مسلمانوں کا حال اور مستقبل

پاکستان میں روز بروز جرائم میں اضافہ ہو رہا ہے کراچی نو دہشت گردی کی وارداتوں ، ٹارگٹ کلنگ ، لوٹ مار قتل وغارت زیورات اور کاریں چھیننے ، اغواہ برائے تادان زمینوں پر ناجائز قبضے اور کھلے عام گینگسٹرز کے مخالف گروہوں میں دو دو دن تک مسلح تصادم کے حوالے سے دنیا بھر میں بدنام ہے اور اس کو دنیا کا خطرناک ترین شہر قرار دے دیا گیا ہے۔ کراچی میں جرائم کے خلاف آپریشن شروع ہوا تھا صوبائی وزیراعلیٰ اور اس کے نگران اس آپریشن کو کامیاب قرار دے رہے ہیں لیکن ہر روز پندرہ ، بیس اور اس سے بھی زیادہ افراد کی ہلاکتوں اور دیگر بھیانک جرائم میں ناقابل برداشت حد تک اضافہ اس آپریشن کی ناکامی کا واضح ثابت ہے۔ جو حکومت شہریوں کی جان و مال اور تحفظ کی ضمانت ایک پر آسائش زندگی نہ دے سکے اس کو حمرانی کرنے کا کس طرح حق حاصل ہے؟ جمہوری ملکوں میں ایسی حکومت میں حکومتیں خود ہی مستعفی ہو کر نئے انتخابات کر وادیتی ہیں لیکن اگر حکومت سخت جان ہو اور مستعفی نہ ہو تو ان ملکوں کے عوام پر زور تحریک چلا کر حکمرانوں کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کردیتے ہیں جیسا کہ حال ہی میں بواکرائن میں دیکھنے میں آیا لیکن ہمارے ملک کے عوام کو حکمرانوں نے بے انتہا گرانی سرکاری محکموں کی بد نظمی بے عملی، بے حسی اور نااہلی کے باعث ایسے عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے کہ ان کے اندر جوش و جذبہ باقی نہیں رہا ہے اور شب وروز کے نت نئے مسائل اور روز مرہ بڑھتی ہوئی گرانی کے باعث وہ سجم وجان کے رشتے کو قائم رکھنے کی تک ودو میں الجھے رہتے ہیں اور وہ کولہوکے بیل بن کر گررہ گئے ہیں۔

کراچی میں ہونے والے جرائم اب ایک خوفناک و باء کی طرح سارے ملک میں پھیل رہے ہیں کیونکہ ، جرائم پیشہ لوگ جانتے ہیں کہ سرتایا کریش میں غرق انتظامیہ اور ان کے جان و مال کی محافظ پولیس سے کسی بہتری کی توقع نہیں رکھی جاسکتی۔

