حق و باطل

 ساری تعریفیں ذات وحدہٗ لاشریک کے لئے مخصوص ہیں جس کے قبضۂ قدرت میں ہم سب کی جان ہے اور درود و سلام ذوات عصمت وطہارت سرکار چہاردہ معصومین علیہم السلام پر ، جن کے صدقے میں اللہ سبحانہٗ تعالیٰ نے عالمین کو خلق کیا اور زینت بخشی اوراب تک کاروان کائنات ان کی سرپرستی میں رواں دواں ہے ، احسانِ عظیم ہیں ان ہستیوں کا کہ جنھوں نے اپنی شمع زندگی کی روشنی سے سلیقۂ بندگی ،معرفت الٰہی کے روشن و پراسرار پہلو متعرف کرائے، اگر یہ ہستیاں نہ ہوتی تو اس ذات وحدہٗ لا شریک کی معرفت رکھنے والا کون ہوتا ،اگر یہ ہستایں نہ ہوتیں تو نا آسمان کا شامیانہ ہوتا، نہ زمین کا فرش ، نہ آفتاب و مہتاب کی قندیلیں ہوتی ، نہ ستاروں کی انجمن۔ اور ان سب کا وجود ‘‘محبت محمدؐ و آل محمدؐ’’ کی دلیل حق ہے۔یہ اللہ کی حجت اور اس کی قدرت کا عظیم شاہکار ہیں ۔

وہ خالق کائنات یہ مالک کائنات ، وہ خالق جنت یہ مالک جنت ، وہ خالق تسنیم و کوثر یہ مالک تسنیم و کوثر، وہ موت و حیات کا خالق اور ان کی گرفت میں تقدیر موت و حیات۔ وہ سورج بنانے والا یہ سورج پلٹانے والے ، وہ چاند بنانے والا یہ چاند کو دو ٹکڑوں میں کرنے والے ، وہ ستارے بنانے والا اور یہ ستارے کو اپنے در پر بلانے والے ۔ اگر ان حقائق کو جاننے کے بعد بھی کوئی عظمت محمدؐ آل محمدؐ سے کنارہ کشی اختیارکرے تو کیااللہ سے وہ اپنی قربت کا دعویٰ کر سکتا ہے ، کیا جنت کی نعمتیں اپنی تقدیر میں لکھوا سکتا ہے ، کیا وہ کوثر وتسنیم کے ایک گھونٹ کا بھی حقدار ہے ۔ یہ عالم اسلام کے لئے انتہائی دشوار کن لمحۂ فکریہ ہے کہ وہ کہاں ، کیوں ،کیسے اور کس کی رہبری میں جا رہے ہیں؟ اس کا جواب عالم اسلام کے کسی بھی فرد کے پاس ہو تو لائے۔ اوراگر آج بھی اس سوال کا جواب پیشانیٔ عالم اسلام پر سبب شکن بنا ہوا ہے تو میری یہی رائے ہے کہ عالم اسلام اس در پر آئے کہ جس در پر ہر دور میں سائل اپنا مدعا لے کر آئے اور مطمٔن ہو کر واپس پلٹے۔

یہ وسیع و عریض کائنات ، جگمگاتے ستارے ، یہ روشن چاند و سورج ، ہواؤں کا لامحدود سفر کیا کسی خالق کے ہونے کی دلیل پیش نہیں کر رہے ہیں۔اِن اَن گنت نعمتوں کا مشاہدہ کرنے کے بعد، کیا اب بھی عقل یہ سوچنے پر مجبور نہیں کہ
‘‘کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے’’

ان لامحدود عالمین کو بغیر دیکھے ہی ایک طرف تو رب العالمین کی قدرت اور الوہیت کا اندازہ ہوتا ہے اور دوسری طرف عظمت محمدؐ و آ ل محمدؐ کا ادراک بھی۔اور مودّت محمدؐ و آل محمدؐ کے ذریعہ ہی معرفت توحید کے زینے طئے ہو سکتے ہیں۔ورنہ معرفت توحید کو اپنی فکر میں جزب کرنا ہر بشر کے بس کی بات نہیں۔ہاں اگر عنایت پروردگار ہو جائے تو کچھ بعید نہیں کہ اس مشکل مرحلے کو باآسانی سر کر لیا جائے ، لیکن عنایت پروردگار کی حصول یابی میں ‘‘مودّت محمدؐ و آل محمدؐ’’ شرط اوّل ہے۔اسی شرط پر آدؑم کی دعا قبول ہوئی اور عہدۂ نبوت سے سرفراز ہوئے ، اسی شرط پر نوحؑ کو زہد ، موسیٰؑ کو ہیبت ، عیسیٰؑ کو مسیحائی ، ابراہیمؑ کو نبوت ، رسالت اور امامت عطا ہوئی۔مختصراً کاروان رسالت و نبوت انہیں کے فضل سے جاری رہا اور آج بھی گل گلشن عصمت ،میر کاروان طہارت ، تاجدار امامت و ولایت ،یوسف زہراؑ بحکم رب عز وجل ساکن غیبت ہے۔

