قصور کے بےقصور بچے

جولائی کے مہینے میں دل دہلا دینے واقعے نے سخت گرمی میں جسم سے پسینہ اور آنکھوں سے آنسسوں کے سمندر کو رواں کردیا یہ سب لکھتے ہوے ہاتھ کامپ رہیں ہیں سوچیے جن لوگوں نے دیکھا جن پر یہ واقعات گزرے ان پر کیا گزری ہوگی .بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ اس ظالم آدمی نے باز اوقات بچوں کو تیزاب کے ڈرم میں ڈال دیا تا کہ ان کے ننھے ننھے سے جسم کہیں ثبوت نہ بن جاییں ،(یہاں ظالم آدمی سے یقینا اپ کے ذہنوں میں جا وید اقبال کا نام آگیا ہوگا جسنے ١٠٠ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کر کے ان بچوں کو کبھی قتل کردیا،کبھی،ان کے جسموں کے چھوٹے چھوٹے سے ٹکڑے کر کے علاقے کے مختلف حصوں میں پھینک دیا ) ،لیکن وو جسم تو گل گیے ہڈیوں نے جاوید اقبال کو دنیا کے سامنے لا کھڑا کیا.کا ش کے ان جسموں کی ہڈیوں پر گوشت ہوتا تو وو جا وید اقبال کے جسم کے گوشت کو اسی طریقے سے الگ کردیتیں ..کم و بیش اسی سال کے قریب ٢٠١١ سے بازگشت سنا یئ دےرہی تھی،اور کچھ بچوں کی دبی ہوی سسکیا ں ، ڈ ری ہوی خوفزدہ آنکھیں ،وہ خاموشیاں ان سنی آوازوں کی صورت میں قصور کے گاوں گندہ سنگھ والا میں گونج رہی تھیں ،لیکن اس دفعہ بچے اور بچیاں اگر ایک طرف قتل نہیں ہورہے تھے تو دوسری طرف جاوید اقبال کی تعداد بھی کم نہی تھی ،ساحل کا ذکر نہ کرنا اس مضمون اور ان سانحات کے ساتھ ناانصافی ہوگا ،جسکا کہنا ہے کے ٣٥٠٨ زیادتی کے واقعات پاکستان کے مختلف علاقوں میں ہوے جن میں سے راولپنڈی کے ١٠ اضلا ع میں ٥٠ فیصد یعنی ٣٦٩ واقعات دوسرے نمبر پر لاہور اور تیسرے نمبر پر کویٹہ تھا،لاہور جو داتا کی نگری ہے ،کویٹہ ،پاکستان کی دھڑکن اور بلوچستان کا دل،راولپنڈی جہاں پاک فوج کا جنرل ہیڈ کوارٹر ہے. ذرا دیکھیے یہ شہر اور انکی وجہ شہرت ،ان کے ساتھ ساتھ اوکاڑہ ،خیرپور ،فیصلآباد ،پاک پتن ،قصور ،شیخوپورہ ،یہ وو شہر ہیں جہاں قبا یلی طرز فکر جاگیردارانہ نظام ، ، مسلط ہے.ان شہروں میں ان مظالم کے خلاف بولنا آسان کام نہیں ہے .لیکن ٣٥٠٨ میں سے صرف ٩ مقدمات میں ملزمان کو سزا ہوسکی ،اس صورت حال میں سپیکر اسمبلی کا یہ موقف کہ بچوں کہ ساتھ جنسی زیادتی صوبائی مسلہ ہے جہاں روزانہ ١٠ بچوں کے زیادتی ہوتی ہو وہاں صوبائی نہی وفاقی مسلہ بھی ہونا چاہیے زیادہ تر قوانین جنکا تعلق بچوں کی پروٹیکشن سے ہے پاکستان میں پروسیڈ نہی کیے جاتے ١٨٦٠ pcc بچوں کے جنسی تشدد سے منسلک جرایم کو سزا نہیں دیتا اور بچوں اور بالغوں کے ساتھ ہونے والے جرائم میں فرق نہی بتاتا یہ حقائق بچوں کے ساتھ ہونے والے جرم کے حقائق اور جنسی تشدد سے حفاظت کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے اس جرم کو کبھی کسی مذھب میں برداشت نہی کیا گیا حضرت لوط علیہ السلام کی قوم کا حشر قیامت تک الله کے عذاب سے ڈرا تا رہیگا جب الله پاک نے بستیاں جڑوں ے اکھاڑ کر الٹ دیں زمین پر گڑھا پڑنے سے وہاں خدا کی جانب سے سمندر وجود میں لیا گیا جو اب بحرہ مردار کے نام سے جانا جاتا ہے اسلام میں ان قسم کے ملعون کی سزا یہ ہے کہ پہلے اس شخص کو گندی بدبو والی جگہ میں مقید کیا جائے جب مقدمہ چلنے پر جرم ثابت ہوجاے تو پھر کسی پھر یا کسی بلند جگہ سے اسے گرایا جائے پھر اوپر سے پتھر مارے جا ین ،اسکا جنازہ نہ پڑھا جائے ،اسکی کوئی قبر بھی نہ بنا یی جائے اور نہ اایسے شخس کی تعزیت کی جائے. یہ تو اسلام میں سزا اور نفرت کی انتہا ہے.