اللہ کا دین مکمّل ہے۔ اِسلام میں فرقے ہیں نہ فرقوں میں اِسلام۔ حِصّہ۔ 2

بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللہ کا دین مکمّل ہے۔ اِسلام میں فرقے ہیں نہ فرقوں میں اِسلام۔ حِصّہ۔ 2
تحریر: پرویز اقبال آرائیں، (ریسرچ اسکالر پی ایچ۔ ڈی)، شعبۂ قرآن وسنۃ،
کلیۂ معارفِ اِسلامیہ، جامعہ کراچی۔
اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ھے
وَكَيْفَ تَكْفُرُوْنَ وَاَنْتُمْ تُتْلٰى عَلَيْكُمْ اٰيٰتُ اللہِ وَفِيْكُمْ رَسُوْلُہٗ۝۰ۭ وَمَنْ يَّعْتَصِمْ بِاللہِ فَقَدْ ھُدِيَ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَـقِيْمٍ۝۱۰۱ۧ- سورۃ آل عمران- 101
اور تم کیوں کر کفر کروگے تم پر اللہ کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں اور تم میں اس کا رسول تشریف لایا اور جس نے اللہ کا سہارا لیا تو ضرور وہ سیدھی راہ دکھایا گیا،
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ۝۱۰۲- سورۃ آل عمران- 102
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو جیسا اس سے ڈرنے کا حق ہے اور ہرگز نہ مرنا مگر مسلمان،
وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللہِ جَمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا۝۰۠ وَاذْكُرُوْا نِعْمَتَ اللہِ عَلَيْكُمْ اِذْ كُنْتُمْ اَعْدَاۗءً فَاَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِكُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖٓ اِخْوَانًا۝۰ۚ وَكُنْتُمْ عَلٰي شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَكُمْ مِّنْھَا۝۰ۭ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللہُ لَكُمْ اٰيٰتِہٖ لَعَلَّكُمْ تَھْتَدُوْنَ۝۱۰۳- سورۃ آل عمران- 103 کے مختلف تراجم وتفاسیر ملاحظہ فرمائیں
(1)- اللہ تعالیٰ کی رسی کو سب ملکر مضبوط تھام لو (١) اور پھوٹ نہ ڈالو (٢) اور اللہ تعالیٰ کی اس وقت کی نعمت کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی پس تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہوگئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پہنچ چکے تھے تو اس نے تمہیں بچا لیا اللہ تعالیٰ اسی طرح تمہارے لئے اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ۔ (ترجمہ مکہ، مترجم مولانا جونا گڑھی صاحب، مطبع شاہ فہد قرآن کمپلیکس سعودی عرب ، 1414 ھجری-1994عیسوی)
تفسیر: ١٠٣۔١ تقوٰی کے بعد سب ملکر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لینے کا درس دے کر واضح کر دیا کہ نجات بھی انہی دو اصولوں میں ہے اور اتحاد بھی انہیں پر قائم ہو سکتا اور رہ سکتا ہے۔
١٠٣۔٢ 'ولا تفرقوا اور پھوٹ نہ ڈالو ' کے ذریعے فرقہ بندی سے روک دیا گیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر مزکورہ دو اصولوں سے انحراف کرو گے تو تمہارے درمیان پھوٹ پڑ جائے گی اور تم الگ الگ فرقوں میں بٹ جاؤ گے۔ اور یہیں سے امت مسلمہ کے افتراق کے المیہ کا آغاز ہوا جو دن بدن بڑھتا ہی چلا گیا اور نہایت مستحکم ہو گیا۔ (تفسیر مکہ، مفسر مولانا اصلاح الدین یوسف صاحب، مطبع شاہ فہد قرآن کمپلیکس سعودی عرب)
(2)- اور مضبوطی سے تھام لو تم لوگ اللہ کہ رسی کو، سب مل کر، اور آپس میں مت بٹو ٹکڑیوں میں ف ۵ اور یاد کرو اللہ کے اس (عظیم الشان انعام و) احسان کو جو اس نے تم پر فرمایا، جب کہ تم لوگ آپس میں ایک دوسرے کے دشمن بنے ہوئے تھے، تو اس نے باہم جوڑ دیا تمہارے (پھٹے ہوئے) دلوں کو، پھر تم اس کے فضل و کرم سے آپس میں بھائی بھائی بن گئے ف ۱ اور تم لوگ کھڑے تھے دوزخ کے (ہولناک گڑھے کے) عین کنارے پر، تو اس نے بچا لیا تم کو اس سے (اپنی رحمت بیکراں اور عنایت بےنہایت سے) اسی طرح اللہ بیان فرماتا ہے تمہارے لئے اپنی آیتیں، تاکہ تم لوگ سیدھی راہ پر رہو ف ۲
(ترجمہ مدنی، مترجم مولانا اسحٰق مدنی صاحب، 1432ھجری-2012عیسوی)
٥ ف حَبْلُ اللّٰہ، یعنی اللہ کی رسی سے مراد قرآن حکیم ہے جس کو حدیث رسول میں حَبْلُ اللّٰہ المتین، یعنی اللہ کی مضبوط رسی فرمایا گیا ہے۔ سو یہ اللہ تعالیٰ کی وہ رسی ہے جو اس نے اپنے بندوں کو اپنی خاص رحمتوں سے نوازنے کیلئے آسمان سے زمین تک دراز فرمائی ہے۔ تاکہ اس کے ذریعے اس کے بندے اس کی جناب اقدس واعلیٰ تک رسائی حاصل کر سکیں ۔ اور اس کے نتیجے میں وہ اسکی اَبَدی رحمتوں اور عنایتوں سے سرفراز ہو سکیں پس تم سب لوگ اے مسلمانو! اس کو مضبوطی سے تھام لو ۔ کہ یہ بڑا ہی مضبوط سہارا یعنی عروہ وثقٰی ہے جو چھوٹ تو سکتا ہے والعیاذ باللہ، لیکن ٹوٹ نہیں سکتا۔ وباللہ التوفیق لمایحب ویرید، وعلی مایحب ویرید، بکل حالٍ من الاحوال وفی کل موطنٍ من المواطن فی الحیاۃ
١ ف سو تم دیکھو کہ یہ کتنا بڑا انعام و احسان تھا اس مالک کا تم پر۔ جس سے اس نے تم لوگوں کو نوازا، اور اپنی خاص رحمت و عنایت سے نوازا، کہ تمہارے اندر صدیوں سے چلی آنے والی دشمنیاں یکسر ختم ہوگئیں ۔ اور تم لوگ باہم شیر و شکر ہوگئے۔ پس اس کا تقاضا لازمی اور بدیہی تقاضا یہ تھا، اور یہ ہے کہ تم لوگ دل و جان سے اپنے اس خالق و مالک کے حضور جھک جھک جاؤ۔ اور ہمیشہ جھکے ہی رہو، کہ اسی میں تمہارا بھلا اور فائدہ ہے دنیا کی اس عارضی اور فانی زندگی میں بھی، اور آخرت کے اس حقیقی اور ابدی جہاں میں بھی جو اس دنیا کے بعد آنے والا ہے، وباللہ التوفیق لمایحب ویرید، وعلی مایحب ویرید
٢ ف یعنی اللہ تعالیٰ کے ان عظیم الشان انعامات و احسانات کو یاد کر کے تم لوگ اپنے خالق و مالک کا شکر بجالاؤ۔ اور دل و جان سے اس کے حضور جھک جھک جاؤ کہ اس نے تم لوگوں کو کتنے کتنے اور کیسے کیسے عظیم الشان انعامات سے نوازا۔ تم لوگ اپنے کفر و شرک کے باعث اور نور حق و ہدایت سے محرومی کے نتیجے میں، عین دوزخ کے کنارے پر کھڑے تھے۔ اور اس طور پر کہ جونہی گرے اور موت آئی سیدھے دوزخ میں گئے، تو اللہ تعالیٰ نے اپنا رسول عظیم مبعوث فرما کر، اور تم لوگوں کو حق و ہدایت کی عظیم الشان روشنی سے نواز کر اس انتہائی ہولناک انجام سے بچا لیا۔ اور اس سے بچا کر اس نے تم کو جنت کی راہ سے سرفراز فرما دیا۔ جو کہ اس کا ایک عظیم الشان اور بےمثال و بےپایاں کرم ہے سبحانہ و تعالیٰ۔ پس اس کا تقاضا ہے شکر نعمت، اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ تم لوگ اس کے اتارے ہوئے دین حنیف کو صدق دل سے اپنانا، اس کی تعلیمات مقدسہ کو حرز جان بناؤ، اور ان کے مطابق زندگی گزارنا، وباللہ التوفیق لمایحب ویرید، وعلیٰ مایحب ویرید بکل حالٍ من الاحوال وفی کل موطنٍ من المواطن فی الحیاۃ- (تفسیر مدنی، مفسرمولانا اسحٰق مدنی صاحب، آزاد کشمیر)
211 اللہ کی رسی سے مقصود و مراد؟ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ تم لوگ مضبوطی سے تھام لو اللہ کی رسی کو ۔ یعنی اس کے دین، اور اس کی شریعت کو، جو کہ عبارت ہے اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت سے، جس کے بارے میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ میں تمہارے درمیان دو ایسی عظیم الشان چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں کہ تم نے جب تک ان کو مضبوطی سے تھامے رکھا، تم کبھی گمراہ نہیں ہوؤ گے ۔ ایک اللہ کی کتاب اور ایک میری سنت۔ سو ان دونوں کو اپنی ڈاڑھوں سے اور مضبوطی کے ساتھ پکڑ لو ۔ اسی طرح جن حضرات نے حبل اللہ سے اللہ کا عہد مراد لیا ہے، جیسا کہ آل عمران کی آیت نمبر 211 میں ارشاد فرمایا گیا{اِلَّا بِحَبْلٍ مِّنَ اللّٰہ وَحَبْلٍ مِّنَ النَّاس }تو وہ بھی اسی میں داخل ہے۔ یعنی اللہ کے دین اور اس کی شریعت کے عموم میں ۔ کیونکہ آل عمران کی اس آیت شریفہ میں بھی اللہ کے عہد سے مراد اس کا دین، اور اس کی شریعت ہی ہے۔ اور اللہ پاک- سبحانہ و تعالیٰ - کے دین و شریعت اور اس کی کتاب سے تمسک کو " حبل اللہ " یعنی اللہ کی رسی سے تمسک و اعتصام کے ساتھ تعبیر فرمانے میں یہ بلاغت ہے کہ جس طرح مضبوط رسی کو مضبوطی سے پکڑنے والا ہلاکت کے گڑھے میں گرنے سے محفوظ رہتا ہے۔ اسی طرح اللہ پاک کی اس رسی کو مضبوطی سے پکڑنے والا ہلاکت و تباہی کے گڑھے میں گرنے سے محفوظ رہے گا۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ پھر اللہ پاک کی یہ رسی اس قدر مضبوط ہے کہ اس کے ٹوٹنے کا کوئی خطرہ ہی نہیں ۔ یہ چھوٹ تو سکتی ہے - والعیاذ باللہ - مگر ٹوٹ نہیں سکتی، جیسا کہ دوسرے مقام پر اس بارے ارشاد فرمایا گیا {فَمَنْ یَّکْفُرْ بالطَّاغُوْت وَیُؤْمِنْ باللّٰہ فَقَد اِسْتَمْسَکَ بالْعُرْوَۃ الْوُثْقٰی لَا انْفِصَامَ لَہَا }الاٰیۃ (البقرۃ: 256) - وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وعلی ما یحب ویرید -
212 تفرق و انتشار سے ممانعت : سو ارشاد فرمایا گیا کہ آپس میں مختلف ٹکڑیوں میں نہیں بٹ جانا کہ اللہ کی رسی کو چھوڑ کر الگ الگ گروپ بنا لو ۔ کہ اگر تم لوگوں نے اس طرح کیا تو تم ہلاکتوں کے گڑھوں میں گرتے اور اپنی تباہی کا سامان کرتے جاؤگے، اور خدا وند قدوس سے دور ہو کر ہمیشہ کیلئے مبتلائے عذاب ہو جاؤ گے - والعیاذ باللہ - جبکہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنے والے اس طرح کی ہر ہلاکت سے محفوظ رہیں گے، اور سیدھے خداوند قدوس کے جواررحمت میں پہنچ کر ابدی سعادت و سرخروئی اور حقیقی کامیابی و کامرانی سے بہرہ ور و سرفراز ہوں گے۔ سو بچنے کی ایک ہی راہ ہے کہ سب کے سب اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو - وَبِاللّٰہ التَّوْفِیْقُ - اور مختلف گروہوں اور ٹکڑیوں میں مت بٹ جاؤ - والعیاذ باللہ جل وعلا -
