اللہ کا دین مکمّل ہے۔ اِسلام میں فرقے ہیں نہ فرقوں میں اِسلام۔ حِصّہ۔ 3

بسم اللہ الرحمن الرحیم

(20)- اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور آپس میں متفرق نہ ہو، اور یاد کرو اللہ کی نعمت کو جو تمہارے اوپر ہے جبکہ تم دشمن تھے سو اللہ نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا فرما دی لہٰذا تم اس کی نعمت کی وجہ سے بھائی بھائی ہو گئے اور تم دوزخ کے گڑھے کے کنارے پر تھے سو اللہ نے تم کو اس سے بچا دیا۔ اللہ ایسے ہی بیان فرماتا ہے تمہارے لیے اپنی آیات تاکہ تم ہدایت پر رہو۔ (ترجمہ انوار البیان، مترجم مولانا عاشق الٰہی صاحب، 1430ہجری-2009عیسوی)
اللہ تعالیٰ کی نعمت کی یاد دہانی:
پھر فرمایا (وَ اذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ کُنْتُمْ اَعْدَآءً) (الآیۃ) کہ تم اللہ کے انعام کو یاد کرو جبکہ تم دشمن تھے اللہ نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا فرمائی لہٰذا تم اللہ کی نعمت سے بھائی بھائی بن گئے اور دوزخ کے گڑھے کے کنارہ پر تھے اللہ نے تم کو بچا لیا۔ دوزخ کے کنارہ پر ہونا تو ظاہر ہی ہے کیونکہ اوس اور خزرج دونوں قبیلے کافر اور مشرک تھے اور ان کی آپس کی دشمنی کا یہ عالم تھا کہ بقول ابن اسحق اوس اور خزرج میں ایک سو بیس سال تک جنگ جاری رہی تھی جب دونوں قوموں نے اسلام قبول کیا تو وہ جنگ کی آگ اللہ نے بجھا دی ان کے درمیان اللہ نے الفت پیدا فرما دی۔ (درمنثور صفحہ ٦۱: ج ۲)
آخر میں فرمایا (کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْنَ) کہ اللہ اسی طرح تمہارے لیے اپنی آیات بیان فرماتے ہیں تاکہ تم ہدایت پر رہو۔
ضروری تنبیہ: مذکورہ بالا آیات میں اول تو تقویٰ کا حکم فرمایا اور یہ فرمایا اللہ سے ڈرو جیسا کہ ڈرنے کا حق ہے۔ پھر فرمایا کہ جب مرو تو اسلام ہی کی حالت میں مرو، شیطان کے بہکانے سے یا دشمنوں کے ورغلانے سے یا دنیا کی محبت کی وجہ سے اسلام کو چھوڑ کر کفر اختیار مت کرو۔ پھر سب مسلمانوں کو اتفاق کے ساتھ مجتمع رہنے کی ہدایت فرمائی سب کو معلوم ہے کہ اتفاق و اتحاد ہر قوم کی قوت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ اور اتفاق اس وقت ہی ہو سکتا ہے جب کہ ہر قبیلہ ہر قوم ہر علاقہ کے لوگ اسلام کی قوت اور ساکھ برقرار رکھنے کے لیے اپنے اپنے جذبات کو دبا کر رکھیں۔ مسلمانوں کا پورے عالم میں ایک ہی امیر المومنین ہونا چاہیے اور مشرق سے مغرب تک تمام مسلمانوں کا ایک ہی ملک ہو تو اس قوت کا کیا عالم ہو گا اس کو غور کر لیں۔ دشمنوں نے جو عصبیتیں بیدار کر دی ہیں کہ عربی عجمیوں کے ماتحت کیوں رہیں اور عراقی اور شامی اور یمنی حجاز کے ماتحت کیوں رہیں اور سندھی پنجابیوں کے ماتحت کیوں رہیں اور بنگالی پٹھانوں کے ماتحت کیوں رہیں اور غیر بنگالی بنگالیوں کے ماتحت کیوں رہیں ان باتوں نے کثیر تعداد میں مسلمانوں کے چھوٹے چھوٹے ملک بنا دئیے ہیں پھر دشمن نے ان ملکوں کے سر براہوں پر سیاسی یا نظریاتی قبضہ کر رکھا ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ارشاد فرمایا ہے کہ اگر تمہارا امیر ایسا شخص بنا دیا جائے جس کے ناک کان کٹے ہوئے ہوں جو تمہیں اللہ کی کتاب کے ذریعہ لے کر آگے چلتا ہو اس کی بات سنو اور اطاعت کرو۔ (رواہ مسلم صفحہ ۱۲۰: ج ۲) ایک اور حدیث میں ارشاد فرمایا کہ بات سنو اور اطاعت کرو اگرچہ تم پر ایسے شخص کو عامل بنا دیا جائے جو حبشی غلام ہو گویا کہ اس کا سر کشمش کی طرح چھوٹا سا ہو۔ (رواہ البخاری صفحہ ۱۰۵: ج ۲)
حضرت عبادۃ بن الصامت (رض) سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا کہ ہم نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے بیعت کی کہ بات سنیں گے اور فرمانبرداری کریں گے تنگی میں بھی اور آسانی میں بھی، خوشی میں بھی اور ناخوشی میں بھی اور اس بات پر بھی کہ صاحب اقتدار سے جھگڑا نہ کریں گے ہاں اگر بالکل ظاہر باہر کفر نظر آئے جس کے بارے میں ہمارے پاس اللہ کی طرف سے کھلی ہوئی دلیل ہو تو اس وقت ہم اس سے جھگڑا کریں گے۔ (رواہ مسلم صفحہ ۱۲۵: ج ۲)
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ امیر المومنین کیسا ہی ہو اس کے ساتھ چلنا چاہیے۔ بشرطیکہ اللہ کی کتاب کے ذریعہ لے کر چلتا ہو۔ اپنی رائے اور منشاء کے موافق ہو تب بھی فرمانبر داری کریں اور اپنی رائے اور منشا کے مخالف ہو تب بھی فرمانبر داری کریں۔ اگر ہمارے اوپر دوسروں کو ترجیح دی جاتی ہو تب بھی بات مانیں اور اطاعت کریں۔ اگر کالے حبشی کو امیر بنا دیا جائے تب بھی اطاعت کریں۔ حبشی کی مثال دینے سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے رنگ اور نسل کا سوال ختم فرما دیا اور یہ جو فرمایا کہ اگر امیر کے ناک کان کٹے ہوئے ہوں تب بھی بات سنیں اور اطاعت کریں۔ اس سے صورت اور شکل کا سوال ختم فرما دیا۔ پھر عبد حبشی فرما کر یہ بتا دیا کہ اگرچہ آئمہ قریش سے ہونے چاہئیں، لیکن اس کے خلاف کسی غلام کو بھی اقتدار دے دیا جائے تب بھی اس سے جڑے رہو بعض مرتبہ امیر کی رائے سے اختلاف ہو جاتا ہے اور اس کی رائے خطا معلوم ہوتی ہے اور یہ معلوم ہوتا ہے اس نے صحیح فیصلہ نہیں کیا اس کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ باوجود اختلاف رائے کے جھگڑا نہ کریں ہاں اگر بالکل ہی دلیل واضح سے یہ معلوم ہو جائے کہ اس کا فیصلہ بالکل کا فرانہ فیصلہ ہے اور تم اس کی دلیل اللہ پاک کے حضور میں دے سکتے ہو تو اس سے منازعت کرسکتے ہو۔ امیر اور مامورین کے بارے میں احادیث تو اور بھی ہیں لیکن ان چند احادیث میں ایسے چند امور ارشاد فرما دیئے جن کو اختیار کرنے سے امت کا شیرازہ بندھا رہ سکتا ہے اور وحدت قائم رہ سکتی ہے سارے مسلمان اللہ کی رسی کو مضبوط تھامیں صاحب اقتدار یا عوام یا جماعتیں دشمنوں کا کھلونا نہ بنیں نہ کسی کے ہاتھ بکیں وحدت اسلامیہ کو قائم رکھنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ باوجود یکہ زبانیں مختلف ہوں جغرافیائی اعتبار سے مختلف علاقوں کے رہنے والے ہوں لیکن سب اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑے ہوئے ہوں۔ زبانوں کے اختلاف کو اور اختلاف رائے اور فروعی مسائل کو جنگ وجدال اور اختلاف کا ذریعہ نہ بنائیں اور پہلے سے دیکھ کر متقی آدمی کو امارت اور خلافت سونپیں، یورپ سے آئی ہوئی جمہوریت جاہلیہ کو ذریعہ انتخاب نہ بنائیں۔ جو فاسقوں بلکہ کفریہ عقائد رکھنے والوں کو بھی اقتدار اعلیٰ اور اقتدار ادنیٰ دلوا دیتی ہے۔
افتراق کے اسباب، اتحاد کا طریقہ:
اس آیت میں اول تو اجتماعیت کا طریقہ بتایا (وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا) پھر افتراق سے منع فرمایا اور واضح طور پر بتایا (وَ اَنَّ ھٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ وَ لَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہٖ) (آپ فرما دیجیے کہ بلاشبہ یہ میرا راستہ ہے جو مستقیم ہے لہٰذا تم اس کا اتباع کرو اور دوسری راہوں پر مت چلو وہ راہیں تم کو اللہ کی راہ سے جدا کر دیں گی) مسائل فرعیہ میں جو آئمہ کا اختلاف ہے وہ اتحاد و اتفاق سے مانع نہیں ہے صدیوں سے حنفیہ، شافعیہ، مالکیہ، حنبلیہ، ساتھ ساتھ چلتے رہے ہیں اور آپس میں ایک دوسرے کا احترام کرتے رہے ہیں۔
حضرات صحابہ (رض) میں بھی مسائل میں اختلاف تھا لیکن وہ باوجود اختلاف کے آپس میں شیرو شکر ہو کر مجتمع رہے۔ اگر کہیں شدید اختلاف ہو گیا تو وہ بھی اللہ ہی کے لیے تھا۔ کسی سے خطا اجتہا دی ہو گئی یہ دوسری بات ہے لیکن مقصد کسی کا دین اسلام کے خلاف چلنا نہ تھا، البتہ اصحاب ہویٰ (جنہیں اپنی خواہشات پرچلنا ہے) اہل حق کے ساتھ جمع نہیں ہو سکتے۔
بحوالہ درمنثور روایت گذر چکی ہے کہ اوس اور خزرج میں ۱۲۰ سال سے لڑائی چلی آ رہی تھی وہ اسلام قبول کرنے پر ختم ہو گئی اور سب آپس میں بھائی بھائی ہو گئے جس کو اللہ تعالیٰ شانہٗ نے (وَ اذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ کُنْتُمْ اَعْدَآءً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖٓ اِخْوَانًا) میں یاد دلایا ہے۔ اتنی پرانی دشمنی محبت سے بدل سکتی ہے تو دور حاضر کے مسلمانوں کے آپس کے صوبائی اور لسانی اور سیاسی اختلافات وحدت اسلامیہ کو قائم کرنے کے لیے کیوں ختم نہیں ہو سکتے جو زعماء سیاست ہیں، جنہیں اسلام سے تعلق ہی نہیں وہ برملا اسلام سے اپنی برأت ظاہر کرتے ہیں۔ اسلام کے قوانین پر اعتراض کرتے ہیں عجیب بات ہے کہ اسلام کا کلمہ پڑھنے والے انہیں کے پیچھے لگے ہوے ہیں اور بہت سے لوگ ایسے ہیں جو حدود کفر میں تو داخل نہیں ہوئے لیکن وحدت اسلامیہ سے زیادہ انہیں اپنا اقتدار محبوب ہے ان حالات میں وحدت کیسے قائم ہو؟
جو لوگ نام کے مسلمان ہیں لیکن اپنے عقائد کی وجہ سے اور اسلام پر اعتراض کرنے کی وجہ سے حدود کفر میں داخل ہیں (عَلٰی شَفَا حُفْرَۃٍ مِّن النَّار) ان پر بھی صادق ہے یہ لوگ سچے دل سے صحیح معنی میں اسلام قبول کریں تو عذاب دوزخ سے بچ جائیں گے اللہ کی آیات ہمیشہ کے لیے ہیں۔ (کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْنَ)۔ (تفسیر انوار البیان، مفسر مولانا عاشق الٰہی صاحب)
