بارِشناسائی ۔۔۔۔۔ایک مطالعہ

عرب کے مشہور شاعر متنبی جس کی مدح کرتا اُسے آسمان پر اٹھاکر ماورائی مخلوق بنالیتا ،اسی طرح جب کسی کی ہجوکرتا تو اسے انسانیت کے دائرے سے نکال کر اسفل السافلین بنا کردَم لیتا۔یہی حال ہمارے اکثر قلم کاروں کا ہے ۔وہ جب بھی کسی شخصیت پر قلم اُٹھاتے ہیں تو دونوں انتہاؤں میں سے ایک پر ہوتے ہیں۔حکمرانوں،سیاست دانوں اور با اثر شخصیات کے خاکوں اور سوانح میں تو بالخصوص اپنے پسند اور ناپسند کے غیر ضروری رنگ اہتمام سے بھرے جاتے ہیں۔ عام آدمی تک صحیح معلومات نہ پہنچنے کی وجہ سے وہ یا تو رہزن کو رہبر سمجھنے لگتا ہے یا پھر ’سب چورہیں ‘ کہتے ہوئے قومی واجتماعی معاملات سے دامن جھٹکتاہے۔’بارِ شناسائی ‘اس معاملے میں ایک مختلف اور منفرد کتاب ہے۔کتاب کے مصنف کرامت اﷲ غوری وزارت خارجہ کے بیوروکریٹ اورایک طویل عرصے تک مختلف ممالک میں پاکستان کے سفارت کار رہے ہیں۔خوش گوار حیرت کی بات یہ ہے کہ سفارت کاری کے ساتھ ساتھ مصنف کا قلم قبیلے کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔

وہ کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ان کی تازہ تصنیف ’بارِشناسائی‘دراصل ان کی اُن یاداشتوں کا مجموعہ ہے جو ہمارے حکمرانوں:وزرائے اعظم،صدور،کابینہ کے اراکین،کمیٹیوں کے سربراہان اوردیگر اہم شخصیات سے متعلق ہیں۔ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر نوازشریف اور بے نظیرتک کے حکمرانوں،نوابزادہ نصراﷲ خان ،مولانا فضل الرحمٰن،حکیم محمد سعید،فیض احمد فیض اور ڈاکٹر عبدالسلام جیسی شخصیات کے تذکرے اس کتاب کا حصہ ہیں۔دل آویزاسلوب،بے لاگ تبصرے اورشخصیات کے نفسیاتی تجزیے اس کتاب کی نمایاں خصوصیات ہیں۔مصنف نے پیش لفظ میں لکھاہے: ’’میں نے توصرف وہ خاکے مرتّب کیے ہیں جو میرے مشاہدے کی آنکھ سے گزرکرمیرے ذہن کے کینوس پراپنے تاثرات چھوڑگئے ہیں۔میں نے صرف وہی لکھا ہے جو میں نے دیکھا اور محسوس کیا۔‘‘(ص 26)حقیقت یہ ہے کہ کتاب پڑھنے کے بعد مصنف کے اس دعوے کی تصدیق کے بغیر چارہ نہیں ہوتا۔

ضیاء الحق ،اداکاریاعجزو انکسارکا پیکر
اس وقت پاکستان میں سیکولر اور دین بے زار لوگ جب اسلام کو گالی دینا چاہیں تو مولوی کو بُرا بھلا کہنے کے ساتھ ساتھ ضیاء الحق کو بھی رگیدتے ہیں یو ں دراصل وہ اپنی بھڑاس نکال کراپنے جذبہ دین بے زاری کو تسکین پہنچانے کا سامان فراہم کرتے ہیں۔آئیے دیکھتے ہیں مصنف نے ضیاء الحق کو کیسے پایا ،وہ لکھتے ہیں:
’’جوبے ساختگی ضیاء الحق کے ہاں میل جول کے حوالے سے میں نے دیکھی اور محسوس کی اس میں کہیں بھی مجھے اداکاری یا ریاکاری کا شائبہ نہیں ہوتا تھا۔ وہ سربراہان مملکت، وزیروں اور سفیروں سے جس تپاک سے ملتے تھے، اس تپاک سے میں نے انھیں فرش پر جھاڑو لگانے والے خاک روب اور ان کی گاڑی کا دروازہ کھولنے والے دربان سے بھی جھک کر ملتے اور گرم جوشی کے ساتھ مصافحہ کرتے دیکھا۔ اگر وہ واقعی ادا کاری تھی توکمال کی تھی اور اگروہ اداکاری کے پیشے ہی کو اپنی وجہ شہرت بنانے کے بارے میں سوچتے تو بھی اتنی ہی مشہورہوتے جتنے بطورصدرپاکستان ہوئے۔‘‘ (ص ۴۴)

