کیا مسلم لیگ ن وائس چئیرمین کے لئے مقبول فیصلہ کر سکے گی

پیپلز پارٹی کے شریک چئیر مین اور اُس وقت کے صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان عزت ماب جناب آصف علی زرداری نے اپنی دور صدارت میں جمہور کو جو نصحتیں کی تھیں اب ان پر لوگوں نے عمل شروع کر لیا ہے جناب نے فرمایا تھا کہ وعدے معاہدے کوئی قرآن و حدیث نہیں ہوتے جی بالکل وعدے معاہدے قرآن وحدیت تو نہیں مگر قرآن حدیث میں قول و قرار کی خاصی اہمیت حاصل ہے کیونکہ اسی زبان سے ہم کلمہ پڑھ کر حلقہ بگوش اسلام داخل ہوتے ہیں اسی زبان سے ہم بڑی بڑی تقریریں کرکے عوام کو اپنی شخصیت کا یقین دلا کر ان سے ووٹ مانگتے ہیں پھر یہی وہ زبان ہے جس سے ہم اپنی بہن وبیٹی کا رشتہ طے کرتے ہیں اور اسی پر کار بند رہتے ہوئے متعلقہ شخص کے ساتھ رخصت کر دیتے ہیں یعنی کے جو زبان ہم کسی سے کرتے ہیں اس پر قائم رہنے میں ہم اپنی عزت و تکریم سمجھتے ہیں اور وعدہ اور عہد تو اس سے بہت آگے کی بات ہے مگر گوجرانوالہ میں بات تو اس سے بھی زیادہ آگے چلی گئی ہے جی ہاں یہ کوئی اور نہیں بلکہ میدان سیاست سے ہی تعلق رکھنے والے حالیہ الیکشن میں آزاد حیثیت سے کامیاب ہونے والی ایک شخصیت ہیں پچھلے واقعہ کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس بات کا خیال آتا ہے کہ سیاست دانوں کے سامنے وعدے و عہد قول و قرار اور قسم کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی بلکہ ان کا مذہب صرف اقتدار ہوتا ہے اور اس کوحاصل کرنے کے لئے وہ کچھ بھی کرنے کو تیار ہوجاتے ہیں یہاں یہ بات نوٹ رہے کہ ایسے سیاست دانوں کی تعداد بہت کم ہوتی ہے اور گوجرانوالہ میں یہ حلف اٹھانے کی ضرورت کیوں پیش آئی کیونکہ حالیہ بلدیاتی الیکشن میں کنٹونمنٹ بورڈ سے کامیاب ہونے والے دو آزاد ممبران آپس میں اتحاد قائم رکھنے کے لئے اﷲ کی کتاب کو ضامن رکھ کر ایک معاہدہ کیا اور ایک دوسرے کو اپنا ساتھ نہ چھوڑنے کیلئے پابند کرکے اس بات پر راضی کر لیا کہ تم وائس چئیر مین بننا میں تمہارا نام پیش کرونگا مگر حقائق پر سے اس وقت پردہ اٹھ گیا جب موصوف نے اپنا نام وائس چئیرمین شپ کے لئے پیش کر دیا یوں اس حلف کی پاسدار ی باقی نہ رہ سکی اور دونوں کا اتحاد بھی اب سرے سے ختم ہوچکا ہے ،بحر حال مسلم لیگ ن کے پاس اب 9ممبران ہیں جبکہ تحریک انصاف کے پاس صرف 3ہیں جو کہ بلے کے نشان پر کامیاب ہوئے ہیں اور مسلم لیگ ن کے پاس 5ممبران ایسے ہیں جو شیر کے نشان پر کامیاب ہوئے ہیں 2آزاد اور 2سپیشل سیٹوں پر کامیاب ہوئے ہیں مگر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ 9میں سے 7ممبرا ن خود کو وائس چئیر مین کے لئے امیدوار سمجھتے ہیں جس سے پارٹی میں عجیب و غریب قسم کی صورت نظر آتی ہے اور راہوالی بھر میں یہ ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے کہ حمزہ شہباز شریف نے ظفر اﷲ سوہی کو وائس چئیر مین کا امیدوار نامزد کر دیا ہے جبکہ عوامی رائے اس کے بر عکس ہے مسلم لیگی کارکنان کے نزدیک یہ بات زیادہ گھر کرتی نظر آتی ہے کہ شیر کے نشان پر جیتنے والے کسی ممبر کو وائس چئیر مین کے لئے امیدوار نامزد کیاجائے میاں ندیم اکرم کو مدنظر رکھتے ہوئے جس کو وہ نامزد کریں اس کو امید وار نامز د کیا جائے کیونکہ میاں ندیم اکرم کا نام یا ان کے گھرانے کی مسلم لیگ (ن ) سے وفا داریاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں ان کی رائے کا احترام کرنا بھی پارٹی کیلئے نہایت اہم ہے کیونکہ میاں ندیم اکرم پارٹی کو ٹوٹ پھوٹ کا شکار کرنے سے قربانی دینے کو افضل سمجھیں گے ۔اگر دوسری طرف دیکھا جائے تو ظفر اﷲ سوہی نے اقتدار حاصل کرنے کے لئے بے شمار قلا بازیاں لگائیں ہیں اس لئے شیر کے نشان سے جیتے ہوئے ممبر کو نامزد کرنا مقبول ترین فیصلہ ہوگا کیونکہ راہوالی اور اس کے گرد و نواح میں 50ہزار سے زائد ووٹرز موجود ہیں مگر راہوالی کا مقامی نہ تو کوئی ایم این ہے اور نہ ہی کوئی ایم پی اے ہے اور اگر مقامی قیادت نے مقبول فیصلہ کیا تو مستقبل میں اس فیصلے کے ثمرات انہیں کو حاصل ہونگے اور مسلم لیگ ن کے نامزد کردہ امیدوار کی کامیابی پر ہی مقامی قیادت مسلم لیگی قائدین کے سامنے سرخروہوسکیں گے دیکھتے ہیں کہ اب مقامی قیادت مقبول فیصلہ کرکے 50ہزار ووٹرز کی نمائندگی کرتی ہے یا پھر ایک ممبر کو بچانے کے لئے غیر مقبول فیصلہ کرکے ورکروں کی امیدوں پر پانی پھیرتے ہیں ۔
 
Malik Touseef Ahmed
About the Author: Malik Touseef Ahmed Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.