(21)- اور اللہ کی رسی ۱۳۲* کو سب مل کر ۱۳۳* مضبوط پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو ۱۳٤* اور اللہ کے اس فضل کو یاد کرو کہ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے ۱۳۵* تو اس نے تمہارے دلوں کو جوڑ دیا اور اس کے فضل سے تم بھائی بھائی بن گئے۔ تم آگ کے ایک گڑھے کے کنارے کھڑے تھے تو اس نے تمہیں بچا لیا۔ اس طرح اللہ اپنی آیتیں (ہدایات) واضح فرماتا ہے تاکہ تم راہ یاب ہو ۱۳٦*۔ (ترجمہ دعوت قرآن، مترجم شمس پیرزادہ صاحب)
۱۳۲ ۔۔ حبل (رسی) سے مراد اللہ کی کتاب (قرآن) ہے جو بندوں کو خد اسے جوڑتی ہے اور جس کی حیثیت عہد اور میثاق کی ہے اس لئے اس کو تھامنا خدا کو تھام لینے کے ہم معنی ہے حدیث میں آتا ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا : کتاب اللہ ھو حبل اللہ الممدود من السماء الی الارض (اللہ کی کتاب ہی اللہ کی رسی ہے جو آسمان سے زمین تک تنی ہوئی ہے) (ابن کثیر ج ۱، ص ۳۸۹، بحوالہ طبری)
۱۳۳ ۔۔ یعنی مسلمان صرف فرداً فرداً ہی نہیں بلکہ اجتماعی حیثیت میں بھی قرآن کو مضبوطی کے ساتھ تھام لیں اور امت کے اندر اسی کتاب کو مرکزی حیثیت حاصل ہو اور وہ اس کے ساتھ گہری وابستگی اختیار کریں۔
۱۳٤ ۔۔ تفرقے اس صورت میں برپا ہوتے ہیں جبکہ کتاب الٰہی کے ساتھ تعلق کمزور پڑ جاتا ہے اور عملاً اس کو نقطۂ ارتکاز ، مرجع اور معیار قرار نہیں دیا جاتا گو اظہارِ عقیدت کا سلسلہ برابر جاری رہتا ہے۔ کتاب الٰہی کو توجہات کا مرکز قرار دینے کے بجائے شخصیتوں کے اقوال اور ان کی کتابوں کو ضرورت سے زیادہ اہمیت دی جاتی ہے اور پھر عقیدت مندی کے جو حلقے وجود میں آتے ہیں وہ اپنے اپنے "امام" اپنے اپنے "صوفی" اپنے اپنے "بزرگ" اپنے اپنے "قائد " اور اپنے اپنے "علامہ " کی رسی کو اتنا مضبوط پکڑ لیتے ہیں کہ اللہ کی رسی " قرآن " کے ہاتھ سے چھوٹ جانے کا ذرا احساس نہیں ہوتا۔ نتیجہ یہ کہ شدید اختلافات اور فرقہ بندیاں امت کے اندر ابھرنے لگتی ہیں اور ملت کا شیرازہ منتشر ہو جاتا ہے۔
افسوس کہ ا س تنبیہ کے باوجود مسلمانوں میں فرقہ بندیاں ہوئیں۔ یہ فرقہ بندیاں اسی صورت میں ختم ہوسکتی ہیں جبکہ مسلمان بلا لحاظ فرقہ و مسلک کتاب اللہ کو وہی حیثیت دیں جس کی وہ مستحق ہے اور اس کے ساتھ گہری وابستگی اختیار کریں۔
۱۳۵ ۔۔ اشارہ ہے عربوں کی باہم دشمنی کی طرف جس کے نتیجہ میں ایک قبیلہ دوسرے قبیلے سے برسر پیکار ہوتا تھا۔
۱۳٦ ۔۔ یعنی اس دین کی قدر کرو جس نے تمہارے اندر اخوت اور کمال درجہ کی یکجہتی پیدا کر دی۔ معلوم ہوا کہ اسلام ہی وہ بنیاد ہے جس کو صحیح طور سے اپنانے کی صورت میں انسانی معاشرہ کے اندر حقیقی معنی میں برادرانہ تعلقات ، کامل یکجہتی اور جذباتی ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے۔ (تفسیر دعوت قرآن، مفسر شمس پیرزادہ صاحب)
وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيْعًا : اللہ کی رسی سے مراد کتاب اللہ ہے، سیدنا زید بن ارقم (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا: ’’خبردار ہو جاؤ! میں تم میں دو بھاری چیزیں چھوڑ رہا ہوں، ان میں سے ایک اللہ عزوجل کی کتاب ہے، وہ اللہ کی رسی ہے، جس نے اس کی پیروی کی وہ ہدایت پر ہو گا اور جس نے اسے چھوڑ دیا وہ گمراہی پر ہو گا اور (دوسری بھاری چیز) میرے اہل بیت ہیں۔ میں اپنے اہل بیت کے معاملہ میں تمھیں اللہ یاد دلاتا ہوں، میں اپنے اہل بیت کے معاملہ میں تمھیں اللہ یاد دلاتا ہوں، میں اپنے اہل بیت کے معاملہ میں تمھیں اللہ یاد دلاتا ہوں (یعنی اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا) ۔‘‘ [ مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ، باب من فضائل علی بن أبی طالب (رض) : ۲٤۰۸ ]
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ کی رسی سے مراد کتاب اللہ ہے، یعنی قرآن مجید اور حدیث نبوی، اس لیے کہ کتاب اللہ کا اطلاق حدیث پر بھی ہوتا ہے۔ سیدنا ابوہریرہ اور زید بن خالد (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے پاس تھے کہ اتنے میں ایک شخص نے کھڑے ہو کر کہا، اے اللہ کے رسول! میں آپ کو اللہ کی قسم دے کر کہتا ہوں کہ آپ ہمارے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ فرما دیں۔ پھر اس کا (فریق) مخالف کھڑا ہوا اور وہ اس سے زیادہ سمجھ دار تھا، اس نے کہا، آپ ہمارے درمیان کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ فرما دیجیے اور مجھے کچھ بیان کرنے کی اجازت دیجیے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اجازت دیتے ہوئے فرمایا: ’’ کہو۔‘‘ اس نے کہا، میرا لڑکا اس شخص کے ہاں مزدوری کرتا تھا، اس شخص کی بیوی کے ساتھ زنا کر بیٹھا۔ میں نے اس کی طرف سے فدیہ میں سو بکریاں اور ایک غلام (اس شخص کو) دیا۔ پھر میں نے کچھ اہل علم لوگوں سے مسئلہ دریافت کیا تو انھوں نے مجھے بتایا کہ میرے بیٹے کو سو کوڑے مارے جائیں گے اور ایک سال کے لیے جلاوطنی ہو گی، نیز اس شخص کی بیوی کو سنگسار کیا جائے گا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا : ’’قسم اس ذات کی، جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! میں ضرور تمھارے درمیان اللہ کی کتاب کے مطابق فیصلہ کروں گا، سو بکریاں اور غلام واپس کیے جائیں گے اور تمھارے بیٹے کو سو کوڑے مارے جائیں گے اور وہ ایک سال کے لیے جلاوطن ہو گا اور اے انیس ! تم اس شخص کی بیوی کے پاس جاؤ، اگر وہ زنا کا اعتراف کرے تو اسے سنگسار کر دو۔‘‘ انیس (رض) صبح کو اس کے پاس گئے، اس نے اعتراف کر لیا، چنانچہ انیس (رض) نے اسے سنگسار کر دیا۔ [ بخاری، کتاب الحدود، باب الإعتراف بالزنا : ٦۸۲۷،٦۸۲۸ ]
اس واقعہ میں جو فیصلہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا وہ قرآن مجید میں نہیں ہے، تاہم آپ نے فیصلہ کو اللہ تعالیٰ کی کتاب کے مطابق کہا، جس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب سے حدیث بھی مراد ہوتی ہے۔
وَّلَا تَفَرَّقُوْا : اللہ تعالیٰ نے اجتماعیت اختیار کرنے کا حکم دیا ہے اور تفرقہ بازی سے منع فرمایا ہے، ارشاد فرمایا: (اِنَّ الَّذِيْنَ فَرَّقُوْا دِيْنَهُمْ وَكَانُوْا شِيَعًا لَّسْتَ مِنْهُمْ فِيْ شَيْءٍ ۭ اِنَّمَآ اَمْرُهُمْ اِلَى اللّٰهِ ثُمَّ يُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوْا يَفْعَلُوْنَ) [ الأنعام : ۱۵۹ ] ’’بے شک وہ لوگ جنھوں نے اپنے دین کو جدا جدا کر لیا اور کئی گروہ بن گئے، تو کسی چیز میں بھی ان سے نہیں، ان کا معاملہ تو اللہ ہی کے حوالے ہے، پھر وہ انھیں بتائے گا جو کچھ وہ کیا کرتے تھے۔‘‘ اور فرمایا: (وَلَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ تَفَرَّقُوْا وَاخْتَلَفُوْا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَھُمُ الْبَيِّنٰتُ ۭ وَاُولٰۗىِٕكَ لَھُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ ۔ يَّوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوْهٌ وَّتَسْوَدُّ وُجُوْهٌ ۚ فَاَمَّا الَّذِيْنَ اسْوَدَّتْ وُجُوْھُھُمْ ۣاَكَفَرْتُمْ بَعْدَ اِيْمَانِكُمْ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُوْنَ) [ آل عمران : ۱۰۵،۱۰٦ ] ’’ اور ان لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جو الگ الگ ہو گئے اور ایک دوسرے کے خلاف ہوگئے، اس کے بعد کہ ان کے پاس واضح احکام آ چکے اور یہی لوگ ہیں جن کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔ جس دن کچھ چہرے سفید ہوں گے اور کچھ چہرے سیاہ ہوں گے، تو جن لوگوں کے چہرے سیاہ ہوں گے، کیا تم نے اپنے ایمان کے بعد کفر کیا؟ تو عذاب چکھو، اس وجہ سے کہ تم کفر کیا کرتے تھے۔‘‘
اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنے اور فرقہ بندی سے بچنے کی تاکید بہت سی احادیث میں ہے، سیدنا ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا : ’’ اللہ تعالیٰ تمھارے لیے تین باتوں کو پسند فرماتا ہے اور تین باتوں کو تمھارے لیے ناپسند فرماتا ہے۔ وہ تمھارے لیے یہ پسند فرماتا ہے کہ تم صرف اسی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ، تم سب اللہ کی رسی کو مضبوط تھام لو اور تفرقہ بازی اختیار نہ کرو اور جن باتوں کو اللہ تعالیٰ تمھارے لیے ناپسند فرماتا ہے وہ بےمقصد ادھر ادھر کی باتیں، کثرت سوال اور مال ضائع کرنا ہے۔‘‘ [ مسلم، کتاب الأقضیۃ، باب النھی عن کثرۃ المسائل من غیر حاجۃ ۔۔ الخ : ۱۷۱۵ ] سیدنا عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا : ’’آپس میں اختلاف نہ کیا کرو، کیونکہ تم سے پہلے لوگوں نے اختلاف کیا تو وہ ہلاک اور برباد ہو گئے۔‘‘ [ بخاری، کتاب الخصومات، باب ما یذکر فی الأشخاص :۲٤۱۰۔ مسلم، کتاب العلم، باب النھی عن اتباع متشابہ القرآن : ۲٦٦٦ ]
سیدنا ابوبردہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا: ’’آسانی پیدا کرنا، سختی میں مبتلا نہ کرنا، خوشخبری سنانا، نفرت نہ پھیلانا، اتفاق رکھنا اور اختلاف نہ کرنا۔‘‘ [ مسلم، کتاب الجھاد، باب فی الأمر بالتیسیر : ۱۷۳۳ ]
سیدنا عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ہمارے لیے ایک خط کھینچا پھر فرمایا : ’’یہ اللہ کا راستہ ہے۔‘‘ پھر اس کے دائیں اور بائیں چند خطوط کھینچے اور فرمایا : ’’یہ (ایسے) متفرق راستے ہیں جن میں سے ہر ایک پر شیطان ہے، جو اپنی طرف بلا رہا ہے۔‘‘ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی : (وَاَنَّ ھٰذَا صِرَاطِيْ مُسْتَقِـيْمًا فَاتَّبِعُوْهُ ۚ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيْلِهٖ) [ الأنعام : ۱۵۳ ] ’’ اور یہ کہ بےشک یہی میرا راستہ ہے سیدھا، پس اس پر چلو اور دوسرے راستوں پر نہ چلو کہ وہ تمھیں اس کے راستے سے جدا کر دیں گے۔‘‘ [ مسند أحمد : ۱؍٤۳۵، ح : ٤۱٤۱۔ مستدرک حاکم : ۲؍۲۳۹، ح : ۳۲٤۱ ]
