گلوبلائزیشن اور غزل

 اردو شاعری میں غزل اپنی سحر کا ری سے محبوب ہے ،معنوی طلسم اور لذت غیر محسوس سے مقبول ہے ،اپنی رمزیت ،ایمائیت ،دا خلیت اور اشا ریت سے دل و نگاہ کو اسیر کر تی ہے ،پرو فیسر رشید احمد صدیقی کا غزل کے تئیں یہ نظر یہ کہ ’’غزل جتنی بدنام ہے اتنی ہی مجھے عزیز ہے ،شا عری کا ذکر آتے ہی میرا ذہن غزل کی طرف مائل ہو جا تا ہے ،غزل کو میں اردو شا عری کی آبرو سمجھتا ہوں ،ہماری تہذیب غزل میں اور غزل ہماری تہذیب میں ڈھلی ہے ،دونوں کو سمت و رفتار ،رنگ و آہنگ ،وزن ووقار ایک دوسرے سے ملا ہے ‘‘(جدید غزل ص ۹)

گر چہ انفرادی ہے مگر غزل پر اجتما عی فدائیت کا عکاس ہے ،آج کا ئنات غزل پر بہار آئی ہو ئی ہے اور ہر شخص غزل کے نغمے گنگنا رہا ہے ،یہ اسی اجتماعی فدا ئیت کے ارتقائی مر حلے ہیں ۔

غزل کے بارے میں عام تصور ہے کہ غزل میں مو ضوعاتی تنوع بھی ہے ،مسا ئل حیات کا رمز بھی ہے ،اسرار کا ئنات کا فسوں بھی ہے ،غزل نئے زمانے اور نئے تقا ضے سے ہم آہنگ بھی ہے ،لیکن کیا غزل کا رشتہ گلو بلا ئزیشن سے ہے ؟

یہ ایک اہم سوال ہے ،جس کے جواب کے لئے گلو بلا ئزیشن کے پس منظر کا ادراک،اس کی تعریف ،اس کے مثبت و منفی پہلو اور تہذیب وثقا فت پر اس کے اثرات کا عرفان ضروری ہے ۔

عالم اسلام کے نا مور محقق ’’ڈاکٹر اڈورڈ سعید ‘‘اور ’’ڈاکٹر انور عبد الملک ‘‘نے اپنی تحقیق میں یہ وا ضح کیا ہے کہ ۱۹۷۳میں سر زمین فرانس کے ’’پیسر ‘‘شہر میں ایک کا نفرنس منعقد ہوئی ،جو مستشرقین کی انیسویں کا نفرنس تھی ،امریکہ کے ایک یہودی مستشرق ’’بر نارڈلو ئیس ‘‘نے اس کا نفرنس سے خطاب کر تے ہوئے کہا تھا :’’اب ہمیں مستشرق کی اصطلاح کو تا ریخ کے حوالے کر دینا چا ہئے ،چنا ں چہ اتفاق رائے سے اس اصطلاح کا استعمال تر ک کر دیا گیا اور ایک نئی اصطلاح استعمال کر نے پر اتفاق کیا گیا اور استشراق کے نئے نقش راہ کی قیادت امریکہ کو سو نپ دی گئی ،یہ اصطلاح ’’گلو بلا ئزیشن ‘‘کے نام سے عالمی حلقوں میں مشہور ہو ئی ‘‘(یاسر ندیم :گلو بلا ئزیشن اور اسلام ص ۴۶)۔

