زبان درازیاں

ایک بچہ بہت ہی بد تمیز تھا اور غصے کا بہت ہی تیز تھا والدین نے اس کو کنٹرول کرنے کی بہت کوشش کی لیکن وہ اس میں ہمیشہ ہی ناکام رہے ایک دن باپ کو ایک ترکیب سوجھی اس نے بازار سے ایک کیلوں کا بھرا ہوا ڈبہ اپنے بیٹے کو لا کر دیا اور کہا کہ جب بھی آپ کو غصہ آئے آپ نے ایک کیل نکالنا ہے اور اس دیوار میں ٹھونک دینا ہے لڑکے نے ایک ہی دن میں 37 کیل ٹھونک دئیے لیکن آہستہ آہستہ لڑکے کی سمجھ میں آگیا کہ غصہ کنٹرول کرنا آسان ہے اور لیکن کیل ٹھونکنا مشکل ہے آہستہ آہستہ وہ اس کیفیت میں آگیا کہ اسے غصہ کو کنٹرول کرنا آگیا جس کی وجہ سے دیوار میں کیل لگانا بہت زیادہ کم ہوگیا اور ایک دن ایسا بھی آیا کہ اس نے دیوار میں ایک بھی کیل نا لگایا اس نے یہ بات اپنے باپ کو بتائی تو اس کے باپ نے کہا کہ بیٹا اب جب بھی تم کو غصہ آئے اور تم اس کو کنٹرول کرلو تو اس دیوار میں سے ایک کیل نکال لیا کرنا چنانچہ چند ہی دنوں میں تمام کیل دیوار سے نکل گئے تو باپ سے اپنے بیٹے کا ہاتھ پکڑ لیا اور دیوار کے پاس لے گیا اور کہا کہ بیٹا تم نے غصہ کو کنٹرول کرنا سیکھ کر بہت اچھا کیا ہے مگر دیکھوں اس دیوار وہ حالت نہیں رہی جو کہ پہلے تھی جیسے یہ دیوار بدصورت ہو چکی ہے بلکل ایسے ہی جب تم اپنے معاملات میں اختلاف کے دوران یا غصے کی حالت میں تندو تیز باتیں ، طعن و تشنیع یا بدزبانی کرتے ہو تو تم بلکل ایسے ہی بد نما اثرات اپنی طبیعت کے حوالہ سے ان پر چھوڑتے ہو جیسے ان کیلوں کے لگنے اور اکھڑنے سے ان دیوار پر ہیں ۔ اور خنجر کے لگائے ہوئے زخم بھر جاتے ہیں مگر بیٹازبان کا لگا ہوا زخم کبھی ختم نہیں ہوتا ہے۔

انسان کی زبان اس کی شخصیت کی آئینہ ہو تی ہے اور جو اپنی زبان کو کنٹرول کر لیتا ہے وہ اپنے آپ کو بھی اور اپنے ماحول کو بھی پر امن بنانے میں ممد ہو تو ہے اور جو اپنی زبان کو بے لگام رکھتا ہے تو وہ پر امن ماحول کو بدامنی میں ڈھالنے والا بن جاتا ہے۔اسی لئے زبان کے بارے میں کہا جاتا ہے منہ یا زبان سے نکلی ہوئی بات اور کمان سے نکلا ہوا تیر یا بندوق سے نکلی ہوئی گولی کبھی واپس نہیں آتی چنانچہ کس پنجابی شاعر نے ایک مصرے میں کیا خوب کہا ہے۔
’’ جو بول منہ اوں نکل گیا او تیر کمانوں نکل گیا‘‘
اور کسی اردو کے شاعر نے کیا خوب کہا ہے ۔
’’بات اپنی کرے یا پرائی کرے آدمی سوچ کے لب کشائی کرے‘‘
چنانچہ عربی زبان کا ایک مشہور محارہ ہے
’’اَ لْلِسَانُ مَرْکُوبٌ ذَلُولٌ‘‘
زبان سدھی ہوئی سواری ہے یعنی اختیار میں ہے
انگریزی میں مثل مشہور ہے۔Think before you leap یا k Think before you spea
اور اردو میں مثل مشہور ہے ۔ ’’ پہلے تولو پھر بولو‘‘ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ’’زبان آپ کو مٹھائی بھی کھلا سکتی ہے اور پٹائی بھی‘‘

