سوانحِ حیات سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ(قسط نمبر6)

تحریر: خادم سلطان الفقر حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس

سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ کا مسندِ تلقین و ارشاد کا آغاز:

ظاہری دستِ بیعت کے بعد دہلی سے واپس تشریف لا کرسلطان العارفین سلطان الفقر حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ نے رشدوہدایت کا آغاز فرما یا تھا۔ اس روز سے آپ رحمتہ اللہ علیہ پر ذاتِ الٰہی کے جذبات و انوار اس طرح متجلی ہونا شروع ہوئے کہ سینکڑوں لوگوں کو ایک ہی نگاہ سے ایک ہی قدم میں واصل باللہ کر دیتے۔

سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ نے رسمی پیر یا سجادہ نشین شیخ کے مقابلے میں آزاد فقیر کی تعریف یہ کی ہے'' آزاد فقیر مصلحتوں اور آداب ورسوم کی جکڑ بندیوں سے آزاد ہوتا ہے، آزاد فقیر ایک تو کسی جگہ کا پابند ہو کر رہنے پر مجبور نہیں ہوتا دوسرے اس کا فیض ہر حال اور ہرصورت جاری رہتا ہے عام طور پر وہ سیر وسفر میں رہتے ہوئے فقر کی نعمت لوگوں کے گھروں اوردروازوں پر لٹاتا پھرتا ہے''۔

حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ بھی لوگوں کو معرفت اور فقر کی تعلیم وتلقین کیلئے ہمیشہ سفر میں رہے اور آپ رحمتہ اللہ علیہ ساری عمر گھوم پھر کر محبت اور معرفتِ الٰہی کا خزانہ بانٹتے پھرے ۔یہ سب کچھ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے کیا جیسا کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:-
نفس را رسوا کنم بہر از خدا
ہر ہر درے قدمے زنم بہر از خدا
رجمہ : میں رضائے الٰہی کی خاطر اپنے نفس کو رسوا کرتا ہوں اور رضائے الٰہی ہی کی خاطر ہر در سے بھیک مانگتا ہوں۔(نور الہدیٰ کلاں)

تلقینِ رشد و ہدایت کے لیے آپ رحمتہ اللہ علیہ نے زیادہ تر سفر وادی سون سکیسر ، ملتان ،ڈیرہ غازی خان، ڈیرہ اسماعیل خاں،سندھ اور بلوچستان کی طرف کیے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کا تذکرہ کسی کتاب، مجموعہ یا ملفوظات میں اس لیے نہیں ملتا کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ اس زمانہ کے تہذیب و ثقافت اور علوم کے مراکز سے دور رہے اور آپ رحمتہ اللہ علیہ کی ملاقات کسی صاحبِ تصنیف سے بھی نہیں ہوئی۔ دہلی جانے کا بھی ذکر ایک بار ہی ملتا ہے۔آپ رحمتہ اللہ علیہ دیہاتوں کے سیدھے سادھے لوگوں میں اسمِ اللہ ذات کا خزانہ لٹاتے رہے اور پھر انہی دیہاتی لوگوں نے آپ رحمتہ اللہ علیہ کے کام کو آگے بڑھایا۔

سفر میں اکثر ایسا ہوتا کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ کسی پر نگاہ فرماتے اور اسے خدا رسیدہ بنا دیتے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کے والد حضرت بازید محمد رحمتہ اللہ علیہ کو شہنشاہ شاہ جہاں کی طرف سے ایک بہت بڑی جاگیر ملی ہوئی تھی جس میں ایک اینٹوں کا قلعہ اور کئی آباد کنویں بھی تھے۔ گو خاصی وسیع جاگیر تھی اورہمہ وقت انتظام اور نگرانی کی متقاضی تھی لیکن حضرت سلطان العارفین رحمتہ اللہ علیہ کا یہ معمول تھا کہ جب جذبہ نے غلبہ کیا گھر سے نکل کھڑے ہوئے ۔مصنف ''مناقبِ سلطانی'' لکھتے ہیں کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے عمر بھر کسی دنیاوی تعلق یا شغل سے دستِ مبارک کو آلودہ نہ فرمایا ۔ ہاں دو دفعہ بیل لیکر اپنے ہاتھ سے ہل چلایا اور کھیتی باڑی کی لیکن دونوں مرتبہ عشقِ الٰہی کے جذبات کے سبب آپ رحمتہ اللہ علیہ نے بیلوں کو جُتے جتائے کنویں پر چھوڑا اور خود تجلیات اور مکاشفاتِ دیدار میں مست ہو کر پہاڑوں اور جنگلوں کی سیر کو نکل گئے۔