213 تالیف قلوب کے انعام کی تذکیر و یاددہانی : سو ارشاد فرمایا گیا کہ تم لوگ یاد کرو اللہ تعالیٰ کے اس احسان کو جو اس نے تم پر فرمایا جبکہ تم آپس میں ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے باہم جوڑ دیا تمہارے دلوں کو ۔ سو اس قادر مطلق مالک مہربان نے تالیف قلوب کی اس عظیم الشان نعمت سے تم کو نوازا۔ اس دین و ایمان کی برکت سے، اور اس کی رحمتوں بھری اور انقلاب آفریں مقدس تعلیمات کے ذریعے۔ سو اپنے خالق و مالک کے اس عظیم الشان احسان کو یاد کرکے تم ہمیشہ اس کا شکر ادا کرو، اور دل و جان سے اس کے حضور جھکے رہو، کہ اس خالق و مالک کا تم لوگوں پر حق بھی ہے اور اس میں خود تمہارا ہی بھلا بھی ہے۔ اس دنیا میں بھی اور آخرت کے اس ابدی جہاں میں بھی - وباللہ التوفیق - بہر کیف تالیف قلوب کی یہ نعمت ایک عظیم الشان نعمت تھی جس سے اہل اسلام کو اس دور میں نوازا گیا تھا۔ سو نور اسلام سے پہلے عرب کا ہر قبیلہ دوسرے قبیلے کا دشمن تھا۔ ان میں باہم خونریز جنگیں برپا رہتی تھیں ۔ ان کی دیویاں دیوتا الگ اور ان کے اغراض و مفادات باہم متصادم تھے۔ لیکن نزول قرآن کی اس نعمت عظمیٰ کے بعد ان کو{بِحَبْلٍ مِنَ اللّٰہِ} کی اس بےمثال لڑی میں اس عمدگی سے پرو دیا گیا کہ جو ایک دوسرے کے جانی دشمن تھے وہ آپس میں جگری دوست اور ایک دوسرے کے سچے خیر خواہ اور حقیقی غمخوار بن گئے - والحمد للہ رب العالمین - اللہم الف بین قلوب المومنین وانصرہم علی اعدائک اعداء الدین -
214 ہدایت کی نعمت بےمثال کی تذکیر و یاددہانی : سو ارشاد فرمایا گیا کہ تم اللہ تعالیٰ کے اس احسان کو بھی یاد کرو کہ جب تم لوگ دوزخ کے کنارے پر تھے تو اللہ نے تم کو اس سے بچا لیا : یعنی حق سے محرومی اور اپنے کفر و باطل کی بناء پر تم لوگ بالکل دوزخ کے کنارہ پر کھڑے تھے، اور اس طرح کہ صرف مرنے کی دیر تھی، جونہی جان نکلی سیدھے دوزخ کے ہولناک گڑھے میں جا گرے - والعیاذ باللہ - توایسے میں حضرت حق - جل مجدہ - کا تم لوگوں پر یہ کس قدر بڑا کرم و احسان ہوا کہ اس نے محض اپنی رحمت و عنایت سے، اس دین حق کے ذریعے اور اس نبی ٔ برحق کو مبعوث فرماکر تم کو اس ہولناک عذاب اور برے انجام سے بچالیا ۔ سو اس عظیم الشان نعمت خداوندی سے منہ موڑنا، اور اس کا انکار کرنا کس قدر ناشکری، کفران نعمت اور ظلم عظیم ہے - والعیاذ باللہ العظیم - اور ناشکری و کفران نعمت کا عذاب بہت سخت ہے - وَالْعِیَاذُ باللّٰہ جَلَّ وَعَلاَ- اللہ تعالیٰ ناشکری اور کفران نعمت سے ہمیشہ محفوظ رکھے - آمین۔ سو حق و ہدایت کی نعمت سب سے بڑی نعمت ہے - والحمد للہ -
215 دوزخ سے نجات کا ذریعہ دین حنیف سے سرفرازی : سو ارشاد فرمایا گیا کہ تم لوگ دوزخ کے کنارے پر کھڑے تھے تو خدائے رحمان و رحیم نے تم لوگوں کو بچا لیا دوزخ کے اس ہولناک گڑھے سے اپنے اس دین حق کے ذریعے جس سے اس نے تم کو سرفراز فرمایا ۔ اور نبیوں کے امام و پیشوا، اپنے اس آخری رسول کو تمہارے اندر مبعوث فرما کر، جس نے تمہیں کفر و شرک کی ان سب آلائشوں سے پاک و صاف کر دیا، جو دوزخ کی اس ہولناک آگ کی طرف کھینچنے والی ہیں ۔ سو اس سے تم اندازہ کر لو کہ یہ دین حق اس کی کتنی بڑی نعمت ہے جس سے اس واہب مطلق نے تم کو محض اپنے فضل و کرم سے نوازا ہے۔ اور اس نبی ٔرحمت کا وجود مسعود کس قدر بڑا انعام ہے جس سے اس خالق و مالک نے تم کو سرفراز فرمایا ہے۔ سو دل و جان سے اس کی ان نعمتوں کی قدر پہچان کر کے تم اس کا شکر بجا لاؤ، تاکہ تمہارا دنیا و آخرت میں بھلا ہو، جو کہ صلہ و ثمرہ ہے شکر خداوندی کا - سبحانہ و تعالیٰ - سو دوزخ سے بچاؤ کا ذریعہ دین حنیف کی پیروی ہے اور بس۔ اس کے سوا باقی راہیں ٹیڑھی اور دوزخ کی طرف جانے والی ہیں - والعیاذ باللہ العظیم -
216 دین حق دارین کی سعادت و سرخروئی کا ذریعہ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ اسی طرح کھول کر بیان کرتا ہی تمہارے لیے اپنی آیتیں تاکہ تم لوگ راہ راست سے سرفراز ہو سکو اور اس طرح تم دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفراز ہو سکو ۔ سو دین حق سے سرفرازی دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ ہے۔ اور اس طرح تم ہلاکت و گمراہی کے گڑھوں سے بچ کر رہو ۔ سو یہ دین حق دارین کی سعادت و سرخروئی سے ہمکنار و سرفراز کرنے والا دین ہے۔ اور اس دین کا اتارا اور بھیجا جانا سراسر تمہاری ہی بہتری اور بھلائی کے لئے ہے، اور اس دین حق سے سرفرازی دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی ہے اور اس سے محرومی ہر خیر سے محرومی ہے - والعیاذ باللہ العظیم - کیونکہ منزل تک رسائی کے لئے راہ راست سے سرفرازی اولین تقاضا اور بنیادی ضرورت ہے۔ اور راہ راست سے سرفرازی دین حق کے بغیر ممکن نہیں ۔ پس دین حق کو صدق دل سے اپنانے ہی سے سعادت دارین حاصل ہو سکتی ہے - وباللہ التوفیق - اللہ ہمیشہ راہ حق پر ثابت و مستقیم رکھے – آمین۔ (تفسیر مدنی کبیر، مفسرمولانا اسحٰق مدنی صاحب، آزاد کشمیر)
(3)- اور مضبوط پکڑو رسی اللہ کی سب مل کر اور پھوٹ نہ ڈالو ف ٦ اور یاد کرو احسان اللہ کا اپنے اوپر جب کہ تھے تم آپس میں دشمن پھر الفت دی تمہارے دلوں میں اب ہوگئے اس کے فضل سے بھائی ف ۷ اور تم تھے کنارے پر ایک آگ کے گڑھے کے پھر تم کو اس سے نجات دی ف ۸ اسی طرح کھولتا ہے اللہ تم پر آیتیں تاکہ تم راہ پاؤ ف ۹(ترجمہ عثمانی، مترجم مولانا محمود الحسن، 1356ھجری -1938عیسوی)
ف ٦ یعنی سب مل کر قرآن کو مضبوط تھامے رہو جو خدا کی مضبوط رسی ہے۔ یہ رسی ٹوٹ تو نہیں سکتی ہاں چھوٹ سکتی ہے۔ اگر سب مل کر اس کو پوری قوت سے پکڑے رہو گے، کوئی شیطان شر انگیزی میں کامیاب نہ ہو سکے گا اور انفرادی زندگی کی طرح مسلم قوم کی اجتماعی قوت بھی غیر متزلزل اور ناقابل اختلال ہو جائے گی۔ قرآن کریم سے تمسک کرنا ہی وہ چیز ہے جس سے بکھری ہوئی قوتیں جمع ہوتی ہیں اور ایک مردہ قوم حیاتِ تازہ حاصل کرتی ہے لیکن تمسک بالقرآن کا یہ مطلب نہیں کہ قرآن کو اپنی آراء و اہواء کا تختہ مشق بنا لیا جائے، بلکہ قرآن کریم کا مطلب وہی معتبر ہوگا جو احادیث صحیحہ اور سلف صالحین کی متفقہ تصریحات کے خلاف نہ ہو ۔ف ۷ یعنی صدیوں کی عداوتیں اور کینے نکال کر خدا نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی برکت سے تم کو بھائی بھائی بنا دیا۔ جس سے تمہارا دین اور دنیا دونوں درست ہوئے اور ایسی ساکھ قائم ہوگئی ہے جسے دیکھ کر تمہارے دشمن مرعوب ہوتے ہیں ۔ یہ برادرانہ اتحاد خدا کی اتنی بڑی نعمت ہے جو روئے زمین کا خزانہ خرچ کر کے بھی میسر نہ آسکتی تھی۔
ف ۸ یعنی کفر و عصیان کی بدولت دوزخ کے بالکل کنارے پر کھڑے تھے کہ موت آئی اور اس میں گرے۔ خدا نے تمہارا ہاتھ پکڑ کر اس سے بچا لیا اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ذریعہ سے ایمان و ایقان کی روشنی سینوں میں ڈالی۔ حق تعالیٰ کے ان عظیم الشان دینی و دنیاوی احسانات کو یاد رکھو گے تو کبھی گمراہی کی طرف واپس نہ جاؤ گے۔
ف ۹ یعنی یہ باتیں اس قدر کھول کھول کر سنانے سے مقصود یہ ہے کہ ہمیشہ ٹھیک راستہ پر چلتے رہو ۔ ایسی مہلک و خطرناک غلطی کا پھر اعادہ نہ کرو اور کسی شیطان کے اغوا سے استقامت کی راہ نہ چھوڑو ۔ (تفسیر عثمانی، مفسر مولانا شبیر احمد عثمانی صاحب)
(4)- اور سب مل کر خدا (کی ہدایت کی) رسی کو مضبوط پکڑے رہنا اور متفرق نہ ہونا اور خدا کی اس مہربانی کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی اور تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہوگئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے تک پہنچ چکے تھے تو خدا نے تم کو اس سے بچا لیا اس طرح خدا تم کو اپنی آیتیں کھول کھول کر سناتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ (ترجمہ ابن کثیر، مترجم فتح محمد جالندھری)
(5)- اور اللہ کی رسی مضبوط تھام لو (ف ۱۸٦) سب مل کر اور آپس میں پھٹ نہ جانا (فرقوں میں نہ بٹ جانا) (ف ۱۸۷) اور اللہ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو جب تم میں بیر تھا اس نے تمہارے دلوں میں ملاپ کردیا تو اس کے فضل سے تم آپس میں بھائی ہوگئے (ف ۱۸۸) اور تم ایک غار دوزخ کے کنارے پر تھے (ف ۱۸۹) تو اس نے تمہیں اس سے بچادیا (ف ۱۹۰) اللہ تم سے یوں ہی اپنی آیتیں بیان فرماتا ہے کہ کہیں تم ہدایت پاؤ (ترجمہ کنزالایمان، مترجم مولانا احمد رضا خان بریلوی، 1364ھجری-1945عیسوی)
(ف 186) '' حَبْلِ اللہ ِ'' کی تفسیر میں مفسرین کے چند قول ہیں بعض کہتے ہیں اس سے قرآن مراد ہے مُسلِم کی حدیث شریف میں وارد ہوا کہ قرآن پاک حبل اللہ ہے جس نے اس کا اتباع کیا وہ ہدایت پر ہے جس نے اس کو چھوڑا وہ گمراہی پر حضرت ابن مسعود (رض) نے فرمایا کہ حبل اللہ سے جماعت مراد ہے اور فرمایا کہ تم جماعت کو لازم کرلو کہ وہ حبل اللہ ہے جس کو مضبوط تھامنے کا حکم دیا گیا ہے۔
(ف 187) جیسے کہ یہود و نصارٰی متفرق ہوگئے اس آیت میں ان افعال و حرکات کی ممانعت کی گئی جو مسلمانوں کے درمیان تفرق کا سبب ہوں طریقہ مسلمین مذہب اہل سنت ہے اس کے سوا کوئی راہ اختیار کرنا دین میں تفریق اور ممنوع ہے۔
(ف 188) اور اسلام کی بدولت عداوت دور ہو کر آپس میں دینی محبت پیدا ہوئی حتٰی کہ اَوۡس اور خَزْرَجۡ کی وہ مشہور لڑائی جو ایک سو بیس سال سے جاری تھی اور اس کے سبب رات دن قتل و غارت کی گرم بازاری رہتی تھی سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے مٹادی اور جنگ کی آگ ٹھنڈی کردی اور جنگ جو قبیلوں میں الفت و محبت کے جذبات پیدا کردیئے۔
(ف 189) یعنی حالت کفر میں کہ اگر اسی حال پر مرجاتے تو دوزخ میں پہنچتے۔
(ف 190) دولت ایمان عطا کرکے۔ (تفسیرخزائن العرفان، مفسر علامہ نعیم الدین مرادآبادی
