محبت مجھے ان جوانوں سے ہے

آج اُس نوجوان سے سرراہ کافی عرصے کے بعد ملاقات ہوئی۔ جس کی عظمت کا میں بہت عرصے سے قائل ہوں۔ سماج سے، حالات سے، فرسودہ رسموں سے، غلط سوچوں سے اور سب سے بڑھ کر نامعقول قسم کے قریبی عزیزوں سے اصولی جنگ لڑ جانا اورمشکل وقت میں سچائی اور ٹھیک فیصلے پر قائم رہنا آج کے دور میں بہت مشکل کام ہے۔ مگر اُس نوجوان نے عجیب کام کیا بڑی استقامت اور دلیری سے پہلے ایک ٹھیک اور صحیح فیصلہ کیا اورپھر اُس فیصلے کے راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو ٹھکراتا ہوا آج تک اپنے فیصلے پر قائم ہے۔ میں نے گھر کا احوال پوچھا تو بولا تین بچے ہیں۔ کافی بڑے ہو چکے ہیں۔ سب سکولوں میں جاتے ہیں۔ وہ اور اُس کی بیگم گاؤں سے شہر منتقل ہو چکے ہیں اور یہیں اپنا مکان لے کر ہنسی خوشی زندگی گزار رہے ہیں۔ وہ کاروبار بھی شہر میں ہی کر رہا ہے۔ والدین اور بھائیوں سے بہت خوشگوار تعلقات ہیں۔ آپس میں پوری طرح رابطہ اور میل جول ہے۔ والدین ہر دو تین مہینے بعد پندرہ بیس دن اس کے پاس رہ کر جاتے ہیں اور وہ اپنی زندگی سے ہر طرح مطمئن ہے۔ مجھے اس کی باتیں سن کر انتہائی خوشی ہوئی۔

وہ تین بھائی ہیں۔ انتہائی غریب خاندان سے تعلق تھا۔ باپ مزدوری کرتا تھا۔ تینوں بھائی کچھ بڑے ہوئے تو گاؤں میں ایک چھوٹی سی دکان ڈالی لی۔ بڑا بھائی دکان کے لئے مال خرید کر لاتا اور چھوٹے باری باری دکان پر ڈیوٹی دیتے۔ گاؤں سے ملحق بہت بڑا انڈسٹریل ایریا تھا۔ فیکٹری میں کھانے پینے کے لئے مختلف سامان سپلائی کرناان کا معمول بن گیا۔ بہت سے فیکٹریوں والے نقد رقم کی بجائے اپنی بنائی ہوئی چیزیں انہیں دے دیتے۔ وہ نقد رقم کی بجائے فیکٹری کابنا ہوا سامان لے کر بیچنے چل پڑتے۔ محنتی، ایماندار اور بیچنے کے فن سے پوری واقفیت رکھنے کی وجہ سے انہیں دوگنا نفع ملتا۔ تھوڑے دنوں میں انہوں نے ایک بڑی جگہ خرید کر ایک بہت بڑی ذاتی دکان بنالی۔ کسی وجہ سے میرا ان سے رابطہ ہوا اور پھر وہ رابطہ ایک مستقل تعلق بن گیا۔ اس وقت دو بھائیوں کی شادی ہو چکی تھی اور تیسرا ابھی کنوارہ تھا۔ چونکہ مالی حالت بدلنے کے ساتھ ساتھ ذہنی شعور بھی آرہا تھا اسلئے وہ تیسرے بھائی کے لئے کسی اچھے رشتے کی تلاش میں تھے۔ خاندان کے قریبی لوگ چونکہ انتہائی غریب ہی نہیں بالکل گنوار اور ان پڑھ تھے۔ اس لئے تلاش یقینا خاندان سے باہرتھی۔ اور ان کی خواہش تھی کہ کسی بہتر سادہ اور نسبتاً پڑھے لکھے خاندان میں ان کے سب سے چھوٹے بھائی کی شادی ہو جائے۔ بہو پڑھی لکھی ہو گی تو گھر کا اندرونی ماحول بھی بہتر ہو جائے۔ کیونکہ پڑھی لکھی بہو کاگھر کے ماحول پر اثرانداز ہونا لازمی ہے۔

