زرداری کا خطاب اور مشرف کا انکشاف نواز شریف کلوز ٹو طالبان

صدر زرداری ایوانِ صدر میں بیٹھ کر کیسی انسانیت کی خدمت کررہے ہیں......؟

”سیاست کی بڑی سنجیدہ اور دُوررَس ذمہ داریاں ہوتی ہیں سیاست قوم کے وجود میں اِس کے حیا کی بنیاد ہوتی ہے“ چلیں میں نے آج اپنے کالم کی ابتدا متحرمہ بے نظیر بھٹو شہید صاحبہ کے اِس قول سے کردی ہے کہ جو ملک کی غریب عوام کے دل کی آواز ثابت ہوگا اور آج یہ قول عوام کی زبان سے نکل کر بہت سوں (یعنی برسرِ اقتدار جماعت کے ذمہ داروں)کو بھی ضرور آئینہ دِکھانے کا کام کرے گا اور اِن کے سوئے ہوئے ضمیر کو بھی جھنجھوڑ کر رکھ دے گا۔

اور اِس کے ساتھ ہی اَب دیکھنا یہ بھی ہے کہ آج متحرمہ بے نظیر بھٹو شہید صاحبہ کے اِس زرین قول کی روشنی میں ان ہی کی برسرِاقتدار جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے کتنے لوگ جن میں صدر، وزیراعظم اور وزرا سمیت سیاستدان ایسے ہوں گے جو اپنا احتساب خود کرلیں گے کہ جنہوں نے متحرمہ بے نظیر بھٹو شہید صاحبہ کی شہادت کے بعد ملک میں ہونے والے عام انتخابات کے نتیجے میں ملنے والے اپنے جمہوری اقتدار کی دو سالہ مدت میں اپنی حکومتی اور سیاسی ذمہ داریاں کس طرح سے نبھائی ہیں... ؟اور اِن کی جماعت نے اِس سارے عرصہ میں عوام کی کتنی خدمت کی ہے...؟ اور کیا پاکستان پیپلز پارٹی جو آج پورے ملک میں اپنی حکمرانی کے جھنڈے گاڑے ہوئے ہے اِس پارٹی کا کوئی اہم ذمہ دار اپنا سینہ ٹھونک کر کیا یہ کہہ سکتا ہے کہ اِن لوگوں نے اقتدار سنبھالتے ہی ملک سے مہنگائی اور بھوک سے بلکتے سسکتے اور ایڑیاں رگڑتے غریب عوام کی مشکلات کم کرنے کے لئے کوئی قدم اٹھایا ہے....؟میں سمجھتا ہوں کہ اِس دوران اُوپر سے لے کر نیچے تک سب ہی نے سوائے اخباری بیانات اور دلکش اور دلفریب خطابات اور تقاریروں کے کسی نے بھی حقیقی معنوں میں عوام کے لئے کچھ نہیں کیا اور شائد کوئی یہ بھی نہ کہہ سکے کہ اِن لوگوں نے واقعی حقیقی معنوں میں عوام کی کوئی خدمت کی ہے ....؟کیونکہ یہ بیچارے تو پہلے ہی اپنا ہاتھ مل کر اور اپنی آنکھوں میں آنسوؤں کے ٹپ بھر بھر کا اول روز سے ہی یہ کہہ کر اپنی جانیں چھوڑا رہے ہیں کہ اِن کے اقتدار میں آتے ہیں ملک کے حالات ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت اتنی تیزی خراب کردیئے گئے کہ اِن کی توجہ عوامی مسائل کے حل کی جانب سے ہٹ کر اپنی حکومت کے خلاف بُننے گئے سازش کے جالوں کو ہٹانے اور اُنہیں صاف کرنے میں ہی لگی رہی ہے جس کی وجہ سے اِن کی جماعت عوام کو درپیش مسائل کی جانب فوری طور پر کوئی توجہ نہ دے سکی اور جس کا نتیجہ آج یہ نکلا ہے کہ نہ تو اِن کی حکومت عوامی مسائل ہی کو ٹھیک طرح