ضمنی الیکشن: دھاندلی یا مشرف کے سائے؟

ضمنی الیکشن میں راولپنڈی کے بعد اب لاہور اور جھنگ میں بھی مسلم لیگ (ن) کو واضح کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ حالانکہ پاکستانی عوام کے نزدیک جھنگ کے الیکشن میں اسی امیدوار کو ٹکٹ دیا جانا کوئی بہتر فیصلہ نہیں تھا جس کو ہائی کورٹ نے بی اے کی ڈگری جعلی ہونے کی وجہ سے نا اہل قرار دیا تھا۔ بے شک کسی امیدوار کی اہلیت کے لئے بی اے کی شرط والا قانون سپریم کورٹ نے ختم کردیا تھا لیکن اعظم چیلہ کی جعلسازی تو ثابت ہوگئی تھی اور اس کے باوجود جھنگ کی نشست سے اعظم چیلہ کو ہی ٹکٹ دیا جانا ایک حیرت انگیز امر ہے کیونکہ اس سے پہلے مسلم لیگ (ن) نے اپنے کچھ اراکین اسمبلی کی قربانی دینا بہتر سمجھا لیکن اپنی کریڈیبلٹی پر کوئی دھبہ نہیں لگنے دیا۔ بہرحال اس امر کے باوجود اگر لاہور اور جھنگ میں مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں نے کامیابی حاصل کی ہے تو اس کی یقیناً کچھ وجوہات ہیں۔ اگر ہم راولپنڈی کے الیکشن کا جائزہ لیں تو وہاں شیخ رشید کے مقابلے میں مسلم لیگ (ن) ایک ایسے امیدوار کو سامنے لائی جس کے نام سے بھی کوئی واقف نہیں تھا۔ ایک طرف شیخ رشید کے ساتھ مسلم لیگ (ق)، جے یو آئی، پیپلز پارٹی بطور جماعت، گورنر پنجاب سلمان تاثیر، آصف زرداری کندھے سے کندھا ملائے کھڑی تھے تو دوسری جانب مسلم لیگ (ن) تن تنہا سب کا مقابلہ کررہی تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلم لیگ (ن) مرکز میں ”فرینڈلی“ اپوزیشن کا کردار ادا کررہی ہے اور پنجاب میں بھی پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت چلا رہی ہے اور اس کی پالیسیاں بھی دریں وقت عوام کے نزدیک اتنی قابل پذیرائی نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود راولپنڈی کی نشست سے شکیل اعوان کی کامیابی نے ایک بار پھر ثابت کردیا کہ ہماری سیاست اور عوام کا مزاج ابھی تک ”نفرت“ کے گرد گھومتا ہے۔ اگر شیخ رشید، اور مسلم لیگ (ق) نے پرویز مشرف کا ساتھ نہ دیا ہوتا، اگر شیخ صاحب لال مسجد والے واقعہ پر استعفیٰ دیدیتے، اگر مسلم لیگ (ق) نے مشرف کی آمریت تلے حکومت کے مزے نہ لوٹے ہوتے تو ہو سکتا ہے کہ راولپنڈی سمیت پنجاب کے ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کو سخت مقابلے کا سامنا ہوتا۔ یہ پرویز مشرف اور اس کے حواریوں کے ساتھ نفرت کا اظہار ہی ہے کہ راولپنڈی کے عوام نے ایک ”بے نام“ شخص کو ووٹ دئے اور کامیاب کروایا۔

