خوشی کی لہروں میں غموں کا سیلاب

15اگست بروز ہفتہ کی صبح موبائل پہ کچھ برقی پیغامات دیکھ رہاتھا کہ غلطی سے ایک کال لگ گئی جو میں نے فوراَ کاٹ دی ،چند لمحوں بعد مجھے ایک کال آئی فون سنا تو دوسری طرف سے آواز آئی کے جاوید بھائی کیا آپ نے مس کال دی تھی میں نے کہا نہیں بدر بھائی غلطی سے کال لگ گئی تھی انھوں نے کہا کوئی بات نہیں اسی بہانے آپ سے سلام دعا ہو گئی ۔دوسرے دن اتوار کواجتماع ارکان تھا زون کے کچھ رفقاء پر نظر پڑی اور کچھ کو نہ دیکھ سکا لیکن یہ ذہن میں نہیں تھا کہ پابندی سے اجتماعات میں آنے والے ایک ساتھی آج یہاں آنے کے بجائے کہیں اور چلے گئے ۔جب تین بجے گھر پہنچے تو عبید کے پاس امیر زون اسحق تیموری صاحب کا فون آیا کہ بدر عالم صاحب اپنی فیملی کے ساتھ ساحل سمندر پر گئے تھے جہاں اس خاندان کے آٹھ افردابدر عالم سمیت ڈوب گئے چار کو بچا لیا گیا اور چار جاں بحق ہو گئے بدر عالم صاحب کے بارے میں کنفرم نہیں ہوسکا وہ زخمی ہیں یا خدا نہ خواستہ شہید ہو گئے ۔تھوڑی دیر بعد اطلاع آگئی کے بدر صاحب بھی شہید ہونے والوں میں ہیں دماغ تو جیسے سن ہو کر رہ گیا کہ اچانک یہ کیا غیر متوقع خبر سننے کو ملی۔
بدر عالم صاحب جماعت اسلامی کے بہت پرانے کارکن تھے یہ پہلے بہار کالونی میں رہتے تھے وہاں پہلے وہ اسلامی جمعیت طلبا سے وابستہ ہوئے پھر جماعت اسلامی کے کارکن بنے اب سے تقریباَ 15سال قبل لیاقت آباد منتقل ہوئے یہاں وہ فعال کارکنان میں سے تھے اور تین سال سے حلقہ بی ایریا کے ناظم تھے ۔پچھلے سال یہ رکن بھی بن گئے تھے اس سے پہلے ہم جب بھی رکنیت کی بات کرتے تو بدر صاحب کہتے میں چونکہ سرکاری الیکٹریکل کنٹریکٹر ہوں مجھے اپنے بلوں کے سلسلے میں رشوت وغیر ہ بہ حالت مجبوری دینا پڑتا ہے اس لیے جب یہ سلسلہ چھوڑ دوں گا تو رکنیت کے لیے درخواست دوں گا پھر معلوم ہوا کے انھوں نے سرکاری ٹھیکیداری چھوڑ دیا اور اپنا پرائیویٹ سیٹ اپ بنایا ہے پھر انھوں نے امیدوار رکنیت کا فارم پر کیا اور جلد ہی وہ رکن بن گئے اپنی فعالیت کے اعتبار سے تو وہ رکن ہی تھے لیکن ایک ٹکنیکل مسئلے کی وجہ سے رکے ہوئے تھے ۔

