افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات جاری رکھنے پر اتفاق

گزشتہ تین مہینوں سے افغانستان میں جاری طالبان کے حملوں میں اضافہ دیکھنے کو ملا جس میں اہم عمارتوں ، سکیورٹی اداروں اور غیر ملکی افواج کو بھی کئی بار ٹا رگٹ کیاگیا۔افغانستان میں طالبان حملو ں میں تیزی آنے کے بعد افغان حکومت نے پا کستان پر الزامات شروع کیے ۔ افغان صدر اشرف غنی کا بیان ہو یا وزیر دفاع کی جانب سے جاری کردہ بیان کہ پا کستان افغان صوبہ پکتیکا میں طالبان کو اسلحہ ہیلی کاپٹروں سے گرا کر دے رہا ہے۔ حالیہ دنوں میں دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں اتار چڑھاؤ اور سرحدی کشید گی میں اضافہ دیکھنے کو ملا ۔ دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے سفیر طلب کرکے احتجاج بھی کیا ۔ پا کستان کو یہ بھی کہا کیا تھا کہ افغان طالبان پر زور دیا جائے کہ وہ افغانستان میں حملوں کو روکے اور مذاکرات کا عمل دو بارہ شروع کر یں ۔ ان حالات میں افغان ن طالبان اورافغان حکومت کے درمیان مذاکرات کا آغاز یقینی طور پر ایک اچھا عمل ہے ۔ گزشتہ روز سیاحتی مر کز مری میں مذاکرات کادور رات گئے اور اگلے روز بھی جاری رہا جس میں افغان طالبان کی طرف سے ملا جلیل،فر ہاد اﷲ اور ملا عباس افغانستان اور قطر سے اسلام آباد آئے ہوئے ہیں جب کہ افغان وفد کی سر براہی نائب وزیر خارجہ اور سابق افغان صدر حامد کرزئی کے بھتیجے حکمت خلیل کرزئی نے کی جبکہ افغان امن کونسل کے رکن اور سابق گورنر ننگرہار حاجی دین محمد کے علاوہ7دیگر ارکان بھی افغان حکومتی وفد میں شامل ہے۔اطلاعات کے مطابق ان مذاکرات میں چین اور امر یکا بھی بطور مبصر شامل ہے۔مری کے پر فضا مقام میں ہونے والے مذاکرات کو چین میں گزشتہ دنوں ہونے والے مذاکرات کا تسلسل یا دوسرا راونڈ کہا جا رہا ہے۔رپورٹز کے مطابق اس ابتدائی طور پر ہونے والے مذاکرات میں طالبان پر زور دیا گیا کہ طالبان ،افغانستان میں سیز فائر کر یں۔ ان سے یہ بھی مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ اگر مکمل طو ر پر سیز فائر ممکن نہیں تو کم از کم شہروں میں اپنی کارروائیاں اور حملے بند کیے جائیں۔ اطلاعات کے مطابق افغان طالبان کی جانب سے افغانستان میں موجود غیر ملکی افواج کا مکمل انخلا پر بھی بات چیت ہوئی ۔افغان حکومت کی جانب سے جاری بیان کے مطابق افغان حکومتی وفد پاکستان میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کیے ہیں۔ میڈ یار پورٹزکے مطابق مذاکرات میں دفتر خارجہ اور سکیورٹی اہلکار بھی شر یک ہو ئے ۔ دوسری جانب تادم تحر یر مذاکرات کے بارے میں افغان طالبان کے تر جمان ذبیح اﷲ مجاہد نے مذاکرات کی تر دید یاتصدیق نہیں کی ۔ذرائع کے مطابق اس دفعہ مذاکرات کافی اہمیت کے حامل اس حوالے سے بھی ہے کہ مذاکرات میں جنگ بندی، غیر ملکی افواج کا انخلاوغیرہ پر سنجیدگی کے ساتھ بات چیت ہوئی ۔دفتر خارجہ کے مطابق پا کستان دو نوں فر یقوں یعنی افغان حکومت اور طالبان کے درمیان ،خیر خواہ ملک کی حیثیت سے افغان مفاہمتی عمل کو کامیاب کرانے کے لیے کوشاں ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ پا کستان میں مذاکرات چین میں ہو نے والے مذاکرات کا تسلسل ہیں۔چین بھی ان مذاکرات کی انعقاد اور کامیاب بنانے کے لیے اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ذرائع کے مطابق ان مذاکرات کی نو عیت ابتدائی ہے اور یہ کوشش ہورہی ہے کہ آگے جاکر دو نوں فر یقوں کے درمیان معنی خیز مذاکرات ہو جو باقاعدہ طور پر آگے بڑھیں۔ر پورٹز کے مطابق پا کستان اور چین کے علاوہ اقوام متحد ہ بھی افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کی حمایت کر رہا ہے جب کہ امر یکا نے بھی ان مذاکرات کو اچھا عمل قرار دیا ہے اور امید ظاہر کی ہے کہ افغانستان مسئلے کا پر امن حل مذاکرات کے ذریعے نکلے۔ وائٹ ہاؤس سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ امر یکا ان مذاکرات کی حمایت کر تا ہے ۔ خطے میں قیام امن کے لیے تمام فر یقوں کو مل بیٹھ کر مسائل کا حل نکالنا چاہیے۔ پا کستان کی سر کاری نیوز ایجنسی اے پی پی کے مطابق وزیر اعظم نواز شر یف نے بھی ناروے کے وز یر اعظم کے ساتھ اپنے مشتر ک پر یس کانفرس میں کہا ہے کہ افغان حکام اور طالبان کے درمیان مذاکرات کامیاب ہونے چاہیے ۔وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ نہ صرف پاکستان، افغانستان بلکہ عالمی برادری کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ مذاکرات عملی کو متاثر ہو نے سے بچائیں۔میاں نواز شر یف نے کہا کہ توقع ہے کہ مذاکرات کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔افغان حکام اور طالبان کے درمیان مذاکرات ایک بریک تھرو ہے اور یہ کوئی ڈھکی چھپی نہیں بلکہ علی اعلان ملاقات ہے۔