سیدنا عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک دن سیدنا عمر (رض) نے خطبہ دیتے ہوئے ایک حدیث بیان کی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا : ’’ تم میں سے جو شخص یہ چاہتا ہے کہ وہ جنت کے وسط میں جگہ حاصل کرے تو وہ جماعت کے ساتھ چمٹ جائے کیونکہ اکیلے شخص کے ساتھ شیطان ہوتا ہے اور وہ دو آدمیوں ( یعنی جماعت) سے دور ہوتا ہے۔‘‘ [ کتاب الشریعۃ : ۱؍۸،۹، ح : ۵، ٦۔ مستدرک حاکم : ۱؍۱۱۳، ۱۱٤، ح : ۳۸۷ ]
سیدنا حذیفہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ لوگ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے خیر سے متعلق سوال کیا کرتے تھے اور میں اس خوف سے کہ کہیں شر میں مبتلا نہ ہو جاؤں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے شر سے متعلق سوال کیا کرتا تھا۔ (ایک دن) میں نے پوچھا، اے اللہ کے رسول! ہم جاہلیت میں مبتلا تھے، برائیوں میں (گھرے ہوئے) تھے کہ اللہ نے ہمیں اس خیر سے مشرف فرمایا، تو کیا اس خیر کے بعد بھی کوئی شر ہے؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا: ’’ہاں! ‘‘ میں نے پوچھا، کیا اس شر کے بعد پھر خیر بھی ہے؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا: ’’ہاں! لیکن اس میں کدورت ہو گی۔‘‘ میں نے پوچھا، کدورت کیا ہو گی؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا : ’’ ایسے لوگ بھی ہوں گے جو میرے طریقہ کی بجائے دوسرے طریقوں کی طرف راہنمائی کریں گے، تم ان کی بعض باتوں کو اچھا سمجھو گے اور بعض باتوں کو برا سمجھو گے۔‘‘ میں نے عرض کی، کیا اس خیر کے بعد پھر شر ہو گا؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا: ’’ہاں! لوگ (اس طرح گمراہی پھیلائیں گے) گویا کہ وہ دوزخ کے دروازے پر کھڑے ہو کر لوگوں کو بلا رہے ہوں۔ جو ان کی پکار پر لبیک کہے گا وہ اسے جہنم میں ڈال دیں گے۔‘‘ میں نے عرض کی، اے اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) ! ان کی کوئی صفت ہم سے بیان کر دیجیے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا: ’’وہ ہماری ہی قوم کے لوگ ہوں گے اور ہماری ہی زبان میں باتیں کریں گے۔‘‘ میں نے پوچھا، اگر میں وہ زمانہ پا لوں تو مجھے آپ کس بات کا حکم دیتے ہیں؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا : ’’تمھیں مسلمانوں کی جماعت اور ان کے امام سے چمٹے رہنا ہو گا۔‘‘ میں نے پوچھا، اگر نہ مسلمانوں کی جماعت ہو اور نہ ان کا امام؟ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا: ’’ ایسی حالت میں تم تمام فرقوں سے علیحدہ ہو جانا، خواہ تمھیں درخت کی جڑیں ہی کیوں نہ چبانی پڑیں، حتیٰ کہ تمھیں موت آئے تو اسی حالت میں موت آئے۔‘‘ [ بخاری، کتاب الفتن، باب کیف الأمر إذا لم تکن جماعۃ : ۷۰۸٤۔ مسلم، کتاب الإمارۃ، وجوب ملازمۃ جماعۃ المسلمین عند ظھور الفتن : ۱۸٤۷ ]
اِذْ كُنْتُمْ اَعْدَاۗءً فَاَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِھٖٓ اِخْوَانًا : یہ آیت کریمہ اوس و خزرج کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ زمانۂ جاہلیت میں ان کے درمیان شدید عداوت، کینہ پروری اور نفرتیں تھیں، جن کی وجہ سے ان میں طویل جنگیں اور لڑائی جھگڑے ہوئے۔ جب اللہ نے دنیا میں اسلام کو بھیجا اور ان دونوں خاندانوں کے لوگ مشرف بہ اسلام ہو گئے تو وہ آپس میں بھائی بھائی ہو گئے اور اللہ تعالیٰ کے فضل کی وجہ سے ایک دوسرے سے محبت کرنے لگے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات کے لیے ایک دوسرے کے ہمدرد اور غم گسار اور معاون و مددگار بن گئے، ارشاد فرمایا: (وَاِنْ يُّرِيْدُوْٓا اَنْ يَّخْدَعُوْكَ فَاِنَّ حَسْبَكَ اللّٰهُ ۭهُوَ الَّذِيْٓ اَيَّدَكَ بِنَصْرِهٖ وَبِالْمُؤْمِنِيْنَ ۔ وَاَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِهِمْ ۭ لَوْ اَنْفَقْتَ مَا فِي الْاَرْضِ جَمِيْعًا مَّآ اَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوْبِهِمْ وَلٰكِنَّ اللّٰهَ اَلَّفَ بَيْنَهُمْ ۭاِنَّهٗ عَزِيْزٌ حَكِيْمٌ) [ الأنفال : ٦۲،٦۳ ] ’’وہی ہے جس نے تجھے اپنی مدد کے ساتھ اور مومنوں کے ساتھ قوت بخشی۔ اور ان کے دلوں کے درمیان الفت ڈال دی، اگر تو زمین میں جو کچھ ہے سب خرچ کر دیتا ان کے دلوں کے درمیان الفت نہ ڈالتا اور لیکن اللہ نے ان کے درمیان الفت ڈال دی۔ بےشک وہ سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔‘‘
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے حنین کا مال تقسیم کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے اس احسان کی طرف اشارہ فرمایا، سیدنا عبداللہ بن زید بن عاصم (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) پر، حنین کے مال کی تقسیم کے وقت، جب کچھ انصار کے لوگوں نے اس وجہ سے اعتراض کیا تھا کہ آپ نے کچھ لوگوں کو زیادہ حصہ دے دیا تھا، حالانکہ وہ اللہ کی مرضی و مشیت کے مطابق ہی تھا تو آپ نے انھیں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: ’’ اے گروہ انصار! کیا میں نے تمھیں گمراہ نہیں پایا تھا؟ مگر اللہ تعالیٰ نے تمھیں میری وجہ سے ہدایت سے نوازا، تم ایک دوسرے سے الگ الگ تھے مگر میرے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے تمھارے دلوں میں الفت و محبت ڈال دی اور تم فقیر تھے مگر اللہ تعالیٰ نے تمھیں میری وجہ سے دولت مند بنا دیا۔‘‘ آپ جب بھی کچھ ارشاد فرماتے تو اس کے جواب میں وہ کہتے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا ہم پر بہت بڑا احسان ہے۔ [ بخاری، کتاب المغازی، باب غزوۃ الطائف فی شوال سنۃ ثمان : ٤۳۳۰۔ مسلم، کتاب الزکاۃ، باب إعطاء المؤلفۃ قلوبھم علی الإسلام وتصبر من قوی إیمانہ : ۱۰٦۱ ] (تفسیر دعوۃ القرآن، مفسر سیف اللہ خالد، 1431ھجری-2010عیسوی)
(22)- اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑ لو اور پھوٹ نہ ڈالو۔ اور اللہ کا یہ انعام اپنے اوپر یاد رکھو کہ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے۔ پھر اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی۔ پس تم اس کے فضل سے بھائی بھائی بن گئے۔ اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے کھڑے تھے تو اللہ نے تم کو اس سے بچا لیا۔ اس طرح اللہ تمہارے لئے اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے تاکہ تم راہ پاؤ۔ (ترجمہ وحید الدین خان، مترجم وحید الدین خان صاحب، 1370ھجری-1970عیسوی)
(23)- سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔ اللہ کے اس احسان کو یاد رکھو جو اس نے تم پر کیا ہے۔ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے اس نے تمہارے دل جوڑ دیئے اور اس کے فضل و کرم سے تم بھائی بھائی بن گئے۔ تم آگ کے ایک گڑھے کے کنارے پر کھڑے تھے، اللہ نے تمہیں اس سے بچا لیا۔ اس طرح اللہ اپنی نشانیاں تمہارے سامنے بیان کرتاہے۔ تاکہ تم ہدایت پاسکو- (ترجمہ مفہوم القرآن، مترجمہ رفعت اعجاز صاحبہ، 1429ھجری-2012عیسوی)
اللہ کی رسی اور اسلام کی برکات
تشریح : اس آیت میں مسلمانوں کو ایسے اصول بتائے گئے ہیں جن سے وہ متحد اور منظم ہو سکتے ہیں۔ جیسا کہ ’’حَبْلُ اللّٰہِ‘‘ اللہ کی رسی کا ذکر کیا گیا ہے۔ اصل میں تو اس رسی سے مراد قرآن مجید ہے۔ جیسا کہ عبداللہ بن مسعود راویت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : قرآن اللہ تعالیٰ کی رسی ہے جو آسمان سے زمین تک لٹکی ہوئی ہے۔‘‘ (تفسیر ابن کثیر)
مطلب یہ ہے کہ اس رسی کا تعلق ایک طرف اللہ سے ہے اور دوسری طرف اہل ایمان سے جڑا ہواہے اور اسی رسی کی مدد سے تمام مسلمان بلندیوں کی طرف رواں دواں ہو سکتے ہیں۔ تمام اختلافات نسلی، قومی اور وطنی صرف اسلام کی بدولت ہی ختم ہو سکتے ہیں۔ کیونکہ اسلام کے اصول اللہ رب العزت کے بنائے ہوئے اصول ہیں جو کہ انسان کے پیدا ہونے سے لے کر قبر میں جانے تک کے لیے بنا دیئے گئے ہیں۔ ان کا مقابلہ انسان کے بنائے ہوئے اصول ہرگز نہیں کر سکتے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ہی ایسی کئی مثالیں گزر چکی ہیں کہ جن قوموں نے اللہ رب العزت کی فرمانبرداری کی وہ کامیاب و کامران ہوئیں اور جنہوں نے اللہ رب العزت کی نافرمانی کی وہ تباہ و برباد ہو گئیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے تین چیزوں کو پسند فرمایا ہے اور تین چیزوں کو ناپسند فرمایا ہے۔
پسندیدہ چیزیں یہ ہیں۔
1 یہ کہ عبادت اللہ کے لیے کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔
2 یہ کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب کو مضبوطی سے تھامو (اس پر عمل کرو) اور اختلاف سے بچو۔
3 یہ کہ اپنے حکام اور سربراہوں کے حق میں خیرخواہی کا جذبہ رکھو۔
اور تین چیزیں جو اللہ کو ناپسند ہیں۔
1 بے ضرورت نکتہ چینی اور بحث و مباحثہ۔
2 بلا ضرورت کسی سے سوال کرنا۔
3 اضاعت مال۔ (ابن کثیر عن ابی ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ )
علامہ اقبال نے بھی اس کی وضاحت یوں کی ہے۔
یہی مقصود فطرت ہے یہی رمز مسلمانی
اخوت کی جہانگیری محبت کی فراوانی