ارضِ پاکستان میں مجھے یوں لگتا ہے کہ جیسے ہماری زبانوں سے محبت ختم ہو گئی ہے اور ہماری زبانیں نفرتوں کا بم بن چکی ہے اور ایسی ہو چکی ہیں کہ ہم اخلاقیات،آداب ، امن تمام حدود کو پھلانگ چکے ہیں۔ اگر کوئی ہم میں سے سیاست دان ہے تو جب بھی اس کی زبان کھلتی ہے ہے تو وہ دوسرے کی عزت کا جنازہ نکال دیتا ہے اگر کوئی مذہبی سکالر بھی ہے تو اس کی زبان بھی نفرت کی آگ پہ پانی کی بجائے پیٹرول کا کردار ادا کرنے والی ہوتی ہے اور کئی بار ایسا ہوا ہے اور جو کوئی بھی اپنی زبان سے ان نفرتوں کو ختم کرنے اور محبتوں کا درس دینے کی کوشش کرتا ہے ہمارے ملک کے زبان درازوں کے نزدیک اس کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ہے جیسا کہ چند دن قبل کراچی سے ایک ٹارگٹ کلنگ کی اطلاع ملی کہ نامعلوم افراد کی فائرنگ سے صبین محمود صاحبہ کا قتل ہوگیا ہے صبین محمود کون تھی ایک سماجی کارکن اس کا پیغام کیا تھا ’’ آئیں بیٹھیں اور بات کرتے ہیں‘‘ اسی پیغام کو پھیلانے میں وہ سرگرم عمل تھی مگر نفرتوں کو مٹانے کی کوشش کرنے والی کو دنیا سے ہی مٹا دیا گیا صبین محمود تو ان زبان درازیوں کو نشانہ بننے والوں میں سے ایک تھی ورنہ نا جانے کتنے ڈاکٹر شکیل اوج، ڈاکٹر مہدی علی قمر ،ڈاکٹر عبدالمنان صدیقی، سلمان تاثیر ،شہباز بھٹی،صبین محمود جیسے ناجانے کتنے وجود تھے جو کہ ان زبان درازیوں کو نشانہ بنے۔اگر ہماری زبانیں محبت کا درس دینے والی بن جائیں گی تو یہ بد امنی کی فضاء بھی ختم ہو جائے گی ہم اپنی زبان سے محبت وپیار کر کے لوگوں کے دلوں پہ فتح حاصل کر سکتے ہیں عربی زبان میں کہتے ہیں
’’لِےْنُ الْکَلَام قَےْدُالْقُلُوب‘‘
نرم بات دلوں کی بیڑی ہے، پیار سے تو پتھر دِل بھی موم ہوجاتا
اب یہ ہم پر ہے کہ ہم زبان کا استعمال کس طور پر کرتے ہیں کیوں کہ عربی زبان کا محاورہ ہے ۔
’’اَ لْلِسَانُ مَرْکُوبٌ ذَلُولٌ‘‘
زبان سدھی ہوئی سواری ہے یعنی اختیار میں ہے
اﷲ تعالی ہم سب کو زبان کا بہترین طور پر استعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے
کیوں کہ ہمارے نبی مکرم حضرت محمد مصطفیﷺ نے مسلمان کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا ہے
’’مسلما ن وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں ‘‘
Nadeem Ahmed Farrukh
About the Author: Nadeem Ahmed Farrukh Read More Articles by Nadeem Ahmed Farrukh: 33 Articles with 28240 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.