سیاحتی مقام مری میں ایک سرکاری ریسٹ ہاؤس میں ہونے والے جاری دو دن کے مذاکرات کے بار ے کہا جارہا ہے کہ دو نوں فریقوں نے مذاکرات جاری رہنے تک ایک دوسرے کے خلاف بڑی کارروائی نہ کر نے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔تاہم دونوں نے تسلیم کیا ہے کہ اس دوران ناراض عناصریا اس عمل کے مخالفین کی جانب سے ایک ادھ حملے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ذ رائع کاکہنا ہے کہ طالبان اور ان کی تنظیم نے اب بدلتے ہوئے حالات اور وقت کے ساتھ ساتھ اپنی پالیسیوں میں تبدیلی لائے ہیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق دونوں فر یقوں یعنی طالبان اور افغان حکام کے درمیان ہونے والے مذاکرات کا پتہ آنیوالے کچھ دنوں میں چلے گا کہ آیا یہ مذاکرات کامیاب ہوئے ہیں یا نہیں اگر طالبان کی حملوں میں کمی آئی اورمذاکرات کے دور آئندہ بھی ہونے لگے تواس کا مطلب ہو گاکہ بات چیت کا عمل آگے بڑھ رہا ہے لیکن اہم سوال یہ ہے کہ ان مذاکرات کو کامیاب بنانے کے لیے امر یکا کس حد تک تعاون کرتا ہے ۔ طا لبان کی شروع ہی سے جوسب سے بڑا مطالبہ رہا ہے وہ غیرملکی افواج کا افغانستان سے انخلا کا ہے کہ اتحادی افواج افغان سر زمین سے نکلے ۔ تب معاملات حل ہوں گے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ امریکا اس مطالبے پر کتنا عمل کر تا ہے جو تمام سوالوں کے اردگرد گھومتا ہے۔ طالبان کو اب اس بات کا ادارک کر نا چاہیے کہ اب حالات پہلے جیسے نہیں رہے ہیں ۔ افغان عوام اب ملک میں امن چاہتے ہیں۔دونوں فر یقوں کو اس بارے میں سنجید گی سے سو چنا چاہیے اور موقف میں لچک کا مظاہر پیدا کر نا چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ کوئی آور افغانستان کاوارث بننے کے لیے اٹھ کھڑے ہو۔

