گا، ہے اور کیوں

گا،ہے اور کیوں (کتاب آوپیار کے دیپ جلایں پھر سے )

تمام پڑھنے والوں کی خدمت میں سلام پہنچے! بعض اوقات ہماری چھوٹی چھوٹی غلطیاں ہماری زندگی کا حصہ بن جاتی ہیں اس لیے اکثر آپ نے دیکھا ہوگا کہ ہمارے بزرگ ہم کو اپنی چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر زیادہ دھیان دینے کی تلقین کرتے ہیں کہ جب تم ان چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر قابو پا لو گے تو بڑی غلطیاں خود بخود کم ہو جائیں گی۔ لیکن ہم لوگ اکثر ایسی چھوٹی چھوٹی غلطیوں کو Ignore کردیتے ہیں جس کی وجہ سے ہمارا پورا معاشرہ بعض اوقات اس غلطی کی لپیٹ میں آجاتا ہے اور یوں وہ غلطی اجتماعی طور پر بن جاتی ہے۔

اس وقت جب ہم اپنے ملکی سطح پر غور کرتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ ہم ترقی کی سطح پہ بہت پیچھے جا رہے ہیں اس وقت جب ہم لوگ اپنا اور ان ترقی یافتہ ممالک میں رہنے والوں کا موازنہ کرتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ وہ لوگ جو کہیں گے وہ کر کے دکھائیں گے جب کہ ہم لوگوں میں زیادہ تعداد ایسے لوگوں کی ہے کہ جو صرف باتوں تک ہی رہتے ہیں ان کی زبان پر آپ ہمیشہ گا ہی سنیں گے کہ میں یوں کرلوں گا میں فلاں کام کر کے دکھاؤں گا لیکن زیادہ تر یہ اس کی زبان پر گا ہی رہے گا آپ بہت کم لوگوں کے منہ سے سنیں گے کہ دیکھو میں نے کرلیا ہے میں نے کر کے دکھا دیا ہے تو ہے جو ہوگا وہ آپ کو بہت کم لوگوں کی زبان پر سنائی دے گا۔ جس طرح میں نے بات کی کہ ایسی غلطیاں بعض اوقات اجتماعی طور پر بھی بن جاتی ہیں اور پورا معاشرہ اس کی لپیٹ میں آجاتا ہے۔ تو آپ لوگ اگر اپنی تاریخ پر نگاہ دوڑائیں تو تاریخ بھی ایسے لوگوں کو یاد رکھتی ہے کہ جن نے لوگوں نے کچھ کر کے دکھایا جنھوں نے پوری عمر گا کا گیت نہیں گایا۔

جنرل ایوب خان کا جب دور تھا تو اس نے اپنے دورِ حکومت میں جنرل اعظم خان کو گورنر بنا کر بنگال جو بنگلہ دیش کہلاتا ہے کی جانب بھیجا اب جنرل اعظم خان غیر بنگالی تھے وہ جب وہاں پہنچے تو انہوں نے کہا کہ میں اپنے دور ِحکومت میں چاہے کچھ بھی ہو جائے سب کچھ کر کے دکھاؤں گا اب وہ اپنے دور ِحکومت میں غریبوں کسانوں وغیرہ کے پاس خود جاتے اور ان سے ان کے مسائل دریافت کرتے اور حل کرتے غرض انہوں نے مساوات اور برابری کے لیے غریبوں کا بہت ساتھ دیا جب اعظم خان کی حکومت کو برطرف کر دیا گیا تو بنگال والی سائیڈ پہ لوگوں کا بے پناہ ہجوم تھا جو دھاڑیں مار مار کے رو رہا تھا جن میں بچے بھی تھے عورتیں بھی تھیں مرد بھی تھے اور ان کی زبان پر ایک ہی قسم کے الفاظ تھے کہ جنرل اعظم کو واپس لاؤ جنرل اعظم کو واپس لاؤ کہتے ہیں بنگالی تاریخ میں دو دفعہ ایسی صورتحال دیکھنے کو ملی کہ جیسے ان لوگوں پر قیامت آگئی ہو کہ وہ اتنا روئے اور انہوں نے اتنے جلوس نکالے ایک 11ستمبر 1948کو جب ہم سب کے پیارے قائداعظم محمد علی جناح (رح)اس دنیا سے رخصت ہوئے اور دوسرا اس دن جب اعظم خان کو ان کے عہدے سے برطرف کیا گیا تو صورتحال صرف ایسے دو موقعوں پر ہی کیوں نظر آئی اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ دونوں شخصیات ایسی تھیں کہ جنہوں نے عوام کے سامنے جو کہا اسے کر کے دکھایا ان لوگوں کے پاس ہر سوال کا جواب ’’ہے‘‘میں تھا وہ کہہ سکتے تھے کہ آؤ دیکھو یہ میں نے کر کے دکھایا ہے لیکن ہم لوگوں کے پاس اب کسی بات کا جواب ہے میں نہیں بلکہ گا میں ہوتا ہے۔