لیکن افسوس ! ان تمام حقائق کو جاننے کے بعد بھی ملّت اسلامیہ حقیقت سے چشم پوشی اختیار کئیے ہوئے ہے ، آخر کیوں؟ کیا وجہ ہے یہ نظراندازی مصلحت کی بنا پر ہے یا پھر اس کی کوئی عمیق وجہ ہے ، اس کا جواب رہبران ملت اسلامیہ کے پاس ہو تو ہمیں آ گاہ کریں تاکہ ہم بھی حقیقت واقعی سے روبرو ہوسکیں۔

میری گفتگو کا مقصد کسی پر اپنے عقائد کو تھوپنا نہیں بلکہ ایک سوال ہے امت مسلمہ سے کہ جس راہ پر عمل پیرا ہیں کیا وہ رسول کریمؐ کی بتائی ہوئی ہے یا پھر غیروں نے اپنی ایک الگ راہ بنالی اور اس پر اسلام کا پرچم لگا دیا تاکہ امت پرچم دیکھ کر ان کے ساتھ ہو لے۔ لیکن حقیقیت تو یہ ہے کہ اس راہ کا اسلام سے کوئی رابطہ نہیں۔یہ امت کو گمراہ کرنے کا حربہ تھا جو اپنایا گیااور اپنایا جا رہا ہے اور اس حربے کو کامیاب بنانے میں امت کے ہی کچھ لوگوں کا ہاتھ ہے ؎
کسے خبر تھی کہ لے کر چراغ مصطفوی
جہاں میں آگ لگاتی پھرے گی بو لہبی

تاریخ گواہ ہے کہ اسلام کو سب سے زیادہ خطرہ اور دشواریاں امت مسلمہ اور نام نہاد مسلمانوں سے ہی ہوئیں۔یہ الگ بات ہے کہ ہر دور میں یہودونصاریٰ نے اسلام کے خلاف پروپگینڈے کیئے ،لیکن اوراق کتب شاہد ہیں کہ کچھ نام نہاد مسلمان بھی ان پروپگینڈو سے دور نہ تھے بلکہ کسی حد تک خاص شمولیت بھی رکھتے تھے جو وجود اسلام کے لئے انتہائی خطرناک ثابت ہوئے۔

دور حاضر میں چلا چلا کر اپنے آپ کو اسلامی حکومت کہنے سے نہ تھکنے والا سعودی عرب کتنا عالم اسلام اور مسلمانان اسلام سے باخبر ہے آپ اس کا مشاہدہ بخوبی کر سکتے ہیں۔حقیقتاً عالم عرب کو ہمدردی ہے لیکن امت اسلامیہ سے نہیں بلکہ اسرائیل و امریکہ سے کہ جو عالم عرب کی بے ہودگی، بے شرمی، عیاشی وعیاری اور دنیاوی عیش و عشرت میں ان کا ہمنوا ہے۔جو آج عالم اسلام کے ماتھے کا کلنک ہے جس کو مٹانا ہمارا فرض ہے ،لیکن کیسے؟ یہ ایک المیہ ہے کہ ہم نے عالم عرب کو دین اسلام کا اکیلا ٹھیکیدار سمجھ لیا اور ان کے باطلانہ رویوں ، اور منافقانہ سازشوں کو آئین اسلام سمجھنے لگے۔ تو کیا ان سب خرابیوں کے ہم کہیں نہ کہیں ذمہ دار تو نہیں؟ اسلامی حکومت کے ٹھیکےدار کتنا امت کے درد سے واقف ہیں یا مظلوم مسلمانوں سے روبرو ہیں اس کی تصویر آپ کو یمن ، عراق ، فلسطین ، پاکستان ،بحرین ، سیریا ،وغیرہ میں دیکھنے کو مل جائے گی۔ کہ کتنما اسلامی حکومت ان کے دکھ درد میں شریک ہے اور کتنے ان کے ہمدرد ہے ۔یہ ممالک مظلومین کے لہو سے سرخ ہو چکے ہیں بے شمار ہلاکتیں ، جن کا جرم کچھ نہیں صرف حق گوئی تھا ۔

