہئے کہ وہ اس سلسلے میں مناسب قانون سازی کرے اور سزائیں مقرر کرےتا کہ لوگ اپنی من مانیوں سے باز آ سکیں،اپنی حفاظت کا حق سب کو ہے لیکن اس کا یہ ہر گز ہرگزمطلب نہیں کہ اپنی حفاظت کےچکر میں دوسروں کو اپاہج بنا دینا کسی طرح بھی کوئی دانشمندی نہیں۔

rizwan zaidi
About the Author: rizwan zaidi Read More Articles by rizwan zaidi: 7 Articles with 8047 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.