بےچہرہ

بہت سالوں پہلے ایک ڈاکومینٹری دیکھی تھی .جسمیں ایک شوہر نے اپنی بیوی کی ناک کان ،کاٹ کے اس کی آنکھیں نکال لیں تھیں اور بقول اس کے اسے ایسا کرنے کا اختیار مذہب نے دیا تھا بہرحال وہ ایک ناخواوندہ شخص تھا جو ہمارے موللاؤں کی خواندگی کا شکار ہوکر اچھا مسلمان تو کیا بنتا ،انسانیت کے درجے سے بھی گر گیا .مگر اتنے سالوں بعد بھی ہم سماجی اور معاشرتی انحطاط کا شکاررہیں .

ستم تو یہ ہے کے تعلیم بھی ہمارا کچھ نہ بگاڑ سکی. جسکا ثبوت اۓ دن عورتوں پر تیزاب پھینکنے کے واقعات ہیں .ابھی حالیہ دنوں میں ایک انتہائی خوبصورت لڑکی کی تصویر نظروں سے گزری جس پر اس کے اپنے ہی منگیتر نے تیزاب ڈال دیا تھا اس کی خوبصورت آنکھیں جن میں مستقبل کے سہانے خواب ہونگے اب کھلی آنکھوں سے بھی اس کے چہرے پر دکھائی دینا مشکل تھیں آنکھیں تو کیا اس کے کسی بھی خدوخال کو پہچاننا مشکل تھا اسے بے چہرہ بنانے والا کوئی اور نہیں اس کا اپنا ہی منگیتر تھا پولیس نے اس شخص کو گرفتار بھی کر لیا اور ہو سکتا ہے کے کچھ سالوں کی سزا اسے ہمارے نظام انصاف سے مل بھی جاۓ مگر کیا یہ سزا اس لڑکی کہ بے چہرہ وجود کو چہرہ دے سکے گی .نہیں دے سکے گی ! تو پھر اس مرد کے چہرے کو بھی اسی تیزاب سے جلانا چاہیے جس تیزاب سے اس نے ایک معصوم پھول کو جھلسایا تھا .

بات یہیں ختم نہیں ہوتی یہ تو وہ خواتین ہیں جنھیں ہر کوئی دیکھ سکتا ہے ان کے دکھ کو محسوس کر سکتا ہے مگر میں نے ایسی بےچہرہ عورتیں ہر گھر میں دیکھی ہیں جن کے دکھ کو اب وہ خود بھی شاید محسوس نہیں کرتیں یہ وہ تمام عورتیں ہیں جو ان پڑھے لکھے مردوں کی بیویاں .بیٹیاں اور بہنیں ہیں جنہیں صرف ایک سہولت کار کی حیثیت دی جاتی ہے جس کا کام سہولیات مہیا کرنا ہے ان کی صلا حیتوں کا دائرہ کار باورچی خانے تک محدود کر دیا جاتا ہے-

ہمارے معاشرے میں مرد عورت کو ایک جیتا جاگتا انسان سمجھنے کے بجاتے ایک چیز سمجھتا ہے جو اس کی ملکیت ہوتی ہے اسی لیے وہ اس پر تشدد بھی کر سکتا ہے زیادہ غیرت مند ہو تو ناک کان بھی کاٹ لیتا ہے اور یہ بھی نہ کر سکے تو تیزاب پھینک کے دل کی بھڑاس نکل لیتا ہے اور زیادہ پڑھا لکھا ہو تو عورت کو بس اس کے مزاج کو سمجھنا ہوتا ہے کیونکہ یہی ہمارا رواج ہے.

ہمارے یہاں شادی ک بعد عورت کے اپنے احساسات ،جذبات یا اپنی سوچ کوئی حیثیت نہیں رکھتی اسے اپنی شخصیت ،خیالات ،رجحانات اور میلانات کو دوبارہ ترتیب دینا پڑتا ہے .اس شخص کے مطابق جسکی وہ اب ملکیت ہے پھر وہ اسی کے کانوں سے سنتی ہے ،اسی کی آنکھوں سے دیکھتی .اسی کی زبان بولتی ہے اور اسی کے دماغ سے سوچتی ہے .تو کیا یہ اس کی زبان اور کان کاٹنے .اسکی آنکھیں نکال دینے کے متراد ف نہیں دیکھی ہیں آپ نے ایسی بے چہرہ عورتیں جو کسی مذہبی جنونیت نہیں بلکہ ہماری سماجی روایتوں کی بھینٹ چڑھ جاتی ہیں جن سے معاشرہ شاید اتنی ہمدردی بھی نہیں رکھتا جتنی ان تیزاب ور مذہبی جنونیوں کی شکار عورتوں سے رکھتا ہے-

ایسے کئی بے چہرہ کردار ہم اپنے اردگرد دیکھ سکتے ہیں اور یہ تحریر لکھنے کے بعد شاید میں بھی آئینے میں اپنے خدوخال تلاش کرونگی
!کہیں ایسی ہی ایک بے چہرہ عورت آپکے گھر میں تو نہیں آپ بھی سوچیے گا
saima waqas
About the Author: saima waqas Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.