جونی ٹمبکٹو

رات کاا ندھیرا ہرطرف پھیل چکا تھا ۔
دور دور تک خاموشی کا عالم تھا۔۔ جنید اختر عرف جونی کے کمرے میں چہارسو ٹک ٹک ٹک کی آوازیں خاموشی میں ارتعاش پیدا کر رہی تھیں۔ رمضان کاچاند نکل آیا تھا۔۔ کل پہلا روزہ ہونے والا تھا۔۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے وہ تراویح پڑھ کر آئے تھے۔ پہلے روزے کی مناسبت سے مسجد میں کافی رش تھا۔ واپس آ کر سونے کے لیےلیٹےتوانھیں دو باتوں کا سامنا تھا۔۔ ،
اول، سحری کے وقت ان کی آنکھ کھلے گی کیسے۔۔؟
دوسرا میں سحر ی میں کھاؤں گا کیا۔۔؟
افریقی کھانا، پاکستانی پکوان، میکیسکن فوڈ، چائنیز، اطالوی یا یورپین کوزین۔۔ یا اس گریٹ مینو کو افطاری کے لیے رکھ لوں ۔سحری کے لیے کچھ اوردال دلیا کر لوں۔ روٹی ملائی سے کام چلا لوں۔۔ خیر ابھی تو اوّل الذکر بات کا سامنا ہے کہ خود کو جگایا کیسے جائے۔۔! ویسے بھی اللہ کے نیک بندے، پہلے جاگوں گا تو پھر ہی سحری کروں گا ۔۔ نا ؟:
یہ سوچتے ہوئے وہ بستر سے اتر کر سامنے دیوار کے پاس جا پہنچے۔ جہاں رمضان کے پلان کا اسلامی کیلنڈر آویزاں تھا۔ یہ کیلنڈر ہنگامی حالت کی طرح تین دن پیشتر ہی اس دیوار کی زینت بنا تھا۔ انھوں نےسحری و افطاری کے اوقات بغور دیکھنا شروع کیے۔ پہلے روزے کا وقت، دن، انگریزی تاریخ چیک کرتے کرتے تیسویں روزے پہ پہنچ گئے۔ پھر واپس اوپر اورپہلے روزے کے سحری وقت کے گرد لال رنگ کی پنسل سے بڑا سا گول نشان دائرے کی صورت کھینچ دیا۔ اس کے اندر ۔۔ جونی ٹمبکٹو۔۔ لکھ دیا۔ اب یہ کیلنڈر ان کی ذاتی ملکیت بن چکا تھا۔ اب اگلا پورا ماہ انگریزی تاریخوں کی بجائے۔۔ اسلامی تاریخوں پہ گزرنے والا تھا۔
یاد داشت کے لیے ضروری تھا ورنہ یہ نہ ہو کہ میں پندرہویں روزے کوسولہواں روزہ سمجھ کر رکھ لوں اور چھبیسویں روزے کی رات کوستائسویں کی رات سمجھ کر ساری رات سجدے میں پڑارہوں۔۔ ادھر اللہ میاں کو بھی کنفیوژن ہو۔۔ کہ وہ مجھے 26 روزے کا ثواب دیں یا طاق رات کا۔۔ اور سونے پہ سہاگہ یہ کہ، اصل طاق رات میں لمبی تان کر پڑا سویا رہ جاؤں۔ چلو خیر،اب میں طاق رات کو کسی صورت اِدھر اُدھر نہیں ہونے دوں گا۔ وہ دانشمندانہ انداز میں بڑبڑائے۔
