ڈیم اتفاق رائے کیوں نہیں

پاکستان میں آیباشی اور ضرورت زندگی کے لیے درکار پانی میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان کی سالہ۶۴تاریخ کی کسی حکومت نے فوجی سویلین نے ایک طرف مستقبل کی ضروریات کے پیش نظر پانی کے ذخائر کو سٹور کرنے کے لیے ڈیمز بنانے کی زحمت ہی نہیں کی دوسری طرف پڑوسی ملک بھارت نے بھی بھارت سے گزرنے والے پاکستانی دریاؤں، جہلم ، چناب اور سندھ کا پانی ڈکارنے کے لیے درجنوں یعنی لارجرڈیمز بنالیے ہیں تاکہ مناسب وقت پر پانی روک کر سرزمین پاکستان کو پتھر بنا دیا جائے تاکہ پاکستان کو اقتصادی ، زرعی، اور معاشی میدان میں ناکامی ریاست ثابت کیا۔ بھارتی اقدامات کو ابھی سے تشیبہ دی جارہی ہے ۔ عالمی ماہرین نے پاکستان کو بار بار خطرے کی لال جھنڈی دکھائی ہے کہ اگر بھارت سندھ طاس معاہدے پر عمل درآمد نہیں کرتا اور ہر سال سمندر میں غرق ہونے والے ۳۲ لاکھ ایکڑفٹ پانی کے لیےWater reserviorsتعمیر نہیں کئے تو ۳۲ سالوں بعد پاکستان کے کھیت کھلیان ، سوالیہ کا منظر پیش کریں گے۔ اگر اس پر توجہ مرکوز نہیں کی گئی تو ابی جار بیت اٹیم بم سے خطر ناک ہوگی۔ آبی جارحیت کو سمجھنے کے لیے ہمیں ماضی کے صحرا س میں پھیکنا ہوگا۔ پاکستانی دریاؤں کے پانی کا ماخذ جموں اور کشمیر ہے۔ بھارت نے تقسیم ہند کے وقت کشمیر کے قدرتی وسائل پر نظر مزکور کر رکھی تھی کس میں پانی سرفہرست تھا۔ بھارت نے انگریزوں اور کشمیری راجے کی ملی بھگت سے کشمیر پر قبضہ کر لیا۔ بھارت نے پانی ہتھیانے کی ابتدا اپریل۱۹۴۸میں کی ۔ دریائے ستلج بیاس اور راوی کا پانی روک کر ہماری فصلات کو خاصانقصان پہنچایا۔ بھارت اپنے تمام ہمسائیوں بنگلہ دیش، بھوٹان، سریلنکا اور پاکستان کے پانی کو اپنے تصر ف میں لانا چاہتا ہے۔ روئے ارج میں کئی دریا ایسے ہیں جو کئی ریاستوں کو سیراب کرتے ہیں مگر کوئی ملک اپنی حدود میں گزرنے والے پانی پر ڈکیتی مارنے کا تصور تک نہیں کر سکتا۔ جنوبی امریکہ کے دریا Amazorکی لمبائی۶۸۸ کلومیٹرہے اور یہ برازیل پیرا گوئے اور لیبیا سہگور کر سمندر مین پیوند خاک ہوتا ہے۔ دریائے نیل کی لمبائی۶۵۴۰ کلومیٹر ہے جو افریقہ تا مڈل ایسٹ تک اپنی راء میں گرنے والی اللہ کی دھرتی ہو سیراب کرتا ہے۔ شمالی امریکہ سے دریائے میسیسی کے لمبائی۵۹۱۰کلومیٹر ہے جو کئی ریاستوں کاشتکاری میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ بھارت نے دریائے بیاس ، راوی اور ستلج کا پانی اس بہانے روک دیا تھا کہ بھارتی راجستان کو آباد کرنے کے لیے پانی درکارتھا۔ پاکستان نے تجویز دی ستلج ، بیاس ، روای اور چناب کے نظام کو جوں کا ثوں رہنے دے اور دریائے نرہذ اور تاپنی کے پانی کو زیراستعمال لائے پاکستان نے بھارت کوافر کی تھی کہ ان دریاؤں پر بھارت بیراج تعمیر کرے جس کی آدھی لاگت پاکستان ادا کرے گا یہ وسیع انقلاب پیشکش رد کر دی گئی اور بھارت نے بھاکڑہ ڈیم تعمیر کرنے کی ٹھان لی۔ یہ دریا سندھ طاس علاقے میں موجود ہے جہاں انڈسٹری معاہدے کے رو سے ڈیم نہیں بنایا جا سکتا مگر دہلی سرکار نے نہ صرف ڈیم تعمیر کیا بلکہ پاکستانی دریاؤں کے ساتھ ساتھ درجنوں بیراجڑ اور ڈیم تعمیر کر لئے ۔ اگر بھارت اپنے عزائم میں کامیاب ہوگیا تو لاہور حیدرآباد اور کراچی سمیت کئی علاقے ویران ہو جائیں گے۔ ویسے بھی ان علاقوں میں زیر زمین پانی کی سطح بہت گہری ہے اس لیے یہاں کوئی دوسرا طریقہ ابپاشی ندارہ ہے سیلاب کی المناک بربادیوں کے مناظر میں مستقبل کا تجربہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ بھارت سندھ، جہلم، اور چنان پر بنائے کانے ولاے ڈیمز بیراج اور خشک کینالز کا پانی بیک و پاکستانی دریاؤں میں چھوڑ دے تو ملک طوفان نو میں غوطے کھا رہا ہوگا۔ ۱۹۸۷ میں بھارت نے صرف دریائے چناب کا پانی چھوڑا تھا کہ پورا پنجاب ہر سو پانی میں ڈبکیاں لگا رہا تھا۔ سیلاب میں ہیڈ تونسہ گڈدادر کوٹری پر پانی کا بہاؤ۲ لاکھ کیوسک تھا اگریہ مقدار ۱۴ لاکھ کیوسک تک پہنچ جاتی تو تینوں بیراج پانی کے ریلے میں بہہ جانا تصور کرے کہ اگر بھارت نے اپنے ڈیموں کا پانی چھوڑ دیا تو یہ مقدار۲۰ سے ۲۵ لاکھ کیوسک کا ہندسہ کراس کر سکتی ہے جو پاکستان کے تمام بیراجوں کی لنکا کو ملیاجھٹ کر دے گی۔ یو دریائے سندھ کے ہر سال ضائع ہونے والے پانی اور سیلابی ریلوں کو سٹور کرنے کے لیے نئے ڈیمز ناگزیر بن چکے ہیں کالا باغ ڈیم زرعی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتا ہے۔ ہماری اجماعی بد قسمتی یہ ہے کہ جب ہمارا سامنا کسی مشکل سے پڑتا ہے اور پانی سر سے گزر جاتا ہے تب ہمیں بچاؤ کی تمام تدبیریں یاد ہونے لگتی ہیں۔ واپڈا مسٹر پرویز اشرف نے ۲۰۱۰ مئی کو اعلان کیا تھا کہ کالا باغ ڈیم کا قصہ تمام ہو چکا کیونکہ تین صوبے سندھ، سرحد اور بلوچستان اس کے حق میں نہیں۔ اس واجلانہ اعلان سے پاکستان سے پاکستانیوں کے دلوں میں ڈیم کی خواہش کا ٹمٹھانہ چراغ بجھ گیا۔
 

Advocate Rana Shahzad
About the Author: Advocate Rana Shahzad Read More Articles by Advocate Rana Shahzad: 5 Articles with 4992 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.