’’میری دانست میں ضیاء الحق کے کھرے پن اور شخصیت کے انکساراور عجزکے ضمن میں پاکستانیوں کے ذہن میں شکوک وشبہات اس وجہ سے پیدا ہوئے کہ وہ اس سے پہلے ذوالفقارعلی بھٹوجیسے سخت گیر ، درشت مزاج اور فطرتاً منتقم مزاج سربراہِ حکومت کے عادی ہوچکے تھے۔‘‘ (ص۴۴)

’’ وہ بلاشبہ ایک انتہائی متنازعہ شخصیت تھے اور رہیں گے لیکن ایک حقیقت جس کا میں آج بھی بلا
خوف تردید اعادہ اور توارد کر سکتا ہوں یہ ہے کہ میں نے ۳۵برس کی سفارتی اور سرکاری ملازمت کی تمام مدت میں ضیاء الحق سے زیادہ نرم خواور حلیم انسان نہیں دیکھا۔۔۔۔ کوئی بھی دیانت دار مؤرخ ان کے خلق اور اخلاق کے ضمن میں میرے بیان کی تردیدنہیں کرسکے گا۔‘‘ (ص۷۲)

ذہین مگر وڈیرہ ذوالفقارعلی بھٹو
وطن عزیز کا ایک طبقہ بھٹو کی شخصیت کوایک عوام دوست،غریب پروراورمقبول عوامی رہنما کے طور پر پیش کرتاہے۔مصنف اپنا مشاہدہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ’’ میں نے زندگی میں ذوالفقارعلی بھٹوجیسا ذہین انسان نہیں دیکھا اور میں نے اپنی زندگی میں بھٹو جیسا مغروراورمتکبرانسان بھی نہیں دیکھا! (ص۷۳)

مصنف نے پیپلزپارٹی کے ایک (معزز) ایم این اے کاایک حیران کن مگر چشم دید واقعہ لکھا ہے جوبھٹو صاحب کے قدموں پر نہ صرف جھکا بلکہ اُس نے ان کے قدموں میں اپنا سربھی رکھ دیا۔ بھٹوصاحب نے نہ اس شخص کو اس حرکت سے بازرکھنے کی کوشش کی اور نہ اسے اپنے قدموں سے ہٹایا۔‘‘ (ص۷۵)
مصنف لکھتے ہیں’’ذوالفقارعلی بھٹوجیسے ذہین اور طباع انسان کے ساتھ یوں لگتا تھا جیسے وڈیرہ شاہی کی نخوت کا آسیب ہمہ وقت چمٹا رہتاتھااور اس آسیب کی اناکی تسکین ہر اس شخص کو ذلیل کرکے ہوتی تھی جوان کے مقابلے میں کمتر، کمزوریا چھوٹاتھا۔‘‘(۷۵)

بھٹونے نیپالی وزیراعظم اور کابینہ کے سامنے اپنے چیف آف پروٹوکول کرنل اسماعیل کی صرف اس بات پر سرعام بے عزتی کی کہ کھانے کے دوران باتیں کرتے کرتے ہوئے ان کی پشت اس ہیڈ ٹیبل کی طرف ہوگئی جس پر بھٹو صاحب معززین کے ساتھ بیٹھے طعام سے لطف اندوز ہورہے تھے۔‘‘ (ص۷۷)بھٹو کو یہ احساس بھی نہ رہاکہ اُن کے نیپالی مہمان اردو پوری طرح سمجھتے ہیں۔

