کہانی نہیں کردار مر جاتے ہیں

سرائیکی غزل کے نمائندہ شاعراصغرگورمانی اپنی نظم بغاوت میں کہتے ہیں۔۔
ؔ ع اے دنیا ہک سٹیج ہے تے اداکاریں دی وستی ہے
کولرج نے کہا تھا
’ ’،ـکوئی ایساشخص جو ایک بڑافلسفی نہ تھا،کبھی شاعر نہیں ہواــ‘‘
براؤننگ کے خیال میں توفلسفہ پہلے اورشاعری بعد میں ،کہ یہ اول الذکر کی بلندترین پیداوار ہے۔
اردو غزل نے اپنی اس حقیقت کو (بہترین شکل کے قریب) غالب کے ہاں دریافت کیا۔
انسانی شعور کی ابتداء ’’کیا‘‘ ’’کیوں‘‘ ’’کیسے‘‘سے ہوئی ۔انسان کی فطرت میں خوف ہے فطری طور پر انسان خوف زدہ ہے ۔مگر جب اس نے اس ڈر کا مقابلہ کیا اس کے بارے جان کاری شروع کی کچھ کامیابی ملی تواس کو ایک علم کا نام دیا ــ’’فلسفہ‘‘۔
فلسفہ دو یونانی االفاظ کا مرکب ہے ’’فلو‘‘ اور ’’سوفین‘‘۔’’فلو ‘‘ کا مطلب ہے حب یا محبت جبکہ ’’سوفین‘‘ کا مطلب ہے دانش ۔یعنی فلسفہ نا م ہے علم ودانش سے محبت کا ’’حقیقت کی تلاش ‘‘کا۔
ارسطو کے نزدیک :
’’ فلسفہ اس علم کا نام ہے جس کا کام یہ دریافت کرناہے کہ وجود کے اعراض(attributes)یا خواص، اپنی فطری قدر کے لحاظ سے کیا ہیں ‘‘۔
افلاطون کے مطابق:
’’اشیاء کی ماہیت کے لازمی اور ابدی علم کا نام فلسفہ ہے‘‘۔
فلسفہ کے بارے بہت سے فیلسوف نے نظریات پیش کیے مگر ہم نے آج فلسفہ پر کوئی بحث نہیں کرنی ہماری منزل کچھ اور ہے۔
یہاں میں آج ڈاکٹر الف - د- نسیم کا اہم اقتباس نقل کروں گا جس میں شاعری اور فلسفہ کا تعلق واضح ہوتا ہے ۔
’’اپنے فکر کے انتہائی عروج پر پہنچ کر ایک فلسفی دلائل وبراہیں کی دنیا سے نکل کر جب حقیقت سے ہمکنار ہوتا ہے تو اس میں جذبہ وتخیل اسی طرح بیدار ہوجاتا ہے جس طرح ایک شاعر میں ۔وہ فلسفہ کے حقائق کی بجائے اس کے روُیا(vision (میں محو ہوجاتا ہے ۔اس کے سامنے ایک مابعدالطبیعاتی نظام کا نظارہ آجاتا ہے ۔فرق صرف یہ ہے کہ شاعر کا تخیل خوداسے بناتا ہے اور فلسفی کا فکرپوشیدہ حقیقت کوسامنے لے آتا ہے‘‘۔
دنیا کب کس طرح وجود میں آئی آ گئی یہ ایک الگ بحث ہے۔ مگر میرا ذاتی شعور کہتا ہے کہ اس دنیا میں رسوم نے پہلے جنم لیا کس طرح لیا کیا محرکات تھے اس طرف بھی نہیں جانا۔
اب اس دنیا میں لوگ آتے ہیں اداکاری کرنے کے لئے ۔میں شعبہ تعلیم کا اداکار ہوں کچھ عرصہ اس دانش گہہ علم و ادب میں اداکاری کروں گاپھرہوسکتا ہے یہ شعبہ چھوڑکر کسی اور شعبے میں چلا جاوئں ۔
