اے خاک وطن قرض ادا کیوں نہیں ھوتا!

آزادی ایک چند حرفی لفظ ہے مگر اس کی اہمیت کا اندازا وہی لوگ لگا سکتے ہیں جو قربانی کا جذبہ رکھتے ہیں۔ تقسیم برصغیر کے وقت مسلمان آزادی کی جس منزل سے ہمکنارہوئے ،اس منزل کا نام پاکستان ہے مگر اُس وقت کا منظر لفظوں میں بیان کرنا یعنی درد کے بیکراں سمندر کو تحریر میں سمونا انتہائی مشکل ہے اُس وقت ہرطرف لوگوں کا جوش و جذبہ دیدنی تھا ،اس آزاد وطن میں منتقل ہونے کا ایک لطیف سرور تھا ۔ہر قافلہ پاکستان کی طرف گامزن تھا ایک سیل رواں کی مانند، اس سمندرکی مانند جو جب اپنی من مانی پر آتا ہے تو راستے میں آنے والی رکاوٹوں کو اپنے ساتھ بہا کر لے جاتا ہے۔ اُس قافلے کو راستے میں ہندوؤں اور سکھوں نے کس کس طرح لوٹا،ان کا خون بھایا ،ان کی املاک پر قبضہ کیا ، یہ ایک ایسی ہولناک داستان ہے جس کو لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے ہر طرف خون کی ہولی کھیلی جا رہی تھی۔ آگ کے شعلے موت کا رقص کرتے آسماں کو چھورہے تھے ،دن روشن تھا مگرسورج کی سرخی سے ذرد تھا ہر طرف آہ و بکا سنائی دیتی تھی کہیں کوئی شخص کرب میں ڈوبی آواز میں اپنے خدا سے دعا گو تھا کہ اے میرے رب! میرے باقی ساتھیوں کو منزل مقصود پر پہنچا دے تو کہیں کسی ننھے معصوم بچے کے رونے کی آواز سنائی دیتی تھی جو اس سارے ہنگامے میں ماں کی آ غوش سے محروم ہو گیا تھا اس بات سے بے خبر کہ اس کی مہربان ماں اس دنیا میں نہیں رہی ،بھوک کی شدت سے ماحول کی خوفناکی سے تڑپ تڑپ کے رو رہا تھا قریب ہی بستی کے گھروں میں لگا دی گئی ۔آگ کے شعلے تیزی سے معصوم بچے کی جانب بڑھ رہے تھے اس ساری ہولناکی کے باوجود نہ تو آسمان ٹوٹا اور نہ ہی زمین پھٹی نہ ہی اللہ کا قہر۔ سسکتی ہوئی انسانیت کی بےقدری پر نہ تو ظالموں کے قدم ڈگمگائے اور نہ ہی کوئی مظلموں کی مدد کو پہنچا۔

یہ اجڑا ہوا قافلہ جب اپنی منزل پر پہنچا تو ان ستم رسیدہ لوگوں کہ پاس بہانے کو چند قطرے بھی نہیں بچے تھے کہ جن کوبہا کر اپنی بے بسی کا ثبوت پیش کرتے ۔مسلمانوں نے وطن عزیز کی آزادی کی آخری قسط بھی ادا کر دی تھی صبح ہو چکی تھی خون کا دریا عبور کرنے کے بعد سب نے فخر و انسباط کے ساتھ پاکستان کی سر زمین پر قدم رکھا کہ بآلاخرلاکھوں افراد کی جانوں کی قربانی کے عوض ہم نے ایسا گلستاں سجا لیا ہے جس کی سرحدوں پر ہمارے نام کی تختی کندہ ہے۔ یہاں کا ہر ایک پھول ہر کلی ہر کیاری ہمارے حا ل اور مستقبل کو مربوط کئے ہوئے ہے ہم بھی سینہ تان کے کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان ہمارا ہے جہاں پر کوئی سامراجی قوت اذان کی آواز کو بزور جبر دبا نہیں سکتی جہاں کوئی فرنگی پتھرہمارے ایمان و صداقت کی راہ میں روکاوٹ نہیں بن سکتا۔

ہم آزادہیں یہ جملہ کتناتسلی بخش ہے۔ ہم فخریہ طور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر پاکستان ایک پھول ہے تو ہم اس کی خوشبو ہیں۔ پاکستان اگر بلبل ہے تو ہم اس کی دلرباہیں۔ پاکستان اگر شمع ہے تو ہم اس کی روشنی ہیں پاکستان اگر یقین محکم ہے تو ہم عمل پیہم ہیں۔ پاکستان اگر تدبیر ہے تو ہم اس کی تقدیر ہیں۔ پاکستان اگرقرطاس ہے تو ہم اس کی تحریر ہیں۔ پاکستان اگر اقبال کا خواب ہے تو ہم اس کی حسین تعبیر ہیں ۔حکیم الامت اگر پاکستان کے مصور تھے تو ہم اس کی خوبصورت تصویر ہیں۔ قائداعظم اگر بانی ہیں توہم ان کی توقیرہیں۔ پاکستان کی شہرت خوشحالی ہمارے دم قدم سے ہے۔
fatima hussaini
About the Author: fatima hussaini Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.