’’بھٹوصاحب کا سب سے بڑا مسئلہ یہی تھا کہ وہ اپنے مزاج اور اپنی انا پرست نفسیات سے اپنی موروثی وڈیرہ ذہنیت کو کبھی جدا نہیں کرسکے۔‘‘ (ص۲۸)

’’پاکستان کی سیاست میں بھٹوکا کردارمتنازع ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے سیاسی سراپاسے جڑے ہوئے سوالات میں اضافہ ہوتارہے گا اور یہ اس لیے ہے کہ ان کی تمام ترسیاست پُرفریب نعروں کے سواکچھ نہیں تھی اور آج تک ان کے جانشین اور حاشیہ بردار جنھوں نے پورے بھٹوخاندان کو درجہ شہادت پر فائز کرکے پاکستان کے سادہ لوح عوام کے لیے ان کی پرستش کرنے کے کاروبارکو عام رکھا۔ انھی کے دیے ہوئے نعروں سے کام چلارہے ہیں۔‘‘ (ص۹۳)

’’دراصل ذوالفقارعلی بھٹونے یہ راز پالیاتھا کہ پاکستانی عوام کو تعلیم کے شدیدفقدان اور بصیرت سے محرومی کی وجہ سے دلفریب نعروں سے ایک طویل عرصے تک بہلایاجاسکتاہے ورنہ ان کی قائم کردہ پیپلزپارٹی نے آج تک عوام کے دیرپامفاد اور فلاح وبہبود کے لیے کوئی ایسا کام نہیں کیا۔ جس سے اس دعوے کا ثبوت فراہم کیاجاسکے کہ اس پارٹی کی جڑیں واقعی عوام میں ہیں۔‘‘ (ص۹۳)

وزیروں، مشیروں کے نازونخرے
بات بات پر سفارت خانے کے عملے سے ناراضی اور اپنے ہم منصبوں کے سامنے معلومات کی کمی اور عجزبیان،منصب کے خواہش مند، مال ودولت کے پجاری، پروٹوکول کے بھوکے شہرت کے طلب گار، سیاحت اور شاپنگ کے شوقین ہمارے وزیر، مشیر بیرون پاکستان اپنی نااہلی اور کارسرکارسے بے نیازی کے سبب کس طرح ملک وقوم کی ساکھ کو داؤپر لگاتے تھے۔ اور کس کام ودہن کی لذت کے لیے کس طرح کے عجیب وغریب فرمائشیں ہوتی تھیں۔ اس طرح کے واقعات تفصیل بیان کیے گئے ہیں ۔مثلًاالجزائرمیں زرداری صاحب کے لیے پیرس سے ڈپلومیٹک کارگوکے ذریعے سے خصوصی طور پر بھنڈیاں منگوائی گئیں جس نے الجزائری حکومت کے محکمہ پروٹوکول کو انگشت بدنداں کردیاکہ ان کے ہاں ایسی نازبرداریوں کا تصورنہیں تھا۔‘‘ (ص۱۰۲)

شاذلی بن جدید کی سادگی و درویشی
مصنف نے الجزائر کے دور سفارت کے دوران میں بے نظیر اور ان کی ٹیم کا الجزائر کے صدرشاذلی کے ساتھ موازنہ بھی کیاہے۔