گلو بلا ئزیشن کا عملی آغاز کب ہوا اس کی طرف اشارہ کر تے ہو ئے مو لانا خلیل امینی رقم طراز ہیں :’’عالمگیریت ‘‘کے اس جن کو ،جس کو مو جودہ صلیبی اور دہشت گرد بش سار ی دنیا پر بہ عجلت تمام مسلط کر دینا چا ہتاہے ،اسی کے شر پسند باپ سینیر بش نے کو یت کی آزادی کے بہانے خلیجی ملکوں پر با قاعدہ عسکری قبضے کے ارادے سے خلیج کے خطے میں امریکی افواج کی تر سیل کے وقت اگست ۱۹۹۰ ء میں ’’عہد نو ‘‘’’عہد آزادی ‘‘’’عہد امن برائے جملہ اقوام عالم ‘‘نیز اس کے ماہ بعد ستمبر ۱۹۹۰میں ’’عالمی نظام نو ‘‘یا ’’نیو ورلڈآرڈر‘‘کے نام سے بو تل سے نکا لا تھا ،لیکن اس نظام کا با قا عدہ آغاز نیز اس لفظ ’’عا لمگیریت ‘‘یا ’’گلو بلا ئزیشن ‘‘کا با قاعدہ استعمال ،اپریل ۱۹۹۵میں شہر مرا کش میں منعقد عا لمی تجا رتی کا نفرنس کے بطن سے پیدا شدہ تنظیم ’’عا لمی تنظیم برائے تجارت ‘‘کے قیام کے اعلان سے ہوا ،اس وقت سے یہ لفظ با قاعدہ اورکثرت سے استعمال ہو نے لگا ‘‘(ایضاص ۲۹)۔

لفظ ’’گلو بلا ئزیشن ‘‘جس معنی کا متحمل ہے (عالمگیریت )یہ نیا نہیں ،بلکہ قدیم ہے ،اسکندر اعظم نے پو ری دنیا پر حکو مت کا جو خواب دیکھا تھا ،یا مشہور عباسی خلیفہ ہارون رشید نے با دل کے ایک ٹکڑے سے جو یہ جملہ کہا تھا کہ :’’چا ہے جہاں برس ،تیرا خراج میرے ہی پاس آئے گا ‘‘اسی معنی قدیم کا عکا س ہے ،مگر فرق یہ ہے کہ یہ محض خیالات ہیں جن میں عا لمگیریت ہے ،گلو بلا ئزیشن کی طرح کسی خاص لفظ کا حصہ نہیں

لفظ ’’گلو بلا ئزیشن کی عر بی تعبیر ’’العو لمہ ‘‘ہے، اس کے معا نی ویبسٹر کی نیو کالج ڈکشنری کے مطا بق ’’کسی چیز کو عا لمیت کا جامہ پہنا نا ہے ،کسی چیز کے دا ئرے کو عا لمی بنا نا ہے ،جبکہ فرا نسیسی زبان اس کو مو نڈ یا لا ئزیشن (Mondia Lisation)سے تعبیر کر تی ہے اور تر جمہ عالمی معیار سے بنا نا کر تی ہے (ایضا ص ۵۷تا۵۸)۔

گلو بلا ئزیشن کی تعریف کے دو پہلو ہیں ،مثبت اور منفی ،مثبت تعریفات کا لب لباب یہ ہے کہ ’’یہ دنیا کے مختلف ممالک کے درمیان اقتصا دی تعاون کی خوشگوار شکل ہے ‘‘یہ اقتصادی ،سیاست ،ثقافت اور آئیڈیا لوجی (نظریات)کی تبدیلی کے لئے مثبت قدم ہے ‘‘جدید عالمی نظام کی بنیاد الکٹرانک عقل اور ٹکنا لو جی کے میدان میں ہو نے والی حیران کن ایجادات پر ہے ،یہ تحریک دنیا کے کسی نظام ،تہذیب ،ثقافت ،روایت اور جغرافیائی و سیاسی حدود کا اعتبار نہیں کر تی ‘‘عا لمگیریت اس بات کی متقا ضی ہے کہ ملکوں اور قوموں کے در میان جو خلیج حا ئل ہیں ،نا پید ہو جائیں ،رنگ و نسل کے امتیازات اٹھ جا ئیں ،پو ری دنیا ہم مشرب و ہم خیال ہو جائے ‘‘(ایضا ص ۶۰تا۶۴)۔

ان تمام تعریفات سے ایک مبہم تصو یر سا منے آتی ہے ،کوئی وا ضح پہلو روشن نہیں ہو تا ،آزادانہ تجا رت کے حا مل کو ن لوگ اور کہاں کے با شندے ہو نگہ ؟اور وہ کو نسی تہذیب ہے جس میں عا لمگیری خصوصیات ہیں ؟اور بھی اس طرح کے سوا لات ہیں جن کے جوابات ابھی تک تشنہ ہیں !

