شخصیت کی تعمیر میں ثقافت کا کردار

ہر معاشرہ کی اپنی ثقافت ہوتی ہے۔ شروع شروع میں جب لوگ غاروں میں رہتے تھے اور پتوں کے لباس پہنتے تھے تو بھی ان کی اپنی ثقافت تھی ۔ ہر معاشرے کی اپنی الگ ثقافت ہوتی ہے۔ چونکہ ثقافت معاشرے میں موجود افراد کی شخصیت بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے یعنی شخصیت معاشرے میں بنتی ہے۔ معاشرے کے بغیر کسی بھی فرد کی شخصیت نشونما نہیں پا سکتی ہے۔ اگر کسی فرد کو سماجی ماحول نہ ملے تو اس کی شخصیت کی تعمیر نہیں ہوسکتی ہے۔

چونکہ ہر معاشرے کی اپنی الگ ثقافت ہوتی ہے۔ اس لئے ہر معاشرہ اپنی ثقافت کے مطابق افراد کی شخصیت کی تعمیر کرتا ہے۔ اس کی مثال ہم پاکستانی معاشرے سے لے سکتے ہیں۔ پاکستان ایک ملک ہونے کے باوجود اس کے چار صوبے ہیں اور انکی ثقافت مختلف ہے۔اس لئے ہمیں چاروں صوبوں کے افراد کے رہنے سہنے ، لباس، کھانے وغیرہ کا انداز بھی مختلف نظر آتا ہے۔ زمانہ خواہ کتنی بھی ترقی کیوں نہ کر لے اپنی ثقافت سے انحراف نہیں کرسکتا۔ اس کی مثال امریکہ اور لندن میں موجود پاکستانی افراد سے ملتی ہے چو نکہ وہاں کے ماحول سے مطابقت پیدا کرنے کے لئے انکی بہت سی چیزوں کو اپنا لیتے ہیں۔ لیکن شادی جیسے اہم فریضہ کو جب ادا کرتے ہیں اپنی مذہبی ثقافت کے مطابق نکاح کی رسم ضرور ادا کرتے ہیں۔ ثقافت کے شخصیت پر اثر انداز ہونے کا اندازہ ہم افراد کی عادات و اطوار سے بھی لگا سکتے ہیں۔ یعنی انگریز کے بات چیت کرنے کاانداز مختلف ہوتا ہے اور وہ عادات و اطوار میں بہت محتاط ہوتے ہیں۔ جب کہ پاکستانی افراد بہت جلد گھل مل جاتے ہیں۔ یہ فرق ہمیں ثقافتوں کے مختلف ہونے کےسبب نظر آتاہے۔
ایک ماہر عمرانیات جان ایف کوبر کے کہنے مطابق شخصیت میں تین عناصر اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ جن میں سے ایک ثقافت ہے۔ ثقافت اپنے ارکان پر معاشرتی دبائوں ڈال کر ان سے مخصوص معمولات کا مطالبہ کرتی ہے۔ خواہ وہ دوسروں کی نظر میں اچھی ہو یا بری۔

ثقافت اخلاق اور اقدار کے معیار مقرر کرتی ہے۔ جس سے افراد کی بہترین شخصیت یا قباحت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔اس کی بہترین مثال ہم پاکستانی معاشرے سے لے سکتے ہیں۔ چونکہ ہمارے یہاں لوگ اپنے بچوں کی تربیت اپنی ثقافت کے مطابق کرتے ہیں جسکی بنا پر وہ بڑوں کی عزت کرنا اپنا اولین فرض سمجھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کوئی پاکستانی فرد اپنے بزرگوں کے لئے اولڈ مین ٹائون بنانا پسند نہیں کرتا۔
فرد کی شخصیت کو اپنی ثقافت کے مطابق بنانے میں تمام سماجی ادارے حصہ لیتے ہیں۔ کوئی بھی ادارہ اپنی ثقافت کے خلاف کام نہیں کر تا ہے۔پاکستان میں خاندانی ادارے کی طرح تعلیمی ادارے بھی مذہبی تعلیم پر زور دیتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ زمانے کی ترقی کی بنا پر ہمیں اپنے معاشرے میں بہت سی مغربی ثقافت کی جھلک نظر آرہی ہے۔ لیکن افراد وقتی طور پر اسے اپنا لیتے ہیں۔ اس کے بر عکس وہ اپنی ثقافت سے انحراف نہیں کرسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے جس گھرانے میں ہمیں مغربی تہذیب کی جھلک نظر آتی ہے وہاں کے افراد موت اور شادی کے موقع پر وہی رسومات ادا کرتے ہیں جو کہ ان کی ثقافت میں ہیں۔