حادثے کی جو تفصیلات بعد میں سامنے آئی وہ بڑی عجیب تھی عموماَ جب ایسی خبریں سننے کو ملتی ہے ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ لوگ سمندر میں نہاتے ہوئے زیادہ آگے نکل گئے ہوں گے اور کوئی تیز لہر انھیں اپنے ساتھ بہا کر لے گئی۔لیکن اس کیس میں تو کوئی بھی نہیں نہارہا تھا بلکہ بدر صاحب کے علاوہ ان کے تین بھانجے جو ڈوبے ہیں وہ تو ہٹ میں بیٹھے ہوئے تھے بدر صاحب ایک ٹیلے پر اپنی اہلیہ اور بیٹی کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے اور پانی ان کی پنڈلی تک تھا جب کوئی لہر آتی تو پانی اچھل کر کچھ اوپر آجاتایہ شاید باتوں میں محو تھے کہ اچانک ایک بڑی لہر آئی جس کے پریشر سے ان کی اہلیہ سلپ ہو گئیں بدر صاحب نے اپنی اہلیہ کو پکڑکر بچانا چاہا کہ وہی لہر جب واپس ہوئی تو عدم توازن کا شکار ان تینوں افراد کو اپنے ساتھ لے گئی کیونکہ بیٹی نے بھی باپ کو سختی سے پکڑا ہوا تھا اس لیے وہ بھی ان کے ساتھ ڈوب گئی ادھر ان کے دیگر لوگوں میں چیخ پکار مچ گئی تو بدر صاحب کی سسٹر ان لاء کے دو بیٹے طلحہ اور معراج چیختے ہوئے بھاگے کہ خالو کہاں گئے خالو کہاں گئے ۔یہ کہتے ہوئے انھوں نے بھی پانی میں چھلانگ لگادی اور ساتھ ہی بدر صاحب کی بہن کا بیٹا یعنی ان کا بھانجا معظم علی بھی ماموں کی محبت میں پانی میں کود گیا جب بدر صاحب ڈوبے تو چند لمحوں بعد ایک زور دار لہر نے ان کی اہلیہ کو ساحل کی طرف پھینک دیا جس سے ان کے شدید چوٹیں آئیں اور پانی بھی جسم میں بھر گیا تھا اس لیے ہسپتال میں انھیں آئی سی یو میں رکھنا پڑا ادھر غو طہ خوروں نے ڈوبنے والوں کی تلاش میں سمندر میں دور تک گئے اور پانچ دس منٹ بعد وہ دونوں باپ بیٹی کو لے کر آگئے حیرت کی بات ہے کہ سولہ برس کی بیٹی کو جو شدید زخمی تھی اسی وقت لوگوں نے روایتی طبی امداد دی یعنی اس کے جسم سے پانی وغیرہ نکالا گیا وہ ہوش میں آگئی اور نارمل ہو گئی البتہ سکتے کی کیفیت میں تھی لیکن بدر صاحب کی روح ایسا لگتا ہے کہ پانی کے اندر ہی پرواز کر چکی تھی کہ جب انھیں باہر لایا گیا تو ان کی سانس نہیں تھی ہسپتال والوں نے بھی ان کی موت کی تصدیق کردی ۔تھوڑی دیر کے بعد غوطہ خور بدر صاحب کے بھانجے معظم علی کی بھی ڈیڈ باڈی نکال لائے وہ بھی جاں بحق ہو چکے تھے بدر صاحب کی اہلیہ کی بہن کے دو بیٹوں میں سے ایک بیٹے طلحہ کی لاش مل گئی البتہ دوسرے بیٹے معراج کی باڈی اتوار کی رات تک نہیں ملی تھی ۔

ناظم آباد نمبر 2 کی حور مارکیٹ کے فلیٹ میں بدر عالم صاحب کی دو سسٹر ان لاء رہتی ہیں اس لیے تمام رشتہ دار یہاں پر ہی جمع ہوئے تھے اور یہیں سے بیس افراد اتوار کی صبح روانہ ہوئے جب لوگ راستے میں ایک دوسرے سے ہنسی مذاق کرتے ہوئے جارہے ہوں گے تو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ ہوگا کہ ان میں سے کچھ لوگ اپنی موت کا سفر طے کررہے ہیں بلکہ جو لوگ ڈوب کر شہید ہوئے ان کے ذہن میں بھی دور دور تک یہ بات نہیں ہو گی کہ ملک الموت سے ملاقات کرنے جارہے ہیں ۔دل کو بے چین کرنے والی بات تو یہ ہے کہ ان میں سے کوئی سمندر میں نہارہا تھا نہ تیر رہا تھا اس کے باوجود چونکہ سمندر کے پانی میں ان کی موت لکھی تھی اس لیے انھیں جانا پڑا۔ ہم جب سمندر کے پانی میں کھڑے ہوتے ہیں اور لہروں کو اپنی طرف آتا دیکھتے ہیں تو بڑی خوشی سے اس کا استقبال کرتے ہیں کبھی کبھی تھوڑا سا جھک کر سر کو بھی بھگو لیتے ہیں لیکن ہمیں کیا پتا کہ ان لہروں میں سے کوئی ایسی بھی لہر ہوتی ہے جو بظاہر تو خوش خوش آتی ہے لیکن ہمیں غموں کا سیلاب دے جاتی ہے ۔کچھ یہی معاملہ بدر عا لم صاحب کے خاندان کے ساتھ ہوا کہ یہ سمندر کی لہروں سے لطف اندوز ہو رہے تھے اور اسے دیکھ کر خوش ہو رہے تھے کہ ان ہی میں سے ایک لہر آئی جو اس خاندان کو غموں کا سیلاب دے گئی ۔