گلو بلا ئزیشن کی منفی تعریفات کا ما حصل یہ ہے کہ ’’عا لمگیریت ‘‘پو ری دنیا پر اقتدار و با لا دستی اور ہر نا فع چیز کو کا لعدم کر نے کا نام ہے ‘‘یہ مختلف ثقافتوں اور تہذیبوں کو غصب کر کے ان پر مغربی تہذیب کو مسلط کر نے سے عبا رت ہے ،‘‘عا لمگیر یت مغر بی روشن خیالی کی دعوت و تحریک کا نام ہے ،جس کا مقصد تہذیبی اور انسا نی خصو صیات کا خاتمہ کر نا ہے ‘‘گلو بلا ئزیشن کے معنی ہیں ’’حدود کا اختتام ‘‘خواہ اس کا تعلق زندگی کے کسی گو شے اور شعبے سے ہو ‘‘(ایضا ص ۶۶تا ۶۸)۔

تہذیب و ثقافت پر اس کے اثرات بھی مر تب ہو ئے ہیں ،آج مغربی تہذیب کی کو رانہ تقلید جا ری ہے ،سیٹلا ئٹ،ٹیلی ویزن اور اٹر نیٹ نے اس کو آسان بنا دیا ہے ،’’پیرس ‘‘اور ’’بر لن ‘‘سے نکلنے والا فیشن اگلی صبح پہلی کرن کے سا تھ دنیا کے چپے چپے تک پہو نچتا ہے ، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ لو گ اپنی تہذیب و ثقا فت سے نا بلد ہو تے جا رہے ہیں ،جس طرح کی فحاشی اور عر یا نیت کو وہاں روا رکھا جا تا ہے ،اہل مشرق اسے اپنا کر روشن خیالی کے خواب میں غلطاں ہیں ۔

مذکورہ سطور سے یہ حقیقت وا ضح ہو جا تی ہے کہ گلو بلا ئزیشن میں عا لمگیریت اور آفا قیت کا تصور ہے ،تو کیا غزل بھی گلو بلا ئزیشن (آفا قیت )کا تصور رکھتی ہے ؟اس کے پیرہن میں ایسے نظر یات ،احساسات ،جذبات اور خیالات ملتے ہیں ،جن میں عا لمگیریت ہو ،گلو بلا ئزیشن کی تا ئید یا تر دید کے پہلو روشن ہو تے ہوں ؟یقینا اس تفحص کے لئے وسعت مطالعہ اور بر سہا برس کی ریا ضت در کار ہے ،تاہم چند اشا رات سے اس حقیقت تک رسا ئی ممکن ہے۔

میر تقی میر کہتے ہیں ؂
سا رے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے (نوٹ : اسکا پہلا مصرعہ نہیں مل سکا ہے ،برائے کرم اگر آپ کے پاس ہو تو شامل کر دیں !)

