مماثلت

ہم ایک کالج میں لیکچرار تھے۔ بے ضرر خیال کرتے ہوئے کالج انتظامیہ نے ہمیں لڑکیوں کے ہاسٹل کا نگراں مقرر کردیا۔ ہمارے بے ضرر ہونے کو لے کر آپ ہمارے بارے میں کسی قسم کی غلط فہمی میں مبتلا نہ ہوں، نہ اس کو ہماری کسی کمزوری پر محمول کریں۔ بات دراصل یہ ہے کہ ہم انتہائی باشرع واقع ہوئے ہیں۔ نا محرم خواتین سے ہمیشہ نیچی نظر کرکے بات کرتے ہیں۔ جب ہماری شادی ہوئی اُس وقت تک ہم اپنی اس عادت میں اتنا پختہ ہوچکے تھے کہ اہلیہ محترمہ سے بھی نیچی نظریں کرکے بات کرتے تھے۔ شروع شروع میں تو انھوں نے اُسے ہماری ادا سمجھا۔ جب بہت ہوچکا تو ایک دن جب ہم حسبِ معمول اُن سے نیچی نظریں کرکے بات کررہے تھے، وہ جھنجلاکر بولیں: ’’ارے نیچے زمین میں کیا قارون کا خزانہ تلاش کررہے ہو؟ اِدھر میری طرف دیکھ کر بات کرو نا!‘‘ تب ہم چونکے کہ ہم اپنی اہلیہ سے بات کررہے ہیں۔ اُس روز سے اُن سے بات کرتے وقت ہمیں اپنی نگاہوں کا خاص خیال رکھنا پڑتا یعنی نگاہیں اونچی کرکے اُن سے بات کرتے۔ بلکہ بعض اوقات نظریں کچھ زیادہ ہی اونچی ہوجاتیں تو وہ کہتیں: ’’ارے اب آسمان میں کیا حوروں کو تک رہے ہو؟‘‘

ہاں! تو ہم بات کررہے تھے کہ کالج انتظامیہ نے ہمیں لڑکیوں کے ہاسٹل کا نگراں مقرر کردیا۔ ابھی اپنا عہدہ سنبھالے ہمیں دوسرا روز ہی ہواتھا کہ ہم ہاسٹل کا جائزہ لینے کے لیے نکلے اور لڑکیوں کے کمروں کی طرف گئے، ایک کمرے کا دروازہ کھلا تھا۔ پھر بھی ہم نے از راہِ اخلاق، جو ہماری کمزوری تھی، دروازے پر دستک دی۔ ہمیں دروازے پر دیکھ کر لڑکیاں سٹپٹا گئیں۔ جلدی جلدی اپنی کچھ اشیاء چھپانے لگیں، جنھیں ہم نہ دیکھ پائے۔

ہم نے دروازے پر کھڑے ہی کھڑے اُن سے دریافت کیا: ’’آپ لوگوں کو یہاں کسی قسم کی کوئی پریشانی تو نہیں ہے؟‘‘ کچھ دیر تک لڑکیاں خاموش رہیں۔ پھر آپس میں کانا پھوسی کرنے لگیں۔ ایک نے دوسری کو ٹہوکا دیا۔ ’’ارے بتاتی کیوں نہیں کہ ہاسٹل میں بجلی کئی کئی گھنٹے غائب رہتی ہے۔‘‘ دوسری بولی: ’’اور پانی بھی روز نہیں آتا۔‘‘ تیسری نے شکایت کی: ’’میس (Mess)میں ہمیں فاسٹ فوڈ (fast food)مہیا نہیں کرایا جاتا۔‘‘

چوتھی لڑکی، جو اب تک خاموش تھی، نے اُن تینوں کو گھورتے ہوئے راز دارانہ لہجے میں کہا:’’کرلو، جتنی شکایتیں کرنی ہیں ․․․․ مینجمنٹ کل ہی تمہیں ہاسٹل سے نکال باہر کردے گا۔‘‘ ہم نے باوجود کمزوریٔ سماعت کے عارضہ میں مبتلا ہونے کے اُس کی یہ بات سن لی، اور کہا: ’’نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ ہمیں تو یہاں تعینات ہی اس لیے کیا گیاہے کہ ہم آپ کی پریشانیوں کا سدِّ باب کریں۔‘‘

ہمارا ’سدِّ باب‘ کہنا تھا کہ اُن میں سے ایک لڑکی کا چہرہ تمتماگیا، وہ بولی: ’’سر! ہمارے باپ کو کچھ نہ کہیں، وہ نہایت شریف آدمی ہیں ۔ جو کچھ کہنا ہے ہمیں ہی کہہ لیں۔‘‘

ہمیں احساس ہوا کہ ہم نے اپنی اردو دانی کا غلط جگہ استعمال کیا ہے۔ آج کل کی یہ ’پود‘ اتنی اعلیٰ و ارفع ’اردو‘ کہاں جاننے لگی۔ ہم نے انھیں سمجھایا: ’’بھئی، ہمیں تمھاری پریشانیوں کو حل کرنے کے لیے ہی یہاں بھیجاگیاہے۔‘‘ یہ سن کر وہ لڑکی پرسکون ہوئی۔