رشتے دیکھتے دیکھتے ان کی نظرِ انتخاب شہر میں ایک ایسے خاندان پر ٹھہری جو لوگ انتہائی سادہ تھے۔ مذہبی تھے۔ درمیانے درجے کے کاروباری تھے۔ بچیاں بھی شریف۔ پڑھی لکھی اور صوم و صلوۃ کی پابندی تھیں۔ تھوڑی گفت و شنید اور ان کے محلے داروں سے پوچھ گچھ کی تو ہر شخص نے ان کی تعریف کی کیونکہ وہ لوگ پندرہ بیس سال سے محلے میں مقیم تھے اور ہر شخص ان کی سادگی شرافت اور ملنساری کی تعریف کرتا تھا۔ ساری پوچھ گچھ کے بعد رشتہ طے ہو گیا اور پھر چند ماہ بعد دھوم دھام سے شادی بھی ہو گئی۔ شادی کی تقریب میں کچھ لوگ بہت بے چین اور پریشان نظر آئے۔ انہوں نے لڑکے کے باپ اوربھائیوں سے پوچھاکہ کیا وہ لڑکی والوں کو پرانا جانتے ہیں۔ ان کے انکار پر انہیں بتایا گیا کہ یہ لوگ بھی پرانے ہمارے قصبے ہی کے رہنے والے ہیں۔ لڑکے کے باپ اوربھائیوں نے ہنس کر کہایہ تو اور بھی اچھی بات ہے اور یوں اس وقت یہ بات آئی گئی ہوگئی۔

اگلے دن ولیمہ تھا۔ ہر چیز نارمل تھی مگر لڑکے کے بھائیوں اور ماں باپ نے ایک بات محسوس کی کہ لوگ لڑکی کے ماں باپ سے ملنا اور بات کرنا ناپسند کر رہے تھے ان سے کنی کترا رہے تھے اور مہمان ہونے کے باوجود ان کو نظرانداز کر رہے تھے۔ دو تین گھنٹے کے فنکشن کے بعد لڑکا سسرالیوں کے ساتھ چلا گیا اور اس دن بھی کوئی خاص بات نہیں ہوئی۔ لڑکے کو سسرال میں گئے دو تین دن ہو گئے تو اسے اور اس کی دلہن کو واپس لانے کے لئے گھر کے افراد لڑکے کے سسرال جا رہے تھے تو خاندان کی ایک بزرگ عورت نے راستے میں روک کر کہا کہ بہو کو گھر لا رہے ہو۔ انہوں نے کہا کہ ہاں لینے جا رہے ہیں آج آ جائے گی۔کیوں آ جائے گی، کچھ لوگوں کی باتیں سن کر شرم نہیں آتی تم لوگ تو بالکل ہی بے شرم ہو گئے ہو۔ اس عورت نے غصے سے کہا۔ کون سی بات اور کیسی بات۔ جس سے ہم کو شرم آئے۔ ہم نے تو ایسی کوئی بات نہیں سنی۔ تم نے کیاسنا ہے۔ کچھ ہمیں بتا دو۔ مگر عورت نے جلی کٹی سنانے کے باوجود کچھ بتانے سے انکار کر دیا۔ بہرحال شام کو وہ لوگ اپنے بھائی اور دلہن کو لے کر واپس آ گئے۔ اور پھر تجسس سے یہ پتالگانے کی کوشش کر نے لگے کہ لوگ کیا باتیں کرتے اورکیا کہنا چاہتے ہیں جو کھل کر نہیں کہتے لیکن منہ بنائے بیٹھے ہیں۔

