وارث میرؒ۔قلم کی حرمت کا پاسبان

 عمر کے گھوڑئے کی رفتار جب گھٹتی چلی جاتی ہے تو انسان کے خوابوں کے جزیرئے ویران ہوتے چلے جاتے ہیں۔عقلیت عملیت پسندی کا روپ دھار لیتی ہے ۔ جو ہو چکا ہوتا ہے اُس کی بنیاد پر ہی سارئے اندازئے لگائے جاتے ہیں۔ماضی کی ناکامیاں زندگی کو چرکے لگا تی ہیں امید کی جگہ یاسیت اور جذبوں کی روانی کی جگہ خوف لے لیتا ہے میری عمر کے لوگ یاسیت پسندی کا شکار ہونا شروع ہوجاتے ہیں لیکن ہمارا خالق تو ہے ہی امید کا نام۔ اگر ہم ناامید ہوتے ہیں تو گویا توحید کے معیار کو ماننے سے انکاری ہوجاتے ہیں۔ رب کے بندئے کا کام صرف اسباب مہیا کرنا اور تگ و دو میں شامل ہوجانا ہوتا ہے۔ نتائج کی ذمہ داری اُسکی نہیں ۔ رب پاک محنتوں اور جذبوں کی صداقت کو کبھی رسوا نہیں کرتا۔ جب جناب وارث میر کا انتقال ہوا اُس وقت راقم بی کام کا طالبعلم تھا۔لیکن اخبار کے ساتھ میرا تعلق اُس وقت سے ہے جب میں کلاس دوئم میں پڑھتا تھا۔ یوں ہر سال جب وارث میر صاحبؒ کے حوالے اُن کی برسی پر ٹی وی پر پروگرام آن ائیر ہوتا ہے تو مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کہ جیسے ایک شیر کی دھاڑ والے بہادر انسان کو گیدڑوں نے اِس طرح گھیرا کہ وقتی طور پر وہ کامیاب رہے لیکن درحقیقت مورخ جب بھی اِن واقعات کو ضبط تحریر میں لائے گا تو ہمیشہ وارث میر کامیاب و کامران گردانے جائیں گے۔ کتنا افسوس ناک امر ہے کہ جب دلیل ختم ہوجائے تو پھر گولیاں برسانی شروع کردی جائیں ۔ وہی نام نہاد خارجیوں اور طالبان والا طریقہ کار۔یہ ہی کچھ وارث میر کے ساتھ کیا گیا ۔ غدار غدارغدار۔ کتنا ظلم ہے کہ آپ ایک اُستاد ایک دانشور ایک صحافی پر اپنے ہی ملک میں غداری کا لیبل لگانا شرو ع کردیں۔ آج جب کے اخبارات اور چینلز کی بھرمار ہے اور ہر خبر کو بریکنگ نیوز کا نام دئے دیا جاتا ہے ۔ مجھے وارث میر اور حامد میر کی تحریریں پڑھنے کا متواتر موقع ملتا رہا ہے اُس کے علاوہ شھید پاکستان جناب سرفراز نعیمیؒ کے حوالے سے جناب حامد میر کے تاثرات اور نبی پاکﷺ کی محبت کے حوالے سے لکھے گئے حامد میر کے کالموں نے مجھے وارث میر ؒ کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے یہ کالم لکھنے کا حوصلہ اور ہمت عطا کی ۔ ہمارئے ہاں قلم کی حرمت کا پاس رکھنا تو دور کی بات ہے ایمان فروشوں کی ایک لمبی فہرست ہے جنہوں نے اِس دیس کی عزت اور وقار کو آسائشات کی خاطر بیچ ڈالا۔ہمارا المیہ ماضی میں بھی یہ رہا ہے کہ پیٹرو اسلام کی حامل نام نہاد مذہبی سیاسی جماعتوں نے صرف اُس بات کو اسلام مانا ہے جو وہ کہہ رہی ہوں یا اُن کی امداد کرنے والے نے جسے اسلام قرار دیا ہو۔پاکستان میں مارشل لاؤں کی تاریخ بہت لمبی ہے اور اِس کے اثرات سے قوم کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہو ا ہے۔ میں ہمیشہ سے پاکستانی فوج کے حق میں لکھتا ہوں کیونکہ فوج کا مورال بلند کرنا ہر پاکستانی کا فرض ہے۔ ایوب خان، بھٹو،ضیاء، مشرف کے مارشل لاؤں کی مخالفت کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم فوج کی مخالفت کر رہے ہیں۔ حال ہی میں راقم نے پاک فوج سلامت تو ہم سلامت، پاک فوج وطنِ عزیز کا حصار، پاک فوج زندہ آباد کے عنوانات سے کالم لکھے ہیں حتیٰ کے لاہور ہائی کورٹ میں الطاف حسین کے خلاف اور پاک فوج کے حق میں احتجاج بھی صرف راقم کی طرف سے کیا گیا۔پاک فوج کے خلاف زبان کھولنے پر منور حسن کو راقم نے ہی قانونی نوٹس بھیجا ۔اِس لیے کہ پاک فوج نے ہمیشہ وطن کے لیے قربانیاں دی ہیں اور حالیہ ضربِ عضب نے تو ملک کو نئے سرئے سے سنبھالا دیا ہے اور وطن عزیز کے لیے فوج کی قربانیاں قوم کے اوپر احسان ہیں۔میری دانست میں یہ سلسلہ کہ فلاں صحافی وطن دُشمن ہے ختم ہوناچاہیے۔جناب حامد میر وارث میر کے بطل حریت ہیں اور اُن پربنگلہ دیش اور بھارت نواز ہونے کا الزام لگانے والوں کو اپنی سوچ میں تبدیلی لانی چاہیے کہ ترقی پسند ی کی لہر کے نظام کے خلاف جو بغاوت کے احساسات تھے اُس کو مفاد پرست ٹولے نے اسلام کے خلاف، ریاست پاکستان کے خلاف سرگرمیوں کا نام دئے دیا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ فیض احمد فیض، حمید اختر جیسے لوگ بھی غدار کہلوائے گئے۔ جناب وارث میر کے ساتھ اُس وقت کے فوج حکمران نے اپنی حلیف مذہبی سیاسی جماعت اور اُس کی بخل بچہ طلبہ تنظیم کے ذریعے پنجاب یونیورسٹی میں حملہ بھی کروایا اور اُس وقت وارث میر صحافت کے شعبے کے ہیڈ آف ڈیپارٹمینٹ تھے اُن کو نوکری سے برخواست کروایا۔ یوں وارث میر کو ذہنی تناؤ کا شکار ہونا پڑا اور اِسی تناؤ نے اُن کی جان لے لی۔ تین دہائیوں کے بعد بھی جو وارث میر کی سوچ تھی وہی کامران ہے تشدد اور اپنی مرضی ٹھونسنے والوں نے اِس ملک کو جنگ میں ڈال دیا۔ اور یوں اسلام کا نام لے کر داتا علی ہجویری ؒ کے دربار تک کو خون میں نہلایا گیا۔وہی سوچ جو وارث میر کو غدار کہتی تھی اُسی سوچ نے پاکستان کے معصوم لوگوں کو بم دھماکوں میں شھید کیا معاشی طور پر اتنا نقصان پہنچا کہ بیان سے باہر۔لیکن وارث میر کی سوچ زندہ ہے اور زندہ رہنے کا حوصلہ دئے رہی ہے ۔ میری سماعتیں جناب وارث میرؒ کی آواز سُن رہی ہیں اور وہ کہہ رہے ہیں کہ دیکھ قاتل میرئے ، میری ہستی کو تو مٹانا چاہتا تھا لیکن میں تو زندہ ہو نور کی طرح اور تم اپنی ہی ظلمتوں کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ڈوب گئے ہو۔
زندگی اتنی غنیمت تو نہیں جسکے لیے
عہدِ کم ظرف کی ہر بات گوارا کر لیں
MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE
About the Author: MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE Read More Articles by MIAN ASHRAF ASMI ADVOCTE: 452 Articles with 384183 views MIAN MUHAMMAD ASHRAF ASMI
ADVOCATE HIGH COURT
Suit No.1, Shah Chiragh Chamber, Aiwan–e-Auqaf, Lahore
Ph: 92-42-37355171, Cell: 03224482940
E.Mail:
.. View More