ہمارے معاشرے میں ایسے بہت سے کیوں ہیں جن کا جواب ہمیں گا میں تو مل جائے گا لیکن ہے میں نہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم لوگ صرف گا تک ہی محدود رہتے ہیں۔ میں اکثر پرانے ڈراموں کی تعریف کرتا ہوں کہ خاص کر ان ڈراموں کے لکھنے والوں کی جو ایسے ڈرامے لکھتے تھے جو ہمارے کلچر ہماری روایات کے مطابق ہوتے تھے تو ایسے ڈراموں میں بھی ایک بار ہمارے معاشرے کی اس کمزوری کو دکھایا گیا وہ ڈرامہ بہت پرانہ تھا غالباً لاہور سٹوڈیو والوں کی پیشکش تھی تو اس ڈرامے میں ایک کردار تھا’’ انکل کیوں‘‘ کہ اس آدمی کو سارے گاؤں والے انکل کیوں کہتے اب اس ڈرامے میں آخری قسط تک نہیں بتایا گیا کہ اس کو انکل کیوں کیوں کہتے تھے لیکن مجھے آج تک یاد پڑتا ہے جب اس کی آخری قسط تھی تو اس کے متعلق بتایا جاتا ہے کہ اس کو انکل کیوں کیوں کہتے ہیں اور ڈرامے میں بھی ایک نوجوان اس بندے سے پوچھتا ہے کہ آپ کو انکل کیوں کیوں کہتے ہیں ؟تو وہ رونے لگتا ہے اور اس کے قریب ایک بچہ یونیفارم پہنے سکول جا رہا ہوتا ہے اور اسی کی عمر کا ایک بچہ اسی وقت اس کے پاس بھیک مانگنے آتا ہے تو وہ انکل اس غریب بچے کو ایک ہاتھ سے اور دوسرے ہاتھ سے اس سکول جانے والے بچے کو پکڑتے ہیں اور اس کو کہتے ہیں کہ کیا تم میرے کیوں کا جواب دے سکتے ہو؟ یہ جو بچہ یونیفارم پہنے سکول جارہا ہے تو کیا یہ جو بچہ پھٹے پرانے کپڑے پہنے بھیک مانگ رہا ہے اس کا دل نہیں کرتا کہ وہ سکول جائے ایسی ہی یو نیفارم پہنے اس کے جسم پہ یونیفارم کیوں نہیں ہے اس کے ہاتھ میں یہ کشکول کیوں ہے اس کے ہاتھ میں بیگ کیوں نہیں ہے؟تو کیا تم میرے اس کیوں کا جواب دے سکتے ہو؟ تو مجھے آج تک یاد ہے کہ ہم سب دیکھنے والوں کی آنکھوں میں اس وقت آنسو آرہے تھے۔

بے شک یہ ہمارا المیہ ہے کہ ہمارے پاس ہر کیوں کا جواب گا میں مل جائے گا لیکن ہے میں نہیں۔ ہم یہ تو کہہ دیں گے کہ ہم ایسا چینج لائیں گے کہ اس غریب کے ہاتھ میں بھی کشکول نہیں قلم ہوگا لیکن یہ بات صرف گا تک ہی محدود رہتی ہے کبھی ہے تک نہیں پہنچتی کبھی کسی غریب بھیک مانگنے والے بچے کے ہاتھ میں قلم نظر نہیں آتا اس کی وجہ یہی ہے کہ ہمارا یہ مقصد ہی نہیں کہ ہم یہ کام کر کے دکھائیں کیوں کہ جب کوئی چیز مقصد کے اندر آتی ہے تو وہ ہو کے رہتی ہے اس لیے تو کہتے ہیں کہ بے مقصد جینے سے بہتر قبل از وقت مر جانا بہتر ہے۔ جو عوام کی خدمت کا، قصد ہی نہ ہو تو انسان صر ف کھوکھلے نعروں کے ذریعے ہی دل جیتنے کی کوشش کرتا ہے۔ جب کسی کام کے کرنے کا مقصد ہی نہ ہو تو انسان کے پاس ہر کیوں کا جواب گا میں ہی ملے گا ہے میں نہیں۔