یہ ہماری ثقافت کا ہی اثر ہے کہ ہمارے معاشرے میں عورتوں کو معیار زندگی بڑھانے کی خاطر مرد حضرات نے نوکریاں کرنے کی اجازت تو دے دی ہے لیکن جب وہ گھر میں آتی ہے اور تھکی ہوئی ہوتی ہے تو شوہر کے گھر آنے پر اس کا شاندار استقبال نہیں کرپاتی۔ جس کی بنا پر ایسے گھرانوں میں میاں بیوی کے تعلقات خوشگوار نہیں ہوتے۔ اس مثال کی روشنی میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جب بھی افراد اپنی ثقافت سے انحراف کرتے ہیں تو معاشرے میں بہتر زندگی نہیں گزار سکتے ہیں۔

آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی جب عورتوں نے اپنی مصروفیات کی بنا پر بچوں کی پرورش جیسے اہم فرض کو آیائوں اور نرسوں کے حوالے کر دیا ہے۔ جہاں وہ پرورش پا کر بڑے تو ہوجاتے ہیں لیکن اپنی ثقافت اور مذہب سے آشنا نہیں ہونے پاتے۔ ایسے ہی افراد برائیوں کو اپنا کر قوم اور ملک کے لئے مسئلہ بن جاتے ہیں۔

حقیقت تو یہ ہے کہ کبھی بھی فرد اپنی ثقافت کو چھوڑ کر بہتر زندگی نہیں گزار سکتا ہے۔ جب کبھی بھی افراد دوسری ثقافت میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو ان کو وقتی طور پر قبول کر لیا جاتا ہے۔ لیکن اسکا اثر انکی اولاد پر ضرور پڑتا ہے مثلا مغربی ممالک میں جہاں جا کر بعض اوقات پاکستانی افراد انگریز خواتین سے شادی کرلیتے ہیں اور ایک نئی ثقافت میں خود تو خوشگوار زندگی گزار لیتے ہیں لیکن ان کی اولاد یہ فیصلہ نہیں کر پاتی کہ وہ کس ثقافت کو اپنائے۔ اگر وہ ماں کی ثقافت میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو اس ثقافت کے لوگ اس کے اسلامی ثقافت سے تعلق ہونے کی بنا پر قبول نہیں کرتے اور نہ ہی اسلامی ثقافت میں اسے مغربی تہذیب کے ساتھ قبول کیا جا سکتا ہے۔ والدین کے اس عمل سے اکثر گھرانے انتشار کا شکار ہو جاتے ہیں۔
کسی ملک میں اگر مختلف ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے افراد ہوں تو وہ ایک ملک کے عوام ہونے کے باوجود مختلف ہوتے ہیں۔

ثقافت کی اہمیت کا اندازہ صرف ہم آج کے ترقی یافتہ دور سے ہی نہیں لگا سکتے ہیں بلکہ قدیم معاشرے سے بھی ہمیں اسکی مثال ملتی ہے۔ہندوستان کے ایک گائوں سے دو بچیاں ایسی ملیں جو نہ صرف جانوروں کی طرح بولتی اور کھاتی ہیں بلکہ ان کے چلنے کا انداز بھی جانوروں کی طرح تھا۔اس کی وجہ یہ تھی کہ بچپن میں جنگلی جانور ان کو اٹھا کر لے گئے تھے اور چونکہ انہوں نے انکی محبت میں اپنی زندگی کا ابتدائی حصہ گزارا تھا۔لہذا انکی تربیت کے اثر سے وہ ایسی شخصیت کی حامل تھیں جس کی جھلک جانوروں میں پائی جاتی ہے۔

معاشرے کے ان حالات کو دیکھتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ کسی فرد کی شخصیت اس کی ثقافت کے بغیر نامکمل ہے۔