آپ رحمتہ اللہ علیہ مرشد کامل اکمل نور الہدیٰ تھے اور مرشدِ کامل نورالہدیٰ سالک ( طالب اللہ) کو تعلیم ' توجہ اور تلقین کے ذریعے عین العیان کے مرتبہ پر پہنچا دیتا ہے ۔ یہاں تک کہ اسے ذکر ' فکر وردو وظائف کی بھی ضرورت نہیں رہتی۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کی ساری زندگی شہر شہر قریہ قریہ گھوم پھر کر طالبانِ مولیٰ کو تلاش کرنے اور انہیں واصل باللہ کرنے میں گزری ۔ اور خلقِ خدا کو تلقین کی یہ ذمہ داری آپ رحمتہ اللہ علیہ کو بارگاہِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے عطا ہوئی تھی ۔

سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ کا لقب، مقام اور مرتبہ:

لقب'' سلطان العارفین '':
اولیاء کرام ، عارفین اور دنیا بھر میں آپ رحمتہ اللہ علیہ '' سلطان العارفین '' کے لقب سے مشہور ہیں ۔


لقب'' سلطان العارفین ''کے دعویدار:

حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ جب دنیا میں لقب''سلطان العارفین'' سے مشہور و معروف ہو گئے تو تمام دنیا، خاص طور پر پاک و ہند، جموں و کشمیر میں کچھ جعلی پیروں نے اور کچھ اولیاء کے مریدوں اور پیروکاروں نے اپنے پیروں کے نام کے ساتھ ''سلطان العارفین'' کے لقب کا استعمال شروع کر دیا۔ یہ بات اچھی طرح جان لی جائے کہ ''سلطان العارفین'' کا لقب پوری دنیا میں صرف حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ کے لیے مخصوص ہے، وہی اس لقب کے صحیح حقدار اور اس سے حقیقتاً اور اصلاً ملقب ہیں۔ باقی سب ان کی نقالی کرتے ہیں۔

فقر میں حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ کا مقام اور مرتبہ:
"سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ مرتبہ '' سلطان الفقر'' پر فائز ہیں۔
سلطان الفقر کے بارے میں تفصیل سے جاننے کے لیے ہماری ویب سائٹhttps://www.sultan-bahoo.com/کا وذٹ کریں۔

مصطفی ثانی ومجتبیٰ آخرزمانی :

جس طرح غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ نے دورانِ وعظ ' بحکم خدا وندی یہ اعلان فرمایا : ( میرا یہ قدم تمام اولیاء اللہ کی گردن پر ہے ) اسی طرح سلطان العارفین سلطان الفقر حضر ت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ نے اعلان فرمایا ہے :
ترجمہ :جب سے لطفِ ازلی کے باعث حقیقتِ حق کی عین نوازش سے سر بلندی حاصل ہوئی ہے اور حضور فائض النور نبی اکر م صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے تمام خلقت'کیا مسلم ' کیا کافر ' کیا بانصیب ' کیا بے نصیب ' کیا زندہ اور کیا مردہ سب کو ہدایت کا حکم ملا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنی زبان گوہر فشاں سے مجھے مصطفی ثانی اور مجتبیٰ آخرزمانی فرمایا ہے۔