’’شاذلی بن جدیدہمارے چودھریوں ، وڈیروں اور جاگیرداروں جیسے رہنما نہیں تھے جن کے ہاں اندرکچھ نہیں ہوتالیکن اوپری ٹیپ ٹاپ اور اکڑفوں بہت ہوتی ہے۔۔۔۔۔ صدرشاذلی بن جدیدنے قصرصدارت میں کبھی قیام نہیں کیا۔۔۔۔ اس کے بجائے وہ شہر سے باہراپنے ذاتی مکان ہی میں رہاکرتے تھے جس میں زیادہ ٹیپ ٹاپ اور تام جھام نہیں تھا۔ یہی سادگی اور درویشی میں نے ترکی کے وزیراعظم بلندایجوت میں دیکھی۔ بلند ایجوت وزیراعظم کے شان دارسرکاری مکان میں ایک دن بھی نہیں رہے بلکہ اپنے تین کمروں کے فلیٹ میں رہاکرتے تھے اور سرکاری مصروفیات کے علاوہ جب کبھی باہر نکلتے تھے تو اپنی وہی پندرہ برس پرانی Fiatگاڑی خود چلایاکرتے تھے جسے ہمارے ہاں اکڑی گردن والے نو دولتیے ’’کھٹارا‘‘ کانام دیتے ہیں۔‘‘ (ص۱۰۳، ۱۰۴)

بے نظیر مطلبی جاہ پرستو ں کے غول میں
مصنف نے بے نظیر کی ذہانت ،فطانت اور معاملہ فہمی کی کھل کر تعریف کی ہے اور ان کی کمزوریوں کی نشان دہی کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’وزیروں مشیروں کے انتخاب میں ان کی قوت فیصلہ اور اصابتِ رائے نے ان کا ساتھ اس طرح نہیں دیا تھا جیسے ان سے توقع کی جاسکتی تھی ۔۔۔بے نظیربھٹومیں جاگیرداری کا خمیران کی اس کمزوری کا رازتھاکہ وہ اپنے گردمنڈلانے والے مطلبی جاہ پرستوں کو پرکھنے میں یاتودانستہ طورپرناکام تھیں یاشایدجاگیرداری کلچر کے تقاضے اس طرح پورے ہوسکتے تھے کہ وہ ان مکھیوں کو اپنے اردگردبھنبھناتے دیکھتی رہیں اور اسے اپنی مقبولیت سے تعبیر کریں۔‘‘(ص۱۰۶)

پاکستان کا سادہ لوح وزیر اعظم
مصنف نے محمدخان جونیجوکو پاکستان کا سب سے بھولابھالاسیاست دان قراردیا ہے ان کا کہنا ہے کہ شاید ان کی اس صفت کی وجہ سے ضیاء الحق کی نظر انتخاب ان پر آکر ٹھیر گئی تھی۔

’’سائیں جونیجوبھولپن کی حدتک سادہ لوح تھے۔ وزارت عظمیٰ کامنصب دے کرمجھے لگتاتھا کہ ضیاء الحق نے ان کے ساتھ زیادتی کی تھی یا یہ ملک وقوم کے ساتھ زیادتی تھی۔‘‘ (ص ۱۴۳)

’’دفترخارجہ کے برہمنوں کے لیے سب سے بڑاچیلنج ہوتاکہ سائیں جونیجوکوکسی بیرونی دورے سے متعلق یاکسی غیرملکی سربراہ حکومت کے ضمن میں وہ جزئیات، وہ باریکیاں کیسے ذہن نشین کروائی جائیں جنھیں ایک وزیراعظم کے لیے لازمہ سمجھا جاتاہے۔‘‘ (ص۱۴۴)

اسی طرح باہر سے آنے والے مہمانوں کے بارے میں مکمل معلومات، حقائق اور کوائف پر مبنی ایک جامع دستاویز(بریف) تیارکرتے تھے۔ جس میں صدریاوزیراعظم کے لیے سب سے اہم حصہ گفتگو کے لیے رہنما موادپر مشتمل ہوتا تھا تاکہ وہ ان پرنظرغائرڈال کر مخاطب کے ساتھ گفتگوکے دوران پٹڑی سے نہ اُتریں۔ لیکن سائیں جونیجوپریہ کلام بلاغت کوئی اثرنہیں کرتا تھا۔ ہمارے Talking Pointsیاجملوں کے لقمے وہیں کاغذوں پر رہ جاتے تھے اور سائیں کے جو جی میں آتا تھا وہ بولتے تھے۔‘‘(۱۴۴)