عشق سے جاکو ئی نہیں خالی
دل سے لے کر عر ش تک بھرا ہے عشق
ہے ما سو ا کیا جو میر کہئے
آگاہ اس سے سا رے ہیں آگاہ
میر درد کہتے ہیں ؂
جگ میں آکر ادھر ادھر دیکھا
تو ہی آیا نظر جدھر دیکھا
ارض و سما کہاں تری وسعت کو پا سکے
میرا ہی دل ہے وہ کہ جہاں تو سما سکے
غا لب کہتے ہیں ؂
زاہد شراب پینے دے مسجد میں بیٹھ کر
یا وہ جگہ بتا جہاں پر خدا نہ ہو
اقبال کہتے ہیں ؂
مسلماں کے لہو میں ہے سلیقہ دلنواز ی کا
مر وت حسن عا لمگیر ہے مر دان غازی کا
من کی دنیا میں نہ پا یا میں نے افر نگی کا راج
من کی دنیا میں نہ دیکھے میں نے شیخ و برہمن
کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے
مو من کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہے آفاق
عشق کی ایک جست نے طے کر دیا قصہ تمام
اس زمین و آسماں کو بے کر اں سمجھا تھا میں
نہیں اس کھلی فضا میں گوشہ ٔ فر اغت
یہ جہاں عجب جہاں ہے نہ قفس نہ آشیانہ
مٹا دیا مرے سا قی نے عا لم من و تو
پلا کے مجھے مئے لا الہ الا اﷲ
بنا یا عشق نے دریا ئے نا پیدا کراں مجھ کو
یہ میری خو د نگہداری مرا سا حل نہ بن جائے
سما سکتا نہیں پہنا ئے فطرت میں مرا سودا
غلط تھا اے جنوں شا ید ترا اند یشہ ٔ صحرا
ہوس نے کر دیا ٹکڑے ٹکڑ ے نوع انساں کو
اخوت کا بیاں ہو جا ،محبت کی زباں ہو جا
یہ ہندی ،وہ خراسانی ،یہ افغا نی ،وہ تو را نی
تو اے شر مندہ ٔ سا حل اچھل کر بے کراں ہوجا
ترے علم و محبت کی نہیں ہے انتہا کوئی
نہیں ہے تجھ سے بڑھ کر سا ز فطرت میں نوا کوئی
شا د عظیم آبادی کہتے ہیں ؂
ڈھونڈو گے اگر ملکو ں ملکوں ملنے کے نہیں نا یاب ہیں ہم
تعبیر ہے جس کی حسرت و غم اے ہم نفسو وہ خواب ہیں ہم
فراق کہتے ہیں ؂
معلو م ہے کچھ تم کو محمد کا مقام
وہ امت اسلام میں محدود نہیں ہیں
جگر مرا د آبادی کہتے ہیں ؂
حسن خود جلوہ ہے ،خود عشق ہے ،خود ذات و صفات
یہی اک لفظ حقیقت ہے کل افسانوں کی
اک لفظ محبت کا ادنی یہ فسانہ ہے
سمٹے تو دل عا شق پھیلے تو زمانہ ہے
کیف احمد صدیقی کہتے ہیں ؂
زمین و آسماں کے سا رے قید و بند مٹ جا ئیں
تیرے تن میں سما جائے جو میرے تن کا سناٹا
حما یت علی شا عر کہتے ہیں ؂
خیال و خواب ہوں آزادتو قفس بھی چمن
جوہوں اسیر تو زنداں ہے کا ئنات کا نام
جاں نثار اختر کہتے ہیں ؂
حیراں ہیں کا ئنات کی بے تھاہ وسعتیں
انساں کا ذہن چند کتابوں میں دھنس گیا
بشیر بدر کہتے ہیں ؂
مری زندگی بھی مری نہیں یہ ہزار خانوں میں بٹ گئی
مجھے ایک مٹھی زمین دے یہ زمین کتنی سمٹ گئی

ان اشعار پر غور کیجئے !!تو غزل کا رشتہ گلو بلا ئزیشن کے معنی آفا قیت سے ہم آہنگ نظر آتا ہے ،اکثر اشعار کا تعلق اس عہد وعصر سے ہے ،جب گلو بلا ئزیشن کا تصور بھی نہیں تھا ،مگر غزل میں یہ تصور ڈھلتا رہا اور غزل ہمہ گیری کے احساس سے لبریز ہو تی رہی ،مقا می رنگ کے ساتھ آفاقی لہجے بھی اس کے وجود کا حصہ بنتے رہے ،بقول پر و فیسر سحر انصاری :’’ادب کا کرشمہ ہی یہ ہے کہ وہ لمحاتی تجر بے کو آفاقی بنا تا اور اس جو ہرسے آمیز کر کے پیش کر تا ہے جو انسانی احساس کے ابدی عنا صر سے مملو ہو تا ہے ‘‘