اب آئیے ذرا اس حقیقت کو بھی جان لیں کہ اسلام اور مسلمان دو الگ الگ موضوع، عنوان ہیں ، جو اسلام میں ہے وہ مسلمان میں نہیں جو مسلمان میں ہے وہ اسلام میں نہیں ، دور ھاضرمیں مر بی میڈیا نے عالم عرب کے ساتھ مل کر مسلمانان عالم کی شبیہ کو اتنا خراب کر دیا ہے کہ آج مسلمانوں کو دہشت گردی کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے۔یہ مسلمانان عالم کے لئے ایک بہت بڑا لمحہ فکریہ ہے کہ ہم اپنی شبیہ کو دنیا کے سامنے کیسے پیش کریں کہ جس سے ہمارے متعلق بنائے گئے سارے پروپگینڈے مسترد ہو جائیں ، یہ ہماری ذمہ داری ہے جس کو ہم کسی دوسری قوم پر یہ کہہ کر نہیں تھوپ سکتے کہ فلاں قوم نے مسلمانوں کے حقوق ، عزت و وقارکو دنیا کے سامنے غلط طریقے سے پیش کیا جس کی وجہ سے مسلمان آج بدنامی کی زنجیروں میں جکڑے ہیں،انہوں نے ہمیں گرانے کی ساری کوششیں کر ڈالیں لیکن کیا ہم نے اپنے آپ کو اوپر اٹھانے کے لئے بھی کوئی سعی کی؟

آج ہماری جو حالت ہے اس کے اصل ذمہ دار ہم خود ہیں ۔اگر ہم میدان علم میں دینا والوں کے شانہ بہ شانہ چلتے تو کسی میں جرائت نہ ہوتی کہ ہماے خلاف ایک لفظ بولتا۔لیکن ہم نے اپنے آپ کو علم سے یہ کہہ کر دور کر دیا کہ ہم دنیاوی اور مادی چیزوں کے جال میں نہیں پھسنے والے ہمیں روحانی اور عرفانی علم درکار ہے جبکہ ہمیں یہ نہںا پتا کہ عرفانی علم بھی دنیاوی علم کے بغیر نہیں سمجھا سا سکتا۔اب اس مقام پر آکر ہمیں اپنی عقلوں کا ماتم کرنا چاہیئےکہ ہم کہاں سے کہاں پہونچ گئے جبکہ ہمارے پاس ہدایت کے ایسے سرچشمے موجود تھے کہ جن کی سرپرستی میں ہم دینا کی ہر کامیابی کو اپنے گلے سے لگا لیتے،لیکن افسسوس ہم نے ان سرچشمۂ ہدایت کی ایک نہ سنی ، ہم نے ان کو زوروشور سے مانا تو لیکن ان کی مانی نہیں۔ یہ ہماری سب سے بڑی غلطی ہے ۔مسلمان اس عظیم پیغمبر کے پیروکار ہیں جو اپنے علمی کمالات کی وجہ سے اپنے دشمنوں میں بھی محبوب تھے اپنے تو اپنے غیروں نے ان کے علم و فضل سے کسب فیض کیا لیکن آج ان کے پیرو کتنے علمی کمالات کے حامل ہیں اس کو بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔

آج ہمیں ضرورت ہے رہبری کی لیکن اس رہبری کی جو قوم و ملت کے مفاد میں ہو ، نہ کے اپنے مفاد کے لئے۔ہمارے کمزور ہونے کی سب سے بڑی وجہ غلط رہبری بھی ہے جنھوں نے اپنے لباس کے ذریعےقوم و ملت کو بے راہ کر دیااور قوم ان کے حربوں میں پھنستی چلی گئی ان کے پاس تو خزانوں کے ڈھیر لگ گئے لیکن قوم کو ایک وقت کی روٹی ملنا بھی مشکل ہو گیا۔ جب رہبر ہی رہہزن ہوں تو قوم کا بیڑا غرق ہو ہی جاتاہے۔آج ہم ٹکڑوں میں بٹے ہوئے ہیں لیکن کب تک؟ اس کا جواب شائد کسی کے پاس نہیں؟

