سبق آموز تاریخ جو گزر گئی -٢

ابھی بھاؤ تاؤ جاری تھا کہ اسے چائے پکنے کی خوشبو آئی۔ وہ خاموشی سے اٹھی اور دو پیالوں میں چائے انڈھیل لائی۔ ایک امریکی سینیٹر کو اور دوسری پیالی دروازے پر کھڑے گارڈ کو پیش کر دی۔ پھر دوبارہ میز پر آ بیٹھی اور امریکی سینیٹر محو کلام ہو گئی۔ چند لمحوں کے بات چیت اور بھاؤ تاؤ کے بعد شرائط طے پا گئیں۔ اس دوران گولڈا مائیر اٹھی اور پیالوں کو دھو کر واپس امریکی سینیٹر کی طرف متوجہ ہوئی اور بولی مجھے یہ سودا منظور ہے۔ آپ تحریری معاہدے کے لیے اپنے سیکرٹری کو میرے سیکرٹری کے پاس بھجوا دیں۔

یاد رہے کہ اس وقت اسرائیل اقتصادی بحران کا شکار تھا۔ مگر گولڈا مائیر نے کتنی سادگی کے ساتھ اسرائیلی تاریخ میں اسلحہ کا اتنا بڑا سودا کر لیا۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ خود اسرائیلی کابینہ نے اس بھاری سودے کو رد کر دیا۔ اس کا مؤقف تھا کہ اس سود کے بعد اسرائیلی قوم برسوں تک دن میں ایک وقت کے کھانے میں ہی اکتفا کرنا پڑے۔

گولڈا مائیر نے خاموشی سے کابینہ کا مؤقف سنا اور کہا!!! آپ کا خدشہ درست ہے۔ لیکن اگر ہم یہ جنگ جیت گئے اور ہم نے عربوں کو پسپائی پر مجبور کر دیا تو تاریخ ہمیں فاتح قرار دے گی اور جب تاریخ کسی قوم کو فاتح قرار دیتی ہے تو وہ بھول جاتی ہے کہ وہ جنگ کی دوران فاتح قوم نے کتنے انڈے کھائے تھے اور روزآنہ کتنی بار کھانا کھایا تھا ۔ اس کے دسترخوان مں شہد، مکھن، جیم تا یا نہیں اور اس کے جوتوں میں کتے سوراخ تھے ان کی تلواروں کے نیام پٹھ پرانے تھے۔ فاتح صرف فاتح ہوتا ہے۔

ابھی جاری ہے