کھیل کُود اور کھانے پینے کے شوقین نوازشریف
میاں نوازشریف وزیراعلیٰ پنجاب کی حیثیت سے کھٹمنڈومیں منعقدہ سارک کانفرنس میں وزیراعظم جونیجو کے وفدمیں شامل تھے۔ وفد کے قیامِ کھٹمنڈو کے آخری دن جب وہاں تعینات پاکستانی سفیرنے وزیراعظم جونیجواور وفدکے دیگراراکین کے لیے اپنی رہائش گاہ پہ ظہرانے کا اہتمام کیاتواسی دن غالباً کلکتہ میں پاکستان اور آسٹریلیا کی ٹیمیں ٹورنامنٹ کا سیمی فائنل میچ کھیل رہی تھیں، لہٰذا میاں نواز شریف نے ظہرانے میں شرکت سے معذوری کااظہارکردیااس لیے کہ وہ میچ دیکھ رہے تھے اور اسے کسی حال میں چھوڑنے پر آمادہ نہیں تھے۔(ص۱۵۹)

اسی طرح جولائی1999ء میں جب استنبول اوراس کے گردونواح میں ایک ہلاکت خیززلزلہ آیاتھا۔ نواز شریف ترک قیادت کو پُرسہ دینے کے لیے ترکی گئے مصنف لکھتے ہیں کہ’’ زمین بوس عمارتوں اور مکانوں کو دیکھتے ہوئے میاں صاحب واقعی رقیق القلب ہورہے تھے۔۔۔۔لیکن ہوٹل پہنچتے ہی میاں صاحب نے مجھ سے فرمایاکہ وہ رات کا کھانا تناول کرنے کے لیے اپنے پسندیدہ کباب ریستوران جاناچاہتے ہیں‘‘ میرے سفارت خانے کے کچھ پرانے افسروں نے مجھے بتایاتھا کہ کئی بارمیاں صاحب یورپ جاتے ہوئے یا وہاں سے واپسی پر صرف کباب کھانے کے لیے چندگھنٹے قیام فرمایاکرتے تھے۔ اسی لیے افسران تفریحاً اس ریستوران کو شاہی کباب ہاؤس کہاکرتے تھے۔‘‘

ناگہانی آفت پر پُرسہ دینے اور تعزیت کے اس موقع پر پروٹوکول کے سامنے شرمندگی سے بچنے کے لیے سفیرمحترم نے درمیانہ راستہ یہ نکالاکہ ان کے پسندیدہ کباب جہازپر رکھوانے کا اہتمام کیا۔ یوں استنبول سے انقرہ تک کی پروازمیں میاں صاحب نے اپنے مرعوب کبابوں سے اپنے کام ودہن کو تسکین پہنچا لی۔ (ص 169)

آخر میں لکھتے ہیں کہ ’’ میری دانست میں وہ فطرتاً شرمیلے اور کم گو انسان ہیں۔ ان میں یقینا فطری ذہانت کی وہ برقی رو ، وہ چمک دمک نہیں ہے جو بے نظیر میں بدرجۂ کمال تھی لیکن انسانی رویّوں اور حسن سلوک کی میزان پر میری کتاب میں ان کا پلڑابے نظیرسے بھاری ہے۔ ایک بیوروکریٹ اور سفارت کارکی حیثیت سے میرا تجربہ ان کے ساتھ نسبتاً زیادہ تسلی بخش رہا۔‘‘ (ص۱۷۳)