خیر چھوڑیئے ! کیا رکھا ہے ان باتوں میں۔۔۔۔۔۔۔ کتنے لوگ یہی جملہ کہہ کر خاموشی اختیار کر لیں گے۔لیکن یہ خاموشی کیوں اور کب تک ؟ انصاف کا مقام ہے ،کہ ہم کب تک اپنے لبہائے نازک کو زحمت نہیں دیں گے۔
ہر کوئی مست مئے ذوق تن آسانی ہے
تم مسلماں ہو ! یہ انداز مسلمانی ہے

ان حقائق کو قرطاس پر لانے کا مقصد مسلمانان عالم کی دل آزاری کا قطعاً ارادہ نہیں ہے بس مسلمانوں کے بد ظن کو حسن ظن میں تبدیل کرنے کی غرض سے اس تلخ بیانی مگر حق بیانی سے کا م لیا ۔ہم اپنا جائزہ خود لیں پہلے ہم اپنی ذات کی اصلاح کرے،پھر اپنے اہل خانہ کی ،اس کے بعد اپنے اقرباو اعزا کی ، پھر دوستوں کی اس کے پاس پڑوس کی پھر کہیں جا کہ ہم زمانے بھر کی اصلاح کےحق دار ہوں گے۔جب ہم اپنی اصلاح کرنے کے لائق نہیں تو زمانے بھر کی اصلاح ہم کس حق سے کریں گے۔لہٰذا پہلے اپنی اصلاح کرئیے اور جب آپ کو مسوقس ہو کہ میں اپنے آپ کی اصلاح سے تبدیل ہوا تب قدم آگے بڑھائیے اور اگر آپ پر آپ ہی کی اصلاح کا کوئی نیک اثر مرتب نہ ہو تو پھر آپ کے لئے اب اپنی ذات کی نہیں بلکہ اپنے نفس کی اصلاح کرنا لازم ہے جسے ’’تزکیہ نفس‘‘ کہتے ہیں۔کیونکہ ذات انسانی کا تعلق نفس سے ہے اور ذات تب تک کہ منزل کمال پر نہیں پہونچ سکتی جب تک کہ نفس انسانی منزل کمال پر نہ ہو۔مختصراً جب نفس انسانی پاک ہوگا تو ذات انسانی بھی پاک ہوگی۔

گفتگو قدر طویل ہو گئی مزید طوالت کے خوف سے اسی مقام پر آپ سے اجازت چاہتا ہوں۔اس وصیت کہ ساتھ کہ جب بھی بولئیے حق بولیئے چاہے کم بولئیے ، جب بھی لکھیئے حق لکھیئےچاہے مختصر ہی کیوں نہ ہو ،جب بھی سنئیے حق سنئیے چاہے تلخ ہی کیو ں نہ ہو ، جب بھی سوچئیے حق سوچئیے چاہے ایک لمحہ ہی کے لئے ہو،حق پہچانئیے چاہے کتنے پردوں میں ہی کیوں نہ ہو حق سے کبھی منحرف نہ ہوجائیےگا ۔کیونکہ یہ حق سے منحرف ہونے کا ہی نتیجۂ بد ہے کہ امت مسلمہ آج منتشر ہے اور تب تک منتشر ہی رہے گی جب تک اسے ادراک حق وباطل نہیں ہو جاتا۔

حرف آخر میں گزارش ہے کہ میری کوئی بات نگوار گزری ہوتو مجھے آ گاہ کر دیں نہ کہ حلقۂ احباب واغیار میں موضوع بحث بنائیں کیونکہ بحث کا نتیجہ کچھ نہیں ہے ، ہاں ! غور و فکر کریں تو نتائج یقیناً اخز ہوں گے۔میں نے بہت کوشش کی تھی کہ درد دل قرطاس پر رقم کرنے سے گریز کروں لیکن درد دل چھپ نا سکا اور قلم نے بھی ساتھ دیا گویاقلب وقلم نے اتحاد کر لیا تھا کہ درد دل بیاں ہو کر رہے گا اور ہو بھی گیااور یہ درد دل صرف میرا نہیں بلکہ ہر اس آدمی کا ہے جس کے دل میں حرارت حق ہے۔
syed mohd iqbal rizvi
About the Author: syed mohd iqbal rizvi Read More Articles by syed mohd iqbal rizvi: 2 Articles with 1998 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.