ہمارے درمیان گفتگو جاری ہی تھی کہ ایک لڑکی جلدی سے یہ کہتے ہوئے باہر نکل گئی۔ ’’میرا چنّو رو رہا ہے، میں اُسے فیڈر دے کر ابھی آئی۔‘‘ دوسری لڑکی بھی گھبراکر بولی: ’’ارے! آج تو میں اپنے منّو کو فیڈر دینا ہی بھول گئی وہ نڈھال ہوگا۔‘‘ تیسری بولی: ’’میرا پنٹو بھی صبح سے بھوکا ہے۔ مجھے تو اُسکا فیڈر ہی نہیں مل رہاہے۔ میں اُس کا فیڈر تلاش کرکے اُسکو فیڈر لگاکر ابھی آئی۔‘‘ یہ کہہ کر تیسری لڑکی بھی باہر چلی گئی۔ چوتھی لڑکی افسردگی سے بولی: ’’میرا پپّو تو آج کل بیمارہے۔ اُسے وائرل ہوگیاہے، میں اُسے کسی اسپیشلسٹ کو دکھاؤں گی۔‘‘

اُن طالبات کی یہ باتیں سن کر ہم سُن رہ گئے۔ کنواری لڑکیوں کے ہاسٹل میں یہ چنو، منو، پنٹو اور پپو کہاں سے آگئے؟ ہم نے سوچا ضرور دال میں کچھ کالاہے۔

اُسی روز ہم نے اُس کی رپورٹ بناکر پرنسپل صاحبہ کی خدمت میں پیش کردی۔ ساتھ ہی یہ تجویز بھی رکھی کہ ایک روز ہاسٹل پر اچانک چھاپا مارا جائے۔ پرنسپل صاحبہ نے ہماری رپورٹ کو انتہائی سنجیدگی سے لیا۔ وہ اپنے اس نامور کالج کی کسی قسم کی بدنامی نہیں چاہتی تھیں۔ اگلے روز ہی وہ اپنے ساتھ کالج کے برسر اور ہمیں لے کر صبح ہی صبح ہاسٹل پہنچ گئیں۔ ہر کمرے کی تلاشی لی گئی، لیکن وہاں چنو، منو، پنٹو یا پپو وغیرہ کوئی نہ ملا۔ آخر ہم نے آفس میں آکر اُن چاروں لڑکیوں کو بلوایا۔ اُن کو دیکھتے ہی پرنسپل ایک دم برس پڑیں۔ انتہائی غصہ سے بولیں: ’’تم اکیلی ہی آئی ہو؟ تمھارے چنو، منو، پنٹو کہاں ہیں؟‘‘ وہ لڑکیاں بولیں: ’’میڈم! وہ اس وقت ہمارے ساتھ ہی ہیں، یہ دیکھیے․․․․‘‘ یہ کہہ کر اُنھوں نے اپنے اپنے موبائل پرنسپل صاحبہ کو دکھائے۔
برسر بولے: ’’یہ تو تمھارے موبائل ہیں؟‘‘
’’ سر! ہم نے اپنے موبائلوں کے الگ الگ نام رکھے ہوئے ہیں․․․․․‘‘
ہم غصہ ہوتے ہوئے بولے: ’’پھر وہ فیڈر والا معاملہ کیا ہے؟‘‘
ایک لڑکی آگے بڑھ کر بولی: ’’سر! ہم موبائل کے چارجر کو ہی اُس کا فیڈر کہتے ہیں․․․․․‘‘

یہ سن کر پرنسپل صاحب کی سمجھ میں سارا معاملہ آگیا اور اُن کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ برسر بھی مسکرانے لگے۔ جبکہ شرمندہ ہوکر ہم پیر سے زمین کریدنے لگے اور سوچنے لگے، اِ ن لڑکیوں نے اپنے موبائلوں کے نام صحیح ہی رکھے ہیں کیونکہ آج موبائل والوں اور بچے والیوں میں بہت مماثلت ہے۔ موبائل کی آواز سنتے ہی ہر شخص اپنے موبائل کی طرف اس طرح لپکتاہے جیسے کوئی ماں اپنے شیرخوار بچے کا رونا سُن کر اُس کی طرف دوڑتی ہے۔ بلکہ شاید ماں ایک مرتبہ کو اپنے بچے کا رونا نظر انداز کردیتی ہو لیکن موبائل کی آواز سن کر ہم میں سے ہر شخص فوراً اُس کی طرف دوڑتاہے۔