ادبی اصناف میں غزل اس کر شمہ سا زی کے لئے ہمہ دم تیار رہتی ہے۔ایک غزل گو شاعر جب غزل کہنے کا قصد کر تا ہے ،تو اس کے خیا لات منتشر ہو تے ہیں ،اس انتشار میں کئی رنگ و آہنگ ہو تے ہیں ،دا خلی بھی ،خار جی بھی ،سما جی بھی ،سیاسی بھی ،مقا می بھی ،ملکی و طنی بھی اورآفاقی بھی ،یہی رنگ و آہنگ لفظوں کے فسوں میں ڈھل کر غزل کا روپ لیتے ہیں ۔

ذکر کردہ اشعار میں کو ئی احساس ،کو ئی خیال ،کوئی تجر بہ ،کوئی مشا ہدہ اور کو ئی جذبہ یا تو عا لمگیر ہے ،یا ایک منطقہ پر سمٹاہوا ہے (مثبت تعریف کے تحت یہی فلسفہ ملتاہے ) میر کے اشعار کو دیکھئے !تو سا ری کائنات کا درد ایک منطقے پر سمٹ کر ’’جگر‘‘میں سما چکا ہے اور ’’ماسوا‘‘پر نظر مر کو ز ہو تے ہی لا محدود وسعتوں کا تصور ذہن نشیں ہو تا ہے ۔میر درد کو کا ئنات کے گوشے گوشے میں خدا ئے واحد کا ہی جلوہ نظر آیااوراسکی محبت کے لئے وسعت جہاں تنگ ہو گئی ،مگر کا ئنات دل لا محدود تھی ،محبت اس میں سما گئی ۔غالب کے ہاں بھی یہی تصور کار فر ما ہے ،کہ خدا ہر جگہ مو جود ہے ،میخانے اور مسجد کی کو ئی تخصیص نہیں ۔اقبال جس دین کے داعی ہیں ،وہ دین ہی آفاقی ہے ،اس لئے ان کے ہاں آفاقی افکار کی فراوانی ہے ،’’مر دان غازی کی مروت حسن‘‘’’من کی دنیا‘‘’’مو من میں گم ہے آفاق‘‘’’عشق کی ایک جست‘‘’’جہاں نہ قفس ہے نہ آشیانہ ‘‘’’مے لا الہ الا ﷲ کا عالم من و تو کو مٹانا‘‘’’عشق کا دریائے نا پیدا کراں بنانا ‘‘اور ’’سودا کا پہنائے فطر ت میں نہ سمانا ‘‘……یہ وہ تلا زمے ہیں جن میں آفاقی خیا لات تا بندہ ہیں ۔شا د عظیم آبادی کے شعر میں ’’ہم ‘‘کی نا یابی کو ’’ملکو ں ملکوں ‘‘کی تعبیر نے گلو بلا ئزیشن سے ہم آہنگ کر دیا ہے ۔فراق نے ’’وما ارسلنک الا رحمۃ للعلمین‘‘کی تفسیر پیش کردی ہے ۔جگر نے’’کل افسانوں ‘‘کی جمالیات کو ’’حسن‘‘ میں تلاش کیا ہے ۔ کیف احمد صدیقی کے خیال میں جب ایک تن کا سنا ٹا دوسرے میں منتقل ہو تا ہے ،تو اسکے اثرات سے ’’سا رے قید و بند ‘‘مٹ جا تے ہیں ۔حمایت علی شاعر ’’خواب و خیال ‘‘کی آزادی کے خواہاں ہیں ،ورنہ یہ پوری کا ئنات ’’زنداں‘‘محسو س ہو تی ہے ۔جاں نثار اختر کے بقول :’’یہ پو ری کا ئنات اور اس کی وسعتیں ’’ذہن انسانی ‘‘پر حیراں ہیں کہ وہ چند کتابوں میں دھنس کر رہ گیا ۔اور بشیر بدر کے ’’ہزاروں خانوں ‘‘وسعت کا استعا رہ اور ’’ایک مٹھی زمین‘‘منطقہ ٔ واحدہ کا بیا نیہ ہے ۔

