کون سمجھے،کون کرے ؟؟؟ قسط 6

 صرف چند ھی نہیں، سچ مچ میں کافی والدین دیکھے ھیں جو اسی معاشرے کے لوگ ھیں لیکن انھوں نے انتہائی سمجھداری سے کام لیا ھے۔ ان کے بچے بالکل نارمل بچے ھیں۔ لڑائی جھگڑا نہیں کرتے اور والدین کے انتہائی فرمانبردار اور احترام کرنے والے ھیں۔

میرے پارٹنر کا گھر اور ھمارا ذاتی کاروباری آفس ایک ھی بلڈنگ میں تھا۔ ان کے دو بچوں کا بچپن میں نے بہت قریب سے دیکھا ھے۔ میرا دوست اکلوتا تھا اور ان بچوں کا انکل میں ھی تھا۔ کبھی بھی ان کو لڑتے نہیں دیکھا نہ آپس میں نہ کسی کے ساتھ نہ والدین کے ساتھ ۔

ایک صاحب کا بچہ بہت شرارتی ھے ، ٹکتا ھی نہیں کوئی نہ کوئی شرارت سوچ کر رکھتا ھے لیکن اس کی شرارتیں بامقصد نظر آتی ھیں۔ حد سے بڑھی ھوئی نہیں ھیں، اوٹ پٹانگ نہیں ھیں۔ اسلئے اس کنٹرول کرنے میں والدین کو پریشانی نہیں ھوتی۔ صاف ظاھر ھوتا ھے بچہ انتہائی ذھین ھے۔

ایک گھر والے مڈل کلاس لوگ ھیں، لیکن والدین انتہائی شریف النفس اور سمجھدار تھے۔ 6 بیٹے 4 بیٹیاں ھیں۔ ان کا تیسرے نمبر کا بیٹا میرا بچپن سے لے کر ابتک کا دوست ھے۔ ان کے گھر میں بیٹے والدین کے اتنے فرمانبردار ھیں کہ حیرت ھوتی ھے اور ان کے بچے ان کی تصویر ھیں۔ انتہائی دھیمے مزاج،پڑھائی میں بہت نمایاں،نمازی،قابل تعریف اور ان کے پیچھے کمال ان کی مائوں کا ھے۔ ان کی بیٹیاں جن گھروں میں گئی ھیں وہ لوگ انتہائی مطمئن ھیں۔ نہ کوئی جھگڑا نہ مسلہ۔ سکون کی زندگی۔ اس گھر کے افراد اور ان کی بہوئیں جن گھروں سے آئیں ھیں،یہ سب بہت قریبی ھیں اور یہ حسن اتفاق ھے کہ ان کا ماحول تقریبا ایک جیسا ھے۔ ٹی وی پر صرف خبریں سنی جاتی ھیں اور بچوں کو ٹی وی سے پرھیز کروایا جاتا ھے۔ گھر میں دینی باتیں معمول ھیں۔

میری خوش قسمتی ھے کہ یہ سب میرے قریبی لوگ ھیں۔ ان سب میں ایک بات مشترک ھے کہ ان بچوں کو 5 سال سے پہلے اسلامی اصول سکھانے کی کوشش کی گئی ھے اور ان کو ٹی وی سے مکمل پرھیز کروایا گیا ھے اور ٹی وی کے ساتھ بچوں کو صرف اچھا دکھنے والے بچوں کے ساتھ دوستی رکھنے کی اجازت گئی۔ اب یہ بچے بڑے ھیں ان کی 5 سال سے پہلے کی تربیت پر جان ماری گئی ھے۔ اب دیکھ کر رشک آتا ھے کہ ان کے والدین بڑے سکون میں ھیں۔ بچے انتہائی تمیز والے ھیں۔ تعلیمی میدان میں کہیں بھی کمزور نہیں ھیں۔ ان کے والدین بس ان کی نگرانی کرتے ھیں ۔ بچوں کی گاڑی درست لائن پر خود ھی چلتی جا رھی ھے۔

سمجھدار والدین کا رویہ،کچھ عجیب قابل تقلید، ملاحظہ کریں۔

میرے دوست کے دو بچے ایک ھی سکول میں پڑھتے تھے،ان کے ایک بیٹے نے اپنی والدہ کو بتایا کہ بھائی نے آج ایک دوسرے طالب علم کا لنچ چوری کر کے کھا لیا ھے، وہ بچہ رو رھا تھا۔ جانتے ھیں کیا ھوا۔ ماں باپ کو مصیبت پڑ گئی۔ بچے کو انتہائی احتیاط اور پیار سے سمجھایا گیا۔ بچے کی ماں نے ساتھ جا کر اس طالب علم سے معافِی منگوائی اور اپنے بچے سے اس بچے کو لنچ بھی پیش کروایا اور ٹیچر سے درخواست کی بچے پر کڑی نظر رکھیں کہ آئندہ تو ایسا نہیں کرتا اگر کرے تو سختی کریں اور ھمیں بھی اطلاع کریں تا کہ ھم اسے سمجھا کر اس کی یہ بری حرکت، عادت بننے سے پہلے ختم کروا سکیں۔ ایک سال پہلے یہ فیملی انگلینڈ مستقل سکونت کیلئے کوچ کر گئی تھی لیکن چند دن پہلے ھی واپس آ گئی ھے۔ وجہ انتہائی دلچسپ ھے ، ان کا کہنا ھے کہ بچوں کی تربیت ٹھیک سے کرنا ممکن نہیں ھو رھا تھا۔ بچے خراب ھو رھے تھے۔ سو بچوں کی اچھی تربیت کیلئے وطن واپس آ گئے ھیں۔

پاکستان کے بہت مشہوربزنس گروپ کے چیف ایگزٹو اپنی فیملی کے ساتھ آسٹریلیا شفٹ ھو گئے لیکن کچھ عرصے بعد ھی فیملی اور بچے پاکستان واپس آ گئے۔انھوں نے مجھے خود بتایا کہ بچوں کی اچھی تربیت اس ماحول میں ممکن نہیں تھی۔
سمجھدار ماں باپ۔ سمجھدار بچے۔ساری عمرکا سکون
جاری ھے،اگلی قسط پڑھیں۔

Mohammad Owais Sherazi
About the Author: Mohammad Owais Sherazi Read More Articles by Mohammad Owais Sherazi: 52 Articles with 112533 views My Pain is My Pen and Pen works with the ink of Facts......It's me.... View More