تو ترقی کا میدان ہو یا زندگی کا کوئی بھی اور میدان آج ہم پیچھے اس لیے ہوتے جا رہے ہیں کہ ہم لوگ صرف باتوں تک ہی محدود رہتے ہیں ہماری زبان سے صرف گا ہی نکلتا ہے ہمارے پاس کسی کیوں کا جواب ہے میں نہیں۔ اور ہے تک پہنچنے کے لیے اس کام کے کرنے کا مقصد ہونا ضروری ہے کیونکہ جب اس کے پیچھے ایک اچھا مقصد ہوگا تو تب ہم کوشش کریں گے کہ ہم اس کیوں کا جواب ہے میں دیں سکیں۔ میں نے آپ کو سامنے شروع میں قائداعظم (رح) کی بات کی تھی کہ ان کا نام اس لیے زندہ ہے اور انشا اللہ ہمیشہ زندہ رہے گا کہ انہوں نے اپنے آپ کو گا تک محدود نہیں کیا بلکہ جو کچھ بھی کہا وہ ہے میں کر کے دکھایا اس کی وجہ یہی تھی کہ ان کے پاس اس کے پیچھے ایک اچھا مقصد تھا وہ اس ملک کو پوری دنیا میں ایک شوپیس کے طور پر دکھانا چاہتے تھے کہ دیکھو یہ وہ ملک تھا کہ جس کے متعلق تم نے کہا کہ اس کا قیام ناگزیر ہے یہ وہ ملک تھا کہ جس کے متعلق تم نے کہا تھا کہ یہ زیادہ دن نہیں چل سکے گا یہی وہ مقصد تھا کہ اس بندے نے صرف ایک سال اور پورا ایک مہینہ بھی نہیں میں اس ملک کو اپنے قدموں پر کھڑا کر کے دکھایا یہ الگ بات ہے کہ ہم نے بعد میں اس ملک کے ساتھ کچھ اچھا نہیں کیا اور اس کی وجہ یہی تھی کہ ہمارے پاس کوئی مقصد نہیں تھا ہم محض تماشائی بننا چاہتے تھے اور ہم بن گئے۔ ہم اتنے عرصہ تک دیکھتے رہے کہ لوگ آتے رہے اور اس کو لوٹ کر جاتے رہے ہم نے یہی سوچا ہم اس ملک کے لیے کچھ کریں گے لیکن ہمارا یہ ’’گے ‘‘گے ہی رہا ہم نے کچھ نہ کر کے دکھایا تو جب ہم اپنے آپ کو اس سٹیج پر لائیں گے کہ جہاں ہم ہر کیوں کا جواب ہے میں دیں سکیں گے تو پھر کچھ بات بنے گی کہ جب ہم یہ کہیں کہ یہ دیکھو یہ ایک غریب بچہ تھا یہ بھیک مانگ رہا تھا لیکن آج ہم نے اس میں چینج لا کے دکھایا ہے آج اس کے ہاتھ میں قلم ہے کشکول نہیں۔ تو یہ چینج ہم کو لانا ہوگا ورنہ پھر ہمارے لیے کچھ نہیں بچے گا اور ہم صرف گا ہی کہتے رہیں گے کہ ہم پر پھر اچھا وقت آئے گا اور پھر یہ گا بھی گا ہی رہے گا کیوں کہ وہ اچھا وقت ہم خود لا سکتے ہیں اگر ہم لا کے دکھائیں۔

تو اللہ آپ کو دیے سے دیا جلانے کی تو فیق عطا فرمائے﴿آمین﴾
Young Writer and Columnist
About the Author: Young Writer and Columnist Read More Articles by Young Writer and Columnist: 15 Articles with 13722 views Hafiz Muhammad Naeem Abbas.A young writer from Dist Khushab.
Columnist, Script Writer and Fiction, NON FICTION Writer.
Always write to raise the sel
.. View More