اللہ کے قانون کا یہ مقصد ہے کہ ساری دنیا کے انسان آپس میں پیار و محبت اور حسن سلوک سے مل جل کر خوبصورت اور مطمئن زندگی بسر کریں، پھر اللہ رب العزت ان گمراہ اور جاہل عربوں کا ذکر کرتے ہیں کہ وہ لوگ کس قدر خراب، پریشان اور بے سکون زندگیاں گزار رہے تھے۔ کیونکہ ان کے درمیان کوئی پیار محبت اور حسن سلوک کا رشتہ نہ تھا۔ وہ لوگ ہر وقت قتل و غارت ، دنگا فساد، لوٹ مار اور بغض و عناد میں پھنسے ہوئے تھے۔ اسی کو اللہ رب العزت نے آگ کا گڑھا کہا ہے۔ یہاں اس آگ سے جلنے سے اگر کسی چیز نے ان کو بچایا تو وہ یہی نعمت اسلام تھی۔ یہ آیات جس وقت نازل ہوئی ہیں۔ اس سے تین چار سال پہلے ہی مدینہ کے لوگ مسلمان ہوئے تھے اور اسلام کی اخوت و محبت کی نعمت سب دیکھ رہے تھے کہ اوس اور خزرج کے وہ قبیلے جو کئی سالوں سے ایک دوسرے سے زبردست دشمنی رکھتے تھے مگر اب آپس میں مل جل کر شیر و شکر ہو چکے تھے اور یہ دونوں قبیلے مکہ سے آنے والے مہاجرین کے ساتھ بے مثال محبت اور ایثار کا برتاؤ کر رہے تھے۔ ایسا اچھا برتاؤ کہ جو ایک خاندان کے لوگ بھی آپس میں نہ کرتے ہوں گے۔ اس سے ظاہر ہوا اللہ تعالیٰ نے اسلام کی برکت سے صدیوں پرانی دشمنی کو دوستی اور محبت میں بدل ڈالا ۔ اگر مسلمان متحد و منظم اور کامیاب و کامران ہونا چاہتے ہیں تو قرآن کو اپنا راہبر بنائیں، یعنی اللہ کی پوری طرح فرمانبرداری کریں اس آیت کے آخر میں اللہ رب العزت نے فرمایا ہے کہ ’’اسی طرح اللہ تعالیٰ تم لوگوں کے لیے تمام حقائق بیان کرتا ہے۔ تاکہ تم لوگ ٹھیک راہ پر رہو۔
اسلام کی یہی تعلیمات دنیا کے کونے کونے میں پہنچیں اور اس طرح توحید کی طاقت سے انسان کو انسان کی ہر طرح کی غلامی سے نجات مل گئی اور ہر قسم کے اختلافات ختم ہو گئے۔ کیونکہ اختلافات چاہے گھر میں ہوں، محلے میں ہوں، شہر میں ہوں، ملک میں ہوں یا پوری دنیا میں ہوں۔ زندگیوں کو بے سکون اور جہنم کا نمونہ بنا دیتے ہیں اور اس سے نجات قرآن و سنت پر عمل سے ہی حاصل ہو سکتی ہے جس کو اللہ تعالیٰ کی رسی کہا گیا ہے کہ پورے عزم و ارادہ سے اللہ کی راہ پر چل پڑو یہی مسلمان کی شان ہے۔ (تفسیر مفہوم القرآن، مفسرہ رفعت اعجاز صاحبہ)
(24)- اور اللہ کی رسی کو سب ملکر مضبوطی سے تھامے رکھو، اور آپس میں پھوٹ نہ ڈالو، اور اللہ نے تم پر جو انعام کیا ہے اسے یاد رکھو کہ ایک وقت تھا جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے ، پھر اللہ نے تمہارے دلوں کو جوڑ دیا اور تم اللہ کے فضل سے بھائی بھائی بن گئے ، اور تم آگے کے گڑھے کے کنارے پر تھے ، اللہ نے تمہیں اس سے نجات عطا فرمائی۔ اسی طرح اللہ تمہارے لیے اپنی نشانیاں کھول کھول کر واضح کرتا ہے، تاکہ تم راہ راست پر آجاؤ۔ (ترجمہ آسان قرآن، مترجم مفتی تقی عثمانی صاحب، 1429ھجری-2009عیسوی)
(25)- اور اللہ کی رسی مل کر مضبوط تھامے رہو اور باہم نااتفاقی نہ کرو، ف 217۔ اور اللہ کا یہ انعام اپنے اوپر یاد رکھو کہ جب تم (باہم) دشمن تھے تو اس نے تمہارے قلوب میں الفت ڈال دی ، ف 218۔ سو تم اس کے انعام سے (آپس میں) بھائی بھائی بن گئے ، اور تم دوزخ کے گڈھے (گڑھے) کے کنارے پر تھے سو اس نے تمہیں اس سے بچا لیا، ف 219۔ اسی طرح اللہ اپنے احکام کھول کر سناتا رہتا ہے تاکہ تم راہ یاب رہو- (ترجمہ ماجدی، مترجم عبدالماجد دریا آبادی، 1395ھجری-1975عیسوی)
ف 217۔ اس تعلیم کے ایک عملی پہلو کا اعتراف ایک غیر مسلم کی زبان سے :۔ ’’اسلام نے ان قبیلوں کو متحد کردیا جو اس وقت تک برابر ایک دوسرے سے مصروف پیکار رہتے تھے ‘‘(آرنلڈ کی پریچنگ آف اسلام صفحہ 2 1) حبل اللہ محاورۂ عربی میں حبل سے مراد عھد بھی ہوتا ہے اور مطلقا ہر وہ شے جو ذریعہ یا وسیلہ کا کام دے سکے ۔ یستعار الحبل للعھد ۔ (روح) واستعیر للوصل وبکل ما یتوصل بہ الی شیء (راغب) یہاں مراد شریعت اسلامی یا قرآن ہے ۔ متعدد قول نقل ہوئے ہیں اور وہ سب متقارب ہیں۔ قال ابن مسعود حبل اللہ القران ورواہ علی وابو سعید الخدری عن النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم و عن مجاھد وقتادۃ مثل ذلک (قرطبی) العھد اوالقران اوالدین او الطاعۃ او اخلاص التوبۃ او الجماعۃ او اخلاص التوحید او الاسلام اقوال السلف یقرب بعضھا من بعض (بحر) (آیت) ’’ جمیعا ‘‘۔ یعنی امت مجموعا بھی اور افراد امت بھی ۔
ف 218۔ (اور سب کو رشتہ اسلام میں متحد ومنسلک کردیا) (آیت) ’’ نعمت اللہ ‘‘۔ اس انعام کے تحت میں علاوہ فلاح اخروی کے اتحاد قومی کی فلاح دنیوی بھی شامل ہے ۔ اتحاد امت بجائے خود ایک بہت بڑی نعمت ہے ۔ (آیت) ’’ اذ کنتم اعدآء‘‘۔ ظہور اسلام سے قبل یعنی زمانہ جاہلیت مکہ ۔ عرب قبائل کی باہمی دشمنی اور جنگجوئی ضرب المثل کی حد تک پہنچی ہوئی تھی ۔ بات بات میں چھڑ جاتی تھی جو لڑائیاں تاریخی روایات میں محفوظ رہ گئی ہیں ان کی تعداد 1700 ہوتی ہے۔
ف 219۔ (دین اسلام اور شریعت اسلامی مرحمت کرکے) دنیا میں یوں ایک انقلاب عظیم بر پا کردینا اسلام کا معجزہ ہی تھا ۔ اس کا اعتراف آج فرنگی محققین بھی کر رہے ہیں۔ ملاحظہ ہو حاشیہ تفسیر انگریزی ۔ (آیت) ’’ فاصبحتم بنعمتہ اخوانا ‘‘۔ جس طرح عرب قبل اسلام کی عداوت حد ضرب المثل تک پہنچی ہوئی تھی اسی طرح بعد اسلام عرب کی آپس کی محبت ، یگانگت ، اخلاص بھی بے نظیر رہا ۔ جہاں مکی مکی کا اور مدنی مدنی کا دشمن تھا ۔ وہاں اسلام نے مکہ کے مہاجرین اور مدینہ کے انصار کو ایسا شیروشکر کرا دیا کہ دونوں واقعی آپس میں بھائی بھائی معلوم ہونے لگے برٹانیکا اور گبن دونوں کے صفحات میں اس کا اعتراف موجود ہے ۔ ملاحظہ ہو حاشیہ تفسیر انگریزی ۔ (آیت) ’’ علی شفا حفرۃ من النار ۔ ذکر زمانہ قبل اسلام کا ہے کہ اس وقت عقائد واعمال مشرکانہ کی بنا پر اہل عرب دوزخ کے کنارہ تک پہنچ ہی چکے تھے ۔
ترجمہ : اور ضرور کہ تم میں ایک ایسی جماعت رہے جو نیکی کی طرف بلایا کرے اور بھلائی کا حکم دیا کرے اور بدی سے روکا کرے اور پورے کامیاب یہی تو ہیں، (تفسیر ماجدی، مفسرعبدالماجد دریا آبادی، 1395ھجری-1975عیسوی)
(26)- اور مضبوطی سے پکڑلواللہ کی رسی کو سب مل کر اور آپس میں پھوٹ نہ ڈالو اور اپنے اوپر اللہ کی نعمت یاد کروجب (ایک دوسرے) کے دشمن تھے تواس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی توتم اس کے فضل سے بھائی بھائی ہوگئےاور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر تھے تواس نے تمہیں اس سے بچالیااسی طرح وہ تمہارے لئے واضح کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ۔ (ترجمہ حافظ نذر احمد، مترجم حافظ نذر احمد)
(27)- اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو، اور اپنے اوپر اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جب تم (ایک دوسرے کے) دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کردی اور تم اس کی نعمت کے باعث آپس میں بھائی بھائی ہوگئے، اور تم (دوزخ کی) آگ کے گڑھے کے کنارے پر (پہنچ چکے) تھے پھر اس نے تمہیں اس گڑھے سے بچا لیا، یوں ہی اللہ تمہارے لئے اپنی نشانیاں کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم ہدایت پا جاؤ۔ (ترجمہ عرفان القرآن، ڈاکٹر طاہرالقادری، 1411ھجری-1991عیسوی)
(28)- اور سب مل کر خدا کے دین کی رسی کو پکڑے رہو اور الگ الگ نہ ہو جاؤ اور خدا کا احسان یاد کرو جو تم پر ہے(وہ یہ کہ) جب تم میں باہم دشمنی تھی تو اس نے تمہارے دلوں میں محبت پیدا کر دی ۔ اب تم اس کے فضل سے بھائی بھائی ہو گئے۔ حالانکہ تم ۱ ؎ جہنم کے کنارے پر پہنچ چکے تھے۔ پھر اس نے تم کو اس سے بچا لیا اور تم سے اپنی آیتیں اس طرح سے بیان کیا کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پائو- (ترجمہ حقانی، مترجم ابومحمد عبدالحق حقانی، 1389ھجری-1969عیسوی)
۱؎ قبل از اسلام قبیلہ بنی اوس و خررج انصار مدینہ کے دو گروہوں میں صدیوں سے لڑائی چلی آتی تھی۔ طرفین کے ہزارہا لوگ باگ مارے گئے تھے۔ اس کو کنایۃً کنتم علی شفا حفرۃ من النار سے تعبیر کرکے بتایا گیا جب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے تو آپ کے برکتِ قدوم سے ان میں بھی میل ملاپ ہو گیا اور اس میں ایسی سخت خونریز قوم بھائی بھائی بن گئے۔ خدا تعالیٰ اس نعمت کو یاد دلاتا ہے جس کے سبب سے دینی و دنیوی برکات نازل ہوئیں۔ اتفاقِ باہمی نفسانی خواہشوں سے جاتا رہتا ہے۔ نبوت نے روحانی اثر سے نفسانیت کو بالکل نیست و نابود کر دیا تھا۔ یہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) کا ایک بین و بدیہی معجزہ تھا کہ صدیوں کے نفاق کو رفع کرکے ان میں بھائی چارہ کرا دیا۔ حقانی
۱؎ حبل (رسی) خدا کی رسی سے مراد اسی کی طرف کا امن ہے جو ماتحتِ اسلام کو حاصل ہے اور لوگوں کی رسی وہ عہد و پیمان جو لوگ اپنے ماتحتوں سے کرتے ہیں۔ (تفسیر حقانی، مفسر مولانا ابو محمد عبدالحق حقانی)
(29)- اور مضبوطی سے تھام لو اللہ کی رسی کو سب (مل کر) اور تفرقے میں نہ پڑواور اللہ کی نعمت کو یاد کروجو اس نے) تم پر کی جب تم (ایک دوسرے کے) دشمن تھے تو اس نے الفت ڈال دی تمہارے دلوں میں تو تم ہوگئے اس کی نعمت (مہربانی) سے بھائی بھائی اور تم (کھڑے) تھے آگ کے گڑھے کے کنارے پر تو اس نے بچالیا تمہیں اس (دوزخ)سے اسی طرح اللہ بیان کرتا ہے تمہارے لیےاپنی آیتیں تاکہ تم ہدایت پا جاؤ ۔(رنگین ترجمہ، مترجم پروفیسر عبدالرحمٰن طاہر صاحب)