پا کستان نے افغان حکومت اور طالبان کو ایک میز پربٹھا کر اپنا وعدہ پورا کر دیا ۔

پا کستان کی کوشش ہے کہ یہ مذاکرات کا میاب ہوجائے ۔ افغانستان میں حالات خراب ہونے کا سب سے زیادہ نقصان پا کستان کو ہی ہوتا ہے۔ ایک طرف افغان حکومت کی جانب سے الزام ترشی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے تودوسری طرف سرحدی کشیدگی میں اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس سے بڑھ کر پا کستان سے بھاگے ہوئے شدت پسندآسانی سے حملے کرتے ہیں ان کو افغان بارڈر پر اس پار سے روکنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ پا کستان کا افغانستان سے ہمیشہ مطالبہ رہا ہے کہ وہ سرحدپار دہشتگردوں کے خلاف کارروائی کر یں۔
دنیا بھر میں طالبان مذاکرات کو مثبت قرار دیا گیا ہے ۔ پا کستان کے سیاسی جماعتوں نے بھی ان مذاکرات کو خطے میں امن کے لیے بہتر قرار دیا ہے ۔ عوامی نیشنل پارٹی کے سر براہ اسفندیارولی نے بھی اپنا ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ مذاکرات منطقی انجام تک پہنچائے جائیں۔ ان مذاکرات سے بہت سے لو گوں کی امیدیں وابستہ ہے۔ ان کا کہناہے کہ کٹھن مراحل کے بھی امکانات ہے ۔ حالات کا خوش اسلوبی سے سامنا کرنا ہوگا۔ اسفندیار ولی کا کہنا ہے کہ ہم ہمیشہ سے مذاکرات کے حامی رہے ہیں۔ کسی بھی مسئلے کا پر امن اور دیر پا حل مذاکرات ہی میں پوشیدہ ہے۔

تحر یک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات پر اپنا ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ جب میں مذاکرات کی بات کر تا تھا تو مجھے طالبان خان کہا جا رہا تھا جبکہ اب امر یکہ کے دباؤ میں پا کستان، افغان حکومت اور طالبان سے مذاکرات کر ا رہے ہیں تو سب اس کو مثبت اور دیرپا حل قرار دے رہے ہیں۔

جنگ بندی بارے پیش رفت نہ ہوسکی
افغان حکومت نے طالبان کے ساتھ پہلے باضبط مذاکرات کو کا میاب قر ار دیتے ہوئے کہا ہے کہ دونوں طرف سے قیام امن کی خواہش کا اظہار کیا گیا ہے۔ کا بل میں میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئے افغان وزیر خارجہ حکمت کرزئی نے کہا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کا پہلادور کامیاب رہا۔ طالبان نے غیر ملکی افواج ، قید یوں اور پابندیوں کے مسائل اٹھائے۔ ان کا کہنا تھا کہ آئندہ اجلاس میں دونوں اپنی شرائط پیش کر یں گے ۔ حکمت کرزئی کا کہنا تھا کہ مذاکرات میں حقانی نیٹ ورک کی بھی نمائندگی تھی جبکہ آئند ہ ملاقات چین میں ہو سکتی ہے جو عید کے بعد ہوگا۔ جنگ بندی بارے پیش رفت نہیں ہوسکی ، یہ پہلے رسمی مذاکرات تھے۔ انہوں نے طالبان اور افغان حکام کے درمیان براہ راست مذاکرات میں تعاون پر پا کستان کا شکریہ بھی ادا کیا۔
Haq Nawaz Jillani
About the Author: Haq Nawaz Jillani Read More Articles by Haq Nawaz Jillani: 268 Articles with 203722 views I am a Journalist, writer, broadcaster,alsoWrite a book.
Kia Pakistan dot Jia ka . Great game k pase parda haqeaq. Available all major book shop.
.. View More