کچھ لوگ سیاست کے میدان کے اداکار ہیں ،کچھ لوگ ادب کے اداکار ہیں ۔ہر شحص اداکاری کرتا ہے ایک ناایک شعبے کی ۔کردارمرجاتے ہیں کہانی رہ جاتی ہے ۔کچھ عرصہ بعد پھرکردار نئے مگر کہانی وہی رہ جاتی ہے ۔ ۔۔
؂ یہ محبت کی کہانی نہیں مرتی لیکن
لوگ کردار نبھاتے ہوئے مرجاتے ہیں
میں شاعر کے شعور پر بات کرتا رہوں گا۔اس اداکاری میں پوری دنیا کے اشخاص کا احاطہ نہیں کروں گابلکہ میں صرف اقوامِ اسلامی جمہوریۂ پاکستان کی بات کروں گا۔جالب صاحب نے جوفرمایاتھا۔۔
؂ یہ دیس ہے اندھے لوگوں کا
اے چاندیہاں نہ نکلا کر
وہ پوری دیناکے لئے نہیں تھا بلکہ صرف پاکستان کی اقوام کے لئے تھا۔اس قوم کا ہیروبننے کے لئے پہلے کافرِاعظم کے فتاویٰ سے سرشار ی پھرذلت کی موت مرنا ۔پھر اس کے بعد حضرت،رحمتہ اﷲ کے القابات سے نوازہ جاتا ہے۔اقبال نے جوابلیس کی مجلسِ شوریٰ لکھی تھی وہ بھی خالصتاً اس اقوامِ غیور کے لئے لکھی تھی ۔اس قوم کو اﷲ تعالیٰ نے بڑے سکون اور آسائش وآرام کے لئے پیدا کیا ہے ۔کبھی کبھی جواکھنڈبھارت یا رومتہ الکبرٰی کے نظریات کوپڑھیں تو مجھے خیال آتا ہے وہ کوئی اور نہیں میری اپنی قوم کے نظریات ہیں جولیس سیزریاہٹلر مجھے اپنی قوم کے لگتے تھے ۔جب شیطان کوکہاگیا کہ ملوکیت کو جمہوریت سے کوئی خطرہ نہیں یہ جمہوریت تو پسِ پردہ ملوکیت ہے اگر خطرہ ہے تو وہ مارکسی نظریات سے ہے جس میں مظلوم کی بات ہے مزدور کی بات ہے عوام کے شعورکو اجاگر کرنے کی بات ہے بہت بڑا خطرہ ہے تب شیطان نے قیصروکسریٰ کا نام لیا حالانکہ اسے اقوامِ پاکستان کا نام لینا چاہیے تھا ۔آلِ سیزریارومی نسل میں برتری کا مادہ نہیں پاکستانی قوم میں برتری کا مادہ ہے ۔مارکسی نظریات کے خلاف یورپی اقوام نہیں پاکستانی اقوام جنگ لڑرہی ہیں ۔یورپ تو اپنی پوری قوم کو ترقی کی راہ پہ گامزن کر کے ترقی کے مدارج طے کر رہا ہے۔ مگر اس غیورقوم کی بات کرو جو اپنوں کے ساتھ زبانِ غیر میں ہم کلام ہے ۔میں سمجھتا ہوں اس قوم میں اب خضرجیسے نبی بھی ناکام ہو سکتے ہیں ۔اگر اس قوم نے اپنے شعور کوجگانا ہوتا تو اﷲ تعالیٰ نے اس قوم کو اتنے عظیم دانشور محقق لوگ عطا کئے جنہوں نے کیا کیا نظریات دیئے۔۔
اقبال جیسی عظیم ہستی ۔۔
؂ الحذر ! آئینِ پیغمبرسے سوبار الحذر
حافظِ ناموسِ زن،مردآزما،مردآفریں