(30)- سب مل کر اللہ کی رسی 83 کو مضبوط پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو ۔ اللہ کے اس احسان کو یاد رکھو جو اس نے تم پر کیا ہے۔ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے ، اس نے تمہارے دل جوڑ دیے اور اس کے فضل و کرم سے تم بھائی بھائی بن گئے ۔ تم آگ سے بھرے ہوئے ایک گڑھے کے کنارے کھڑے تھے ، اللہ نے تم کو اس سے بچا لیا ۔ 84 اس طرح اللہ اپنی نشانیاں تمہارے سامنے روشن کرتا ہے شاید کہ ان علامتوں سے تمہیں اپنی فلاح کا سیدھا راستہ نظر آجائے ۔ 85۔ (ترجمہ تفہیم القرآن، مترجم مولانا سید ابوالاعلی مودودی صاحب، 1368ھجری-1949عیسوی)
سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :83۔ اللہ کی رسی سے مراد اس کا دین ہے، اور اس کو رسی سے اس لیے تعبیر کیا گیا ہے کہ یہی وہ رشتہ ہے جو ایک طرف اہل ایمان کا تعلق اللہ سے قائم کرتا ہے اور دوسری طرف تمام ایمان لانے والوں کو باہم ملا کر ایک جماعت بناتا ہے۔ اس رسی کو ”مضبوط پکڑنے“ کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کی نگاہ میں اصل اہمیت”دین“ کی ہو، اسی سے ان کو دلچسپی ہو، اسی کی اقامت میں وہ کوشاں رہیں اور اسی کی خدمت کے لیے آپس میں تعاون کرتے رہیں ۔ جہاں دین کی اساسی تعلیمات اور اس کی اقامت کے نصب العین سے مسلمان ہٹے اور ان کی توجہات اور دلچسپیاں جزئیات و فروع کی طرف منعطف ہوئیں، پھر ان میں لازماً وہی تفرقہ و اختلاف رونما ہو جائے گا جو اس سے پہلے انبیاء علیہم السلام کی امتوں کو ان کے اصل مقصد حیات سے منحرف کر کے دنیا اور آخرت کی رسوائیوں میں مبتلا کر چکا ہے۔
سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :84۔ یہ اشارہ ہے اس حالت کی طرف جس میں اسلام سے پہلے اہل عرب مبتلا تھے ۔ قبائل کی باہمی عداوتیں بات بات پر ان کی لڑائیاں، اور شب و روز کے کشت و خون، جن کی بدولت قریب تھا کہ پوری عرب قوم نیست و نابود ہو جاتی۔ اس آگ میں جل مرنے سے اگر کسی چیز نے انہیں بچایا تو وہ یہی نعمت اسلام تھی۔ یہ آیات جس وقت نازل ہوئی ہیں اس سے تین چار سال پہلے ہی مدینہ کے لوگ مسلمان ہوئے تھے، اور اسلام کی یہ جیتی جاگتی نعمت سب دیکھ رہے تھے کہ اوس اور خزرج کے وہ قبیلے، جو سالہا سال سے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے، باہم مل کر شیر و شکر ہو چکے تھے، اور یہ دونوں قبیلے مکہ سے آنے والے مہاجرین کے ساتھ ایسے بےنظیر ایثار و محبت کا برتاؤ کر رہے تھے جو ایک خاندان کے لوگ بھی آپس میں نہیں کرتے۔
سورة اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :85۔ یعنی اگر تم آنکھیں رکھتے ہو تو ان علامتوں کو دیکھ کر خود اندازہ کر سکتے ہو کہ آیا تمہاری فلاح اس دین کو مضبوط تھامنے میں ہے یا اسے چھوڑ کر پھر اسی حالت کی طرف پلٹ جانے میں جس کے اندر تم پہلے مبتلا تھے؟ آیا تمہارا اصلی خیر خواہ اللہ اور اس کا رسول ہے یا وہ یہودی اور مشرک اور منافق لوگ جو تم کو حالت سابقہ کی طرف پلٹا لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں؟ (تفسیرتفہیم القرآن، مفسر مولانا سید ابوالاعلی مودودی صاحب)
واعتصموا بحبل اللہ اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رہو اللہ کی رسّی سے مراد ہے دین اسلام کیونکہ اللہ نے فرمایا : ومن یکفر بالطاغوت و یومن باللہ فقد استمسک بالعروۃ الوثقی لاانفصام لھا (اس آیت میں ایمان باللہ کو عروۂ وثقیٰ فرمایا ہے) یا کتاب اللہ مراد ہے کیونکہ رسول اللہ نے فرمایا: اللہ کی کتاب ایک ایسی رسّی ہے جو آسمان سے زمین تک تنی ہوئی ہو (اس کو پکڑ کر آدمی اللہ تک پہنچ سکتا ہے) ۔
جمیعا سب کے سب یعنی جو تفسیر کلام اللہ باجماع امت ہو اس کو مضبوطی سے پکڑ لو اجماع کے خلاف متفرق آراء کی طرف نہ جاؤ ۔ حضرت ابو ہریرہ (رض) کی روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: تمہاری تین باتیں اللہ کو پسند ہیں اور تین ناپسند ۔ تم اللہ کی عبادت کرو۔ کسی کو اس کا ساجھی نہ جانو اور سب کے سب اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رہو اور اللہ جس کو تمہارا حاکم بنا دے اس کی خیر خواہی کرو۔ یہ باتیں اللہ کو پسند ہیں اور وہ نا پسند کرتا ہے فضول قیل و قال کو اور مال کو برباد کرنے کو اور کثرت سوال کو۔ (رواہ مسلم واحمد)
حضرت ابن عمر کی روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: اللہ میری امت کو گمراہی پر مجتمع نہیں کرے گا۔ اللہ کا ہاتھ جماعت پر ہے جو بچھڑا وہ (جماعت سے ) بچھڑ کر دوزخ میں گیا۔ (رواہ الترمذی) یہ بھی حضرت ابن عمر (رض) کی روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: سب سے زیادہ عظمت والے فرقہ کا اتباع کرو اس لیے کہ جو اس سے بچھڑا وہ بچھڑ کر دوزخ میں گیا۔ (رواہ ابن ماجہ) ۱؂
حضرت معاذ بن جبل (رض) کی روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: جس طرح بکریوں کو شکار کرنے والا بھیڑیا گلے سے بچھڑ نے والی گلے سے دور رہ جانے والی اور گلے سے الگ ہونے والی بکری کوشکار کر لیتا ہے اسی طرح انسان کے لیے شیطان بھیڑیا ہے (جماعت سے ہٹ کراِدھرُ ادھر کی ) گھاٹیوں (میں بھٹکتے پھرنے) سے بچو اور جماعت و جمہور کے ساتھ رہو۔ (رواہ احمد)
حضرت ابو ذر (رض) کی روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا: جو جماعت سے بالشت بھر الگ ہو اس نے اسلام کی رسی اپنی گردن سے نکال دی ۔ (رواہ احمد و ابوداؤد) یہ تفسیر اس صورت میں ہو گی جب جمیعاً کو اعتصموا کی فاعلی ضمیر سے حال مانا جائے لیکنحبل اللہ سے اگر حال قرار دیا جائے تو یہ مطلب ہو گا کہ اللہ کی پوری کتاب کو پکڑے رہو ایسا نہ ہو کہ کتاب کے کچھ حصہ کو تو مانو اور کچھ کو نہ مانو کیونکہ رسی کے بل الگ الگ ہونے کی صورت میں طاقتور نہیں ہوتے۔
و لا تفرقوا اور آپس میں پھوٹ نہ پیدا کرو۔ یہ جملہ اوّل صورت میں تاکیدی اور دوسری صورت میں تاسیسی ہے
(دوسری صورت پر اس جملہ کامطلب یہ ہو گا کہ پورے قرآن کو مانو اور آپس میں بھی تفرقہ نہ کرو کہ کوئی مانے کوئی نہ مانے بلکہ سب مل کر پوری کتاب کو پکڑے رہو) مطلب یہ ہے کہ دوسرے اہل کتاب کی طرح آپس میں اختلاف کرکے حق سے متفرق نہ ہو جاؤ۔
حضرت عبد اللہ بن عمر (رض) کی روایت ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: جو حالت بنی اسرائیل کی ہوئی وہی حالت میری امت پر آئے گی یہ ان کے نقش قدم پر چلے گی یہاں تک کہ بنی اسرائیل میں سے اگر کسی نے اپنی ماں سے علانیہ زنا کیا ہو گا تو میری امت میں بھی کوئی ایسا کرے گا۔ بنی اسرائیل پھٹ کر بہتر فرقہ بن گئے تھے اور میری امت پھٹ کر تہتر گروہ ہو جائے گی جن میں سے سوائے ایک فرقہ کے سب دوزخی ہوں گے صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ وہ (نجات پانے والا فرقہ ) کونسا ہو گا؟ فرمایا: وہ (نجات یافتہ) ہو گا جو میرے اور میرے صحابہ کے طریقہ پر ہو گا۔ (رواہ الترمذی)
معاویہ (رض) کی روایت ۲؂ کے یہ الفاظ ہیں کہ بہتر (فرقے) دوزخ میں اور ایک جنت میں ہو گا اور وہ ۳؂جماعت ہے اور میری امت میں سے عنقریب کچھ جماعتیں ایسی نکلیں گی کہ خواہشات (ان کے رگ و پے میں گھس جائیں گی اور) ان کو ہلاکت میں گرادیں گی جیسے داء الکلب اپنے مریض کے اندر گھس جاتا ہے کوئی رگ اور کوئی جوڑ ایسا نہیں رہتا کہ یہ بیماری اس میں گھس نہ جائے ۔ میں کہتا ہوں صحابہ میں یہ تفرقہ نہ تو رسول اللہ کے زمانہ میں ہوا نہ حضرت ابو بکر و حضرت عمر و حضرت عثمان رضوان اللہ علیہم اجمعین کی خلافتوں میں امام برحق کے خلاف اوّل ترین بغاوت اہل مصر نے کی جنہوں نے حضرت عثمان کے خلاف خروج کیا اور خلافت کے معاملہ میں معاویہ کی طرف سے اوّل ترین اختلاف پیدا ہوا اور دین میں اوّل ترین اختلاف فرقہ حروریہ (خوارج و نواصب ) نے کیا جنہوں نے حضرت علی (رض) کے خلاف بغاوت کی پھر عبد اللہ بن سبا نے مخالفت ڈالی اور حق کو چھوڑا یہی شخص رافضیوں کا سرچشمہ ہے پھر تابعین کے دور میں معتزلہ کا مسلک پیدا ہو ا جنہوں نے فلاسفہ کا دامن جا پکڑا قیل و قال میں پھنس گئے ۔ مناظرہ بازی میں پڑ گئے ۔ کتاب اللہ کی کھلی آیات اور رسول اللہ کی سنت اور سلف کے طریقہ کو انہوں نے چھوڑ دیا اور اپنے ناقص گمراہ خیالات کے پیرو ہو گئے۔
واذکروا نعمۃ اللہ علیکم اور اے گروہ انصار ! یاد رکھو اپنے اوپر اللہ کے احسان کو منجملہ اس کے احسان کے ایک بات یہ ہے کہ اس نے تم کو اسلام کی ہدایت کی جس وجہ سے تمہارے اندر اتفاق پیدا ہو گیا۔
اذ کنتم اعداء جب کہ اسلام سے پہلے تم باہم دشمن تھے۔
و الف بین قلوبکم پھر اسلام کے ذریعہ سے اللہ نے تمہارے دلوں میں باہمی الفت پیدا کردی۔
فاصبحتم بنعمتہ اخوانا اور تم اس کی رحمت و ہدایت سے بھائی بھائی ہو۔ یعنی دین، دوستی ، ہمدردی اور محبت کے اعتبار سے بھائی بھائی بن گئے (اگرچہ نسبی برادری نہیں تھی)