(6)- اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو ۔ اور اللہ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو جب تم (ایک دوسرے کے) دشمن تھے پھر اللہ نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی اور تم اس کے فضل (و کرم) سے (آپس میں) بھائی (بھائی) بن گئے، (تمہارا حال تو یہ تھا کہ) تم دوزخ کے گڑھے کے کنارے کھڑے تھے لیکن اللہ نے تم کو اس سے بچا لیا۔ اس طرح اللہ اپنی نشانیاں کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پا جاؤ۔ (ترجمہ الکتاب، مترجم ڈاکٹر محمد عثمان صاحب، 1425ھجری-2005عیسوی)
[۳۹] اللہ کی رسی سے مراد قرآن مجید ہے۔ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے قرآن مجید کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے ''ھو حبل اللہ المتین'' (یہ اللہ کی مضبوط رسی ہے) ۔ قرآن کو اللہ کی رسی اس لئے فرمایا کہ یہی چیز ہے جو بندوں کو خدا سے جوڑتی ہے۔ جس نے اس کو تھام لیا گویا اس نے خدا کا سہارا تھام لیا۔ (تفسیر الکتاب، مفسر ڈاکٹر محمد عثمان صاحب)
(7)- اور اللہ کی [٩٣] رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ میں نہ پڑو اور اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو جو اس نے تم پر اس وقت کی جب تم [٩٤] ایک دوسرے کے دشمن تھے۔ پھر اللہ نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی تو تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی بن گئے۔ اور تم تو آگ کے گڑھے کے کنارے پر کھڑے تھے کہ اللہ نے تمہیں اس سے بچا لیا۔ اللہ تعالیٰ اسی انداز سے اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے تاکہ تم راہ راست کو پاسکو (ترجمہ تیسیرالقرآن، مترجم مولانا عبدالرحمٰن گیلانی صاحب، 1416ھجری-1996عیسوی)
[٩٣] اللہ کی رسی سے مراد اللہ کا دین یا کتاب و سنت کے احکام ہیں اور اللہ کی رسی اس لیے کہا گیا ہے کہ یہی وہ رشتہ ہے جو تمام اہل ایمان کا اللہ سے تعلق قائم رکھتا ہے اور دوسری طرف اہل ایمان کو ایک دوسرے سے مربوط بناتا ہے اور کتاب و سنت کے احکام پر سختی سے عمل پیرا ہونے سے اس بات کا امکان ہی نہیں رہتا کہ مسلمانوں میں اختلاف، انتشار یا عداوت پیدا ہو ۔ لہذا مسلمانوں کو چاہئے کہ اپنی تمام تر توجہ دینی تعلیمات پر مرکوز رکھیں اور فروعی مسائل میں الجھ کر امت مسلمہ میں انتشار پیدا کرکے فرقہ بندیوں سے پرہیز کریں ۔
[٩٤] یعنی جس وقت پورے عرب میں قبائلی نظام رائج تھا اور لوٹ مار اور قتل و غارت کا بازار گرم تھا۔ کوئی حکومت یا عدالت سرے سے موجود ہی نہ تھی جس کی طرف رجوع کیا جاسکتا۔ اگر کسی قبیلہ کا کوئی آدمی قتل ہوجاتا تو مقتول کا قبیلہ اس وقت تک چین سے نہ بیٹھتا تھا جب تک اس کا انتقام نہ لے لیتا، قبائلی حمیت، جسے قرآن نے حمیۃ جاہلیہ کا نام دیا ہے۔ اس انتہا کو پہنچی ہوئی تھی کہ کوئی فریق یہ سوچنے کی زحمت گوارا ہی نہ کرتا تھا کہ قصور کس کا ہے؟ صرف یہ دیکھا جاتا تھا کہ چونکہ ہمارے قبیلہ کے آدمی کو فلاں قبیلہ کے آدمی نے نقصان پہنچایا ہے۔ اس لیے اس سے انتقام لینا ضروری ہے۔ پھر اس انتقام میں انصاف کو ملحوظ نہیں رکھا جاتا تھا۔ ان باتوں کا نتیجہ یہ نکلتا تھا کہ جہاں کہیں کوئی جنگ چھڑی تو پھر وہ ختم ہونے میں نہ آتی تھی۔ مکہ میں بنی بکر اور بنی تغلب کی لڑائی شروع ہوئی جس میں نصف صدی لگ گئی۔ خاندان کے خاندان تباہ ہوگئے، کشتوں کے پشتے لگ گئے مگر لڑائی ختم ہونے میں نہ آئی تھی۔ تقریباً ایسی ہی صورت حال مدینہ میں اوس و خزرج کے درمیان جنگ بعاث کی تھی۔ عرب بھر کا ہوشمند طبقہ اس صورت حال سے سخت پریشان تھا۔ مگر اس صورت حال سے نجات کی انہیں کوئی صورت نظر نہ آتی تھی۔ پھر یہ صورت حال مکہ اور مدینہ تک ہی محدود نہ تھی بلکہ پورے عرب میں ایک جیسی آگ لگی ہوئی تھی اور قریب تھا کہ پوری عرب قوم نیست و نابود ہوجائے کہ اس حال میں اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو دولت اسلام سے سرفراز فرمایا۔ جس سے پرانی رنجشیں اور کدورتیں دور ہوگئیں ۔ عداوت کے بجائے مسلمانوں کے دلوں میں ایک دوسرے سے محبت و الفت پیدا ہوگئی اور وہ بالکل بھائیوں کی طرح بن گئے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو لڑائی کی آگ کے گڑھے میں گرنے سے اور مرنے کے بعد جہنم کی آگ کے گڑھے میں گرنے سے بچا لیا۔ اسی نعمت الفت و محبت کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ انفال میں فرمایا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو مخاطب کرکے فرمایا کہ :
اگر آپ دنیا بھر کی دولت خرچ کرکے ان میں ایسی محبت و الفت پیدا کرنا چاہتے تو نہ کرسکتے تھے۔ یہ اللہ ہی ہے جس نے ان کے دلوں میں الفت پیدا کردی (٨:٦٣) اور یہ ایک نعمت غیر مترقبہ تھی جو صرف اسلام اور اللہ کی مہربانی سے انہیں نصیب ہوئی اور جسے ہر شخص بچشم خود دیکھ رہا تھا۔ (تفسیر تیسیرالقرآن، مفسر مولانا عبدالرحمٰن گیلانی صاحب)
(8)- اور مضبوط پکڑے رہو الله تعالیٰ کے سلسلہ کو اس طور پر کہ (باہم سب) متفق (بھی ) رہو اور (باہم) نااتفاقی مت کرو ۔ اور تم پر جو الله تعالیٰ کا انعام ہے اس کو یاد کروجب کہ تم دشمن تھے پس اس (الله تعالیٰ) نے تمھارے قلوب میں الفت ڈال دی سو تم اس (خدا تعالیٰ) کے انعام سے آپس میں بھائی بھائی ہوگئے ۔ اور تم لوگ دوزخ کے گڑھے کے کنارے پر تھے (ف ۲) سو اس سے اس (خدا تعالیٰ) نے تمھاری جان بچائی اسی طرح الله تعالیٰ تم لوگوں کو اپنے احکام بیان کرکے بتلاتے رہتے ہیں تاکہ تم لوگ راہ پر رہو ۔ (103) (ترجمہ بیان القرآن، مترجم مولانا اشرف علی تھانوی صاحب، 1352ھجری-1934عیسوی)
ف ۲۔ یعنی بوجہ کافر ہونے کے دوزخ سے اتنے قریب تھے کہ بس دوزخ میں جانے کے لیے صرف مرنے کی دیر تھی۔ (تفسیر بیان القرآن، مفسر مولانا اشرف علی تھانوی صاحب)
(9)- اور مضبوط پکڑو رسی اللہ کی سب مل کر اور پھوٹ نہ ڈالو اور یاد کرو احساناللہ کا اپنے اوپر جب کہ تھے تم آپس میں دشمن پھر الفت دی تمہارے دلوں میں اب ہوگئے اس کے فضل سے بھائی، اور تم تھے کنارے پر ایک آگ کے گڑھے کے پھر تم کو اس سے نجات دی اسی طرح کھولتا ہے اللہ تم پر آیتیں تاکہ تم راہ پاؤ۔ ترجمہ معارف القرآن، مترجم مفتی محمد شفیع صاحب، 1389ھجری-1969عیسوی)
مسلمانوں کی اجتماعی قوت کا دوسرا اصول باہمی اتفاق:
دوسری آیت واعتصموا بحبل اللہ جمیعا۔ میں اس کو نہایت بلیغ اور حکیمانہ انداز سے بیان فرمایا ہے کہ سب سے پہلے وہ اصول اور گر بتلایا جو انسانوں کو باہمی مربوط اور متفق کرنے کا نسخہ اکسیر ہے ، اس کے بعد آپس میں متفق ہونے کا حکم دیا، اس کے بعد آپس کے افتراق و انتشار سے منع فرمایا۔
تشریح اس کی یہ ہے کہ اتفاق و اتحاد ایک ایسی چیز ہے جس کے محمود و مطلوب ہونے پر دنیا کے تمام انسان خواہ وہ کسی ملک اور کسی زمانے کے ہوں، کسی مذہب و مشرب سے تعلق رکھتے ہوں سب کا اتفاق ہے اس میں دو رائیں ہونے کا امکان ہی نہیں، دنیا میں شاید کوئی ایک آدمی بھی ایسا نہ نکلے جو لڑائی جھگڑے کو بذاتہ مفید اور بہتر جانتا ہوں، اس لئے دنیا کی ہر جماعت ، ہر پارٹی لوگوں کو متفق کرنے کی ہی دعوت دیتی ہیں، لیکن دنیا کے حالات کا تجربہ بتلاتا ہے کہ اتفاق کے مفید اور ضروری ہونے پر سب کے اتفاق کے باوجود ہو یہ رہا ہے کہ انسانیت فرقوں، گروہوں، پارٹیوں میں بٹی ہوئی ہے ، پھر ہر فرقہ کے اندر فرقے اور پارٹی کے اندر پارٹیوں کا لامحدود سلسلہ ایسا ہے کہ صحیح معنی میں دو آدمیوں کا اتحاد و اتفاق بھی ایک افسانہ بن کر رہ گیا ہے ، وقتی اغراض کے تحت چند آدمی کسی بات پر اتفاق کرتے ہیں ، اغراض پوری ہوجائیں، یا ان میں ناکامی ہوجائے تو نہ صرف یہ کہ اتفاق ختم ہوجائے بلکہ افتراق اور عداوتوں کی نوبت آتی ہے ۔
غور کیا جائے تو اس کا سبب یہ معلوم ہوگا کہ ہر گروہ و ہر فرقہ اور ہر شخص لوگوں کو اپنے خود ساختہ پروگرام پر متحد و متفق کرنا چاہتا ہے ، اور جبکہ دوسرے لوگ خود اپنا بنایا ہوا کوئی نظام و پروگرام رکھتے ہوں تو وہ ان سے متفق ہونے کی بجائے ان کو اپنے پروگرام پر متحد ہونے کی دعوت دیتے ہیں، اس لئے لازمی طور پر ہر دعوت اتحاد کا نتیجہ ایک ہی جماعتوں اور افراد کا افتراق و انتشار نکلتا ہے ، اور اختلافات کی دلدل میں پھنسی ہوئی انسانیت کے ہاتھ اس کے سوا کچھ نہیں آتا کہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی
اس لئے قرآن حکیم نے صرف اتحاد و اتفاق اور تنظیم و اجتماع کا وعظ ہی نہیں فرمایا بلکہ اس کے حاصل کرنے اور باقی رکھنے کا ایک ایسا منصفانہ و عادلانہ اصول بھی بتلادیا جس کے ماننے سے کسی گروہ کو اختلاف نہیں ہونا چاہیے، وہ یہ ہے کہ کسی انسانی دماغ یا چند انسانوں کے بنائے ہوئے نظام و پروگرام کو دوسرے انسانوں پر تھوپ کر ان سے یہ امید رکھنا کہ وہ سب اس پر متفق ہوجائیں گے عقل و انصاف کے خلاف اور خود فریبی کے سوا کچھ نہیں ، البتہ رب العالمین کا دیا ہوا نظام و پروگرام ضرور ایسی چیز ہے کہ اس پر سب انسانوں کو متفق ہونا ہی چاہیے، کوئی عقلمند انسان اس سے اصولا انکار نہیں کرسکتا، اب اگر اختلاف کی کوئی راہ باقی رہتی ہے تو وہ صرف اس بات کے پہچاننے میں ہوسکتی ہے کہ احکم الحاکمین رب العالمین کا بھیجا ہوا نظام کیا اور کون سا ہے ، یہودی نظام تورات کو، نصاری نظام انجیل کو اللہ تعالیٰ کا بھیجا ہواواجب التعمیل بتلاتے ہیں، یہاں تک کہ مشرکین کی مختلف جماعتیں بھی اپنی اپنی مذہبی رسوم کو اللہ تعالیٰ ہی کی طرف منسوب کرتی ہیں ۔ لیکن اول تو اگر انسان اپنے جماعتی تعصب اور آبائی تقلید سے ذرا بلند ہوکر اپنی عقل خداداد سے کام لے تو یہ حقیقت بےنقاب ہوکر اس کے سامنے آجاتی ہے کہ خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ وسلم) جو اللہ تعالیٰ کا آخری پیام قرآن کی صورت میں لائے ہیں، آج اس کے سوا کوئی نظام اللہ تعالیٰ کے نزدیک مقبول نہیں، اس سے بھی قطع نظر کیجئے تو اس وقت مخاطب مسلمان ہیں جن کا اس پر ایمان ہے کہ آج قرآن کریم ہی ایک ایسا نظام حیات ہے جو بلا شبہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجا ہوا ہے، اور چونکہ خود حق تعالیٰ نے اس کی حفاظت کا ذمہ لے لیا ہے ، اس لئے قیامت تک اس میں کسی قسم کی تحریف و تغییر کا بھی امکان نہیں ، اس لئے سردست میں غیر مسلم جماعتوں کی بحث کو چھوڑ کر قرآن پر ایمان رکھنے والے مسلمانوں ہی سے کہتا ہوں کہ ان کے لئے تو صرف یہی لائحہ عمل ہے، اگر مسلمانوں کی مختلف پارٹیاں قرآن کریم کے نظام پر متفق ہوجائیں تو ہزاروں گروہی اور نسلی وطنی اختلافات ایک لحظہ میں ختم ہوسکتے ہین، جو انسانی کی ترقی کی راہ میں حائل ہیں ۔ اب اگر مسلمانوں میں کوئی باہمی اختلاف رہے گا تو وہ صرف فہم قرآن اور تعبیر قرآن میں رہ سکتا ہے اور اگر ایسا اختلاف حدود کے اندر ہے بھی تو نہ وہ مذموم ہے اور نہ انسان کی اجتماعی زندگی کے لئے مضر بلکہ ایسا اختلاف رائے عقلاء کے درمیان رہنا فطری امر ہے ، سو اس پر قابو پانا اور حدود کے اندر رکھنا کچھ دشوار نہیں، بخلاف اس کے کہ قرآنی نظام سے آزاد ہوکر ہماری پارٹیاں لڑتی رہیں تو اس وقت خلاف و جدال کا کوئی علاج نہیں رہتا، اور اسی اختلاف و انتشار کو قرآن کریم نے سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے ، اور آج اسی قرآنی اصول کو نظر انداز کردینے کی وجہ سے ہماری پوری ملت انتشار و افتراق میں پھنس کر برباد ہورہی ہے ، قرآن کریم کی آیت مذکورہ میں اس افتراق کو مٹانے کا نسخہ اکسیر اس طرح بتلایا ہے :
واعتصموا بحبل اللہ جمیعا۔ "یعنی اللہ کی رسی کو سب مل کر مضبوط تھامو"
اللہ کی رسی سے مراد قرآن مجید ہے ، عبداللہ بن مسعود (رض) راوی ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا: کتاب اللہ ھو حبل اللہ الممدود من السماء الی الارض ۔ یعنی کتاب اللہ اللہ تعالیٰ کی رسی ہے جو آسمان سے زمین تک لٹکی ہوئی ہے ۔ (ابن کثیر) زید بن ارقم کی روایت میں حبل اللہ ہوا القرآن کے الفاظ آئے ہیں ۔ (ابن کثیر) محاورہ عربی میں حبل سے مراد عہد بھی ہوتا ہے اور مطلقا ہر وہ شے جو ذریعہ یا وسیلہ کا کام دے سکے ، قرآن کو یا دین کو رسی سے اس لئے تعبیر کیا گیا کہ یہی وہ رشتہ ہے جو ایک طرف اہل ایمان کا تعلق اللہ تعالیٰ سے قائم کرتا ہے اور دوسری طرف تمام ایمان لانے والوں کو باہم ملا کر ایک جماعت بناتا ہے۔ حاصل یہ ہے کہ قرآن کے اس ایک جملہ میں حکیمانہ اصول بتلائے گئے ، ایک یہ کہ ہر انسان پر لازم ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے نظام حیات یعنی قرآن پر مضبوطی سے عامل ہو ، دوسری یہ کہ سب مسلمان ملکر اس پر عمل کریں، جس کا نتیجہ لازمی یہ ہے کہ مسلمان سب باہم متفق و متحد اور منظم ہوجائیں، جیسے کوئی جماعت ایک رسی کو پکڑے ہوئے ہو تو پوری جماعت ایک جسم وحد بن جاتی ہے ، قرآن کریم نے ایک دوسری آیت میں اس کو اور زیادہ واضح اس طرح بیان فرمایا ہے : ان الذین امنوا وعملوا الصلحت سیجعل لھم الرحمن ودا (۱۹: ۹٦) ۔ "یعنی جو لوگ ایمان لائیں اور نیک عمل کریں اللہ تعالیٰ ان کے آپس میں دوستی و محبت پیدا فرمادیتے ہیں"۔
پھر اس میں ایک لطیف تمثیل بھی ہے کہ مسلمان جب اللہ کی کتاب سے اعتصام کر رہے ہوں تو اس کی مثال اس حالت جیسی ہے جو کسی بلندی پر چڑھتے وقت ایک مضبوط ریس کو پکڑ لیں، اور ہلاکت سے محفوظ رہیں، لہذا اشارہ فرمایا کہ اگر سب ملکر اس کو پوری قوت سے پکڑے رہو گے ، کوئی شیطان شرانگیزی میں کامیاب نہ ہوسکے گا، اور انفرادی زندگی کی طرح مسلم قوم کی اجتماعی قوت بھی غیر متزلزل اور ناقابل تسخیر ہوجائے گی، قرآن کریم سے تمسک کرنا ہی وہ چیز ہے جس سے بکھری ہوئی قوتیں جمع ہوتی ہیں اور ایک مردہ قوم حیات تازہ حاصل کرلیتی ہے ، اور اس سے ہٹ کر ان کی قومی و اجتماعی زندگی تو تباہ ہو ہی جائے گی اور اس کے بعد انفرادی زندگی کی بھی کوئی خیر نہیں ۔
پوری مسلم قوم کا اتفاق صرف اسلام ہی کی بنیاد پر ہوسکتا ہے نسبی اور وطنی وحدت سے یہ کام نہیں ہوسکتا: یہاں سب سے پہلے یہ جاننا لازمی ہے کہ وحدت و اتفاق کے لئے ضروری ہے کہ اس وحدت کا کوئی خاص مرکز ہو، پھر مرکز وحدت کے بارے میں اقوام عالم کی راہیں مختلف ہیں، کہیں نسلی اور نسبی رشتوں کو مرکز وحدت سمجھا گیا، جیسے قبائل عرب کی وحدت تھی کہ قریش ایک قوم اور بنو تمیم دوسری قوم سمجھی جاتی تھی ، اور کہیں رنگ کا امتیاز اس وحدت کا مرکز بن رہا تھا، کہ کالے لوگ ایک قوم اور گورے دوسری قوم سمجھتے جاتے ، کہیں وطنی اور لسانی وحدت کو مرکز اتحاد بنایا ہوا تھا کہ ہندی ایک قوم اور عربی دوسری قوم، کہیں آبائی رسوم و رواج کو مرکز وحدت بنایا گیا تھا، کہ جو ان رسوم کے پابند ہیں وہ ایک قوم اور جو ان کے پابند نہیں وہ دوسری قوم، جیسے ہندوستان کے ہندو اور آریہ سماج وغیرہ۔ قرآن کریم نے ان سب کو چھوڑ کر مرکز وحدت حبل اللہ قرآن کریم کو یعنی اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے نظام محکم کو قرار دیا، اور دو ٹوک فیصلہ کردیا کہ مومن ایک قوم ہے جو حبل اللہ سے وابستہ ہے ، اور کافر دوسری قوم جو اس حبل متین سے وابستہ نہیں ، خلقکم فمنکم کافرو منکم مومن (٦٤: ۳) کا یہی مطلب ہے ، جغرافیائی وحدتیں ہرگز اس قابل نہیں کہ ان کو مرکز وحدت بنایا جائے ، کیونکہ وہ وحدتیں عموما غیر اختیاری امور ہین، جن کو کوئی انسان اپنے سعی و عمل سے حاصل نہیں کرسکتا، جو کالا ہے وہ گورا نہیں ہوسکتا، جو قریشی ہے وہ تمیمی نہیں بن سکتا، جو ہندی ہے وہ عربی نہیں بن سکتا، اس لئے ایسی وحدتیں بہت ہی محدود دائرہ میں ہوسکتی ہیں، ان کا دائرہ کبھی اور کہیں پوری انسانیت کو اپنی وسعت میں لے کر پوری دنیا کو ایک وحدت پر جمع کرنے کا دعوی کر ہی نہیں سکتا، اس لئے قرآن کریم نے مرکز وحدت حبل اللہ یعنی قرآن اور اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے نظام حیات کو بنایا جس کا اختیار کرنا اختیاری امر ہے ، کوئی مشرق کا رہنے والا ہو یا مغرب کا، گورا ہو یا کالا، عربی زبان بولتا ہو یا ہندی و انگریزی ، کسی قبیلہ کسی خاندان کا ہو ہر شخص اس معقول اور صحیح مرکز وحدت کو اختیار کرسکتا ہے ، اور دنیا بھر کے پورے انسان اس مرکز وحدت پر جمع ہوکر بھائی بھائی بن سکتے ہیں، اور اگر وہ آبائی رسم و رواج سے ذرا بلند ہوکر غور کریں تو ان کو اس کے سوا کوئی معقول اور صحیح راہ ہی نہ ملے گی ، کہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے نظام کو پہچانیں، اور اس کا اتباع کر کے حبل اللہ کو مضبوطی سے تھام لیں، جس کا نتیجہ ایک طرف یہ ہوگا کہ پوری انسانیت ایک مضبوط و مستحکم وحدت سے مربوط ہوجائے گی۔ دوسرا یہ کہ اس وحدت کا ہر فرد اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے نظام کے مطابق اپنے اعمال و اخلاق کی اصلاح کر کے اپنی دنیوی اور دینی زندگی کو درست کرلے گا، یہ وہ حکیمانہ اصول ہے جس کو لے کر ایک مسلمان ساری دنیا کی اقوام کو للکار سکتا ہے کہ یہی صحیح راستہ ہے، اس طرح آؤ ، اور مسلمان اس پر جتنا بھی فخر کریں بجا ہے ، لیکن افسوس ہے کہ یورپ والوں کی گہری سازش جو اسلامی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کے لئے صدیوں سے چل رہی ہے وہ خود اسلام کے دعویداروں میں کامیاب ہوگئی ، اب امت اسلامیہ کی وحدت عربی، مصری، ہندی، سندھی میں بٹ کر پارہ پارہ ہوگئی، قرآن کریم کی یہ آیت ہر وقت اور ہر جگہ ان سب کو بآواز بلند یہ دعوت دے رہی ہے کہ یہ جاہلانہ امتیازات درحقیقت امتیازات ہیں اور نہ ان کی بنیاد پر قائم ہونے والی وحدت کوئی معقول وحدت ہے ، اس لئے اعتصام بحبل اللہ کی وحدت اختیار کریں، جس نے ان کو پہلے بھی ساری دنیا میں غالب اور فائق اور سربلند بنایا اور اگر پھر ان کی قسمت میں کوئ خیر مقدر ہے تو وہ اسی راستہ سے مل سکتی ہے۔
الغرض اس آیت میں مسلمانوں کو دو ہدایتیں دی گئی ہیں، اول یہ کہ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے نظام حیات کے پابند ہوجائیں، دوسرے یہ کہ سب ملکر مضبوطی کے ساتھ اس نظام کو تھام لیں، تاکہ ملت اسلامی کا شیرازہ خود بخود منظم ہوجائے، جیسا کہ اسلام کے قرون اولی میں اس کا مشاہدہ ہوچکا ہے۔
مسلمانوں میں اتفاق کے ایجابی پہلو کی وضاحت کے بعد فرمایا ولا تفرقوا باہم نااتفاقی نہ کرو، قرآن حکیم کا یہ حکیمانہ انداز ہے کہ وہ جہاں ایجابی پہلو واضح کرتا ہے وہیں سلبی پہلو سے مخالف چیزوں سے منع فرماتا ہے ، چنانچہ ایک دوسری آیت میں ارشاد فرمایا: وان ھذا صراطی مستقیما فاتبعوہ ولا تتبعوا السبل فتفرق بکم عن سبیلہ۔ (٦: ۱۵٤) اس آیت میں بھی صراط مستقیم پر قائم رہنے کی تلقین ہے، اور اپنی خواہشات کے زیر اثر خودساختہ راستوں پر چلنے کی ممانعت نااتفاقی کسی قوم کی ہلاکت کا سب سے پہلا اور آخری سبب ہے ، اسی لئے قرآن حکیم نے بار بار مختلف اسالیب میں اس کی ممانعت فرمائی ہے۔
ان الذین فرقوا دینھم وکانوا شیعا لست منھم فی شیء۔ (٦: ۱٦) "یعنی جن لوگوں نے اپنے دین میں تفرقے ڈالے اور مختلف پارٹیوں میں تقسیم ہوگئے آپ کا ان سے کوئی تعلق اور کوئی واسطہ نہیں"۔ علاوہ ازیں انبیاء علیہم السلام کی امتوں کے واقعات کو نقل فرمایا کہ کس طرح وہ امتیں باہمی اختلاف و شقاق کے باعث مقصد حیات سے منحرف ہوکر دنیا و آخرت کی رسوائیوں میں مبتلا ہوچکی ہیں ۔
حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے تین چیزوں کو پسند فرمایا ہے ، اور تین چیزوں کو ناپسند، پسندیدہ چیزیں یہ ہیں:
اول یہ کہ تم عبادت اللہ تعالیٰ کے لئے کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ ۔ دوم یہ کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب کو مضبوطی سے تھامو، اور نااتفاقی سے بچو ۔ سوم یہ کہ اپنے حکام اور اولوا الامر کے حق میں خیر خواہی کا جذبہ رکھو ۔
اور وہ تین چیزیں جن سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوتے ہیں یہ ہیں ۔ (۱) بےضرورت قیل و قال اور بحث و مباحثہ (۲) بلا ضرورت کسی سے سوال کرنا (۳) اضاعت مال ۔ (ابن کثیر عن ابی ھریرہ) اب سوال یہ رہ جاتا ہے کہ کیا ہر اختلاف مذموم ہے ، یا کوئی اختلاف غیر مذموم بھی ہے ، جواب یہ ہے کہ ہر اختلاف مذموم نہیں ہے ، بلکہ مذموم وہ اختلاف ہے کہ جس میں اپنی اہواء اور خواہشات کی بناء پر قرآن سے دور رہ کر سوچا جائے، لیکن اگر قرآن پر مجتمع رہتے ہوئے اور حضور اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی تشریح و تفصیل کو قبول کرتے ہوئے اپنی فطری استعداد اور دماغی صلاحیتوں کی بناء پر فروع میں اختلاف کیا جائے تو یہ اختلاف فطری ہے ، اور اسلام اس سے منع نہیں کرتا، صحابہ و تابعین اور ائمہ فقہاء کا اختلاف اسی قسم کا اختلاف تھا ، اور اسی اختلاف کو رحمت قرار دیا گیا، ہاں اگر انہی فروعی بحثوں کو اصل دین قرار دیا جائے اور ان میں اختلاف کو جنگ و جدل اور سب و شتم کا ذریعہ بنا لیا جائے تو یہ بھی مذموم ہے، باہمی اتحاد کے ان دونوں پہلوؤں کو واضح کرنے کے بعد اس حالت کی طرف اشارہ کیا گیا جس میں اسلام سے پہلے اہل عرب مبتلا تھے ، قبائل کی باہمی عداوتیں ، بات بات پر ان کی لڑائیاں اور شب و روز کے کشت وخون کی بدولت قریب تھا کہ پوری عرب قوم نیست و نابود ہوجاتی، اس آگ میں جل مرنے سے اگر کسی چیز نے انہیں بچایا تو وہ یہی نعمت اسلام تھی۔ چنانچہ فرمایا گیا۔ واذکروا نعمۃ اللہ علیکم اذ کنتم اعداء فالف بین قلوبکم فاصبحتم بنعمتہ اخوانا وکنتم علی شفا حفرۃ من النار فانقذکم منھا۔ "یعنی اللہ کا یہ انعام اپنے اوپر یاد رکھو کہ جب تم باہم دشمن تھے تو اس نے تمہارے قلوب میں الفت ڈال دی، سو تم اس کے انعام سے آپس میں بھائی بھائی بن گئے، اور تم دوزخ کے گڑھے کے کنارے پر تھے، سو اس نے تمہیں اس سے بچا لیا"یعنی صدیوں کی عداوتیں اور کینے نکال کر اللہ تعالیٰ نے اسلام اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی برکت سے بھائی بھائی بنادیا، جس سے تمہارے دین و دنیا درست ہوگئے اور ایسی دوستی قائم ہوگئی جسے دیکھ کر تمہارے دشمن مرعوب ہوئے، اور یہ برادرانہ اتحاد خدا کی اتنی بڑی نعمت ہے جو روئے زمین کا خزانہ خرچ کر کے بھی میسر نہ آسکتی تھی۔
واقعہ شان نزول میں شریر لوگوں نے جو اوس و خزرج کے قبیلوں کو پچھلی جنگ یاد دلا کر فساد برپاکرنا چاہا تھا آیت مذکور میں اس کا مکمل علاج ہوگیا، نتائج اور بذریعہ اسلام ان سے رہائی کا بیان فرمادیا۔
مسلمانوں کا باہمی اتحاد اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر موقوف ہے:
قرآن حکیم کے اس ارشاد سے ایک اور حقیقت کا انکشاف ہوا، وہ یہ کہ دلوں کا مالک درحقیقت اللہ جل شانہ ہے ، دلوں کے اندر محبت یا نفرت پیدا کرنا اسی کا کام ہے ، کسی جماعت کے قلوب میں باہمی محبت اور موددت پیدا کرنا خالص انعام خداوندی ہے ، اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کا انعام صرف اس کی اطاعت و فرمانبرداری ہی سے حاصل ہوسکتا ہے ، معصیت و نافرمانی کے ساتھ یہ انعام نہیں مل سکتا۔ اس کا نتیجہ یہ بھی ہوا کہ اگر مسلمان مستحکم و اتحاد چاہتے ہیں تو اس کا ذریعہ فقط یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری کو اپنا شعار بنا لیں، اسی طرف اشارہ کرنے کے لئے آیت کے آخر میں ارشاد فرمایا ہے کہ کذلک یبین اللہ لکم ایتہ لعلکم تھتدون "یعنی اسی طرح اللہ تعالیٰ تم لوگوں کے لئے حقائق واضح کر کے بیان فرماتے ہیں تاکہ تم لوگ صحیح راہ پر رہو ۔ (تفسیر معارف القرآن، مفسر مفتی محمد شفیع صاحب)
(10)- اور یاد رکھو کہ سب مل کر اللہ کی رسّی مضبوط پکڑ لو اور گروہ گروہ نہ[1] ہو جاؤ، اللہ نے تمہیں جو نعمت عطا فرمائی ہے اس کی یاد سے غافل نہ ہو، (ایک وقت وہ تھا) جب تمہارا حال یہ تھا کہ آپس میں ایک دوسرے کے دشمن ہو رہے تھے لیکن اس کے خاص فضل و کرم سے تم سب بھائی بھائی بن گئے، تمہارا حال تو یہ تھا کہ آگ سے بھری ہوئی خندق ہے اور اس کے کنارے کھڑے ہو لیکن اللہ نے تمہیں اس حالت سے نکال لیا، اللہ اسی طرح اپنی کارفرمائیوں کی نشانیاں واضح کر دیتا ہے تاکہ تم راہ پالو/103 (ترجمہ عبدالکریم اثری صاحب، مترجم عبدالکریم اثری صاحب، 1414ھجری-1994عیسوی)
(11)- اور سب مل کر اللہ کی رسی مضبوط پکڑو اور پھوٹ نہ ڈالو اور اللہ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو جب کہ تم آپس میں دشمن تھے پھر تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی پھر تم اس کے فضل سے بھائی بھائی ہو گئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر تھے پھر تم کو اس سے نجات دی اس طرح تم پر اللہ اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ- (ترجمہ احمد علی، مترجم مولانا احمد علی صاحب)
(12)- 103-3 اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور جدا جدا نہ ہو جاؤ اور اپنے اوپر اللہ کی نعمت یاد کرو، جب تم دشمن تھے تو اس نے تمھارے دلوں کے درمیان الفت ڈال دی تو تم اس کی نعمت سے بھائی بھائی بن گئے اور تم آگ کے ایک گڑھے کے کنارے پر تھے تو اس نے تمھیں اس سے بچا لیا۔ اس طرح اللہ تمھارے لیے اپنی آیات کھول کر بیان کرتا ہے، تاکہ تم ہدایت پاؤ۔ (ترجمہ حافظ عبدالسلام بھٹوی، مترجم حافظ عبدالسلام بھٹوی، 1427ھجری-2007عیسوی)
وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيْعًا۔۔ : مومنوں کو اہل کتاب کی اطاعت سے دور رہنے کی نصیحت فرما کر اب یہاں سے چند اصولی باتوں کا حکم دیا جا رہا ہے، جن کی پابندی سے انسان ہر قسم کے فتنوں سے محفوظ رہ سکتا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ سے ڈرنا جیسے ڈرنے کا حق ہے، سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑنا اور جدا جدا نہ ہونا اور اللہ کی نعمت، یعنی دلوں میں الفت ڈالنے کو یاد رکھنا۔
اللہ کی رسی سے مراد قرآن ہے، درحقیقت یہ ایک استعارہ ہے کہ اگر کچھ لوگ پہاڑ کی بلندی سے کسی گہری کھائی میں گر پڑیں تو انھیں نکالنے کے لیے اوپر سے رسی پھینکی جاتی ہے۔ اب جو لوگ مل کر اس رسی کو مضبوطی سے پکڑ لیں وہ اس رسی کے ساتھ اوپر نکل آئیں گے اور دوسرے گڑھے ہی میں رہ جائیں گے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے گمراہی کے گڑھے سے نکالنے کے لیے آسمان سے قرآن اتارا ہے، جس کے ساتھ وحی الٰہی، یعنی سنت رسول بھی اتاری ہے۔ مسلمان موجودہ فرقہ بندیوں سے بھی اسی صورت میں نجات پا سکتے ہیں کہ قرآن مجید کو لائحہ عمل قرار دیں اور ذاتی خیالات و آراء کو ترک کر کے سنت کی روشنی میں قرآن کو سمجھیں اور اس پر عمل کریں اور مشائخ و ائمہ کے اقوال و فتاویٰ کو قرآن و سنت کا درجہ دے کر گروہ بندی اختیار نہ کریں۔
اِذْ كُنْتُمْ اَعْدَاۗءً۔۔ : اسلام سے پہلے اوس اور خزرج ہی نہیں بلکہ تمام عرب کفر و شرک اور باہمی عداوتوں میں مبتلا تھے۔ اسی کو یہاں آگ کے گڑھے کے کنارے پر ہونے سے تعبیر کیا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ اسلام کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے تمھیں آگ میں گرنے سے بچا لیا اور عداوت کے بجائے اخوت پیدا کر دی۔ اگر اس عداوت کا اندازہ کرنا ہو تو سورۂ انفال (٦۲، ٦۳) کا مطالعہ کریں۔ (تفسیر القرآن الکریم، مفسرحافظ عبدالسلام بھٹوی)
(13)- اور اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے پکڑے رہو اور آپس میں تفرقہ نہ پیدا کرو اور اللہ کی نعمت کو یاد کرو کہ تم لوگ آپس میں دشمن تھے اس نے تمہارے دلوں میں اُلفت پیدا کردی تو تم اس کی نعمت سے بھائی بھائی بن گئے اور تم جہنم کے کنارے پر تھے تو اس نے تمہیں نکال لیا اور اللہ اسی طرح اپنی آیتیں بیان کرتا ہے کہ شاید تم ہدایت یافتہ بن جاؤ- (ترجمہ جوادی، مترجم ذیشان حیدر جوادی صاحب)
(14)- ۱۰۳۔ اور مضبوط پکڑو رسی اللہ کی سب مل کر اور پھوٹ نہ ڈالو ۔ اور یاد کرو احسان اللہ کا اپنے اوپر، جب تھے تم آپس میں دشمن۔ پھر الفت دی تمہارے دلوں میں، اب ہو گئے اس کے فضل سے بھائی۔ اور تم تھے کنارے پر ایک آگ کے گڑھے کے، پھر تم کو اس سے خلاص کیا (بچا لیا) ۔ اسی طرح کھولتا ہے اللہ تم پر نشانیاں اپنی، شاید تم راہ پاؤ۔(ترجمہ شاہ عبدالقادر، مترجم شاہ عبدالقادرصاحب)
(15)- اور سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور آپس میں تفرقہ پیدا نہ کرو اور اللہ کے اس احسان کو یاد کرو جو اس نے تم پر کیا ہے کہ تم آپس میں دشمن تھے اس نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا کر دی اور تم اس کی نعمت (فضل و کرم) سے بھائی بھائی ہوگئے۔ اور تم آگ کے بھرے ہوئے گڑھے (دوزخ) کے کنارے پر کھڑے تھے جو اس نے تمہیں اس سے بچا لیا اس طرح اللہ تمہارے لیے اپنی نشانیاں ظاہر کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پا جاؤ۔ (ترجمہ محمد حسین نجفی، مترجم محمد حسین نجفی صاحب، 1378ھجری-1978عیسوی)