مصطفی اور مجتبیٰ : دونوں کے لغوی معانی چنا ہوا ' انتخاب کیا ہوا ' پسندیدہ اور برگزیدہ کے ہیں ' لیکن یہ دونوں القاب حضور علیہ الصلوۃ والسلام کیلئے خاص ہیں ۔ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے آپ رحمتہ اللہ علیہ کو مصطفی ثانی اور مجتبیٰ آخر زمانی فرمایا ہے اس سے مراد ہے کہ آخری زمانہ میں جب گمراہی عام ہوگی تو آپ رحمتہ اللہ علیہ کی تعلیمات روشنی کا مینار ہوں گی اور آپ رحمتہ اللہ علیہ کی تعلیمات کو لے کر کھڑا ہونے والا کوئی فرد لوگوں کی ہدایت کا موجب بنے گا اور اس کو آپ رحمتہ اللہ علیہ کی روحانی راہنمائی حاصل ہوگی کیونکہ آپ رحمتہ اللہ علیہ آخر زمانہ میں خود ظاہری طور پر موجود نہ ہوں گے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کا یہ اِرشاد بھی سینہ بہ سینہ منتقل ہوتا آیا ہے کہ'' جب گمراہی عام ہوجائے گی، باطل حق کو ڈھانپ لے گا ، فرقوں اور گروہوں کی بھرمار ہوگی ہر فرقہ خود کو حق پر اور دوسر وں کو گمراہ سمجھے گا اور گمراہ فرقوں او ر گروہوں کے خلاف بات کرتے ہوئے لوگ گھبرائیں گے اور علمِ باطن کا دعویٰ کرنے والے اپنے چہروں پر ولایت کا نقاب چڑھاکر درباروں اور گدیوں پر بیٹھ کر لوگوں کو لوٹ کر اپنے خزانے اور جیبیں بھر رہے ہوں گے تو اس وقت میرے مزار سے نور کے فوار ے پھوٹ پڑیں گے ''
اس قول سے مراد بھی یہی ہے کہ گمراہی کے دور میں آپ رحمتہ اللہ علیہ کا کوئی غلام آپ کی روحانی راہنمائی میں آپ رحمتہ اللہ علیہ کی روحانی تعلیماتِ حق کو لے کر کھڑا ہوگا، گمراہی کو ختم کرے گا، دینِ حق کا بول بالا کرے گا اور دینِ حنیف پھر سے زندہ ہوجائے گا ۔

سلطان العارفین رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے پنجابی ابیات کے ذیل کے مصرعوں میں اسی طرف اشارہ فرمایا ہے:
چڑھ چناں تے کر رُشنائی، ذکر کریندے تارے ھُو
گَلیاں دے وِچ پھرن نمانے، لعلاندے ونجارے ھُو

ترجمہ: اے میرے فقر کے چاند تو جلد طلوع ہو اور اپنی نگاہِ کامل سے اس دنیا کو جو ظلمت و تاریکی میں ڈوب چکی ہے نورِ الٰہی سے منّور کردے اور طالبانِ مولیٰ جوحق تعالیٰ کی طلب میں اِس گمراہ دور میں بھٹک رہے ہیں اور تیرے جیسے ہادی کا انتظا ر کر رہے ہیں اور تیرے منتظر یہ طالبانِ مولیٰ جو معرفتِ الٰہی کے غواصّ اور جوہر شناس ہیں در بدر تیری تلاش اور جستجو میں پھر رہے ہیں (یعنی حق کی تلاش میں کسی راہنما کی پیروی کرتے ہیں تو کچھ عرصہ بعد ہی وہ دھوکہ باز اور جعل ساز نکل آتا ہے یعنی ہے تو لومڑی لیکن شیر کی کھال پہن کرنقلی شیر بنا ہوا ہے اس لیے ہر شخص تیرے جیسے ہادی یا راہنما کا انتظار کر رہا ہے جو اُمت کی کشتی کو پار لگادے)

چڑھ چناں تے کر رُشنائی، تارے ذِکر کریندے تیرا ھُو
تیرے جیہے چن کئی سَے چڑھدے، سانوں سجناں باجھ ہنیرا ھُو
جِتھے چَن اساڈا چڑھدا، اُوتھے قدر نہیں کُجھ تیرا ھُو
اے فقر کے چاند (انسانِ کامل،فقیر کامل) تو جلد طلوع (ظاہر) ہو کر اس ظلمت کدہ کو اللہ کے نور سے منّور کردے ۔طالبانِ مولیٰ اور مومنین تیرا ہی انتظا ر کررہے ہیں۔ سینکڑوں مصنوعی چاند تیرا روپ دھار کر طلوع ہو چکے ہیں اور اُمت کو دھوکہ دے چکے ہیں لیکن تیرے بغیر اے محبوب دنیا ظلمت کدہ ہے۔ جہاں ہمارا چاند (محبوب) طلوع ہوگا وہاں دوسرے (مصنوعی) چاندوں کی روشنی جو اصل میں ظلمت ہے ختم ہوجائے گی اور یہ جو دھوکہ باز راہنما بن کر اُمت کو دھوکہ دے رہے ہیں، بھاگ جائیں گے۔

دوسری شرح اِن القاب کی یہ ہے کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ کے دربار پاک سے لاکھوں لوگ فیض حاصل کر چکے ہیں اور آپ رحمتہ اللہ علیہ کے دربار سے ہر لمحہ فیضِ فقر جاری ہے اور تا قیامت جاری رہے گا۔(جاری ہے)
Nasir Hameed
About the Author: Nasir Hameed Read More Articles by Nasir Hameed : 29 Articles with 47771 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.