سب سے پہلے پاکستان کا نعرہ بلند کرنے والے کمانڈو پرویزمشرف
مشرف کے بارے میں لکھتے ہیں کہ منتخب وزیراعظم کا تختہ الٹنے کے دس روز بعدہی جنرل مشرف انقرہ تشریف لے آئے۔۔۔۔ پاکستان اور ترکی کے درمیان سب سے گہراناتادونوں افواج کا باہمی تعاون اور اشتراک تھا۔ سوجنرل مشرف اپنے ترک دوستوں اور حلیفوں سے شاباشی لینے کے لیے آرہے تھے۔۔۔۔۔ جنرل مشرف کی بدنصیبی کہ اس وقت کے صدرترکی سلیمان دیمرل اور وزیراعظم بلندایجوت دونوں ہی فوج کے ہاتھوں ڈسے ہوئے تھے۔۔۔۔۔۔ پہلی ملاقات صدردیمرل کے ساتھ تھی۔ دیمرل نے انتہائی تحمل اور بردباری سے گفتگوکرتے ہوئے کہاکہ ’’جنرل! مجھے عملی سیاست میں پچاس برس سے زیادہ ہوچکے ہیں اوراس طویل عرصے میں جس عمل نے میرے ملک کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا، وہ سیاست میں فوج کی مداخلت ہے۔ ہمارے جرنیلوں کے دماغ میں بھی یہ خناس تھاکہ وہ ملک کو سدھارسکتے ہیں لیکن ہر بار وہ جب تماشادکھا کر واپس بیرکوں میں گئے تو حالات پہلے کی بہ نسبت زیادہ خراب کرگئے۔ جنرل! دنیا کی کوئی فوج ملک کی تقدیرنہیں سنوارسکتی۔ یہ میں ذاتی تجربے کی بنیادپر کہہ رہاہوں۔ مجھے پاکستان سے محبت ہے اور تمھیں میں اپنا چھوٹا بھائی سمجھتاہوں، لہٰذا بڑے بھائی ہونے کے ناطے میرا مشورہ یہ ہے کہ جتنی جلدی ہوسکے، اقتدارسیاست دانوں کے حوالے کرواوراپنی بیرکوں کو لوٹ جاؤ۔‘‘ (ص۱۷۷)

وہاں سے اگلی ملاقات کے لیے وزیراعظم بلندایجوت کے دفترپہنچے تو ایجوت صاحب الگ چھریاں تیز کرکے بیٹھے ہوئے تھے۔ انھوں نے جنرل مشرف کو آڑے ہاتھوں لیا اور ان تمام نقصانات کی فہرست گنوائی جو سیاسی عمل میں فوج کی مداخلتِ بے جا سے ترکی میں پیدا ہوئے تھے‘‘۔۔۔۔۔۔ایجوت صاحب نے توایک مرحلے پر تفریح لینے کے لیے جنرل مشرف سے کہا!جنرل! ہمارے دونوں ملکوں میں بہت سی اقدارمشترک ہیں اور اب توہم اس سکورمیں بھی برابرہوگئے کہ دونوں جگہ جرنیلوں نے چاربارسیاسی عمل میں رخنہ ڈالاہے۔‘‘ (ص ۱۷۸)

مصنف لکھتے ہیں کہ جنرل مشرف کو اپنے مختصرقیام انقرہ کے دوران شایدمیراوہ جملہ بہت ناگوارگزراتھاجب وہ میرے سامنے پاکستان اور ترک فوج کے درمیان مشترک اقدارگنوارہے تھے اور میں نے ان کی تقریرسننے کے بعدکہاتھا: ’’جنرل صاحب! یہ مماثلات اپنی جگہ درست لیکن پھربھی ایک بہت بڑا فرق ہے دونوں افواج کے کردارمیں ، وہ یہ کہ ترکی کے کسی شہرمیں آپ کو پاکستان کی طرح ڈیفنس کالونی نہیں ملے گی۔ یہاں فوج کا سربراہ اعلیٰ یعنی آپ کا ہم منصب بھی جب ریٹائر ہوتاہے تو تین چارکمروں سے زیادہ کے فلیٹ میں نہیں رہتاہے۔ اس لیے کہ سرکاراسے نہ کوئی مراعات دیتی ہے اور نہ ہی زمینیں۔‘‘( ص ۱۷۸)

پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ :جاگیرداروں اور وڈیروں کا تسلط
اس وقت وطن عزیزگوناگوں مسائل سے دوچارہے۔غربت،مہنگائی،بے روزگاری،لوڈشیڈنگ،کرپشن،دہشت گردی اوربدامنی عروج پرہیں۔18کروڑعوام کی زندگی عذاب بن گئی ہے۔اگر پوچھاجائے کہ ان مسائل کے وجوہات کیا ہیں؟جزیئات پر مبنی بہت سارے سامنے آتے ہیں لیکن بنیادی وجہ تک بہت کم لوگ پہنچ پاتے ہیں۔مصنف نے یہاں بھی اپنے تجزے سے درست نتیجہ اخذ کرتے ہوئے ہماری سیاست اور سیاسی کلچرمیں جاگیرداروں اور وڈیروں کے تسلط کو پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دیاہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ طبقہ جسے صرف اور صرف اپنے مفاد سے محبت ہے اور اپنی غرض ہی ان کو عزیزہے، ملک چاہے جائے بھاڑ میں، جونک کی طرح ہماری سیاسی نظام سے چمٹاہواہے اور اس کا خون چُوس رہاہے۔ دوسرا بڑا مسئلہ ہمارے ہاں روزافزوں جہالت اور تعلیم کی کمی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کا شمار معدودے چندممالک میں ہوتا ہے جہاں ان پڑھ لوگوں کی شرح ہر سال بڑھ رہی ہے۔ جس تیزی سے ہماری آبادی میں اضافہ ہورہاہے، ملک میں تعلیم وتدریس کی سہولتیں اس رفتارکاساتھ نہیں دے رہی ہیں۔ (ص۱۸۱)

وہ لکھتے ہیں کہ ملک کی سیاست اور سیاسی عمل پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے ہرفوجی آمر نے جاگیرداروں اور وڈیروں کوشریک اقتدارکیاتھا، اس لیے کہ اقتدارکے بھوکے یہ جاگیرداراپنی قیمت لگوانے میں کسی اخلاقی ضابطے یااصول کے اسیرنہیں ہوتے جو ان کی مانگ پوری کردے اور انھیں لوٹ مارکرنے کے لیے اپنی سرپرستی فراہم کردے، وہ اس کے ساتھ شریک بھی ہوجاتے ہیں اور اس کے ہاتھ بھی مضبوط کرنے کے لیے کوشاں ہوجاتے ہیں۔‘‘ (ص۱۸۲)

مصنف نے لکھاہے کہ عوامی انقلاب کی فتح کے بعد ماؤنے سب سے پہلا کام یہ کیاکہ جاگیرداروں اور زمین داروں کا قلع قمع کردیا۔ اسی طرح امام خمینی نے بھی ایران کے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعدان شاہ پرستوں اور استحصال پسندوں کو تہہ تیغ کردیاجنھوں نے ایران کے غریب عوام کا جینا دوبھرکررکھاتھا۔وہ پاکستان کے تمام مسائل کا حل جاگیرداری اور وڈیرہ شاہی کے خاتمے میں سمجھتے ہیں۔اس بات کو اگر اس کتاب کا حاصل کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔یہی وہ بات ہے جس کو سمجھنے اور سمجھانے کی ضرورت ہے ۔علاوہ ازیں کتاب میں نوبل انعام یافتہ پروفیسرعبدالسلام کی کہانی بھی ہے اور حکیم محمدسعیدکی وضع داری، جامہ زیبی، درویشی، استغنا، محنت شاقہ اور ملک وقوم کے ساتھ محبت خلوص اور خدمات کا بھرپورتذکرہ بھی۔
 
Hamid ullah khattak
About the Author: Hamid ullah khattak Read More Articles by Hamid ullah khattak: 17 Articles with 16183 views Editor,urdu at AFAQ.. View More