؂ موت کا پیغام ہر نوعِ غلامی کے لئے
نے کوئی فغفوروخاقاں،نے فقیررہ نشیں
جمہوریت کا راز کس طرح بے نقاب کیا ۔کوئی اپنا دام نہیں بتاتا مگراقبال نے راز افشاں کئے ہیں ۔
؂ اس راز کو اک مردِ فرنگی نے کیا فاش
ہرچندکہ دانا اسے کھولانہیں کرتے

؂ جمہوریت اک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گناِ کرتے ہیں تولا نہیں کرتے

اس قوم میں غیرت جگانے کے لئے یہ سلسلہ اقبال کے بعد ختم نہیں ہوتا برابر چلتا آیا ۔فیض احمدفیض جیسے باغی نے چشم بصیرت سے دیکھا اس آزادمملکت کوتوششدررہ گیاخودساختہ کہا۔۔
؂ یہ داغ داغ اُجالا،یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظارتھاجس کا،یہ وہ سحرتونہیں
آگے کہتے ہیں
؂ مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے ؟
منصف ہوتواب حشر اٹھا کیوں نہیں دیتے ؟
معراج فیض آبادی نے اپنا ایک منفردانداز اپنایا ہے ۔۔
؂ پیاس کہتی ہے چلوریت نچوڑی جائے
اپنے حصے میں سمندر نہیں آنے والا
احمد ندیم قاسمی جیسی نظر نے جب اس مریض قوم کی تشخیص کی تو ان کی بیماری واضح ہوئی ۔اکثر جرائم معاشرے میں بگاڑپیدا کرتے ہیں اور ان کا سدِ باب کرنا ضروری ہوتا ہے اگر ان جرائم کی بروقت روک تھام نہ کی جائے توچندہی عرصے میں وہ اتنا طول پکڑجاتے ہیں کہ پھر ان کے لئے ضربِ عضب کی ضروت پیش آتی ہے۔مگرتاڑنے والے قیامت کی نظررکھتے ہیں ۔قاسمی صاحب نے اس قوم کی فطرت میں جرائم کا عنصر پایا تو سوچاان سے ایسے جرائم کروائے جائیں جن سے معاشرہ ترقی کی راہ پر گامزن ہوجائے اور اس قوم کی فطرت بھی سنبھل جائے۔
؂ زندگی کے جتنے دروازے ہیں مجھ پربند ہیں
دیکھنا ۔۔حدِ نظرسے آگے بڑھ کردیکھنابھی جرم ہے
سوچنا۔۔اپنے عقیدوں اور یقینوں سے نکل کرسوچنابھی جرم ہے
آسماں درآسماں اسر ار کی پرتیں ہٹاکرجھانکنا بھی جرم ہے
کیوں بھی کہنا جرم ہے کیسے بھی کہناجرم ہے
سانس لینے کی تو آزادی میسرہے مگر
زندہ رہنے کے لئے انسان کوکچھ اوربھی درکار ہے
اوراس کچھ اوربھی کا تذکرہ بھی جرم ہے
اے ہنرمندانِ آئین وسیاست
اے خداوندانِ ایوان وعقائد
زندگی کے نام پربس اک عنایت چاہیے
مجھ کوان سارے جرائم کی اجازت چاہیے
قاسمی صاحب نے جن جرائم کا تذکرہ کیا ہے ان جرائم کا معاشرے میں ہونا ضروری ہے ۔یہی بات اقبال مجلسِ شوریٰ میں کہتا ہے کہ اس قوم کی سوچنے کی حس مر چکی ہے ان کوجوکہا جاتا وہ بھی ٹھیک سے نہیں سنتے ۔یہ دوسروں کے پیچھے چلنے والے ہیں ۔
لکھنے والوں نے انتہا کر دی اتنی اچھی اداکاری کی کہ عقل حیران رہ گئی مگر ناظرین صاحبِ بصارت نہ تھے ۔شاعر نے ہرزبان میں اداکاری کی میں جب سرائیکی ادب کوپڑھتاہوں ہوں توبہت بڑے نظریات اور فلسفے پڑھنے کوملتے ہیں ۔سرورکربلائی کانعرہِ مستانہ آج بھی غیورپردوں کا محافظ نظر آتا ہے۔
؂ تاج شاہیں دے ہوائیں وچ اچھالن سِکھ پوو
اپناملبوس اَناء خود ہی اجالن سکھ پوو
کیوں کوئی فرعون سڈواوے اِتھاں رب جہاں
جیکراہیں پیٹ اپنا ط آپ پالن ط سکھ پوو
depends on your own sourcesچین کے صدر نے کہا تھا۔
ایک اور جگہ کہتے ہیں
؂ ادب دی مریم دے پاک سر دی بزاردے وچ ردانی ویچی
قسم ابوذردی آپ وک گیاں میں بے زری دی اَنانی ویچی
اگر میں ان اداکاروں میں سلسلہ آگے بڑھاتا ہوں تو یہ ختم نہیں ہونے والا قلم کی ایک خوبی یہی ہے جواس کی آواز میں دم ہے ارتقاء کی سب سے زیادہ منزلیں قلم کی آواز نے طے کی ہیں ۔یہ آواز شہرسے جس زورسے نکلی ہے اُسی زوروشورسے پہاڑوں کے پتھروں کوچیرتی ہوئی صحرا کی ریت میں لت پت ہوتی ہوئی بے حس سماج کے بے ہوداو فرسودارواجوں کے خلاف بند زبانوں کومخاطب کر کے عہد ساز اور نسل ِ نوع کے معیار پر پورا اترنے والے عظیم شاعر فرید ساجد ؔ کی مغلوب اقوام کو جھنجوڑتی ہوئی شاعری ملاحظہ ہو ۔