دو تین دن میں ساری باتیں کھل کر سامنے آ گئیں اور لوگوں کی ناراضی کی وجہ بھی معلوم ہوگئی۔ لڑکی کی ماں اسی قصبے کے بازار حسن کی ایک طوائف کی بیٹی تھی اور باپ اس وقت کا علاقے کا بدمعاش۔ طوائف کی بیٹی چونکہ بہت خوبصورت تھی اس لیے وہ بدمعاش اس کے پیچھے تھا۔ طوائف نے اس بدنام اور بدمعاش لڑکے سے اپنی بیٹی کی شادی اس شرط پر کر دی کہ وہ ایک تو بدمعاشی چھوڑ دے گا دوسرا اسے اس قصبے سے دور لے جائے گا۔ جہاں انہیں کوئی جانتا نہ ہو اور وہاں دونوں عزت کے ساتھ ایک صاف ستھری زندگی کی ابتدا کریں گے۔ چنانچہ شادی کے بعد دونوں شہر چلے گئے ۔ کسی کو ان کا کچھ پتہ اور ان سے کوئی رابطہ نہ تھا۔ دونوں وعدے کے مطابق صاف ستھری زندگی گزار رہے تھے۔ مگر ماضی پیچھا نہیں چھوڑتا۔ اتفاق سے بیٹی کی شادی اُسی علاقے میں ہو گئی کہ جسے وہ اس یقین کے ساتھ چھوڑ آئے تھے کہ اب کبھی وہاں کا رخ نہیں کریں گے۔ لمبی سی داڑھی اور ڈھلتی عمر کے ساتھ نوجوان کو یقین تھا کہ اب اسے کون پہنچانتا ہوگا۔ مگرلوگوں کی نظریں تو پاتال میں بھی چیزوں کو دیکھ لیتی ہیں۔ اس کی بیوی ایک طوائف کی بیٹی تھی اور وہ اپنے وقت کا بدنام زمانہ بدمعاش۔ کسی کو اس کے حال سے غرض نہ تھی۔ لوگ ان کے ماضی کی بنیاد پر ان کی معصوم بیٹی کو سزا دینا چاہتے تھے۔ فرسودہ رسموں اور سماج کے گندے رواجوں کے علمبرداربہت سے رشتہ دار، عزیزواقارب اور محلے دار ان کی بیٹی اور داماد کے گھر پہنچ گئے اور لڑکے کے ماں باپ اور بھائیوں سے مطالبہ کیا کہ لڑکی کو گھر سے نکال دیا جائے۔ گھر والوں میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ عزیزوں رشتہ داروں اور محلے داروں کا مطالبہ ٹھکرا سکیں، ان سے مقابلہ کریں اور خود کو معاشرے سے الگ کرلیں۔ انہوں نے بھائی کو مشورہ دیا کہ مجبوری ہے اس لئے بہتر ہے کہ تم لڑکی کو طلاق دے دو۔ اس کی ماں طوائف زادی اورباپ بیس سال پہلے ایک بدمعاش تھا اور ان کا یہ جرم معاشرے میں کسی سے ہضم نہیں ہو رہا۔ ہم اس لڑکی کے لئے سارے سماج سے کیوں ٹکر لیں۔ایک لڑکی کو اپنانے کے لئے پورے معاشرے کو کیوں چھوڑدیں۔

میں سلام پیش کرتا ہوں اس نئے شادی شدہ بچے کو۔ اس نے ماں باپ اور بہن بھائیوں سے بات کی کہ میں ایک ہفتے سے زیادہ اپنی بیوی اور اس کے ماں باپ کے ساتھ گزار چکا ہوں۔ میں نے ان میں، ان کے گھر میں اور ان کے تمام بچوں میں کسی طرح کی کوئی خرابی نہیں دیکھی۔ بیس سال پہلے وہ کیا کرتے تھے مجھے اس سے کوئی سروکار نہیں۔ توبہ کا درازہ ہروقت کھلا ہوتا ہے۔ بیس برس پہلے رب العزت نے ان کی توبہ قبول کر کے انہیں ہدایت دی ہے تو میں ان کو سز ادینے والا کون۔ مجھے تو ان کی استقامت اور ہمت کی داد دینی چاہیے۔ میں اپنی معصوم اور بے قصور بیوی کو نہیں چھوڑوں گا۔ آپ اگر لوگوں کی نظروں کا سامنا کر سکتے ہیں ان کی باتوں کو نظراندا زکر سکتے ہیں تو ٹھیک اور اگر آپ کو مشکل نظر آتی ہے تو بہتر ہے کہ مجھے اجازت دیں۔ میں اپنی بیوی کے ساتھ کسی دوسری جگہ منتقل ہو جاتا ہوں۔ ہم تینوں بھائی مشترکہ کاروبار کرتے رہے ہیں۔ اگر بھائی مناسب سمجھیں تو میرے حصے کی جو رقم وہ آسانی سے مجھے دے سکیں مجھے دے دیں۔ میں جہاں جاؤں گا وہیں اس تھوڑے بہت سرمائے سے نیا کام شروع کر لوں گا۔ بھائیوں نے مجبوری میں بے پناہ پیار کے باوجود اس کا چلا جانا ہی مناسب خیال کیا۔ نوجوان چند دن میں سب کچھ سمیٹ کراپنی بیوی کے ساتھ کسی دوسری جگہ منتقل ہو گیا۔وہ آج بھی اپنے فیصلے پر پوری طرح خوش ہے۔ واقعی یہ ایک اچھا فیصلہ تھااور ایسے فیصلے عظیم لوگ کر سکتے ہیں۔ ورنہ اس معاشرے میں گند سمیٹنے والے کم اور پھیلانے والے کثرت سے ہیں۔ نوجوان جیسا حوصلہ اور عزم بہت کم لوگوں کو میسر ہے۔ اقبال نے شاید ایسے ہی نوجوانوں کے لئے کہاتھا
’’محبت مجھے ان جوانوں سے ہے ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
 
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 444373 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More