سے حل کر کے عوام میں اپنا مورال بلند کرسکی ہے اور نہ اُن حالات کو ہی سُدھارنے میں کامیاب ہوسکی ہے جس کی وجہ سے اِس نے عوام کو بھلا دیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج عوام سڑکوں، بازاروں اور گلی کوچوں میں یہ کہتے نہیں تھک رہی ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی اِس حکومت نے عوام کو بہت مایوس کیا ہے جبکہ اس سے پہلے اِس جماعت کی حکومت نے اپنے گزشتہ دوار میں ایسا مایوس کبھی نہیں کیا تھا اور یہی عوام آج یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اگر آج ہماری قائد متحرمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ حیات ہوتیں تو شائد ملک میں غریب عوام کی اتنی بے قدری نہ ہوتی کہ جتنی بے قدری آج اِن کے شوہر صدر آصف علی زرداری کی حکومت میں ہو رہی ہے جنہوں نے شائد اپنے مسائل کو سلجھانے میں عوام کی جانب سے توجہ ہٹا کر اِسے مہنگائی اور بھوک و افلاس کی چکی میں پیس کر رکھ دیا ہے اور اِس پر ستم ظریفی یہ کہ اُنہوں نے گزشتہ دنوں ایوانِ صدر اسلام آباد میں ہونے والی ”عالمی صوفی ازم وامن کانفرنس“ جس میں دنیا بھر سے آئے ہوئے اسکالر نے شرکت کی تھی اِس سے خطاب کے دوران جس انداز سے اظہار خیال کیا اِس سے بھی ملک کی ساڑھے سولہ کروڑ غریب عوام شسدر رہ گئی کہ جب صدر آصف علی زرداری نے یہ کہا کہ”میں ایوانِ صدر میں بیٹھ کر انسانیت کی خدمت کررہا ہوں “تو قوم یہ سوچنے پر مجبور ہوگئی کہ شائد اِسی وجہ سے ملک میں مہنگائی اور بھوک و افلاس کا دور دورہ ہے کیونکہ جب صدر مملکت ... ایوانِ صدر ہی میں بیٹھ کر انسانیت کی خدمت کریں گے تو لامحالہ ملک کے غریب عوام کا یہ حال تو ہونا ہی ہے جو آج ہو رہا ہے اگر صدر مملکت ایوانِ صدر سے باہر نکل کر ملک کی غریب عوام کا خیال کریں تو شائد اِن کے سامنے عوامی مسائل بھی آئیں اور وہ اِن کو فوری طور پر حل کرنے کے بھی احکامات جاری کریں مگر جب صدر مملکت آصف علی زرداری فرما رہے ہیں کہ وہ صرف ایوانِ صدر میں ہی بیٹھ کر انسانیت کی خدمت کررہے ہیں یہ تو کوئی خدمت نہ ہوئی کہ اِنہیں انسانیت کی تکالیف کا احساس بھی نہ ہو اور وہ خدمت کا دعویٰ بھی کررہے ہیں اور اِس کے ساتھ وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ وہ موت سے نہیں ڈرتے موت کے منہ سے صدارت کے عہدے تک پہنچے ہیں تو پھر آپ نے ایوانِ صدر میں کیوں پناہ لے رکھی اور یہاں بیٹھ کر انسانیت کی آپ کونسی خدمت کررہے ہیں صدر صاحب !ذرا یہ بھی تو بتا دیں کہ آخر عوام یوں ہی آٹے، چینی، دال، چاول اور گھی کو کیوں ترس رہے ہیں؟ اور کب تک یوں ہی ترستے رہیں گے؟ اور آپ کہہ رہے ہیں کہ آپ ایوانِ صدر میں بیٹھ کر انسانیت کی خدمت کررہے ہیں آخر یہ کونسی اور کیسی خدمت ہے؟ کہ جب آپ ایوانِ صدر سے باہر نکلتے ہیں تو آپ کے ساتھ دو سو گاڑیوں کا ایک بڑا لمبا قافلہ ہوتا ہے جو جہاں سے گزرتا ہے گھنٹوں اُس شاہراہ پر ٹریفک جام رہتا ہے جس کی وجہ سے عوام کو ہی ذہنی اور جسمانی اذیتیں برداشت کرنی پڑتی ہیں اور تو اور کسی حاملہ خاتون کا بچہ ٹریفک جام رہنے کے دوران رکشہ میں ہی ہو جاتا ہے تو کوئی مریض ایمبولنس میں اپنی بیماری سے لڑتے لڑتے اسپتال پہنچنے سے قبل ہی اپنی زندگی کو موت کے ہاتھوں دے دیتا ہے اور آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ آپ اقتدار میں رہ کر ایوانِ صدر میں بیٹھ کر انسانیت کی خدمت کررہے ہیں یہ اچھی خدمت ہے..... صدر مملکت جب ایوانِ صدر میں آپ رہیں تو عوام کی پریشانیوں کا کوئی احساس نہیں رہے اور جب ایوانِ صدر سے باہر نکلیں تو تب بھی عوام کی تکالیف کو بھول جائیں.... کہ آپ کے آگے اور پیچھے دو سو گاڑیوں کے قافلے سے عوام کو کیا کیا پریشانیاں درپیش ہوسکتی ہیں آپ کو کیا کبھی اِس کا احساس ہوا ہے جو آپ یہ کیسے کہہ رہے ہیں کہ آپ ایوانِ صدر میں بیٹھ کر انسانیت کی خدمت کررہے ہیں اور ہاں ! یہ کیسی خدمت ہے صدر مملکت !کہ آپ نے ایک غریب طالبعلم کی قوتِ خرید کے مطابق بیرونِ ممالک سے ملک میں آنے والے پرانے کمپیوٹروں کی ملک میں آمد پر بھی پابندی لگا دی ہے .....جو میں سمجھتا ہوں کہ سراسر ناانصافی اور غریبوں کے ساتھ آپ کا کھلا ظلم ہے آپ اپنے اِس فیصلے پر ضرور نظرثانی کیجئے اور اپنے اس فیصلے کو فی الفور واپس لیں تاکہ ایک غریب طالبعلم بھی کمپیوٹر خرید کر خود کو دورِ جدید کے تقاضوں کے مطابق ڈھال سکے اور یہ بھی اِس سرزمین کا کارآمد فرد بن سکے جس ملک کی زمین پر آج آپ کی حکمرانی ہے۔

اور اِسی کے ساتھ ہی میں اِس موقع کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے دوسرا قول چارلس ڈیگال کا تحریر کر رہا ہوں کہ ”سیاست دان اور حکمران آقا بننے کے لئے نوکروں کے انداز اپناتے ہیں“جیسا انداز صدر مملکت آج آپ نے یہ کہہ کر اپنایا ہے کہ میں ایوانِ صدر میں بیٹھ کر انسانیت کی خدمت کر رہا ہوں“ عوام خُوب سمجھ رہے ہیں کہ آپ نے آقا بننے کے لئے نوکروں کا انداز اپنا لیا ہے جس سے عوام اَب باخبر ہیں اور اَب یہ کسی کے بہکاوے میں نہیں آئیں گے۔ اَب صدر مملکت جناب !آصف علی زرداری صاحب! آپ یہ خود اچھی طرح سے سوچیں کہ عوام آپ سے کیا چاہتے ہیں؟ اور آپ وہی فیصلہ کریں جس کی عوام نے آپ سے اچھے کی اُمید کر رکھی ہے اور عوام یہ چاہتے ہیں کہ آپ ایوانِ صدر میں صدیوں بیٹھ کر انسانیت کی خدمت ضرور کریں مگر پہلے عوام کو مہنگائی اور بھوک و افلاس اور تنگدستی سے تو زبانی نہیں بلکہ عملی طور پر احکامات اور اقدامات کر کے نجات تو دلوائیں۔