(16)- اللہ تعالیٰ کی رسی کو سب مل کر مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ پیدا نہ کرو۔ اور تم اپنے اوپر اللہ تعالیٰ کی نعمت کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اس نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی۔ پس تم اس کی مہربانی سے بھائی بھائی بن گئے حالانکہ تم آگ کے گڑھے کے کنارے پر پہنچ چکے تھے اس نے تمہیں اس سے بچا لیا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ تمہارے لیے اپنے احکامات بیان کرتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ۔ (ترجمہ فہم القرآن، مترجم میاں محمد جمیل صاحب)
(17) اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو، اور آپس میں متفرق نہ ہو، اور یاد کرو اللہ کی نعمت کو جو تمہارے اوپر ہے جبکہ تم دشمن تھے، سو اللہ نے تمہارے دلوں میں الفت پیدا فرما دی لہٰذا تم اس کی نعمت کی وجہ سے بھائی بھائی ہو گئے ، اور تم دوزخ کے گڑھے کے کنارے پر تھے سو اللہ نے تم کو اس سے بچا دیا۔ اللہ ایسے ہی بیان فرماتا ہے تمہارے لئے اپنی آیات تاکہ تم ہدایت پر رہو۔ (ترجمہ درمنثور، مترجم جلال الدین سیوطی، 908ھجری-1507عیسوی)
(۱) سعید بن منصور ابن ابی شیبہ ابن جریر ابن المنذر طبرانی نے صحیح سند کے ساتھ حضرت ابن مسعود (رض) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ’’ اعتصموا بحبل اللہ ۔ میں حبل اللہ سے مراد قرآن مجید ہے۔
(۲) فریابی، عبد بن حمید، ابن الضریس، ابن جریر، ابن الانباری نے مصاحف میں طبرانی ابن مردویہ اور بیہقی نے شعب الایمان میں حضرت ابن مسعود (رض) سے روایت کیا ہے کہ بلاشبہ یہ راستہ حاضر کیا ہوا ہے شیاطین حاضر ہوئے اور آواز دیتے ہیں کہ اے اللہ کے بندے! آجاؤ یہ وہی راستہ ہے (یعنی اس کو دھوکہ دیتا ہے ) تا کہ ان کو اللہ کے راستے سے روکے سو تم مضبوط پکڑو اللہ کی رسی کو اور بلاشبہ اللہ کی رسی قرآن ہے۔
(۳) ابن ابی شیبہ نے ابن جریر نے ابو سعید خدری (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ ص) نے فرمایا اللہ کی کتاب وہی اللہ کی رسی ہے جو پھیلی ہوئی ہے آسمان سے زمین تک۔
(٤) ابن ابی شیبہ نے ابو شریح خزاعی (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ ص) نے فرمایا بلاشبہ یہ قرآن رسی ہے اس کا ایک کنارہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور دوسرا کنارہ تمہارے ہاتھوں میں ہے اس کو مضبوطی سے پکڑ لو بلاشبہ تم اس کے بعد کبھی گمراہ نہ ہوگے
(۵) ابن ابی شیبہ اور طبرانی نے زید بن ارقم (رض) سے روایت کیا ہے کہ ہم کو رسول اللہ (صلی اللہ ص) نے خطبہ دیا اور فرمایا میں تمہارے اندر اللہ کی کتاب چھوڑنے والا ہوں وہی اللہ کی رسی ہے جو شخص اس کی اتباع کرے گا وہ ہدایت پر ہوگا اور جو شخص اس کو چھوڑ دے گا وہ گمراہی پر ہوگا۔
دو چیزیں ذریعہ ہدایت ہیں
(٦) احمد نے زید بن ثابت (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ ص) نے فرمایا میں تمہارے اندر دو چیزیں چھوڑنے والا ہوں ایک اللہ کی کتاب جو پھیلی ہوئی ہے آسمان اور زمین کے درمیان اور میرا کنبہ میرے گھر والے ہیں اور بلاشبہ یہ دونوں ہرگز جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ دونوں میرے پاس حوض پر وارد ہوں گے۔
(۷) طبرانی نے زید بن ارقم (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ ص) نے فرمایا میں تمہارے لیے آگے بڑھنے والا ہوں۔ اور تم میرے پاس حوض کوثر پر آؤ گے۔ پس تم دیکھو کہ کس طرح تم میرے خلیفہ بنو گے ثقلین میں کہا گیا ثقلین کیا ہے یا رسول اللہ، آپ نے فرمایا بڑی چیز اللہ کی کتاب ہے جو ایک رسی ہے جس کا ایک سرا اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور اس کا دوسرا سرا تمہارے ہاتھوں میں ہے۔ سو تم اس کو مضبوطی سے پکڑو ہرگز نہ پھسلو گے اور نہ گمراہ ہوگے اور چھوٹی چیز میرا کنبہ ہے اور یہ دونوں ہرگز جدا نہیں ہوں گی یہاں تک کہ میرے پاس حوض پر آئیں گی ان دونوں کے بارے میں میں نے اپنے رب سے سوال کیا سو تم ان دونوں سے آگے نہ بڑھو ورنہ ہلاک ہوجاؤ گے اور تم ان دونوں کو نہ سکھاؤ کیونکہ وہ تم دونوں سے زیادہ جانتے ہیں۔
(۸) ابن سعد احمد طبرانی نے ابو سعید خدری (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ ص) نے فرمایا اے لوگو میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑنے والا ہوں کہ اگر اس کو (مضبوطی سے) پکڑو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہوگے ان میں سے ایک دوسرے سے بڑی ہے ایک اللہ کی کتاب ہے جو پھیلی ہوئی ہے آسمان اور زمین کے درمیان اور دوسرا میرا کنبہ وہ میرے گھر والے ہیں اور یہ دونوں ہرگز جدا نہیں ہوں گے یہاں تک کہ میرے پاس حوض پر آئیں گے۔
(۹) سعید بن منصور عبد بن حمید ابن جریر ابن المنذر طبرانی نے شعبی کے طریق سے حضرت ابن مسعود (رض) سے روایت کیا کہ لفظ آیت ’’واعتصموا بحبل اللہ ‘‘ میں اللہ کی رسی سے مراد جماعت ہے۔
(۱۰) ابن جریر ابن ابی حاتم نے شعبی کے طریق سے ثابت بن فطنۃ المزنی رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کیا کہ میں نے ابن مسعود (رض) کو یوں فرماتے ہوئے سنا سے لوگو تم پر اطاعت اور جماعت لازم ہے۔ کیونکہ یہ دونوں اللہ کی رسی ہے جن کے بارے میں حکم دیا گیا ہے۔
(۱۱) ابن ابی حاتم نے سماک بن ولید حنفی رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کیا کہ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ملا اور عرض کیا آپ سلاطین کے بارے میں کیا فرماتے ہیں وہ ہم پر ظلم کرتے ہیں۔ ہم کو گالیاں دیتے ہیں اور ہم پر زیادتی کرتے ہیں ہمارے صدقات کے بارے میں۔ کیا ہم ان کو نہ روکیں؟ تو انہوں نے فرمایا نہیں۔ ان کی اطاعت کرو جماعت کو لازم پکڑو۔ کیونکہ پہلی امتیں ہلاک ہوئیں (آپس میں) جدا ہونے کی وجہ سے کیا تو نے اللہ تعالیٰ کا قول نہیں سنا لفظ آیت ’’واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولا تفرقوا ‘‘ ۔
(۱۲) ابن ماجہ ابن جریر ابن ابی حاتم نے انس (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ ص) نے فرمایا بنو اسرائیل اکہتر فرقوں میں بٹ گئے۔ اور میری امت عنقریب بہتر فرقوں میں بٹ جائے گی ایک فرقہ کے علاوہ سب آگ میں ہوں گے صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ! وہ ایک کونسا فرقہ ہے آپ فرمایا وہ جماعت ہے ۔ پھر فرمایا لفظ آیت ’’واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولا تفرقوا ‘‘ ۔
(۱۳) ابن ماجہ ابن جریر ابن ابی حاتم نے انس (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ ص) نے فرمایا بنو اسرائیل اکہتر فرقوں میں بٹ گئی اور میری امت عنقریب بہتر فرقوں میں بٹ جائے گی ایک فرقہ کے علاوہ سب آگ میں ہوں گے صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا وہ ایک کونسا فرقہ ہے آپ نے فرمایا وہ جماعت ہے پھر اس آیت کی تلاوت کی لفظ آیت "واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولا تفرقوا "۔
(۱٤) ابن ماجہ ابن جریر ابن ابی حاتم نے انس (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ ص) نے فرمایا بنو اسرائیل اکہتر فرقوں میں بٹ گئی اور میری امت عنقریب بہتر فرقوں میں بٹ جائے گی ایک فرقہ کے علاوہ سب آگ میں ہوں گے صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! وہ ایک فرقہ کونسا ہوگا آپ نے فرمایا وہ جماعت ہے پھر یہ آیت تلاوت فرمائی لفظ آیت ’’واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولا تفرقوا ‘‘ ۔
(۱۵) مسلم اور بیہقی نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ ص) نے فرمایا بلاشبہ اللہ تعالیٰ تمہارے لیے تین اعمال سے راضی ہوتے ہیں اور تمہارے لیے تین اعمال سے ناراض ہوتے ہیں تم سے راضی ہوتے ہیں اس بات سے کہ تم اسی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ اور یہ کہ تم مضبوطی سے پکڑو اللہ کی رسی کو سب کے سب اور متفرق نہ ہوجاؤ اور تم خیر خواہی کرو اس شخص کی جس کو اللہ تعالیٰ نے تمہارے کام کا والی بنایا اور تمہارے لیے ناراض ہوتے ہیں بک بک کرنے سے یعنی کثرت سے سوال کرنے سے اور مال کے ضائع کرنے سے۔
(۱٦) احمد ابوداؤد نے معاویہ بن سفیان (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ ص) نے فرمایا کہ کتاب والے اپنے دین میں متفرق ہوگئے بہتر فرقوں میں اور یہ امت عنقریب متفرق ہوجائے گی تہتر فرقوں پر یعنی اپنی خواہشات پر چلنے والے ایک کے علاوہ سب دوزخ میں جائیں گے اور وہ جماعت ہے (یعنی اہلسنت والجماعت کی) ۔
مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ رہو
(۱۷) حاکم نے اس کو صحیح کہا حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ ص) نے فرمایا جو شخص جماعت سے ایک بالشت بھی نکل گیا تو تحقیق اس نے اپنی گردن سے اسلام کے پھندے کو نکال دیا یہاں تک کہ وہ واپس لوٹ آئے (یعنی دوبارہ کلمہ پڑھ کر اسلام میں داخل ہو) اور جو شخص مر گیا اور اس پر جماعت کا امام والی نہ ہو تو وہ جاہلیت کی موت مرا۔
(۱۸) ابن جریر ابن ابی حاتم نے ابو العالیہ رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ’’واعتصموا بحبل اللہ ‘‘ یعنی ایک اللہ تعالیٰ کے لیے اخلاص کے ساتھ (اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑو) ’’ ولا تفرقوا ‘‘ یعنی حدود سے تجاوز نہ کرو اور اخلاص کے ساتھ (آپس میں) بھائی بھائی بن جاؤ۔
(۱۹) ابن ابی حاتم نے حسن رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ’’واعتصموا بحبل اللہ ‘‘ سے مراد ہے اس کی اطاعت کے ساتھ (اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑو) ۔
(۲۰) قتادہ رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ’’واعتصموا بحبل اللہ ‘‘ سے مراد ہے اللہ کے عہد اور اس کے حکم کو لازم پکڑو۔
(۲۱) ابن جریر نے ابن زید رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ’’واعتصموا بحبل اللہ ‘‘ سے مراد ہے اسلام کو لازم پکڑو