محمد بن اسحاق اور دوسرے اہل تاریخ نے لکھا ہے کہ قبائل اوس و خزرج ایک ماں باپ کی نسل سے تھے لیکن ایک مقتول کی وجہ سے دونوں میں دشمنی ہو گئی اور اتنی بڑھی کہ ایک سو بیس برس تک باہم جنگ ہوتی رہی آخر کار اسلام کی وجہ سے اللہ نے ان کی باہمی عدات کی آگ بجھا دی اور رسول ﷲ کی وجہ سے سب میں اتفاق ہو گیا ان کے اسلام اور باہمی الفت کا آغاز اس طرح ہوا کہ قبیلہ بنی عمرو بن عوف میں ایک شخص تھا جس کا نام سوید بن صامت تھا اور قوم والے اس کو طاقتور اور اصیل ہونے کی وجہ سے کامل کہتے تھے۔ سوید حج یا عمرہ کرنے کے لیے مکہ کو گیا اس وقت رسول ﷲ کی بعثت ہو چکی تھی اور آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کواسلام کی دعوت دینے کا حکم مل چکا تھا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے سوید کی آمد کی خبر سنی تو اس کے پیچھے گئے اور اللہ اور اسلام کی اس کو دعوت دی سوید نے کہا شاید تمہارے پاس ویسی ہی کوئی چیز ہے جیسی میرے پاس ہے ؟حضور نے پوچھا تمہارے پاس کیا ہے ۔ سوید نے کہا لقمان کا رسالہ یعنی لقمان کا پر حکمت کلام حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا: میرے سامنے لاؤ سوید نے پیش کیا (یعنی پڑھ کر سنایا) حضور نے فرمایا: یہ اچھا ہے مگر میرے پاس جو چیز ہے وہ اس سے افضل ہے میرے پا س قرآن ہے جس کو اللہ نے نور اور ہدایت بنا کر اتارا ہے پھر آپ نے اس کو قرآن سنایا اور اسلام کی دعوت دی سوید نے نفرت نہیں کی اور کہنے لگا یہ اچھی چیز ہے پھر واپس مدینہ چلا گیا اور کچھ ہی مدت کے بعد جنگ بعاث میں قبیلہ خزرج نے اس کو قتل کردیا اوس کی قوم والوں کا بیان کہ مسلمان ہونے کی حالت میں اس کو قتل کیا گیا۔
اس کے بعد ابو الحیسرانس بن رافع بن اشہل کی ایک جماعت کو ساتھ لے کر جس میں ایاس بن معاذ بھی شامل تھا۔ قریش سے معاہدہ تعاون کرنے کے لیے آیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو اطلاع ملی تو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) تشریف لے گئے اور ان کے پاس بیٹھ کر فرمایا: جس کام کے لیے تم آئے ہو کیا اس سے بہتر چیز کی تم کو خواہش ہے؟ لوگوں نے کہا وہ کیا چیز ہے فرمایا: میں اللہ کا پیغامبر ہوں۔ اللہ نے مجھے اپنے بندوں کے پاس بھیجا ہے میں ان کو دعوت دیتا ہوں کہ کسی چیز کوا اللہ کا ساجھی نہ قرار دو ، اللہ نے مجھ پر کتاب بھی نازل فرمائی ہے اس کے بعد آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ان کے سامنے اسلام کا تذکرہ کیا اور قرآن پڑھ کر سنایاایاس بن معاذ جو نوجوان لڑکا تھا کہنے لگا قوم والو جس کام کے لیے تم آئے ہو خدا کی قسم یہ اس سے بہتر ہے ابو الحیسرنے ایک لپ بھر کر کنکریاں ایاس کے منہ پر ماریں اور بولا یہ اپنی بات رہنے دے ہم دوسری غرض سے آئے ہیں ایاس خاموش ہو گیا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کھڑے ہو گئے اور وہ لوگ بھی مدینہ کو لوٹ گئے مدینہ پہنچنے کے بعد اوس و خزرج کے درمیان جنگ بعاث ہوئی اور کچھ ہی عرصہ کے بعد ایاس کا انتقال ہو گیا پھر جب اللہ نے چاہا کہ اس کا دین ظاہر اور رسول غالب ہو جائے تو ایک حج کے زمانہ میں ہر سال کے معمول کے موافق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) انصار کی ایک جماعت سے ملے اور عقبہ کے پاس ایک خزرجی گروہ سے ملاقات ہوئی اس گروہ میں چھ اشخاص تھے اسعد بن زرارہ ، عوف بن حارث یعنی عوف بن عفراء نافع بن مالک عجلانی عطیہ بن عامر ، عقبہ بن عامر اور جابربن عبد اللہ ۔ ا اللہ کو مقصود تھا کہ ان کو خیر نصیب ہو۔
حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) نے دریافت کیا تم کون لوگ ہو؟ انہوں نے جواب دیا : خزرجی گروہ ۔ فرمایا: کیا یہودیوں کے دوستوں میں سے ہو ؟ انہوں نے کہا: جی ہاں۔ فرمایا: کیا تم بیٹھ کر میری بات نہیں سنو گے انہوں نے کہا کیوں نہیں سنیں گے ۔ اس کے بعد سب بیٹھ گئے رسول اللہ نے ان کو اللہ کی دعوت دی اسلام پیش کیا اور قرآن پڑھ کر سنایا (وہ مسلمان ہو گئے) ان کے اسلام کی خدا کی طرف سے ایک وجہ یہ بھی ہوئی کہ مدینہ میں وہ یہودیوں کے ساتھ رہتے تھے یہودی اہل کتاب اور اہل علم تھے اور یہ لوگ بت پرست اور مشرک ، یہودیوں سے ان کا کچھ جھگڑا ہو جاتا تھا تو یہودی کہتے تھے اب ایک نبی آنے والا ہے جس کی بعثت کا زمانہ قریب آگیا ہے ہم اس کا اتباع کریں گے اور اس کے ساتھ ہوکر تم کو قوم عاد کی طرح قتل کریں گے پس اس گروہ نے جب رسول ﷲ کا کلام اور اسلام کی دعوت سنی تو آپس میں کہنے لگے لوگو! جانتے ہو کہ یہ وہی پیغمبر ہیں جن کا نام لے کر یہودی تم کو دھمکیاں دیتے ہیں اب یہودی تم سے اس کی مددحاصل کرنے میں سبقت نہ کرنے پائیں چنانچہ سب نے حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کی تصدیق کی اور مسلمان ہو گئے اور عرض کیا ہم ایسی قوم کو چھوڑ کرآئے ہیں جن میں آپس کی جنگ اور دشمنی اتنی ہے کہ کسی قوم میں نہیں ہے۔ اب امید ہے کہ اللہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ذریعہ سے ان میں اتفاق کرادے گا۔ عنقریب ہم ان کے پاس جائیں گے اور ان کو اس بات کی دعوت دیں گے اگر اللہ نے ان سب کو آپ کے معاملہ میں متفق کردیا تو آپ سے بڑھ کر پھر کوئی عزت یافتہ نہ ہو گا پھر یہ لوگ رسول اللہ کے پاس سے اپنے شہرکو لوٹ گئے اور مدینہ پہنچ کر رسول اللہ کا تذکرہ کیا اور مدینہ والوں کو اسلام کی دعوت دی۔ حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) کا ذکر مدینہ میں اتنا پھیل گیا کہ انصار کے ہر گھر میں آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) ہی کا چرچا ہونے لگا۔
پھر آئندہ سال ایام حج میں بارہ انصاری آئے۔ اسعد بن زرارہ، عوف بن عفرا، معاذ بن عفراء، رافع بن مالک عجلانی، ذکوان بن عبد القیس، عبادہ بن صامت، زید بن ثعلبہ ، عباس بن عبادہ، عقبہ بن عامر ، عطیہ بن عامر ، یہ سب خزرجی تھے اور قبیلہ اوس کے دو شخص تھے ابوالہیثم بن تیہان اور عویمر بن ساعدہ (رضوان اللہ علیہم اجمعین) عقبہ اولیٰ میں حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) سے ان کی ملاقات ہوئی اور عورتوں کی بیعت کی کہ شرطوں پر انہوں نے رسول اللہ کی بیعت کی کہ شرک نہیں کریں گے ، زنا نہیں کریں گے ۔۔ (حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا:) اگر تم ان شرطوں کو پورا کرو گے تو تمہارے لیے جنت ہے اگر ان میں کچھ کھوٹ کرو گے اور دنیوی سزا میں گرفتار ہو جاؤ گے تو گناہ کا کفارہ ہو جائے گا۔ لیکن اگر تمہارے جرم پر پردہ پڑا رہا تو تمہارا معاملہ اللہ کے سپرد رہے گا وہ چاہے تم کو عذاب دے چاہے معاف کردے۔
راوی کا بیان ہے کہ یہ واقعہ جنگ پیش آنے سے پہلے کا ہے۔ ان لوگوں کی واپسی کے وقت رسول اللہ نے مصعب بن عمیر بن ہاشم بن عبد مناف کو ان کے ساتھ کردیا اور حکم دیدیا کہ ان کو قرآن پڑھانا ، اسلام کی تعلیم دینا اور احکام سمجھانا۔ مدینہ میں مصعب کا لقب مقری (قرآن پڑھانے والا) ہو گیا اور اسعد بن زرارہ کے مکان پر آپ کا قیام ہوا۔
کچھ مدت کے بعد اسعد بن زرارہ مصعب کو ساتھ لے کر بنی ظفر کے ایک باغ میں گئے اور اند ر جا کربیٹھ گئے وہاں دوسرے مسلمان بھی جمع ہو گئے ۔ دوسری طرف سعد بن معاذ نے اسید بن حضیر سے کہا یہ دو نوں آدمی ہمارے گھر میں آکر ہمارے کمزور سمجھ کے آدمیوں کو بہکا نا چاہتے ہیں تم جا کر ان دونوں کو جھڑک کر نکال دو۔ سعد میرے ماموں کا بیٹا ہے اگر یہ رشتہ نہ ہوتا تو میں خود ہی یہ کام کرلیتا تمہاری ضرورت بھی نہ ہوتی سعد اور اسید بن اشہل کے سردار تھے اور اس وقت تک مشرک تھے حسب مشورہ اسیداپنا چھوٹا نیز ہ لے کر مصعب اور اسعد کے پاس گیا دونوں باغ کے اندر بیٹھے ہوئے تھے اسید کو دیکھ کر اسعد نے مصعب سے کہا یہ آنے والا اپنی قوم کا سردار ہے ، اس کو مسلمان بناؤ مصعب نے جواب دیا اگر یہ بیٹھ جائے گا تو میں اس سے بات کروں گا۔ اسید پہنچ کر دونوں کے سامنے کھڑا ہو گیا اور گالیاں دینے لگا کہنے لگا تم ہمارے ہاں کیوں آئے ہو ؟ کیا ہمارے کمزور سمجھ والوں کو بےوقوف بنا رہے ہو اگر تم کو اپنی جان سے کچھ محبت ہے تو یہاں نے ہٹ کر چلے جاؤ۔ مصعب نے کہا آپ بیٹھ کر ذرا ہماری بات تو سن لیجئے اگر ہماری بات آپ کو پسند آجائے تو مان لینا ناپسند ہو تو آپ کے ناگوار خاطر بات نہیں کی جائے گی ۔ اسید نے کہا یہ بات تم نے ٹھیک کہی یہ کہہ کر نیزہ زمین میں گاڑ کر دونوں کی طرف رخ کرکے بیٹھ گیا۔
مصعب نے اسلام کے متعلق اس سے گفتگو کی اور قرآن پڑھ کر سنایا۔ مصعب کابیان ہے ابھی وہ کچھ بولا بھی نہ تھا مگر ہم کو اس کے چہرہ کی چمک اور بشاشت سے اسلام کے آثار دکھنے لگے تھے قرآن سننے کے بعد کہنے لگا یہ تو بڑی اچھی اور خوبصورت چیز ہے اچھا بتاؤ کہ اس مذہب میں داخل ہونے کے وقت تم کیا کرتے ہو؟ مصعب اور اسعد نے جواب دیا غسل کر لو کپڑے پاک کر و پھر شہادت حق دو پھر دور کعت نما زپڑھو۔ اسید نے فوراً اٹھ کر جا کر غسل کیا کپڑے پاک کئے اور کلمہ شہادت پڑھ کر کھڑے ہو کر دو رکعت نماز ادا کی پھر کہنے لگا میرے پیچھے ایک آدمی اور ہے اگر اس نے تمہاری بات مان لی تو اس کی قوم کا کوئی شخص تامل نہیں کرے گا وہ سعد بن معاذ ہے میں اس کو تمہارے پاس بھیجتا ہوں پھر نیز ہ لے کر چل دیا اور اپنی چوپال پر جا کر ٹھہر گیا سعد نے پوچھا پیچھے کیا چھوڑ کر آئے ؟ اسید نے کہا خدا کی قسم میں نے تو ان میں کوئی جرأت نہیں پائی میں نے ان کو روک دیا انہوں نے کہا جیسا آپ کو پسند ہے ہم ویسا ہی کریں گے۔ لیکن مجھے ایک خبر یہ ملی ہے کہ بنی حارثہ اسعد کو قتل کرنے کے لیے نکلے ہیں کیونکہ اسعد تمہارا ماموں کا بیٹا ہے وہ اس کو قتل کرکے تم سے عہد شکنی کرنا چاہتے ہیں یہ سن کر سعد غضب ناک ہو کر فوراً اٹھ کھڑا ہوا نیزہ ہاتھ میں لیا اور بولا خدا کی قسم میرے خیال میں تم نے کچھ کام نہیں کیا باغ میں پہنچ کر دیکھا تو مصعب اور اسعد دونوں کو مطمئن پا کر سمجھ گیا کہ اسید نے مجھ اس لیے بھیجا ہے کہ میں خود پہنچ کر ان کی بات سنوں جب سامنے جاکر کھڑا ہو ا تو گالیاں دینے لگا اور اسعد بن زرارہ سے بولا اگر مجھ سے تیرارشتہ نہ ہو تا تو پھر میرے متعلق تیری یہ جرأت نہ ہوتی تو ہمارے گھر کے اندر ایسی باتیں لے کر آتا ہے جو ہم کو ناگوار ہیں ۔ سعد کو دیکھتے ہی اسعد نے مصعب سے کہہ دیا تھا کہ یہ آنے ولا اپنی قوم کا سردار ہے اگر اس نے تمہاری بات مان لی تو پھر اسکی قوم میں کوئی تمہاری مخالفت نہیں کرے گا۔ مصعب نے سعد سے کہا ذرا بیٹھ کر ہماری بات سن لیجئے اگر آپ کو دِل پسند اور مرغوب ہوتو مان لیں ورنہ آپ کے ناگوار خاطر کام ہم آپ سے الگ رکھیں گے۔ سعد نے کہا تیری یہ بات ٹھیک ہے پھر نیزہ زمین میں گاڑ کر بیٹھ گیا مصعب نے اسلام پیش کیا اور قرآن پڑھ کر سنایا۔ مصعب اور اسعد کا بیان ہے کہ سعد کے چہرہ کی چمک اور بشاشت دیکھ کر ہی ہم پہچان گئے تھے کہ اسلام اس کو پسند آگیا ۔ چنانچہ قرآن سن کر سعد نے کہاجب تم مسلمان ہوتے اور اس دین میں داخل ہوتے ہو تو کیا کرتے ہو؟مصعب نے کہا غسل کرلو دونوں کپڑے پاک کرلو پھر شہادتِ حق ادا کرو اور دو رکعت نما ز پڑھو۔