بہر کیف !اِسی کے ساتھ ہی اَب میں اُس نقطے کی طرف ہیز کے اِس قول ”اپنی پارٹی کی صحیح خدمت وہی کرسکتا ہے جو اپنے ملک کی صحیح خدمت کر رہا ہو“کو تحریر کرنے کے بعد اُس خبر کی طرف پلٹوں گا جس نے مجھے آج کا اپنا یہ کالم لکھنے پر اُکسایا وہ یہ ہے ہمارے ملک کے سابق آمر صدر پرویز مشرف نے سی ٹل میں”فرینڈز آف پاکستان فرسٹ نامی تنظیم کے عشائیے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ”میری سیاست میں واپسی کے لئے آل پاکستان مسلم لیگ کے نام سے پارٹی رجسٹرڈ ہوچکی ہے اور اگر میرے پاکستان کے لوگ جو مجھ سے بے پناہ محبت کرتے ہیں وہ چاہیں گے تو میں اِس پارٹی کی قیادت سنبھال لوں گا اور اِس پارٹی کے پلیٹ فارم سے ملک اور قوم کی اِسی طرح سے خدمت کروں گا جس طرح سے میں نے پہلے وردی میں رہ کر کی تھی ۔(یعنی ملک کو امریکیوں کے ہاتھوں گروی رکھ دیا تھا اور قوم کی نہیں بیٹیوں اور بھائیوں کو پکڑ پکڑ کا امریکیوں کو دیا تھا)

تو یہاں میرا خیال یہ ہے کہ پرویز مشرف اپنی پارٹی کی خدمت کر ہی نہیں سکتے کیونکہ ہیز کے قول میں یہ بات موجود ہے کہ اپنی پارٹی کی خدمت وہی اچھی طرح سے کرسکتا ہے کہ جو اپنے ملک کی صحیح خدمت کر رہا ہو اور کیونکہ پروز مشرف نے اپنے اقتدار میں ملک کی کون سی اچھی خدمت کی تھی جو وہ اپنی پارٹی اور اِس پارٹی کے پلیٹ فارم سے ملک کی اچھی خدمت کریں گے اِنہیں اپنی پارٹی بنانے اور اِسے رجسٹرڈ کرانے سے پہلے اچھی طرح سے یہ بات خُوب سوچ سمجھ لینی چاہئے تھی کہ اپنی پارٹی کی خدمت تو وہی اچھی طرح سے کرسکتا ہے جو اپنے ملک سے مخلص ہو اور کیا پرویز مشرف یہ سمجھتے ہیں کہ آپ ملک کے ساتھ مخلص ہیں.....؟آپ کا جواب تو شائد اپنے لئے ہاں میں ہو مگر میں آپ کو یہ بتاتا چلوں کہ پاکستان کے ساڑھے سولہ کروڑ عوام کی آپ سے متعلق رائے سو فیصد منفی ہے کیونکہ عوام آج ہی نہیں بلکہ صدیوں تک یہ ہی سمجھتے رہیں گے کہ آپ نے اپنے دورِ اقتدار میں پاکستان کو جو نقصان پہنچایا اِس کا ازالہ قوم صدیوں تک بھی نہیں کرسکتی۔ اور آپ نے یہ کیا انکشاف کر دیا کہ نوازشریف” کلوز ٹو طالبان“ یا طالبان جیسے ہی ہیں اور کیا آپ نے اِس کا احساس کیا کہ مشرف جی آپ نے یہ کہہ کر نواز شریف کے لئے کتنی پریشانیاں پیدا کر دی ہیں۔ آپ کو ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا کیونکہ شائد نواز شریف آپ کو ملک کی سیاست سے باہر کرچکے ہیں تو اَب آپ کو بھی اِن سے بغض نہیں رکھنا چاہئے۔ (ختم شد)
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 898416 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.