لاہور کے حلقہ 123 میں ہونے والے ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ (ن) کے امیدوار پرویز ملک نے غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق 44547 ،ان کے قریب ترین حریف تحریک انصاف کے امیدوار حامد معراج نے 9304 جبکہ جماعت اسلامی کے حافظ سلمان بٹ نے 3275 ووٹ حاصل کر کے اپنی ضمانت بھی ضبط کروالی۔ اس حلقے میں بھی ہمیں راولپنڈی کے ضمنی الیکشن کا ”ایکشن ری پلے“ ہی نظر آیا سوائے اس کے کہ میڈیا نے اس تناسب سے کوریج نہ دی اور ٹرن آﺅٹ بھی پنڈی کے مقابلے میں قدرے کم نظر آیا۔ اس حلقہ سے تحریک انصاف بھی ایک نئی طاقت بن کر ابھری ہے اور اس کے ووٹ پنڈی کی نسبت کافی زیادہ ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ آئندہ الیکشن میں تحریک انصاف، مسلم لیگ (ن) کو ”ٹف ٹائم“ دینے کی پوزیشن میں آسکتی ہے۔ لاہور کے الیکشن میں حالانکہ حافظ سلمان بٹ کو مسلم لیگ (ق) کی حمایت بھی حاصل تھی لیکن اس کے باوجود وہ اپنی ضمانت بھی نہ بچا سکے۔ حافظ سلمان بٹ اور حامد معراج نے الیکشن میں ”دھاندلی“کا الزام بھی عائد کیا ہے لیکن وہ اپنے الزام کے حق میں کوئی ثبوت پیش کرنے میں قطعی طور پر ناکام نظر آرہے ہیں۔ اگر مذکورہ بالا دونوں امیدواروں کے الزامات کو سنجیدگی سے بھی لیا جائے تو مفروضے کے طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) نے جعلی ووٹ بھگتائے یا ”فرشتوں“ نے ووٹ ڈالے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حامد معراج اور حافظ سلمان بٹ نے کتنے ووٹ حاصل کئے، مسلم لیگ (ن) کے امیدوار نے اگر مبینہ ”دھاندلی“ سے اپنے ووٹوں میں اضافہ بھی کیا ہو تو تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کے امیدواروں کو تو اتنے ہی ووٹ ملے جتنے گنتی میں نکلے! ہارنے والے کسی بھی امیدوار نے یہ الزام نہیں لگایا کہ ان کے ووٹرز یا سپورٹرز کو روکا گیا یا ووٹ ڈالنے نہیں دیا گیا۔ تحریک انصاف کے امیدوار نے تو پھر بھی کسی حد تک ”قابل عزت“ ووٹ حاصل کئے لیکن حافظ سلمان بٹ کے ساتھ کیا ہوا؟ ان کی ضمانت کیوں ضبط ہوئی؟ یہ وہ سوال ہے جس کے جواب کے لئے جماعت اسلامی کو بہت سنجیدگی سے سوچنا اور غور کرنا چاہئے۔

اکثر لوگوں کے نزدیک جماعت اسلامی بھی ان گناہوں میں کسی طور شامل رہی ہے جن گناہوں کی وجہ سے پاکستان کے عوام مسلم لیگ (ق) اور اسی قماش کے لوگوں سے نفرت کا اظہار کرتے ہیں۔ لاہور میں ویسے بھی ہمیشہ مسلم لیگ (ن) کا پلڑا بھاری ہوتا ہے لیکن حالیہ ضمنی الیکشن میں حافظ سلمان بٹ کی ضمانت کے ضبط ہونے کی واحد وجہ مسلم لیگ (ق) کی حمایت تصور کی جارہی ہے۔ اگر جماعت اسلامی قاف لیگ کی حمایت حاصل نہ کرتی اور قاف لیگ کی جانب سے بھی حافظ سلمان بٹ کی حمایت کے بیانات سامنے نہ آتے تو شائد جماعت اسلامی کا امیدوار تحریک انصاف کے امیدوار کے برابر ووٹ حاصل کرلیتا۔ دو لاکھ سے زائد ووٹوں والے حلقہ میں صرف 3275 ووٹ ملنا اس بات کی غمازی ہے کہ الیکشن میں دھاندلی نہیں ہوئی بلکہ حافظ سلمان بٹ کو مشرف کے منحوس سائے لے ڈوبے....!
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 209015 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.