؂ تقسیمِ بشرڈیکھ،غضب ڈیکھ،ذرابول
ایں وقت ہے ماحول عجب،ڈیکھ ذرابول
کوئی درِ احساس تے دستک ڈے تے اَہدے
تہذیبِ فرنگی دے وَسب ڈیکھ،ذرابول
میں عرض کر چکا ہوں کہ رسم اور رواج بن گئے تھے اب لوگ کردار نبھانے آتے ہیں ۔ہر کسی نے اداکاری کی ہے کسی نے ظلم کی اداکاری کی ہے توکسی نے مظلومیت کی ۔کسی نے تجارت کی اداکاری کی ہے توکسی نے ایمان وعقا ئدکی ۔مگر شاعر نے ہمیشہ شعور کی کہانی کواجاگر کیا ہے ۔اگر آج پاکستانی قوم رسوا ہے تو اس وجہ سے اس کا محقق ،اس کا ادیب، اس کاسوچ سمجھ رکھنے والا ،اس قوم کی خدمت کرنے والا محسن اداس ہے
۔احسان فراموش قوم کو تاریخ فراموش کر دیتی ہے ان پہ جرم ہے جالب کی بے حرمتی اس کی ایڑھیوں پہ رگڑسے نکلتے ہوخون کا۔ساغرکے پاگل پن کا۔ خود کوٹھیک اورسعادت حسن منٹوکوبراکہنے اور ان کی تذلیل کا۔جون ایلیاء کی صدائیں ان کوچین سے سونے نہیں دیں گی ۔۔۔
یہ عہد وہ ہے کہ دانشورانِ عہدپہ بھی
منافقت کی شبیوں کا خوف طاری ہے
نمازِخوف کے دن ہیں کہ ان دنوں یارو
قلندروں پہ فقیہوں کا خوف طاری ہے

گذشتہ عہدگزرنے ہی میں نہیں آتا
یہ حادثہ بھی لکھومعجزوں کے خانوں میں
جوردہوئے تھے جہاں میں کئی صدی پہلے
وہ لوگ ہم پہ مسلط ہیں اس زمانے میں

Eng Abu Zar Mehdi
About the Author: Eng Abu Zar Mehdi Read More Articles by Eng Abu Zar Mehdi: 5 Articles with 4825 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.