ان کی نظریں ابھی بھی کیلنڈر پہ جمی تھیں۔ ویسےاتنا زیادہ تو وقت کا فرق نہیں پڑے گا پہلے اور تیسویں روزے کے دورانیے میں۔۔ زیادہ سے زیادہ آدھ پون گھنٹہ ۔چلو خیر ۔۔ شکر میرے مولا کا، افریقہ میں روزہ بارہ سوا، بارہ گھنٹے کا ہے۔ سب سے کم، اس سے زیادہ لمبا دورانیہ تو پاکستان میں پندرہ گھنٹے کے روزے کا ہے۔۔ پھر مَرے پہ سو دُرے بجلی کی لو ڈ شیڈنگ پلس سوئی گیس، پلس پانی، پلس ہتھیلی پہ جان و مال اور پلس جانے کیا کیا۔۔! اللہ کی شان پہلے وہ افریقہ والوں پہ ترس کھایا کرتے تھے اور اب افریقہ والے ان پر۔۔ ہاں جی، کبھی کے دن بڑے اور کبھی کی راتیں۔۔
او میری توبہ، روس والوں کا روزہ بائیس گھنٹے کا۔۔ (کیلنڈر دیکھنے کے ساتھ ساتھ کبھی کبھار ایک اچٹتی نظر ہاتھ میں پکڑے آئی فون کے ذریعے گلوبل ولیج پر بھی تھی)اس کے بعد صرف دو گھنٹے چھٹی۔۔ جونی نے کچھ سوچتے ہوئے عینک آنکھوں سے اتار کر سر پہ ٹکا لی۔
بائیس گھنٹے کا وقت تو ان لوگوں سےکاٹے نہ کٹتا ہو گا۔۔؟
پتہ نہیں انھیں بھوک زیادہ لگتی ہو گی یا پیاس۔۔ ؟
وہ وقت سو کے گزارتے ہوں گے یا اللہ اللہ کرتے۔۔؟
ہر گھڑی سورج کو دیکھتے ہوں گے یا گھڑی کی سوئیوں کو۔۔ ؟
افطاری کا اہتمام کرتے ہوں گے یا سحری کا۔۔ ؟
چلو خیر اوپر والا ہے نا اللہ، ڈھیروں ڈھیر ثواب بھی تو کماتے ہوں گے۔ ویسے سردیوں میں موجیں بھی تو وہی مارتے ہوں گے دو گھنٹے کا روزہ رکھ کر۔۔!
اے لو، شاوا بھئی شاوا ۔۔ دنیا کے کئی کونے ایسے ہیں جہاں جنگل راج ہے۔ وہاں سورج کو غروب ہونا یاد ہی نہیں رہتا۔ چڑھتا ہے تو چڑھا ہی رہتا ہے، باؤلا کہیں کا۔۔ ڈوبتا ہے تو چھ چھ مہینے اپنا نام ڈبو ئے رکھتاہے اور وہ کیا سادہ سا نام ہے اس اطالوی میٹھے کا، ہاں ٹرامی سو ۔۔ وہ بے اختیاری کے عالم میں کنپٹی پہ پنسل رگڑنے لگے۔ ہاں بالکل ویسا ہی نام، ناروے کا شمالی شہر ۔۔ ترومسو ۔۔ جہاں چھ مہینے دن ہے اور چھ مہینے رات۔۔ مطلب، ہر چھ مہینے بعد، نیا دن نئی رات۔ سنا ہے وہاں حکومت کا نہیں مفتیوں کا زور چلتا ہے۔ جو لوگوں کی سوئیوں کو اِدھر اُدھر گھماتے رہتے ہیں۔ اور پھر وہ سویڈن کا قصبہ کیرونا جہاں صبح ہوتی ہے نہ شام، دن چوبیس گھنٹے کا ہوتا ہے۔ انس، چرند پرند اور جانور بے چارے جب تھک جاتے ہیں تو دن کو رات بنا لیتے ہیں اور جب آرام کر کے تھک جاتے ہیں تو رات کو دن میں بدل لیتے ہیں۔۔۔ بَلے بھئی بَلے، یا میرے مولا، تیری دنیا کے رنگ نرالے۔۔
