میرٹ علی حمزہ سے آغاغضنفر تک……؟

 ملک تیئس تعلیمی بورڈ ہیں، جن کے ذیعے ہر سال تقریبا ساٹھ لاکھ طلباء و طالبات امتحان میں بیٹھتے ہیں تاکہ میٹرک اور انٹرمیڈیٹ پاس کرکے آگے بڑھ سکیں کیونکہ میٹرک اور انٹرمیڈیٹ کے امتحانات میں کامیابی حاصل کیے بغیر اگلی کلاسز میں پہنچنا ایک خواب رہ جاتا ہے۔نمایاں کامیابی حاصل کرنا امتحانات میں شریک ہر طالب علم کا خواب ہوتا ہے، ساٹھ لاکھ امیدوار طلباء و طالبات کو اس خواب کی تعبیر ملنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔ بورڈز میں اول پوزیشن حاصل کرنے کے لیے محنت،محنت اور بس محنت ہی کام آتی ہے۔

نتائج کے مطابق اس بار بھی میٹرک کے امتحانات میں طالبات نے طلباء کو بچھاڑ کے رکھ دیا ہے اور زیادہ تر پوزیشنیں اپنے نام کی ہیں۔ان میں سے زیادہ تر غریب خاندانوں کے چشم و چراغ شامل ہیں۔ ایک غریب طالب دال چاول کی ریڑی لگاتا ہے اور دوسرا علی حمزہ ہے جس کا تعلق ڈسکہ سیالکوٹ کے ایک سکول سے ہے ،علی حمزہ اپنے باپ کے ہمراہ ریڑی پرفروٹ بیچتا ہے۔ اس نے گیارہ سو میں سے ایک ہزار تین نمبر لیکر دوسری پوزیشن حاصل کی ہے۔اور ثابت کیا ہے کہ غریبوں کے بچے کسے جاگیردار اور وڈیرے کی اولاد سے کم ذہین نہیں ہیں-

میں وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف کی تعریف کیے اور انہیں داد دئیے بنا نہیں رہ سکتا کہ انہوں نے ایک فروٹ فروش کے بیٹے کو اسکی محنت ،ذہانت اور قا بلیت کا اعتراف کیا اور اسے پانچ لاکھ روپے نقد انعام دینے کے ساتھ ساتھ اس ہونہار طالب علم کے استاد کو بھی ڈیڑھ لاکھ روپے سے نوازا ہے…… بے شک وزیر اعلی میاں شہباز شریف کا یہ اقدام لائق تحسین ہے اور قابل رشک بھی۔

میں یہاں وزیر اعلی پنجاب سے عرض کروں گا کہ وہ قوم کے اس ہونہار و قیمتی لعل و گوہر کا مستقبل میں بھی خیال رکھیں ایسا نہ ہو کہ کسی تقریب میں اسے سیڑھیوں میں بیٹھا کر اسے لوگوں کی نگاہوں میں رسوا کرنے کی شعوری اور غیر شعوری کوشش کی جائے۔ اس بات کا مجھے بہت دھڑکا لگا ہوا ہے کیونکہ جس ماحول اور معاشرے میں ہم رہ رہے ہیں وہاں کے امراء اور رئیس زادے اپنی ناکامی برداشت کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتے اور وہ غریب کے بچوں سے بدلہ لینے کی ٹھان لیتے ہیں اور وہ ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ علی حمزہ جیسے ہونہار ،لائق ،فائق اور ذہین فطین طالب علموں کو اعلی تعلیم کے کے داخل نہیں ہونے دیتے اور اپنے اس مقصد کے حصول کے لیے بہت آگے تک چلے جانے سے بھی گریز نہیں کرتے ہیں۔
جاگیرداروں،وڈیروں ، بااثر صنعتکاروں اور موجودہ و سابق حکمران طبقات اپنے نالائق فرزندگان کو اعلی تعلیمی اداروں میں داخل کروانے کے لیے تمام ضابطے،اصول اور قاعدے پامال کرنے سے نہیں باز آتے…… اپنے بدمعاش صاحبزادوں کو چیف کالج،میڈیکل کالجز اور دیگر یونیورسٹیوں میں اپنی من مانی کے لیے اداروں کے وائس چانسلر اور پرنسپل تک کو تبدیل کروا دیتے ہیں،جس کی تازہ مثال چیف کالج لاہور کی پیش کی جا سکتی ہے، جہاں باثر طبقات جن میں صنعتکار( میاں منشاء ایم سی بی والے) سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی( ترک خاتون اول کا تحفہ میں دیا گیا قیمتی ہار چوری کرنے والے) اور دیگر سرمایہ کاروں نے اپنے نالائق صاحبزادوں کو چیف کالج میں داخلہ نہ دینے پر پرنسپل آغا غضنفر کو ہی ہٹوا دیاتو انہوں نے عدالت سے حکم امتناعی حاصل کیا…… بعد ازاں بورڈ آف گورنرز کے اجلاسوں میں انہیں بے عزت کیا جانے لگا باالاآخر بااثر طبقات نے اپنی انا کے تحفظ اور پرنسپل کو انکے نالائق بچوں کو داخلہ نہ دینے کی سزا دیتے ہوئے پرنسپل کے عہدے سے فارغ کروا دیا…… اطلاعات کے مطابق بااثر طبقات سابق پرنسپل شمیم احمد خاں کو دوبارہ تعینات کروانے کی تگ ودو میں ہیں شمیم احمد خان بیوروکریٹس، وزرا ،سرمایہ کاروں کی خوشامد کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔

موجودہ حکومت پنجاب ہر کام میرٹ پر کرنے کی دعوے دار ہے اسے چاہیے کہ وہ چیف کالج کے معاملے پر سنجیدگی سے غور کرے اور اگر واقعی چیف کالج میں میرٹ کو نظرانداز نہیں کیا جا رہا تو آغا غضنفر کو ہٹانے کا فوری نوٹس لیا جائے کیونکہ میرٹ پالیسی کا تحفظ کرنا حکومت کی اولین ترجیح اور ذمہ داری ہونی چاہیے……اگر آغا غضنفر کو ہٹانا محض اس لیے لازمی ہے کہ اسے سابق گورنر پنجاب چودہری سرور لائے تھے تو یہ درست نہیں …… اچھے اور قابل افراد کی حوصلہ شکنی کی بجائے حوصلہ افزائی کی جانے کی روایت کو پروان چڑھانا ہوگا بصورت دیگر میرٹ کی مٹی پلید کرنے سے حکومت کا ہی نقصان ہوگا کسی اور کا نہیں -
Anwer Abbas Anwer
About the Author: Anwer Abbas Anwer Read More Articles by Anwer Abbas Anwer: 203 Articles with 144282 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.