ڈیموں کی تعمیر کا یہ بہت اچھا وقت ہے ؟

قیام پاکستان کے بعد دریائی پانی کی تقسیم کامرحلہ درپیش ہواتو سندھ طاس معاہدے کے تحت تین پاکستانی دریاؤں کا پانی بھارت کے سپرد کرکے جس ظلم کی ابتدا کی گئی تھی وہ ظلم اب انتہا کوپہنچ چکا ہے کیونکہ بھارت نے 69 ڈیم بناکر پاکستانی دریاؤں کا پانی نہ صرف محفوظ کرلیاہے بلکہ اسی پانی سے بجلی پیداکرکے صنعتی میدان میں قدم آگے بڑھا رہا ہے ۔ دوسری جانب ہم ڈیم بنانے کی بجائے سیاسی الزام تراشی میں ہی اب تک الجھے ہوئے ہیں ۔ ماہرین کی تحقیقی رپورٹوں کے مطابق فروری سے جون تک ہماری زراعت کو پانی کی شدید قلت کا سامناکرناپڑتا ہے جبکہ جولائی سے جنوری تک سیلابی پانی کی تباہ کاریوں کا ہم شکار رہتے ہیں ۔اس کے باوجود کہ دنیا بھر کے ماہرین کالا باغ ڈیم کو قابل عمل منصوبہ قرار دے چکے ہیں لیکن ہم ابھی تک اتفاق رائے کے چکر میں پڑے ہوئے ہیں۔ہر سال کی طرح اس مرتبہ بھی خیبر پختونخواہ کاوسیع علاقہ شدید ترین بارشوں اور سیلابی ریلے کی زد میں ہے جہاں انسانی آبادی کو شدید مشکلات کاسامناکرنا پڑا وہاں سڑکیں ٗپل اور دیگر سرکاری تنصیبات کانقصان بھی اربوں روپے تک اٹھانا پڑا ۔عمران خودکہتے ہیں کہ صوبے میں سیلابی پانی کوکنٹرول کرنے کے لیے پچیس سے زائد ڈیم بنانے کی گنجائش موجود ہے لیکن وہ ڈیم بنانے کی بجائے ایک بار ضدی سیاست دان کا روپ دھار کر سڑکوں پر احتجاجی مظاہرے کرنے کے لیے تیار کھڑے ہیں ۔ان سے بھلاکوئی یہ پوچھے کہ سیلاب میں ڈوبنے والے افرادکو آپ کی احتجاجی سیاست سے کیا فائدہ ہوگا ۔ عمران کو اگر خیبر پختوانخواہ کے عوام کے مسائل کا ذرا بھی احساس ہے تو انہیں تیزی رفتاری سے ڈیموں کی تعمیر کے لیے اقدام کرنے چاہیئں کہ آنے والے سالوں میں عوام تباہ کاریوں سے محفوظ رہ سکیں ۔جنوبی پنجاب میں بھی ہر سال کی طرح جتنے بھی بند تعمیر کیے گئے وہ سیلابی پانی کے سامنے ریت کی دیوار ثابت ہوئے اور مظفر گڑھ ٗلیہ ٗ راجن پور ٗ ڈیرہ غازی خان کے وسیع علاقوں پر دیہاتوں کے دیہات صفحہ ہستی سے مٹ گئے اور کھیتوں میں کھڑی اربوں کی فصلیں تباہ ہوگئیں لیکن ڈیم بنانے کی جانب اب بھی شہباز شریف کی توجہ بھی مرکوز نہیں ہوئی ۔وہ اب بھی میٹرو ٹرین چلانے کے جنون میں مبتلا پونے دوکھرب روپے قرض کے لیے چینی بینک کے سامنے ہاتھ پھیلائے کھڑے ہیں کیا یہ رقم پنجاب کے دریاؤں پر ڈیم تعمیر کرنے پر خرچ نہیں کی جاسکتی ۔ ان سر پھیرے سیاست دانوں کو عقل کی بات کون سمجھائے ۔ جہاں تک سندھ کاتعلق ہے ٗ دریائی علاقوں کے لوگ ہمیشہ کی طرح آج بھی اپنا سب کچھ تباہ کرکے حکمرانوں کی جانب امید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں ۔ یہ بیچارے سارا سال جو اکھٹا کرتے ہیں سیلاب اسے بہا کے لے جاتا ہے ۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ جو ڈیموں ( بطور خاص کالا باغ ڈیم ) کی تعمیر کی مخالفت کرتے ہیں وہ اپنے اپنے محلات میں محفوظ رہتے ہیں لیکن ان کی مخالفت کانقصان ان بے چارے غریب سندھی کاشتکاروں کو اٹھانا پڑتا ہے جن کو یہ بھی نہیں پتہ کہ ڈیم ہوتا کیا ہے ۔ ماہرین کے نزدیک اگر ڈیم تعمیر کرلیے جائیں تو ڈیموں میں محفوظ پانی کو خشک سالی کے دوران زراعت کے لیے استعمال کیاجاسکتا ہے بلکہ اسی پانی سے نہایت سستے داموں بجلی پیداکرکے صنعتی میدان میں پیش رفت بھی کی جاسکتی ہے ۔اس وقت بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے نہ صرف گھریلو صارفین بلکہ صنعتی ترقی کو بھی منجمد کررکھا ہے ۔ جنرل زاہدعلی اکبر جن کا تعلق خیبر پختوانخواہ سے ہے وہ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ میں نے کالا باغ ڈیم کے بارے میں عوامی نیشنل پارٹی کے راہنماؤں کو بریفنگ دی ۔بریفنگ کے بعد بیگم نسیم ولی خان نے کہا بلاشبہ آپ نے باتیں بہت ٹھیک کی ہیں کہ کالابا غ ڈیم کی تعمیر سے پاکستان کی خوشحالی وابستہ ہے لیکن ہماری مجبوری ہے کہ ہم اس ڈیم کی تعمیر کی اجازت نہیں دے سکتے ۔سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ کیا پاکستان کی تقدیر اور مستقبل چند مفاد پرست سیاست دانوں کی میں نا مانوں کی پالیسی کے سپرد کرکے تباہ کیاجاسکتا ہے ۔ جو لوگ اتفاق رائے کی رٹ لگا کر کالا باغ اور ان جیسے بے شمار ڈیموں کی تعمیر میں رکاوٹ کا باعث بن رہے ہیں ان سے میرا یہ سوال ہے کہ اگر پاکستان بھی اتفاق رائے کی بھینٹ چڑھا دیاجاتا تو شاید ہم آج ایک آزاداور خود مختار ملک میں سانس نہ لے رہے ہوتے ۔ کالا باغ ڈیم ہو یا کوئی اور ۔ ڈیموں کی مخالفت کرنے والے کومحب وطن پاکستانی قرار نہیں دیاجاسکتا ۔ وہ مخالفت کرکے بھارتی عزائم کی تکمیل چاہتا ہے کہ پاکستان کبھی پانی کی قلت تو کبھی پانی کی زیادتی کا شکار ہو کر زراعت اور صنعت کی تباہی کے کنارے پر پہنچ کر خود ہی ختم ہوجائے ۔بہرکیف حالیہ سیلاب کی تباہ کاریوں کو دیکھ کچھ برف پگھلی ہے ۔ اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ اورعمران خان بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے حکومت کل جماعتی کانفرنس بلائے اور تحفظات دور کرکے تعمیر کا آغاز کرے ۔ میں سمجھتا ہوں نواز حکومت کے لیے یہ سنہری موقعہ ہے کہ اس وقت جبکہ تقریبا تمام سیاسی جماعتیں ڈیموں کی تعمیر کے حق میں ہیں کانفرنس بلاکر نہ صرف کالا باغ ڈیم بلکہ خیبر پختونخواہ ٗ پنجاب ٗ بلوچستان اور سندھ میں بھی اتنے ڈیم بنا نے کی حکمت عملی وضع کرلی جائے کہ آنیوالے سالوں میں سیلابی پانی کومحفوظ کرکے زراعت اورصنعت کی ترقی کے لیے استعمال کیاجاسکے ۔
 
Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 786 Articles with 684224 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.