لیکن اب مختلف ممالک میں جنسی زیادتی پر بوہت زیادہ تبدیلیاں لیں گیئں ہیں جیسا کہ امریکا میں سماتی ثبوت (hearesey evidence)کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے لیکن اس سماعت کے دوران بچے کو بوہت زیادہ لمبے عرصے تک ٹرائل سے گذرنا پڑتا ہے ،باز اوقات بچا بھول جاتا ہے،باز اوقات بچا ذہنی طور پر ڈسٹربڈ ہوجاتا ہے لیکن کچھ عرصے بعد اگے چل کر دو افراد کے کیس جن کے نام وولیریٹ اور رینڈ آل وایٹ کے کیسز میں غیر تسلی بخش ہونے کی وجہ سے کر نفرنٹیشن کلاز کی چھٹی ترمیم سے ٹکرا گیا اور امریکن گورنمنٹ نے میڈیکلا یو ڈ ینس کٹ ساتھ جوڑ دیا ،لیکن بعد میں سی سی ٹی وی کے استمال کے قانون نے بھی اس قانون کو ختم کردیا جو کہ اگر چہ ایک ترمیم ہی کی شکل تھی ،مختصرا بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کا قانون کپپٹا کو ٣١ جنوری میں فعال کردیا گیا یوکے میں ٢٠٠٣ میں قانون ایک بری ڈیو لپمنٹ تھی .ا سکا ٹ لینڈ میں ٢٠٠٩ میں بچوں سے جنسی زیادتی کو کومپرہنسو comprehensive فریم ورک دیا گیا .اب ذرا بھارت کی بات کرتیں ہیں ،جہن بچوں کو دوسرے ممالک کی طرح استاد،دوست،اور دیگر خاندان کے لوگ زیادتی کا نشانہ بناتے ہیں بھارت کی جوڈیشل ہسٹری میں او آر ایس اور یونین اف انڈیا لےنڈ ماینڈ ججمنٹ کے طور پر سامنے آ یی اس کےتحت عدالت نے لازم قرار دیا کے بچوں کو سما عت کے دوران مجرم کے سا منے نا لایا جائے مزید قانون یہ بھی بنایا گیا کے کمیرہ پروسیڈنگ کو لازمی قرار دیا جائے اور ڈیفنس سائیڈ بچے کو سوال لکھ کر دیگی ،پھر ایک کیس ساکشی کا سامنے آیا جو اور بھی ترامیم کو سامنے لیکر آیا ،کہ بچے کو نفسیاتی طور پر TARAUMATIZED نہ کیا جائے ،(بچا ثبوت عدالت کے بھر دیگا)،مزید یہ کے عدالت نے یہ بھی قرار دیا کے ان کیسز کے لئے لیڈی ججز کو تعینات کیا جاےگا اور دوستانہ ماحول بنانے کے لئے تفتیش کے لئے ہائی رینک کی لیڈی پولیس افسر کو سول کپڑوں میں عدالت میں بچے کے سامنے آنا قرار دیا جائے اور اگر بچا معذور ہوتو اس کے لئے اسپیشل EDUCATOR کو شامل کرنا بھی لازمی قرار دیا گیا.بچے کے حوالے سے ثبوت ٣٠ دن کے اندر ریکارڈ کرنے اور کمیرہ ٹرائلز کو لازمی قرا دیا گیا. لیکن پاکستان میں امریکا کے تھے چائلڈ ABUSE PREVENTION AND TREATEMENT اور بھارت کی طرح مخصوص قانون نہیں ہے ،پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن ٨٢ کے تحت سات سال کے بچے کو سزا نہی ہو سکتی سیکشن ٣٧٥رپپ کی تعریف ، ،یر ٣٧٦ رپپ کی سزا کو بیان کرتا ہے سیکشن ٣٧٧ غیر قانونی جرایم اور ٢٩٢ چائلڈ پورنوگرافی ،جب کہ سیکشن ٧ زنا کو بیان کرتے ہیں .

مختصرا یہ کے معاشرے کا سنگین جرم ہے اس ترھا کے حادثات سے بچے فز یکللی طور پر تکلیف محسوس کرتیں ہیں ،یہ عوامل بچوں کو تباہ کردیتے ہیں انکی معصومیت کو کچل دیتیں ہیں زندگی سے تعلق رکھنے والے تمام تعلقات کھنڈر بن جاتیں ہیں اور بچے سری زندگی کسی پر بھروسہ نہی کرتے ،
آج قصور کے بچوں کا ٹرائل عدالت میں ہورہا ہے ،لیکن سیاسی اثرو رسوخ بچوں کو جھوٹا اور کیس کو بھی جھوٹا ثابیت کر رہے ہیں جس میں زمین کے تنازعے کو وجہ بندیا گیا ہے ،وزیر اعلی پنجاب نے غفلت برتنے پر سینئر اور جونیئر افسران کو معطل بھی کردیا ،پنجاب حکومت نے جے آیی ٹی بھی تشکیل دیدی ہے اور انصاف کی یقین دہانی بھی کروائی ہے لیکن کچھ با اثر لوگ بچوں کو اور ان کے گھر والوں کو ڈرا دھمکا بھی رہیں ہیں ،الله کرے کے یہ کیسز بھی فائلز تک محدود نہ رہے پاکستان کی عوام اب انصاف ہوتا دیکھنا چاہتی ہے.
sumaira qureshi
About the Author: sumaira qureshi Read More Articles by sumaira qureshi: 11 Articles with 7356 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.