یہ سب سوچتے ہوئے وہ دوبارہ بستر کی طرف آئے اور اس کے پاس پڑی تپائی سے چھوٹا کلاک اٹھا لیا۔ اس پہ سحری کا وقت دے کر الارم لگا دیا۔ دو منٹ بعد خیال آیا کہ اگر یہ نہ بجا تو۔۔؟ تو سامنے شیشے کی الماری میں اس سے بڑا ٹائم پیس نظر آیا۔ ہاں یہ ٹھیک رہے گا۔ آگے بڑھ کراس کی بھی الارم کی چابی مروڑ دی۔ کچھ دیر بعد ان کی نظر دیوار گیر بڑے کلاک پہ پڑی تو اچانک ان کے منہ سے نکلا۔
: اے لو بن گیا کام۔۔ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ اس گھڑیال کی آواز سن کر میں پڑاسویا رہ جاؤں۔ بلکہ یہ تو ماء،کو بھی جگانے کے کام آئے گا۔۔:
اس پہ بھی الارم لگانےکے بعد آئی فون پہ بھی سحری کا وقت آن کر دیا اورآرام سے کمرے کی بتی بند کر کے آنکھیں موند لیں۔اب نہ جاگنے کا تو سوال ہی نہ تھا۔ کافی دیر اِدھر اُدھر کروٹیں بدلنے کے بعد انھیں نیند آ ہی گئی۔
بمشکل تین گھنٹے سوئے ہوں گے۔ شمالی کھڑکی والی گلی سے زور زور سے ڈھول پیٹنے کی آواز آئی۔۔ گہری نیند میں سوئے جونی کے کانوں میں یہ آواز بے وقت راگنی کی طرح گھسی۔ پہلے انھیں لگا وہ کسی کلب میں موجود ہیں اور زور و شور سےآرکسٹرا بج رہا ہے جس میں ڈرم کی آواز نمایاں ہے۔ جوآہستہ آہستہ ڈھول میں بدلنے لگی۔ کچی پکی نیند کے عالم میں اندھیرے میں چھلانگ لگا کر وہ اٹھے۔
ون۔۔ٹو ۔۔ تھری، فور، چاچاچا،
کہتے ہوئے جونی نے ہاتھوں کو کڑکتی بجلیوں کی طرح لہراتے ہوئے پوزیشن میں لیا اورپاؤں سے سٹیپ لیتے ہوئے آگے پیچھے تھرکنے گے۔
ڈھول کی آواز سحری میں جگانے کے لیے تھی جسے بھول کر وہ ۔۔رمبا۔۔ شروع کر چکے تھے۔
ابھی دو چار ہی قدم لیے تھے کہ ان کے کمرے کا دروازہ دھڑ دھڑ بجنے لگا۔ ساتھ ہی ماء کی آواز سنائی دی۔
:جونی، اٹھ جا۔۔ پہلا روزہ ہے۔ مجال ہے جو بندہ فکر کر لے۔ ذراپہلے اٹھ جائے اور آرام سکون سے سحری کر لے۔۔:
اوہو یہ تو بڑی گڑ بڑ ہوئی۔۔ قدم ساکت ہو گئے۔۔ انھیں سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ پہلے اللہ کے حضور معافی طلب کریں یا ماء کو جواب دیں۔۔ پہلے روزے ہی وہ کیا کر بیٹھےتھے، خود ان کی سمجھ سے باہر تھا۔ نیکی کمانے سے پہلے ہی خطا کا کھاتہ کھل چکا تھا۔ ابھی وہ شش و پنچ میں تھے کہ تمام الارم بیک وقت بجنے لگے۔ جنہیں بند کرنے کے لیے وہ بوکھلا کر کمرے میں اِدھر اُدھربھاگ رہے تھے۔ کبھی دروازہ پیٹتی ماء کی طرف قدموں کا رُخ موڑتے اور کبھی گلی کی جانب کھلتی کھڑکی کی اور۔۔!