ہر طرح کے جرائم ناقابل برداشت ہوتے ہیں لیکن خواتین کے ساتھ زیادتی بلکہ امتماعی زیادتی بچوں پر تشدد اور آبرو ریزی ایسا شرمناک جرم ہے جس کا کم از کم کسی مسلم معاشرے میں تصور تک نہیں کیا جاسکتا لیکن بد قسمتی سے اجتماعی زیادتی اور خواتین اور بچوں کے خلاف تشدد اور زیادتی کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے کیونکہ مجرم پکڑے نہیں جاتے اس سے سر اکا کیا سوال ہے؟ تعجب انگیز بات ہے کہ بے عمل حکمرانوں کے علاوہ سوشل جماعتیں ، این جی، اوز اور علمائے کرام بھی اقتدار کے حصول کی تک و دو میں ہمہ وقت مصروف ہیں اور معاشرے میں کینسر کی طرح پھیلنے والے ان بدترین گناہوں کو ختم کرنے کے لیے کسی ایک مذہبی جماعت کی آواز تک سنائی نہیں دیتی۔ پولیس بھی بااثر مجرموں سے رشوت وصول کرے الٹا سائلوں کو سناتی ہے۔ یوں تو پاکستان میں درود آرڈنینس اور دفاقی شرعی عدالت بھی موجود ہے اس کے علاوہ پاکستان کے آئین کے مطابق بھی ملک میں اسلامی نظام کے اصولوں کو نافذ کرنا ضروری ہے کیونکہ یہ ایک اسلامی مملکت ہے لیکن بد قسمتی سے ہمارے حکمران اور با اثر طبقہ اسلام کی بجائے مغربی طرز زندگی کو اپنا رہا ہے ۔ میڈیا میں اور عام زندگی میں غیر اسلامی طریقے اپنائے جارہے ہیں ۔ بھارتی اور مغربی کلچر کی وجہ سے بے شرعی ہے حیائی ، عربانی اور فحاشی کا غلبہ بڑھنا جا رہا ہے ۔ لیکن ساستدان ، دانشور اور علماء نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔
افسوس کہ کارواں کے دل سے احساس زباں جا تا رہا اب تک ان برائیوں کے بارے میں آواز اٹھانا تو کیا رائے زنی کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی لیکن تشویناک بات یہ ہے کہ جان ومال کے علاوہ اگر عزت و آبرو بھی محفوظ نہ رہے تو ایسے معاشرے پر اللہ تعالیٰ کی رحمتیں نازل ہو سکتی ہیں کچھ عرصے قبل ہمسایہ ملک بھارت میں بھی اجتماعی زیادتی کے چند واقعات کے بعد بہت شور مچایا گیا تھا اور بڑے پیمانے بر مظاہرے کئے گئے تھے لیکن عملی طور پر ایسے غیر انسانی اور شرمناک واقعات کو روکنے کے لیے کوئی سخت علی قدم نہیں اٹھایا جس کے باعث بھارت کے بڑے شہروں میں بھی اس قسم کے جرائم میں اتنا اضافہ ہو چکا ہے ،کہ اب غیر ملکی سیاح حصوصاً خواتین نے بھارت کا رخ رکرنا چھوڑ دیا ہے جس کی وجہ سے اربوں ڈالر کا نقصان ہو رہا ہے۔

ہمارا مذہب میں ایسے گناہوں کے مرتکب افراد کے لیے شرعی سزائیں مقررہ ہیں۔ اگر حکومت اجتماعی زیادتی خواتین اور بچوں کے ساتھ یہبانہ تشدد اور آبرو ریزی کے مجرموں کو سر عام اسلامی سزائین دینے کا طریقہ اپنائے تو ان کا سدباب ہو سکتا ہے۔ اسلام ایک مکمل ضابطہ مبات ہے۔ مشرق وسطی خصوصاً امارات کے ملکوں میں اسلامی سراؤں کے نفاذ کے بعد ایک بھی ایسا واقعہ رونما نہیں ہوتا۔ ان ممالک میں جرائم نہ ہونے کے برابر ہیں کیونکہ جمر کرنے سے پہلے روح فرساسزا کا تصور نہیں روک دینا ہے۔ ان ملکوں میں آباد لوگ فرشتے نہیں ہے وہ انسانی نفطرت کے تقاضوں سے محروم نہیں ہیں ۔ وہاں معاشرے میں مغربی انداز کی روشن خیالی بھی دیکھنے میں آتی ہے لیکن جرم کرنے کی جرات کسی میں نہیں ہے۔ اسلامی ملک پاکستان میں ایسے قبیح جرائم کے مرتکب افراد کو اسلامی سزائیں کیوں نہیں دی جاسکتیں تاکہ درندہ صنعت لوگ سزاؤں کے خوف سے جرائم کرنے کی جرات نہ کریں؟

ہماری مذہبی جماعتوں اور علمائے کرام کا فرض ہے کہ وہ قتدار کے پیچھے ضرور بھاگیں لیکن مذہبی رہنماؤں کی حیثیت سے رہنے فرائض کو بھی فراموش نہ کریں ورنہ ملک درندوں کا جنگل بن کر رہ جائے گا۔
Advocate Rana Shahzad
About the Author: Advocate Rana Shahzad Read More Articles by Advocate Rana Shahzad: 5 Articles with 4993 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.