کسی جگہ کچھ عورتیں اور ان کے بچے موجود ہوں اور کوئی بچہ روئے تو اُس بچے کی ماں اس کی آواز پہچان کر اس کی طرف لپکے گی۔ اسی طرح کسی جگہ کچھ لوگ موجود ہوں اُن کے موبائل بھی وہاں رکھے ہوں اور کسی موبائل کی گھنٹی بجے تو صاحب ِموبائل اپنے موبائل کی آواز پہچان کر فوراً اُس کی طرف متوجہ ہوجائے گا۔ جس طرح ماں اپنے بچے کے فیڈر کا خیال رکھتی ہے اسی طرح صاحب ِموبائل بھی اُس کو چارج کرنے کا خیال رکھتاہے۔ بچے کی ماں سفر پر جاتے ہوئے بچے کے ساتھ اُس کا فیڈر رکھنا نہیں بھولتی۔ اِسی طرح صاحب ِموبائل بھی کہیں جاتے ہوئے موبائل کے ساتھ اُس کا چارجر رکھنا نہیں بھولتا۔کیونکہ بہت سے بچے صرف اپنے مخصوص فیڈر سے ہی دودھ پیتے ہیں۔ انھیں اگر کسی دوسرے بچے کا فیڈر دے دیا جائے تو وہ اُسے منہ نہیں لگاتے۔ ہمار ا ناقص مشاہدہ رہاہے کہ ہر موبائل اپنے مخصوص چارجر سے ہی چارج ہوتاہے۔ اگر اُسے کوئی دوسرا چارجر لگادیا جائے تو وہ اُس کو منہ نہیں لگاتا۔

مائیں اپنے بچوں کو اپنے پہلومیں سلاتی ہیں اسی طرح صاحب ِموبائل بھی موبائل کو اپنے پہلو میں رکھ کر ہی سوتاہے۔ رات میں بچے کی ذرا سی آواز پر ماں بیدار ہوجاتی ہے، صاحب ِموبائل بھی اُس کی ایک گھنٹی پر بیدار ہونا فرضِ عین سمجھتاہے۔
ہے نا! کیسی عجیب و غریب مماثلت۔

ہمارے ایک دوست کے خیال میں تو موبائل ’ہمزاد‘ ہے۔ اگرچہ جیساکہ سنا ہے ’ہمزاد‘ بیت الخلاء جاتے ہوئے باہر ہی رُک جاتاہے، لیکن یہ موبائل تو وہاں بھی ہمارا ساتھ نہیں چھوڑتا۔اُن کی اس بات پر ہمیں ایک واقعہ یاد آیا— ایک روز ہم بیت الخلاء میں حوائج ضروریہ سے فارغ ہورہے تھے، حسب ِمعمول موبائل بھی ہمارے ساتھ ہی تھا، اتنے میں موبائل کی گھنٹی بجی، ہم نے حسب ِعادت موبائل رِسیو کیا۔ اُدھر سے ہمارے سالے صاحب نے زور دار طریقے سے سلام کیا ہم ایسی جگہ تھے جہاں اُن کے سلام کا جواب نہ دے سکتے تھے، اس لیے ہم نے فقط ’ہوں‘ ’ہاں‘ پر اکتفاکیا۔ ادھر سے وہ پھر کچھ بولے ہم نے پھر ’ہوں‘ ’ہاں‘ میں جواب دیا۔ انھوں نے پھر دو ایک بات کہیں۔ مگر ہم ’ہوں‘ ’ہاں‘ ہی کرتے رہے۔ شام کو آفس سے گھر پہنچے تو بیگم صاحبہ چہرہ اُترا ہوا تھا۔ انھوں نے ہمیشہ کی طرح ہمارا خیر مقدم نہ کیا۔ ہم سہمے ․․․․اﷲخیرکرے! آج کیا ماجراہے؟ بہت کریدنے پر محترمہ بسورتے ہوئے بولیں:’’ میرا ایک ہی تو بھائی ہے․․․․․‘‘ ہم نے کہا: ’’یہ تو ہم بھی جانتے ہیں۔‘‘ وہ تقریباً روتے ہوئے بولیں: ’’اُس سے بھی آپ ٹھیک طرح بات نہیں کرتے؟‘‘

ہم نے صفائی میں کہا: ’’ہم تو ہمیشہ اُن سے نہایت خندہ پیشانی سے پیش آتے ہیں․․․․․ بلکہ ہمارا تو یقین ہے ساری خدائی ایک طرف، جورُو بھائی ایک طرف․․․․․‘‘
اب وہ اٹھلاتے ہوئے نخرے سے بولیں: ’’پھر صبح جب اُس نے آپ کو فون کیا تھا تو آپ نے اُس سے سیدھے منہ بات کیوں نہ کی، بس ہوں ہاں کرتے رہے۔‘‘

یہ سن کر ہم ہنسی سے لوٹ پوٹ ہوگئے، ہنستے ہنستے اُن کو اصل واقعہ سے واقف کرایا تو وہ بھی کھسیانی ہنسی ہنستے ہوئے بولیں: ’’یہ موبائل بھی ہماری زندگیوں میں کیسے کیسے گُل کھلاتاہے․․․․․‘‘
RAHAT RAVISH
About the Author: RAHAT RAVISH Read More Articles by RAHAT RAVISH: 4 Articles with 3157 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.