سعد نے اٹھ کر غسل کیا ، کپڑے پاک کئے، شہادت حق ادا کی اور دو رکعت نماز پڑھی اور نیزہ لے کر قصداً اپنی قوم کی چوپال کی طرف گئے ساتھ میں اسید بن حضیر بھی تھے قوم والوں نے آتا دیکھ کر کہا خدا کی قسم اب سعد کا وہ چہرہ نہیں جو جاتے وقت تھا ۔ سعد نے قوم سے کہا اے بنی عبدالاشہل تم مجھے اپنے اندر کیسا جانتے ہو؟ قوم والوں نے کہا آپ ہمارے سردار ہیں سب سے زیادہ آپ کی رائے فضیلت رکھتی ہے آپ کا قول و عمل نہایت مبارک ہے سعد نے کہا تو (سن لو کہ) تمہارے مردوں اور عورتوں سے بات کرنا مجھ پر حرام ہے جب تک تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان نہ لے آؤ۔ سعد کے اس قول کے بعد بنی عبد الاشہل کے احاطہ میں کوئی مرد عورت بغیر اسلام لائے نہیں رہا۔
اسعد اور مصعب دونوں لوٹ کر اسعد کے گھر آگئے مصعب یہیں مقیم رہے اور لوگوں کو اسلام کی دعوت دیتے رہے یہاں تک کہ انصار کے احاطوں میں کوئی احاطہ ایسا نہیں رہا جس میں کچھ مرد اور عورتیں مسلما ن نہ ہوں ہاں بنی امیہ بن زید اور حطمہ اور وائل اور واقف کے احاطہ میں مسلمان نہ ہوئے کیونکہ ابو قیس بن اسلت شاعر ان میں موجود تھا اور یہ خاندان والے اسی کی بات سنتے اور کہا مانتے تھے۔ اس نے سب کو اسلام سے روک دیا تھا یہاں تک کہ رسول اللہ ہجرت کرکے مدینہ میں تشریف لے آئے اور بدر ، احد اور خندق ک لڑائیاں بھی گذر گئیں (اس کے بعد یہ لوگ مسلمان ہو گئے) ۔
اہل تاریخ نے لکھا ہے کہ اس کے بعد مصعب بن عمیر مکہ کو واپس چلے گئے اس وقت آپ کے ساتھ سترّ مسلمان انصاری اور کچھ مشرک تھے جو حج کے لیے گئے تھے مکہ پہنچ کر وسط ایام تشریق میں عقبہ ثانیہ پر رسول اللہ سے ملاقات ہونے کا وعدہ ہو ایہ ہی بیعت عقبہ ثانیہ کہلاتی ہے۔ کعب بن مالک کا بیان ہے کہ میں موجو د تھا ہم حج سے فارغ ہوئے اور وعدہ ملاقات والی رات آئی یوں تو ہم اپنے ساتھ والے مشرکوں سے اپنی باتیں چھپا رکھتے تھے مگر ابو جابر عبد اللہ بن عمرو بن حرام کو ہم نے بتا دیا تھا اور اس سے گفتگو کر لی تھی اور کہہ دیا تھا کہ آپ ہمارے سرداروں میں سے ایک سردار ہیں اور ہمارے بزرگ ہیں ہم نہیں چاہتے کہ آپ کل کو آگ کا ایندھن بنیں اس لیے جس حالت میں آپ ہیں اس حالت میں آپ کو چھوڑ دینا ہم کو پسند نہیں۔ غرض ہم نے اس کو اسلام کی دعوت دی اور وہ مسلمان ہو گیا اور ہم نے رسول اللہ کے وعدۂ ملاقات کو اس کو اطلاع دیدی اور عقبہ میں ہمارے ساتھ آگیا اور نقیب ہو گیا۔ وعدۂ والی رات کا کچھ حصہ ہم نے اپنی فرو گاہوں میں ہی گذارا جب ایک تہائی رات گذر گئی تو ہم چپکے چپکے چھپتے چھپاتے قطا (چکور) کی چال سے نکلے اور عقبہ کے پاس گھاٹی میں پہنچ کر جمع ہوئے اس وقت ہم سترّ مرد اور دو عورتیں تھے ایک بنی نجار کی ام عمارہ نسبیہ بنت کعب اور دوسری بنی سلمہ کی ام منیع اسماء بنت عمرو بن عدی۔ گھاٹی کے اندر ہم رسول اللہ کا انتظار کرتے رہے۔ آخر رسول ﷲ حضر ت عباس بن عبد المطلب کے ساتھ تشریف لے آئے۔
حضرت عباس نے فرمایا: اے گروہ خزرج (خزرج کا اطلاق انصاریوں کے پورے گروہ پر ہوتا تھا خزرجی ہوں یا اوسی تم واقف ہو کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ہم میں سے ہیں جو لوگ ہماری قوم میں ہمارے خیالات کے ہیں ان سے ہم نے ان کی حفاظت کی ہے۔ یہ اپنی قوم میں باعزت اور اپنے شہرمیں حفاظت سے ہیں لیکن یہ سب سے کٹ کر تم سے جڑنا چاہتے ہیں اور تم سے کٹنے پر راضی نہیں ہیں پس سوچ لو اگر اس بات کو تم پورا کر سکو جس کے لیے ان کو بلا رہے ہو اور مخالفوں سے ان کی حفاظت کرسکوتو تمہاری ذمہ داری تم پر ہے اور اگر تم یہ خیال کرتے ہو کہ جب یہ تمہارے پاس پہنچ جائیں گے (اور ان کو مدد کی ضرورت ہو گی) تو تم ان کو بےمدد ، بےسہارا چھوڑ دوگے تو ابھی سے ان کو چھوڑ دو۔ یہ عزت و حفاظت کے ساتھ ہیں (کعب کا بیان ہے ) ہم نے جواب دیا جو کچھ آپ نے فرمایا: ہم نے سن لیا۔ لیکن اے رسول خدا (صلی اللہ علیہ وسلم) آپ خود کچھ فرمائیے اور اپنے لیے اور اپنے رب کے لیے ہم سے جو عہد لینا چاہیں لے لیجئے۔
راوی کا بیان ہے اس پر رسول اللہ بولے ، قرآن مجید کی تلاوت کی اور اللہ کی طرف بلایا اور اسلام کی طرف راغب کیا پھر فرمایا: میں تم سے ان شرطوں پر بیعت لیتا ہوں کہ اپنی بیوی بچوں کی جس چیز سے حفاظت کرو گے اس سے میری بھی حفاظت کرنا۔ یہ سن کر براء بن معرور نے دستِ مبارک پکڑ لیا اور عرض کیا قسم ہے اس کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے ہم جس چیز سے اپنی اور اپنے بال بچوں کی حفاظت کرتے ہیں اس سے آپ کی بھی حفاظت کریں گے۔ یا رسول اللہ ہماری بیعت قبول کیجئے ہم خود بھی جنگجو ہیں اور دوسرے سے بھی تعاون کا ہمارا معاہدہ ہے جو بزرگوں سے موروثی چلا آتا ہے براء رسول ﷲ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے بات کر ہی رہے تھے کہ ابو الہثم بن تیہان بیچ میں بول اٹھے اور کہنے لگے یا رسول اللہ کچھ لوگوں سے ہمارے معاہدے ہیں اب ان کو ختم کرنا پڑے گا کہیں ایسا تو نہ ہو گا کہ ہم سب سے معاہدہ ختم کردیں اور اللہ آپ کو غلبہ عنایت فرما دے تو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) ہم کو چھوڑ کر اپنی قوم کی طرف آجائیں یہ کلام سن کر رسول اللہ مسکرا دیئے اور فرمایا: تمہارا خون میرا خون ہے۔ تم مجھ سے ہو اور میں تم سے۔ جس سے تم لڑو گے میں بھی لڑوں گا جس سے تم صلح کرو گے میں بھی صلح کروں گا پھر حضور نے فرمایا : اپنے میں سے بارہ نمائندے چھانٹ کر نکال لو جو حضرت عیسیٰ کے حواریوں کی طرح اپنی اپنی قوم کے ذمہ دار ہوں حسب الحکم بارہ نمائندے چھانٹے گئے نو خزرج میں سے اور تین اوس میں سے۔
عاصم بن عمرو بن قتادہ کا بیان ہے کہ جب بیعت کے لیے لوگ جمع ہو گئے تو عباس بن عبادہ بن نفلہ انصاری نے کہا: اے گروہ خزرج کیا تم جانتے ہو کہ کس شرط پر تم اس شخص کی بیعت کر رہے ہو‘ ہر گورے کالے سے لڑنے کی بیعت کر رہے ہو اگر تمہارا خیال ہو کہ جب تمہارے مالوں پرکوئی مصیبت پڑے گی اور تمہارے سردار مارے جائیں گے تو تم اس کو بےمدد چھوڑ جاؤ گے تو ابھی بیعت نہ کرو ورنہ اس وقت خدا کی قسم دنیا و آخرت کی رسوائی نصیب ہو گی اور اگر مالوں کی تباہی اور سرداروں کی ہلاکت کے باوجود تم اپنے اس وعدہ کو پورا کر سکتے ہو جس پر تم اس شخص کو دعوت دے رہے ہو تو اس کو لے لو۔ خدا کی قسم یہ دنیا اور آخرت کی بھلائی ہے۔
انصار نے جواب دیا ہم مالوں کی تباہی اور سرداروں کے قتل ہوجانے کے بعد بھی ان کو نہیں چھوڑیں گے اور اسی شرط پر ان کو قبول کر رہے ہو لیکن اے اللہ کے رسول اگر ہم نے یہ شرط پور ی کردی تو ہم کو اس کے عوض کیا ملے گا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا: جنت ۔ انصار نے عرض کیا تو دست مبارک پھیلائیے حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ہاتھ پھیلایا۔ سب نے بیعت کر لی اوّل براء بن معرور نے ہاتھ پر ہاتھ مارا ا پھریکے بعد دیگرے دوسرے لوگوں نے۔
جب ہم بیعت کر چکے تو عقبہ کی چوٹی سے انتہائی بلند آواز سے شیطان نے چیخ کر کہا اے اہل حباحب کیا تم کو مُذَمَّم (محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ) کی بھی اطلاع ہے بےدین اس کے ساتھ مل کر تم سے جنگ کرنے پر متفق ہو گئے ہیں۔ حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا: یہ اللہ کا دشمن ہے ۔ یہ عقبہ کا ازب ہے۔۱؂ اے دشمنِ خدا سن لے خدا کی قسم میں تیرے (مقابلہ کے) لیے بالکل فارغ ہو جاؤں گا پھر فرمایا: اب تم اپنے اپنے پڑاؤ پر چلے جاؤ عباس بن عبادہ بن نضلہ نے عرض کیا قسم ہے اس کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے اگر آپ چاہیں تو ہم کل صبح ہی اہل منا پر تلواریں لیکر ٹوٹ پڑیں گے فرمایا: مجھے اس کا حکم نہیں دیا گیا ہے تم اپنی فرد گاہوں پر چلے جاؤ حسب الحکم ہم اپنی خوابگاہوں پر آگئے اور سو گئے صبح ہوئی تو قریش کے بڑے بڑے لوگ ہمارے پڑاؤ پر آئے اور کہنے لگے اے گروہ خزرج ہم کو اطلاع ملی ہے کہ تم ہمارے اس ساتھی کے پاس سے آئے ہو اسکو ہمارے پاس سے نکال کر لے جانا چاہتے ہو اور ہمارے خلاف جنگ کرنے کیلئے اس سے بیعت کر رہے ہو خدا کی قسم عرب کے کسی قبیلہ سے جنگ چھڑ جانا ہمارے نزدیک اتنی قابل نفرت نہیں جتنی تم سے ہے یہ سن کر ہمارے (یعنی خزرج اور اسکے ) مشرک کھڑے ہو گئے اور اللہ کی قسم کھا کر انہوں نے کہا ایسی کوئی بات نہیں ہوئی اور نہ ہمیں اسکا علم ہے حقیقت میں انہوں نے سچ کہا تھا انکو بیعت کا علم ہی نہ تھا ۔ انکی باتوں کے وقت ہم آپس میں ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے غرض سب لوگ اٹھ کھڑے ہوئے۔