غزل میں گلو بلا ئزیشن کے تر دیدی پہلو بھی روشن ہیں ،اس نے اپنی رمزیت اور اشاریت سے گلو بلا ئزیشن کے اصل محرک ’’غلا میت ‘‘کا پر دہ فاش کیا ہے ،گلو بلا ئزیشن کے نعرہ ٔ فریب میں پو شیدہ سا زش کو بے نقاب کیا ہے ،علا مہ اقبال کہتے ہیں ؂
مجھے ڈر ہے مقا مر ہیں پختہ کار بہت
نہ رنگ لا ئے کہیں تیر ہاتھ کی خامی

یہ شعر اہل مغرب کی عیاری کا عکاس ہے ،وہ اپنی مکاری میں ثانی نہیں رکھتے ہیں ، اہل مغرب کے علاوہ اس حوا لے سے سا دہ لوح ہیں ،یہ سا دہ لو حی علامہ پر خوف کی لکیر کھینچتی ہے ،کہ کہیں پوری دنیا خصوصا اہل مشرق اس دام فریب کے شکار نہ ہو جائیں ،……گلو بلا ئزیشن ایک نظر یہ کے مطابق نعرۂ فریب کے سوا کچھ نہیں ،غزل کا یہ شعر اس نعر ۂ فریب کو آشکا را کر تا ہے ۔
ایک جگہ اور کہتے ہیں ؂
میخانہ ٔ یو رپ کے دستو ر نرالے ہیں
لا تے ہیں سرور اول دیتے ہیں شراب آخر

’’سرور اول ‘‘ کی تعبیر میں گلو بلا ئزیشن کے پس پر دہ جس اقتصادی تحریک کو ہو ا دی جا رہی ہے ،کا بیاں ہے ،وہ مصنوعات جن سے سرور حاصل ہو تا ہے ،سگریٹ ،سگار ،پو ڈر ،ریشمی لباس ،پر فیوم ،موٹر ،ہوا ئی جہاز اور زندگی کی دیگر ضروریات کی ارزانی سب شا مل ہیں ،اور ’’شراب آخر ‘‘ اس سرور کے بعد غلا میت کا عکاس ہے ،جو منفی تعریف کے مطابق اصل محرک ہے یعنی پو ر ی دنیا کو طوق اسیر ی پہنا نا ۔یہ شعر بھی دیکھیں ؂
ہے د ل کے لئے موت مشینوں کی حکو مت
احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات

یہ چند اشارے ہیں ،جو اس بات کے عکاس ہیں کہ غزل کا دامن وسیع ہے ،وہ ہر عہد وعصر میں زندہ رہ سکتی ہے ،وہ لمحاتی تجر بے کو آفا قی بنا نے کا ہنر جا نتی ہے ،انسا نی احساسات سے لبریز ابدی عنا صر بھی اس کے پاس ہیں اور ہر چیلنج کا جواب بھی !!

(حقا نی صا حب آداب و تسلیمات
عر ض ہے کہ مجھے اپنی گم مائیگی کا بھر پور احساس ہے ،یہ مضمون جس کی عمدہ مثال ہے !اگر کچھ بات بنی ہو تو ،مزید مشوروں سے نوا زیں ،اس مضمون میں اور کو ن سے پہلو ؤں کو نشان زد کیا جا سکتا ہے ،اس کی نشا ندہی فر مادیں ،امید کہ مع اہل و عیال بعافیت ہو نگے
والسلام
احقر :عبدا لوہاب قاسمی )
 
Abdul Wahab
About the Author: Abdul Wahab Read More Articles by Abdul Wahab: 6 Articles with 8990 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.