ماء،دروازہ پیٹ پیٹ کر چلی گئی۔۔ ڈھول والے بھی دور جا چک ۔ تب انھوں نے سب سے پہلے بتی جلا کر سارے الارم بند کیے۔۔ باورچی خانے میں ماء سحری کا اہتمام کرتے ہوئے بڑبڑا رہی تھی۔
یہ جونی کو پتہ نہیں کیا ہو گیا ہے۔ ایسی لمبی تان کے سویا پڑا ہے۔ ستیاناس ہو کمپیوٹر کا، سارا دن ساری رات وہیں بیٹھا رہتا ہے۔پریادداشت اتنی کمزور کہ کئی کئی گھڑیاں کمرے میں لگا رکھی ہیں۔ ان کی آواز سن کے بھی لَم لیٹ پڑا ہے۔
:جونی، اب آ بھی جا میں نے روٹی پہ ملائی رکھ کے اوپر چینی چھڑک دی ہے۔ اچھا لَے آ گیا میرا سیئونی۔۔:
جونی کو دیکھتے ہی ماء۔۔ کی ٹون بدل گئی۔
:ما، صدقے جائے ۔۔ چل جلدی سے سَرگی کھا لے اور یہ بھی بتا دے کہ آج شام افطاری میں کیا کھائے گا۔۔؟:
:موئی در، گڈ سحری مارننگ ۔۔ بنا لینا کوئی اطالین پزا، امریکن، برگر شرگر، میکسیکن ٹیکوزشیکوز، بریٹوز( لپٹی ہوئی روٹیاں ) اور ڈرنک میں خود بنا لوں گا نمبوشمبو مار کے۔۔ "جونی نے اطمینان سے جواب دیا
:لَے، تو نے ماء کو کوئی ہوٹل والی سمجھ رکھا ہے۔ یہاں تو ڈھابے تک کا کھانا بنانا بھی مصیبت لگتا ہے۔۔ جی چاہتا ہے کھجوراور روٹی پانی سے بندہ روزہ کھول لے اور دودھ پھینی کھا کر روزہ رکھ لے۔ ورنہ روزے میں بھی بندے کی بچت نہیں۔ تو نے دیکھا نہیں دبئی کے کتنے ہی لوگ زیادہ کھا کر ہسپتالوں میں جا بستر سمھالے ہیں۔ لوگوں کو بھوک سے مرتے تو سنا تھا۔ زیادہ کھا کر لاچار ہوتے تو پہلی بار دیکھا ہے۔۔ سوچے تو بندہ قیامت کے آثار ہیں۔۔ حساب کتاب کے دن بس آنے والے ہیں۔:
:موئی در، قیامت کا نام لے کر مت ڈراؤ، ابھی جونی نے اس دنیا میں دیکھا ہی کیا ہے۔"ابھی تو ۔۔،
جان، جانی، جنردھن، تارا رم پم پم پم
کے دن آنے ہیں۔۔
مجھےقیامت سے ڈرانے کی بجائے بہو لانے کی تلاش کرو۔۔ ابھی تو جونی کے سہرے کے پھول کھلنا باقی ہیں۔۔ ابھی تو فضاؤں نے مہکنا ہے۔۔ پھولوں پہ بہار آنی ہے۔ بلبل نے راگ چھیڑنے ہیں۔۔ چاندنی نے انگڑائی لینی ہے۔۔ ابھی تو جونی نے تمھاری بہو کا گھونگھٹ اٹھانا ہے۔۔ ابھی تو۔۔
"بس کرجونی بس کر، کوئی کام میرے لیے بھی رہنے دے۔ "ما ءنے بات کاٹی۔
:فکرکیوں کرتی ہے ماء، ابھی تیرا پاور فل کردار باقی ہے۔ ساس بہو کے جھگڑے، طعنے تشنے اورساس بہو کے ڈرامے۔۔ ابھی پکچر باقی ہے پیارے۔۔
:اچھااگر باقی ہے تو پھر۔۔ انتظار فرمائیے۔۔ کا بورڈ لگا دے اور سحری کھا لے۔۔ اے لو افطاری کا پکوان تو بیچ میں ہی رہ گیا۔:
۔"اچھا تو پھر ایسا کرتے ہیں ماء۔۔ اس رمضان میں تمھیں سرپرائز دیتا ہوں۔ "جونی نے کچھ سوچتے ہوئے کہا، سحری تم بنا لیا کرنا۔ روٹی ملائی، دودھ پھینی بھی چلے گا۔ ۔صبح صبح ویسے بھی بھوک کس کم بخت کو لگتی ہے۔ پتھر کی طرح کھانا پیٹ پہ باندھنا پڑتا ہے۔ پانی کی مشک بھرنی پڑتی ہے۔ ویسے کتنا اچھا ہوتا اگر اللہ میاں بندے کے اندر بھی پانی جمع کرنے کا سسٹم بنا دیتے تو میں پہلے روزے ہی پورے رمضان کا پانی اندر جمع کر لیتا۔:
۔"بس کر نا شکرے بس کر ، اللہ نے تجھے جس سانچے میں فٹ کر کے بنادیا اسی کے اندر رہ، الٹے پاسے زیادہ دماغ شماغ لگانے کی ضرورت نہیں۔:
:لَے موئی در، میں تو تیرے فائدے کی بات کر رہا تھا۔۔ یاد ہے پچھلے سال روزے میں پانی کی کمی سے تجھے کتنا مسئلہ پر گیا تھا۔:
:ہاں تو، پھربعد میں شفا بھی تو اللہ نے دے دی تھی۔۔ تو بس اپنے آج کے دن کا پانی سٹور کرنے کا بندوبست کر۔۔ دودھ پیئے گا کہ لسّی ۔۔؟:
:میراخیال ہے کہ میں پھینی کے ساتھ دودھ کی ٹنکی بھر لیتا ہوں۔ اور سرپرائز یہ ہے موئیدرکہ اس رمضان افطاری میں بنایا کروں گا۔۔ اس طرح میرا روزہ بھی آسانی سے کٹ جایا کرئے گا۔:
:ہا ہائےجونی تو، تو چولہا چوکا کرے گا۔ تجھے ہوکیا گیا ہے۔ بہو آنے سے پہلے ہی تو۔۔ زن مرید بننےکی ٹریننگ کرنے لگا ہے۔۔ویسے انڈا تو تجھے کچا پکا ہی ابالنا آتا ہے اور باتیں بڑی بڑی۔:
۔" موئی در، فکر ناٹ، میں جس فورم پہ جاتا ہوں۔ وہاں دنیا بھر کے لوگ وِد فوڈ موجود ہوتے ہیں۔ رمضان کے پکوان اور سحری و افطاری کے مینو ایوری ڈے وِد سُندر سُندر پکس۔ اور سکھانے کے لیے ملکوں ملکوں کے لوگ ۔۔ جونی نے ماں کا طعنہ سنا ان سنا کر دیا۔
:ویسے بھی مجھے اپنی ماء کو پکا کر کھلانے کا ثواب ملے گا۔ سو میرا یہ حق چھیننا مت ۔۔ مجھے دودھ کا قرض تھوڑا بیباق کر ہی لینے دے۔۔ تو ماء،آج آپ کو افطاری مینو ملے گا۔۔،
کھجور، ڈوگنیٹ، ٹماٹر کے پکوڑے، مینگو ٹینگو۔۔
اور کھانے میں ۔۔
کدو کا دالچہ،سیمولینا پاستہ،گوکومولی، جولوف رائس اور شوربہ پیٹا بریڈ کے ساتھ۔۔ اچار پاپٹر بھی پورا رمضان دستر خوان کی شوبھا بڑھائیں گے۔ سو ایز یو لائک۔۔
تواب کل ملتے ہیں اِسی جگہ (کچن میں ) اِسی وقت (سحری کے ٹائم ) تب کل کی افطاری مینو بتاؤں گا۔ اب میں چلا ۔۔ مسجد مولوی صاحب کے پیچھے نماز پڑھنے۔۔:
۔۔۔۔۔۔۔
 
Kainat Bashir
About the Author: Kainat Bashir Read More Articles by Kainat Bashir: 27 Articles with 49677 views میرا نام کائنات بشیر ہے۔ میں کالم، انشائیہ، آرٹیکل، مزاح نگاری، افسانہ اور ہلکے پھلکے مضامین لکھتی ہوں۔ اس کے علاوہ وجد کے کچھ لمحات شاعری کی نذر کرنا.. View More