(۲۲) ابن جریر ابن ابی حاتم نے ربیع رحمۃ اللہ علیہ سے لفظ آیت ’’واذکروا نعمت اللہ علیکم اذ کنتم اعداء ‘‘ کے بارے میں روایت کیا۔ کہ بعض تمہارا بعض کو قتل کر دیتا تھا اور تمہارا طاقت والا تمہارے کمزور کو کھا جاتا تھا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اسلام کو لے آئے اور اس کے ذریعہ تمہارے درمیان محبت ڈال دی اور تم سب کو آپس میں جمع کر دیا اور تم کو بھائی بھائی بنا دیا۔
(۲۳) ابن جریر وابن ابی حاتم نے عکرمہ رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کیا ہے کہ نبی (صلی اللہ ص) نے انصار کی ایک جماعت سے ملاقات فرمائی وہ لوگ ایمان لائے اور تصدیق کی تو آپ نے ان کے ساتھ جانے کا ارادہ فرمایا انصار نے عرض کیا یا رسول اللہ! ہماری قوم کے درمیان باہم لڑائی کا سلسلہ جاری ہے اور ہم خوف کرتے ہیں اگر آپ سی حال پر تشریف لے آئے تو آپ وہ کام نہ کر سکیں گے جس کا آپ ارادہ رکھتے ہیں پھر یہ لوگ اگلے سال وفد لے کر آئے تو انہوں نے کہا ہم رسول اللہ (صلی اللہ ص) کو لے جائیں گے شاید کہ اللہ تعالیٰ اس لڑائی میں صلح فرما دیں اور وہ لوگ یہ جان چکے تھے کہ صلح نہیں ہوگی کیونکہ بعاث (یعنی لڑائی ) کا دن تھا پھر آئندہ سال ستر آدمیوں نے آپ سے ملاقات کی اور ایمان لے آئے ان میں آپ نے بارہ آدمیوں کو ان کا چودھری یا سردار بنایا (اس طرح ان کی آپس میں لڑائی ختم ہوگئی) اور اسی وجہ سے یہ فرمایا لفظ آیت ’’واذکروا نعمت اللہ علیکم اذ کنتم اعداء فالف بین قلوبکم ‘‘ اور ابن جریر کے یہ الفاظ ہیں جب حضرت عائشہ (رض) کا معاملہ تھا تو دو قبیلوں نے مشورہ کیا ان کے بعض نے بعض سے کہا کہ تم سے حرہ پر وعدہ ہے تو وہ لوگ اس کی طرف نکلے (مگر اللہ تعالیٰ نے یہ آگ بجھا دی) اور یہ آیت نازل ہوئی لفظ آیت "واذکروا نعمت اللہ علیکم اذ کنتم اعداء فالف بین قلوبکم"
(۲٤) ابن ابی حاتم نے ابن جریج رحمۃ اللہ علیہ سے لفظ آیت ’’ اذ کنتم اعداء ‘‘ کے بارے میں روایت کیا ہے کہ جو نزاع ہوا تھا اوس اور خزرج کے درمیان تھا حضرت عائشہ (رض) کی معاملہ میں (اس سے وہی مراد ہے) ۔
(۲۵) ابن المنذر نے ابن اسحق رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کیا ہے کہ اوس اور خزرج کے درمیان ایک سو بیس سال جنگ رہی یہاں تک کہ اسلام قائم ہوا اور اللہ تعالیٰ نے اس کو بجھا دیا اور ان کے درمیان محبت ڈال دی۔
مسلمانوں کا آپس میں اتفاق نعمت خداوندی ہے
(۲٦) ابن المنذر نے مقاتل بن حبان رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کیا ہے کہ مجھ کو یہ بات پہنچی ہے کہ یہ آیت انصار کے دو قبیلوں کے دو آدمیوں کے بارے میں نازل ہوئی ایک ان میں سے خزرج میں سے تھا اور دوسرا اوس میں سے تھا دونوں نے آپس میں طویل زمانہ تک جاہلیت میں لڑائی لڑی نبی (صلی اللہ ص) (جب) مدینہ منورہ میں تشریف لائے تو ان کے درمیان صلح کرادی یہ گفتگو ان کے درمیان ایک مجلس میں جاری ہوگئی (جس پر) انہوں نے ایک دوسرے پر فخر کیا اور برا بھلا کہا یہاں تک کہ ان کے بعض نے بعض لوگوں پر نیزا مارنا شروع کر دیا۔
(۲۷) ابن المنذر نے قتادہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ لفظ آیت ’’واذکروا نعمت اللہ علیکم اذ کنتم اعداء فالف بین قلوبکم فاصبحتم بنعمتہ اخوانا ‘‘ سے مراد ہے کہ جب تم ایک دوسرے کو ذبح کر کے تمہارے طاقت ور لوگ تمہارے کمزوروں کو کھا جاتے تھے یہاں تک کہ اسلام آیات تو اس کے ذریعہ تم آپس میں بھائی بھائی بن گئے اور اس کے ذریعہ تمہارے درمیان محبت ڈال دی لیکن اللہ کی قسم! وہ ذات کہ جس کے سوا کوئی معبود نہیں کہ بلاشبہ یہ محبت البتہ رحمت ہے اور بلاشبہ (آپس میں) جدائی عذاب ہے ہم کو (یہ بات) ذکر کی گئی کہ نبی (صلی اللہ ص) فرمایا کرتے تھے اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں محمد (صلی اللہ ص) کی جان ہے کہ دو آدمی آپس میں اسلام کی محبت نہیں کرتے تو ان کے درمیان پہلا گناہ جدائی ڈال دیتا ہے جسے ان میں سے ایک نے کیا اگرچہ دونوں کا ارادہ نہ کرنے کا ہوتا ہے۔
(۲۸) ابن ابی حاتم نے انس (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ ص) نے فرمایا اے انصار کی جماعت تم مجھ پر کیوں احسان رکھتے ہو کیا میں تمہارے پاس اس وقت نہیں آیا جب تم گمراہ تھے پھر تم کو اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ سے ہدایت دی اور میں تمہارے پاس اس حال میں آیا کہ تم (ایک دوسرے کے ) دشمن تھے پھر اللہ تعالیٰ نے میرے ذریعہ سے تمہارے دلوں میں محبت ڈال دی تو صحابہ نے عرض کیا ہاں رسول اللہ (صلی اللہ ص) ایسا ہی ہے۔
(۲۹) ابن جریر وابن ابی حاتم نے سدی رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ’’وکنتم علی شفا حفرۃ من النار ‘‘ سے مراد ہے کہ تم آگ کے کنارے پر تھے جو تم میں سے مرتا آگ میں جاتا مگر اللہ تعالیٰ نے محمد (صلی اللہ ص) کو بھیجا جنہوں نے تم کو اس (آگ کے) گڑھے سے نکال دیا۔
(۳۰) عبد بن حمید نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے یہ آیت ’’وکنتم علی شفا حفرہ من النار فانقذکم منھا ‘‘ پڑھی پھر فرمایا کہ تم کو بچایا اس سے اب میں امید کرتا ہوں وہ ہم کو دوبارہ اس میں نہیں ڈالے گا۔
(۳۱) الطستی نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے کہ ان سے نافع بن ازرق نے پوچھا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کے اس قول لفظ آیت ’’وکنتم علی شفا حفرہ من النار فانقذکم منھا ‘‘ کے بارے میں بتائیے انہوں نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو محمد (صلی اللہ ص) کے ذریعہ سے بچایا تو انہوں نے عرض کیا اس معنی کو عرب کے لوگ جانتے ہیں فرمایا ہاں کیا تو نے عباس بن مراداس کو نہیں سنا کہ وہ کہتے ہیں
یکب علی شفا الاذقان کبا کما زلق التحتم عن جفاف
ترجمہ: اوندھا گرتا ہے ٹھوڑی کے کنارے پر اوندھا گرنا جیسے کیلے کے چھلکے سے اس کا ٹوٹا ہوا گودا پھسل کر نیچے گرتا ہے۔ (تفسیر درمنثور، مفسر جلال الدین سیوطی، 908ھجری-1507عیسوی)
(18)- اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھام لو مل جل کر اور تفرقے میں نہ پڑو اور ذرا یاد کرو اللہ کا جو انعام تم پر ہوا جبکہ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اللہ نے تمہارے دلوں کے اندر اُلفت پیدا کر دی پس تم اللہ کے فضل و کرم سے بھائی بھائی بن‘ گئے اور تم تو آگ کے گڑھے کے کنارے تک پہنچ گئے تھے (بس اس میں گرنے ہی والے تھے ) تو اللہ نے تمہیں اس سے بچا لیا اسی طرح اللہ تمہارے لیے اپنی آیات واضح کررہا ہے تاکہ تم راہ پاؤ (اور صحیح راہ پر قائم رہو)- (ترجمہ بیان القرآن، مترجم ڈاکٹر اسرار احمد صاحب، 1428ھجری-2008عیسوی)
آیت ۱۰۳ (وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّلاَ تَفَرَّقُوْاص) ۔
یاد رہے کہ اس سے پہلے آیت ۱۰۱ ان الفاظ پر ختم ہوئی ہے: (وَمَنْ یَّعْتَصِمْ باللّٰہِ فَقَدْ ہُدِیَ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ ) اور جو کوئی اللہ تعالیٰ سے چمٹ جائے (اللہ کی حفاظت میں آ جائے) اس کو تو ہدایت ہو گئی صراطِ مستقیم کی طرف۔ سورۃ الحج کی آخری آیت میں بھی یہ لفظ آیا ہے : (وَاعْتَصِمُوْا باللّٰہِ) اور اللہ سے چمٹ جاؤ! اب اللہ کی حفاظت میں کیسے آیا جائے؟ اللہ سے کیسے چمٹیں؟ اس کے لیے فرمایا: (وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ) کہ اللہ کی رسی سے چمٹ جاؤ‘ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو ۔ اور یہ اللہ کی رسّی کونسی ہے؟ متعدد احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ یہ قرآنہے۔ ایک طرف انسان میں تقویٰ پیدا ہو‘ اور دوسری طرف اس میں علم آنا چاہیے‘ قرآن کا فہم پیدا ہونا چاہیے‘ قرآن کے نظریات کو سمجھنا چاہیے‘ قرآن کی حکمت کو سمجھنا چاہیے۔ انسانوں میں اجتماعیت جانوروں کے گلوں کی طرح نہیں ہو سکتی کہ بھیڑبکریوں کا ایک بڑا ریوڑ ہے اور ایک چرواہا ایک لکڑی لے کر سب کو ہانک رہا ہے۔ انسانوں کو جمع کرنا ہے تو ان کے ذہن ایک جیسے بنانے ہوں گے ‘ ان کی سوچ ایک بنانی ہو گی۔ یہ حیوانِ عاقل ہیں‘ باشعور لوگ ہیں۔ ان کی سوچ ایک ہو‘ نظریات ایک ہوں‘ مقاصد ایک ہوں‘ ہم آہنگی ہو‘ نقطۂ‘ نظر ایک ہو تبھی تو یہ جمع ہوں گے۔ اس کے لیے وہ چیز چاہیے جو ان میں یک رنگئ خیال‘ یک رنگئ نظر ‘ یک جہتی اور مقاصد کی ہم آہنگی پیدا کر دے‘ اور وہ قرآن ہے‘ جو حبل اللہ ہے۔
حضرت علی (رض) سے مروی طویل حدیث میں قرآن حکیم کے بارے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے الفاظ نقل ہوئے ہیں: ((وَھُوَ حَبْلُ اللّٰہِ الْمَتِیْنُ)) (۱) حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے روایت ہے کہ آنحضور (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا: ((کِتَابُ اللّٰہِ ‘ حَبْلٌ مَمْدُوْدٌ مِنَ السَّمَاءِ اِلَی الْاَرْضِ)) (۲) اللہ کی کتاب (کو تھامے رکھنا)‘ یہی وہ مضبوط رسّی ہے جو آسمان سے زمین تک تنی ہوئی ہے۔ ایک اور حدیث میں فرمایا: (اَبْشِرُوْا اَبْشِرُوْا ۔۔ فَاِنَّ ھٰذَا الْقُرْآنَ سَبَبٌ‘ طَرْفُہٗ بِیَدِ اللّٰہِ وَطَرْفُہٗ بِاَیْدِیْکُمْ) (۳) خوش ہو جاؤ‘ خوشیاں مناؤ۔۔ یہ قرآن ایک واسطہ ہے‘ جس کا ایک سرا اللہ کے ہاتھ میں ہے اور ایکِ سرا تمہارے ہاتھ میں ہے۔ چنانچہ تقرب الی اللہ کا ذریعہ بھی قرآن ہے ‘ اور مسلمانوں کو آپس میں جوڑ کر رکھنے کا ذریعہ بھی قرآن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری دعوت و تحریک کا منبع و سرچشمہ اور مبنیٰ و مدار قرآن ہے۔ اس کا عنوان ہی دعوت رجوع الی القرآنہے۔ میں نے اپنی پوری زندگی الحمد للہ اسی کام میں کھپائی ہے اور اسی کے ذریعہ سے انجمن ہائے خدام القرآن اور قرآن اکیڈمیز کا سلسلہ قائم ہوا۔ ان اکیڈمیز میں ایک سالہ رجوع الی القرآن کورسبرسہا برس سے جاری ہے ۔ اس کورس میں جدید تعلیم یافتہ لوگ داخلہ لیتے ہیں‘ جو ایم اے؍ایم ایس سی ہوتے ہیں‘ بعض پی ایچ ڈی کرچکے ہوتے ہیں‘ ڈاکٹر اور انجینئر بھی آتے ہیں۔ وہ ایک سال لگا کر عربی سیکھتے ہیں تاکہ قرآن کو سمجھ سکیں۔ ظاہر ہے جب قرآن مجید کے ساتھ آپ کی وابستگی ہوگی تو پھر آپ دین کے اس رخ پر آگے چلیں گے۔ تو یہ دوسرا نکتہ ہوا کہ اللہ کی رسی کو مل جل کر مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔
(وَاذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ کُنْتُمْ اَعْدَآءً) (فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ) (فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖ اِخْوَانًاج)
یہاں اوّلین مخاطب انصار ہیں۔ ان کے جو دو قبیلے تھے اوس اور خزرج وہ آپس میں لڑتے آ رہے تھے۔ سو برس سے خاندانی دشمنیاں چلی آ رہی تھیں اور قتل کے بعد قتل کا سلسلہ جاری تھا۔ لیکن جب ایمان آ گیا ‘ اسلام آ گیا‘ اللہ کی کتاب آ گئی‘ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) آ گئے تو اب وہ شیر و شکر ہو گئے‘ ان کے جھگڑے ختم ہو گئے۔ اسی طرح پورے عرب کے اندر غارت گری ہوتی تھی ‘ لیکن اب اللہ نے اسے دارالامن بنا دیا۔
(وَکُنْتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ) (فَاَنْقَذَکُمْ مِّنْہَاط) (کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمْ تَہْتَدُوْنَ )
اُمت مسلمہ کے لیے سہ نکاتی لائحہ عمل کے یہ دونکتے بیان ہو گئے۔ سب سے پہلے افراد کے کردار کی تعمیر‘ انہیں تقویٰ اور فرمانبرداری جیسے اوصاف سے متصف کرنا ۔۔ اور پھر ان کو ایک جمعیت‘ تنظیم یا جماعت کی صورت میں منظم کرنا‘ اور اس تنظیم کا معنوی محور قرآن مجید ہونا چاہیے‘ جو حبل اللہ ہے۔ بقول علامہ اقبال : عاعتصامش کن کہ حبل اللہ اوست! اس کو مضبوطی سے تھامو کہ یہ حبل اللہ ہے! اس جماعت سازی کا فطری طریقہ بھی ہم اسی سورت کی آیت ۵۲ کے ذیل میں پڑھ چکے ہیں کہ کوئی اللہ کا بندہ داعی بن کر کھڑا ہو اور (مَنْ اَنْصَارِیْ اِلَی اللّٰہِ) کی آواز لگائے کہ میں تواس راستے پر چل رہا ہوں‘ اب کون ہے جو میرے ساتھ اس راستے پر آتا ہے اور اللہ کی راہ میں میرا مددگار بنتا ہے؟ ایسی جمعیت جب وجود میں آئے گی تو وہ کیا کرے گی؟ اس ضمن میں یہ تیسری آیت اہم ترین ہے: (تفسیر بیان القرآن، ڈاکٹر اسرار احمد صاحب)
(19)- اور مضبوطی سے پکڑ لو اللہ کی رسی 110 سب مل کر اور جدا جدا نہ ہونا 111 اور یادرکھو اللہ تعالیٰ کی وہ نعمت ( جو اس نے ) تم پر فرمائی جب کہ تم تھے (آپس میں) دُشمن پس اس نے الفت پیداد کردی تمہارے دلوں میں تو بن گئے تم اس کے احسان سے بھائی بھائی 112 اور تم (کھڑے) تھے دوزخ کے گھڑے کے کنارے پر اس نے بچا لیا تمھیں اس (میں گرنے) سے یونہی بیان کرتا ہے اللہ تعالیٰ تمہارے لیے اپنی آیتیں تاکہ تم ہدایت پر ثابت رہو۔ (ترجمہ ضیاءالقرآن، مترجم پیر کرم شاہ صاحب الازہری، 1415ھجری-1995عیسوی)
110 ف حبل کا لغوی معنی ہے السبب الذی یوصل بہ الی البغیۃ (القرطبی ) یعنی وہ چیز جو مقصد تک پہنچنے کا سبب ہو ۔ لیکن اس کا استعمال مختلف معنوں میں ہوتا ہے۔ وہ پٹھہ جو گردن کو کندھوں سے ملاتا ہے اسے بھی حبل کہتے ہیں۔ والحبل الرسن والحبل العہد ۔ حبل کا معنی رسی بھی ہے اور عہد بھی۔ حضرات سیدنا علی (رض) و ابن مسعود (رض) وابو سعید الخدری (رض) نے رسول کریم علیہ وعلیٰ آلہ الصلوٰۃ والتسلیم سے روایت فرمائی ہے حبل اللہ القران ۔ اللہ کی رسی سے مراد قرآن ہے۔ اسلاف سے حبل اللہ کی تفسیر میں جو متعدد اقوال منقول ہیں ان میں تضاد نہیں بلکہ وہ ایک دوسرے کے موید اور موافق ہیں۔
111 ف زندگی کی اس رزم گاہ میں جہاں شکست وریخت ، تعمیر وتخریب اور فنا وبقا کا ایک نہ ختم ہونے والا چکر چل رہا ہے کوئی قوم عزت وقار سے زندہ وسلامت نہیں رہ سکتی جب تک اس کے افراد میں اتفاق واتحاد نہ ہو۔ اور کوئی اتحاد پائندہ وپائیدار نہیں ہو سکتا جب تک محکم اور حقیقی بنیادوں پر اس کی عمارت نہ تعمیر کی گئی ہو۔ امت مسلمہ جو کہ دولت رشد وہدایت کی امین اور رحمت خداوندی کی قاسم بنا کر بھیجی گئی ہے۔ جسے ہر باطل سے ٹکرانا ہے اور ٹکرا کر اسے پاش پاش کرنا ہے۔ جسے قلب ونظر کے سارے صنم کدے مسمار کرنے ہیں۔ جسے ہر دل کو بیت اللہ اور ہر نگاہ کو اس کا شناسا بنانا ہے۔ اس قوم کے لئے ضروری ہے کہ اپنے لئے نہ سہی اپنے بلند اور پاکیزہ مقاصد کے لئے زندہ رہے اور عزت ووقار سے زندہ رہے تا کہ اس کی آواز سنی جائے اور مانی جائے۔ اور یہ اس کے بغیر ممکن نہیں کہ اس کے افراد میں اتحاد واتفاق ہو۔ اور وہ اتحاد واتفاق سطحی نہ ہو جسے کوئی تندو تیز لہر بہا کر لے جا سکے بلکہ حقیقی اور پائیدار ہو۔ اس لئے اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو متحد ہونے کا بھی حکم دیا اور ان کے لئے وہ مستحکم بنیاد مقرر فرمائی جس سے محکم تر کوئی اور بنیاد نہیں ہو سکتی۔ وہ قرآن کریم ہے۔ قرآن کریم پر عمل کرنے کے لئے اس کا صحیح سمجھنا ضروری ہے۔ اور اس کی صحیح سمجھ اس ذات اقدس واطہر کے بیان اور تفسیر کے بغیر ناممکن ہے جسے قرآن نازل کرنے والے خدا نے بھیجا ہی قرآن کو صحیح صحیح سمجھانے کے لئے تھا۔ علامہ قرطبی نے فرمایا اور خوب فرمایا ۔ امرنا اللہ تعالی بالاجتماع علی الاعتصام بالکتاب والسنۃ اعتقادا وعملا وذلک سبب اتفاق الکلمۃ وانتظام الشتات الذی یتم بہ مصالح الدنیا والدین ۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم اعتقادا اور عملا کتاب وسنت کی رسی مضبوطی سے پکڑ لیں۔ ہمارے اتحاد کا صرف یہی سبب ہے اور صرف اسی طرح اتفاق واتحاد کی نعمت میسر آ سکتی ہے۔ جس سے ہمارے دین ودنیا کے حالات سنور سکتے ہیں۔
112 ف رحمت عالم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی تشریف آوری سے قبل عرب کے جزیرہ نما کی کیا حالت تھی۔ وہ آپس میں انس ومحبت اور شفقت ورحمت کرنے والے انسانوں کا ملک نہیں تھا بلکہ ایک کوہ آتش فشاں تھا جس سے ہر لحظہ اور ہر لمحہ بغض وعناد کی آگ برستی رہتی تھی اور دور دور تک آبادیاں جل کر خاکستر ہو جایا کرتی تھیں۔ ہر قبیلہ دوسرے قبیلہ سے برسر پیکار تھا۔ ہر علاقہ دوسرے علاقہ سے جنگ آزما تھا۔ جذبات اتنے مشتعل اور بےقابو تھے کہ ذرا ذرا سی بات پر خون کی ندیاں بہہ جایا کرتی تھیں۔ ایک بار اگر جنگ کی آگ سلگ پڑتی تھی تو صدیوں تک اس کے شعلے بھڑکتے رہتے تھے۔ اوس وخزرج میں لڑائی کا سلسلہ ایک سو بیس سال تک جاری رہا۔ کسی کی جان ، کسی کا مال محفوظ نہ تھا۔ یہاں تک کہ اسلام کا بادل آیا اور رحمت خداوندی بن کر برسا۔ حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) سراپا نور وسرور کا ظہور ہوا تو عرب کے اجڑے دیار میں بہار آگئی۔ عداوت کی جگہ محبت نے ، وحشت کی جگہ انس نے، انتقام کی جگہ عفو نے، خودغرضی کی جگہ اخلاص وایثار نے اور غرور وتکبر کی جگہ تواضع وانکسار نے لے لی۔ یہ وہ انقلاب تھا جس نے عرب کی کایا پلٹ دی۔ جس کی برکت سے عرب کے صحرا نشینوں نے تاریخ عالم کا رخ موڑ دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اپنے اسی احسا ن عظیم کی یاد تازہ کر ا رہا ہے کہ کس طرح اس نے اپنے محبوب کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی برکت اور فیض نگاہ سے تمہارے ٹوٹے ہوئے دل جوڑ دئیے اور تمہیں بھائی بھائی بنا دیا۔ اور ذلت ورسوائی کی پستیوں سے نکال کر ترقی وعزت کی شاہراہ پر گامزن کر دیا۔ تم دوزخ کے کنارے پر کھڑے تھے۔ بس آنکھ بند کرنے کی دیر تھی اور تم اس گڑھے میں گر پڑتے۔ لیکن رحمت الٰہی نے تمہاری دستگیری کی اور تمہیں آتش جہنم میں گرنے سے بچا لیا۔ ان احسانات کو یاد کرو اور یاد رکھو۔ اور اسلام کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رہو۔ اور اپنی صفوں میں انتشار کو جگہ نہ دو۔ اس آیت کے اولین مخاطب صحابہ کرام رضوا ن اللہ علیہم اجمعین کرام ہیں۔ اور ان کے متعلق ہی خدائے بصیر و خبیر فرما رہا ہے کہ میں نے ان کے دل جوڑ دئیے۔ انہیں بھائی بھائی بنا دیا۔ ان کو دوزخ سے نکال لیا۔ اب جو لوگ ان نفسوس قدسیہ پر طرح طرح کے اعتراضات کرتے ہیں۔ ان کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھتے ہیں وہ خود ہی ذرا انصاف کریں اور بتائیں کہ وہ کون لوگ تھے جن کو حضور (صلی اللہ علیہ وسلم) نے شیرو شکر کیا تھا ۔ وہ کون تھے جن کو دوزخ کے کنارے سے ہٹا کر جنت میں پہنچایا تھا۔ حقیقت میں صحابہ کرام پر اعتراض کرنا ان پر اعتراض نہیں بلکہ قرآن پر، اسلام پر اور پیغمبر اسلام پر براہ راست اعتراض ہے۔ اور جن کے ذہن فتنہ زانے ان شکوک کو جنم دیا تھا ان کے پیش نظر صحابہ کو مطعون کرنا نہیں تھا بلکہ چابک دستی سے اسلام اور پیغمبر اسلام کی عظمت کو داغدار کرنا تھا کہ یہ ہیں تمہارے اس نبی کے اولین شاگرد جس کی قصیدہ خوانی سے تم رات دن آسمان سر پر اٹھائے رکھتے ہو۔ ان اعتراضات کرنے والوں پر تو ہمیں حیرت نہیں، افسوس ہمیں ان مسلمانوں پر ہے جو دشمن کے اس دام فریب میں پھنس جاتے ہیں اور ان مقدس ہستیوں کے متعلق بےباکی کی جرات کرتے ہیں جن کے دفتر حیات کی ہر سطر آفتا ومہتاب سے تابندہ تر ہے ف
عاشقان او ز خوباں خوب تر خوش ترو زیبا ترو محبوب تر (اقبال )۔ (تفسیر ضیاءالقرآن، مفسر پیر کرم شاہ صاحب الازہری)
(جاری ہے۔۔۔)
 

Pervaiz Iqbal Arain
About the Author: Pervaiz Iqbal Arain Read More Articles by Pervaiz Iqbal Arain: 21 Articles with 24972 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.