قریش میں ایک شخص حارث بن مغیرہ مخزومی نئی جوتیاں پہنے ہوئے تھا میں نے ابو جابر سے ایک بات کہی گویا میں (دوسرے قریش کو یہ دکھانا چاہتا تھا کہ میں) مشرکین انصار کے کلام کی تائید کر رہا ہوں اور بات یہ تھی کہ میں نے اس سے کہا ابو جابر تم ہمارے سرداروں میں سے ہو لیکن اتنی بھی تم میں استطاعت نہیں کہ اس قریشی جوان کی جوتیوں کی طرح جوتیاں ہی بنوا لو حارث نے یہ بات سنی تو فوراً جوتیاں پاؤں سے نکال کر میری طرف پھینک دیں اور بولا خدا کی قسم اب ان کو توپہنے گا ابو جابر نے کہا ہائیں تو نے جوان کو غصہ دلا دیا جوتیاں واپس کردے میں نے کہا میں تو واپس نہیں کروں گا۔ یہ شگون اچھا ہے اگر فال سچی ہوئی تو خدا کی قسم میں اس کے کپڑے اتار لوں گا۔ غرض مضبوط معاہدہ کے بعد انصار مدینہ کو لوٹ گئے اور مدینہ میں اسلام کا ظہو ر ہو گیا۔
قریش کو اس کی اطلاع ملی تو وہ رسول اللہ کے صحابہ کو دکھ دینے لگے حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ساتھیوں سے فرمایا: اللہ نے تمہارے کچھ بھائی بنا دیئے ہیں اور امن کی ایک جگہ بھی دیدی ہے تم ہجرت کرکے مدینہ چلے جاؤ اور اپنے انصاری بھائیوں میں مل کر رہو ۔ اس حکم پر سب سے پہلے سلمہ بن عبد اللہ مخزومی کے بھائی نے مدینہ کو ہجرت کی پھر عامر بن ربیعہ نے پھر عبد اللہ بن جحش نے پھر پے در پے جتھے جانے لگے اس طرح اسلام کی وجہ سے اللہ نے مدینہ والے اوس اور خزرج کے قبیلوں کو متفق بنا دیا اور رسول اللہ کے ذریعہ ان میں باہم صلح کرادی۔
و کنت علی شفا حفرۃ من النار اور تم دوزخ کے گڑھے کے کنارہ پر تھے یعنی قریب ہی تھا کہ اس میں گر پڑو سوائے موت علی الکفر کے کوئی چیز اس میں گرنے سے مانع نہیں رہی تھی۔
فاقذکم منہا پس اللہ نے اسلام کی وجہ سے تم کو اس آگ یا گڑھے یا گڑھے کے کنارے سے بچا لیا۔ شفا کا لفظ اگرچہ مذکر ہے لیکن اسکا مضاف الیہ یعنی حفرۃ کا لفظ مؤنث ہے اسلئے مونث کی ضمیر اسکی طرف راجع ہو سکتی ہے اسکے علاوہ شفا اور شَفَۃٌ ہم معنی ہیں۔ شفاء البر اور شفۃ البر کنوئیں کا کنارہ جیسے جانبٌ اور جَانِبَۃٌ ہم معنی ہیں۔ دونوں کی اصل شفو تھی مذکر میں واؤ کو الف سے اور مؤنث میں تا ء سے بدل دیا اسلئے شفاء کی جانب مؤنث کی ضمیر لوٹانا بھی درست ہے۔
کذالک یبین اللہ لکم آیاتہ اسی طرح اللہ تمہارے لیے اپنی دلیلیں بیان فرماتا ہے۔
لعلکم تھتدون تاکہ تم ہدایت پر جمے رہو تمہاری ہدایت میں اضافہ ہو۔ (تفسیر مظہری، مفسرقاضی ثناءاللہ پانی پتی،1220ھجری-1820عیسوی)
(103۔109)۔ اور سب مل کر اللہ تعالیٰ کی رسی قرآن مجید کو مضبوط پکڑو۔ اور اس کی تبلیغ میں پھوٹ نہ ڈالوورنہ تمہارے دشمن تم پر غالب آجائیں گے اور اپنے حال پر اللہ کا احسان یاد کرو جب تم آپس میں دشمن تھے پھر اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈالی پس تم اس کے فضل اور مہربانی سے آپس میں بھائی بھائی ہو گئے اور یاد کرو جب تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر تھے اور قریب تھا کہ مرتے ہی اس آگ میں داخل ہو جاتے پھر اس نے تم کو اپنے رسول کے ذریعہ اس سے بچایا جس طرح تم کو اس بلا سے رہائی دی اسی طرح حسبِ مصلحت تمہارے لئے احکام بیان کرتا رہے گا تا کہ تم راہ پائو۔
دیکھو! تمہاری ہدائت کے لئے ہم نے یہ انتظامی حکم دیا ہے کہ تم میں سے ایک جماعت علماء کی ہمیشہ موجود رہے جو لوگوں کو بھلائی کی طرف بلائے اور انکو نیکی کے کام بتلائے اور بروں سے روکے اور خود بھی نیک عمل کرے یہی لوگ اللہ تعالیٰ کی خوش نودی حاصل کریں گے اور یہی لوگ با عزاز و اکرام نجات پاویں گے
یہ آیت علماء کرام کے اظہار عزت کو کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی کامیابی اور عزت کی خبر دیتا ہے ہاں ذمہ داری بھی بڑی ہے سب سے بڑھ کر یہ کہ کہنے پر عمل بھی کریں ورنہ لم تقولون مالا تفعلون کا عتاب ہے۔ ۱۲
البتہ یہ ضرور ہے کہ علم پڑھ کر اغراض دنیوی کی وجہ سے ایک دوسرے کے دشمن ہو کر دھڑے بندی نہ کرنا اور ان لوگوں کی طرح مت ہو نا جو اغراض دنیا وی کے لئے آپس میں پھوٹ پڑے۔ اور احکام پہنچنے اور سمجھنے کے بعد مختلف ہو گئے کیونکہ دنیا میں بھی دانائوں کے نزدیک یہ لوگ ذلیل ہیں اور قیامت کے روز بھی ان خود غرض لوگوں کو بڑا عذاب ہو گا جس دن بہت سے چہرے اپنی نیک کرداری کی وجہ سے چمکتے اور بہت سے اپنی بد کرداری کی وجہ سے سیاہ ہونگے پس اس روز سیاہ منہ والوں سے فرشتے پوچھیں گے کیا تم ایمان کی باتیں پہنچنے کے بعد منکر ہوئے تھے پس اپنے کفر اور انکار کی وجہ سے عذاب کا مزہ چکھو جس سے تمہاری نجات نہ ہو گی اور دوسرے لوگ ان کے مقابل سفید چہرے والے اللہ کی رحمت میں ہمیشہ رہیں گے اور نعماء الٰہی میں عیش و عشرت سے گزاریں گے یہ اللہ تعالیٰ کے احکام ہیں جو تجھ کو (اے نبی ) راستی سے سناتا ہے جو چاہے نیک عمل کر کے رحمت الٰہی سے حصہ لے اور جو چاہے سیاہ منہ کر کے عذاب میں پھنسے اپنے اپنے کئے کا پھل پاویں گے تیرا کیا لیں گے اللہ تعالیٰ کا ارادہ جہان کے لوگوں پر ظلم کرنے کا ہرگز نہیں کیونکہ سب کچھ جو آسمان اور زمین میں ہے اللہ ہی کا مخلوق اور ملک ہے اور انکی حاجتوں کے سب کام اللہ ہی کی طرف رجوع ہیں پس جبکہ پیدائش بھی اسی کی اور محتاج بھی اسی کے پھر بھلا وہ ظلم کیوں کرنے لگا بلکہ وہ تو ہمیشہ اپنے بندوں کی ہدائت کے لئے رسول بھیجتا رہا نیک بندوں کو لوگوں کی ہدائت کے لئے پیدا کرتا رہا- (تفسیر ثنائی، مفسر ثناء اللہ پانی پتی)
(۱۰۳) اور دین الہی اور کتاب خداوندی (قرآن) کو مضبوطی کے ساتھ تھامے رکھو اور اسلام کی اس نعمت کو یاد کرو کہ جاہلیت میں تم کس طرح باہم دشمن تھے پھر دین اسلام سے آپس میں بھائی بھائی ہوگئے ۔
اور بوجہ کفر کے تم لوگ دوزخ کے کنارے پر کھڑے تھے، اس دوزخ سے تمہیں بذریعہ ایمان نجات عطا کی ، اسی طرح اللہ تعالیٰ اپنے اوامر و نواہی اور اپنے احسانات کا تذکرہ کرتا رہتا ہے تاکہ تمہیں ہدایت حاصل ہو۔ (تفسیر ابن عباس، پروفیسر محمد سعید احمد عاطف، 817ھجری-1416عیسوی)
وَلْتَكُنْ مِّنْكُمْ اُمَّۃٌ يَّدْعُوْنَ اِلَى الْخَيْرِ وَيَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِۭ وَاُولٰۗىِٕكَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۝۱۰۴- (سورۃ آل عمران – 104)
تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جو بھلائی کی طرف لائے اور نیک کاموں کا حکم کرے اور برے کاموں سے روکے اور یہی لوگ فلاح اور نجات پانے والے ہیں ۔
وَلَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِيْنَ تَفَرَّقُوْا وَاخْتَلَفُوْا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَاۗءَھُمُ الْبَيِّنٰتُ۝۰ۭ وَاُولٰۗىِٕكَ لَھُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ۝۱۰۵ۙ- (سورۃ آل عمران – 105)
تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے اپنے پاس روشن دلیلیں آ جانے کے بعد بھی تفرقہ ڈالا اور اختلاف کیا انہی لوگوں کے لئے بڑا عذاب ہے۔
(روشن دلیلیں آ جانے کے بعد تفرقہ ڈالا۔ اس سے معلوم ہوا کہ یہود و نصاریٰ کے باہم اختلاف و تفرقہ کی وجہ یہ نہ تھی کہ انہیں حق کا پتہ نہ تھا اور وہ اس کے دلائل سے بےخبر تھے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ انہوں سب کچھ جانتے ہوئے محض دنیاوی مفاد اور نفسانی اغراض کے لئے اختلاف و تفرقہ کی راہ پکڑی تھی اور اس پر جمے ہوئے تھے۔ قرآن مجید نے مختلف اسلوب اور پیرائے سے بار بار اس حقیقت کی نشان دہی کی ہے اور اس سے دور رہنے کی تاکید فرمائی۔ مگر افسوس کہ اس امت کے تفرقہ بازوں نے بھی ٹھیک یہی روش اختیار کی کہ حق اور اس کی روشن دلیلیں خوب اچھی طرح معلوم ہیں ۔ لیکن وہ اپنی فرقہ بندیوں پر جمے ہوئے ہیں اور اپنی عقل و ذہانت کا سارا جوہر سابقہ امتوں کی طرح تاویل اور تحریف کے مکروہ شغل میں ضائع کر رہے ہیں )۔
يَّوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوْہٌ وَّتَسْوَدُّ وُجُوْہٌ۝۰ۚ فَاَمَّا الَّذِيْنَ اسْوَدَّتْ وُجُوْھُھُمْ۝۰ۣ اَكَفَرْتُمْ بَعْدَ اِيْمَانِكُمْ فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُوْنَ۝۱۰۶- (سورۃ آل عمران – 106)
جس دن بعض چہرے سفید ہونگے اور بعض سیاہ (١) سیاہ چہروں والوں (سے کہا جائے گا) کہ تم نے ایمان لانے کے بعد کفر کیا ؟ اب اپنے کفر کا عذاب چکھو ۔
وَاَمَّا الَّذِيْنَ ابْيَضَّتْ وُجُوْھُھُمْ فَفِيْ رَحْمَۃِ اللہِ۝۰ۭ ھُمْ فِيْھَا خٰلِدُوْنَ۝۱۰۷- (سورۃ آل عمران – 107)
اور سفید چہرے والے اللہ تعالیٰ کی رحمت میں داخل ہونگے اور اس میں ہمیشہ رہیں گے۔
تِلْكَ اٰيٰتُ اللہِ نَتْلُوْھَا عَلَيْكَ بِالْحَـقِّ۝۰ۭ وَمَا اللہُ يُرِيْدُ ظُلْمًا لِّلْعٰلَمِيْنَ۝۱۰۸
یہ اللہ کی آیتیں ہیں کہ ہم ٹھیک ٹھیک تم پر پڑھتے ہیں، اور اللہ جہاں والوں پر ظلم نہیں چاہتا (ف ۱۹۸)- (سورۃ آل عمران – 108)
وَلِلہِ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِ۝۰ۭ وَاِلَى اللہِ تُرْجَعُ الْاُمُوْرُ۝۱۰۹ۧ- (سورۃ آل عمران – 109)
اللہ تعالیٰ کے لئے ہی ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے اور اللہ تعالیٰ ہی کی طرف تمام کام لوٹائے جاتے ہیں ۔
(جاری ہے۔۔۔)
 
Pervaiz Iqbal Arain
About the Author: Pervaiz Iqbal Arain Read More Articles by Pervaiz Iqbal Arain: 21 Articles with 25095 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.