ناظم آباد سے جو دو بھائی گئے تھے ان میں ایک طلحہ کی ڈیڈ باڈی مل گئی تھی اس لیے اتوار کی رات کو ہی ان کے گھر کر قریب مسجد اقصیٰ میں بعد عشاء ان کی نماز جنازہ ہوئی اور پاپوش نگر کے قبرستان میں تدفین ہوئی ۔بدر صاحب کے بھانجے معظم علی کی گلشن اقبال میں اسی دن یعنی اتوار کی رات کو تدفین ہوئی ۔

دوسرے دن صبح دوسرے بھائی معراج کی ڈیڈباڈی بھی مل گئی اس لیے پیر 17اگست کو بعدنماز ظہر لیاقت آباد بی ایریا کی مسجد ریاض الجنہ میں بدر صاحب اور ان کے بھانجے معراج کی نماز جنازہ پرھائی گئی ،معراج کو پاپوش نگر کے قبرستان میں اور بدر عالم صاحب کو النور سوسائٹی کی انڈسٹریل ایریا کے قبرستان مین سپرد خاک کیا گیا ۔نماز جنازہ میں جماعت اسلامی کراچی کے میڈیا کوارڈینیٹرزاہد عسکری ،جماعت اسلامی ضلع وسطی کے امیر منعم ظفر، قیم محمد یوسف ،ضلع کے نائب امیر خالد صدیقی نائب قیم حسین احمد مدنی ،جماعت اسلامی لیاقت آباد کے امیر زون اسحاق تیموری ،نائب امراء شہاب الدین ،جاویداحمد خان ،مسعود علی ،شاہد محمود ،قیم عبید احمد خان ،نائب قیمین اعظم علی اور فیصل ممتاز کے علاوہ مرحومین کے رشتہ دار ،اہل محلہ اور جماعت کے کارکنان کی ایک بڑی تعداد موجود تھی ۔

بدر عالم انتہائی ملنسار ،خوش اخلاق ،ہنس مکھ،اور وسیع رابطہ رکھنے والے تحریکی کارکن تھے اپنا پرائیویٹ کار وبار سیٹ کرنے کے سلسلے میں وہ مصروف بھی رہتے تھے اور کچھ پریشان بھی لیکن کسی سے اس کا ذکر نہیں کرتے تھے وہ بڑے خوددار فرد تھے ،اہلیہ کے علاوہ ان کی تین بیٹیاں ہیں وہ ایک ایسے ناظم حلقہ تھے جو اپنے حلقے کے ارکان اور کارکنان سے اجتماعات سے ہٹ کر ملاقاتیں کرتے تھے اور سب سے ذاتی روابط بھی رکھتے تھے ہماری دعا ہے اﷲ تعالیٰ ان کی اور ان کے تینوں بھانجوں کی لغزشوں سے در گزر فرمائے ان کو اپنے جوار رحمت میں جگہ دے اور لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔آمین

Jawaid Ahmed Khan
About the Author: Jawaid Ahmed Khan Read More Articles by Jawaid Ahmed Khan: 80 Articles with 50190 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.