ہم جنس پرستوں کے شادیانے

دنیا کے مختلف ممالک میں مخصوص ذہنیت والے لوگوں کے لئے مخصوص قوانین کے منظور ہونے کے بعد ایک بحث چھڑ گئی ہے کچھ ان قوانین کے حق میں بیان جاری کر رہے ہیں اور کچھ انکی مخالفت میں ان قوانین کی روشنی میں کوئی بھی شخص اپنی مرضی کے مطابق مخصوص جنسی تعلقات جس شخص سے چاہے رکھ سکتا ہے اس میں جنس کی کوئی قید نہیں مرد مرد سے ، عورت عورت سے، ایک عورت سے ایک سے زیادہ مرد یا ایک سے زیادہ خواتین ، ایک مرد سے ایک سے زیادہ خواتین ، مخلتف الخیال لوگوں کا ایک پورا گروپ آپس میں جنسی تعلقات رکھنے میں آزاد ہونگے اور ریاست ایسے لوگوں کو تحفظ فراہم کرے گی، کچھ لوگ ایسے قوانین کو بنیادی انسانی حقوق کا درجہ دیتے ہیں اور انکے بقول یہ انکا حق ہے کہ وہ اپنی جنسی خواہشات کی تسکین کے لئے جو مرضی ہے راستہ اختیار کریں انھیں قانونی راستہ دینا ایسے لوگوں کا بنیاد ی حق ہے جبکہ ان قوانین کے مخالفین کا کہنا ہے کہ کوئی بھی ایسا قانون جس سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہو اور معاشرتی و مذہبی اقدار کو نقصان پہنچے نہیں بننے چاہئیں ۔ بنیادی انسانی حقوق کے نام پر بننے والے ایسے بہت سے قوانین نے اب ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے کہ کیا انسانی آزادی کی کوئی حد بھی ہونی چاہئے یا نہیں مختلف آراء اس سلسلے میں سامنے آئی ہیں اپنی ناقص عقل اور جذبات کے مطابق اپنی رائے اپنے قارئین تک پہنچانا چاہتا ہوں جو کوئی بھی میری رائے سے اختلاف رکھتا ہو یا اپنی رائے مجھ تک پہنچانا چاہتا ہومیرا ای میل ایڈریس اسکے لئے حاضر ہے۔

بطور ایک مسلمان کے میں ہم جنس پرستی کو ایک لعنت سمجھتا ہوں ہمارے مذہب میں اسکی کوئی گنجائش نہیں ہے واضح اور واشگاف الفاظ میں اﷲ نے ایسی قوم کی تباہی کا ذکر فرمایا جو ایسی لعنت سے دوچار تھی اتنے واضح الفاظ میں حکم ہونے کے بعد اگر کوئی شخص بہانے تلاش کرے اور فطری اور آفاقی قوانین کے ہوتے ہوئے زمین پر ایسے افعال کے حق میں دلائل دے اور انکو بنیادی انسانی حقوق کے نام پر جائز قرار دینے کے حق میں ہو تو ایک دفعہ اپنے ایمان کی حالت اسے ضرور دیکھ لینی چاہئے ۔ قران کے بعد احادیث میں بھی اس مکروہ فعل کی مذمت کی گئی ہے اور سزا تجویز کی گئی ہے حضرت عبداﷲ ابن عباس فرماتے ہیں میں نبی کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ جو مرد بھی کسی دوسرے مرد کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرے دونوں کو قتل کردو ، جو کوئی بھی اس حدیث کا حوالہ دیکھنا چاہے وہ دیکھ سکتا ہے ، (سنن ابی داؤد 38:4447) ایسا نہیں ہے کہ یہ مکروہ فعل صرف اسلام میں ہی حرام ہے بلکہ بائبل میں بھی اس فعل کو گناہ اور نافرمانی قرار دیا گیا ہے جو کوئی بھی اس بارے میں تحقیق کرنا چاہے میں اسے موا د فراہم کر دوں گا ، یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ لوگ یا وہ ممالک جو اپنے آپکو لادین کہتے ہیں یعنی جنکا کوئی مذہب نہیں انکو کیا کرنا چاہئے یہ ایک قابل غور بات ہے جسکا فیصلہ اہل دانش ہی کر سکتے ہیں جسکا جواب میرے پاس نہیں لیکن ایک چیز ضرور کہنا چاہوں گا کوئی بھی معاشرہ عمومی طورپر اس فعل کو صحیح نہیں سمجھتا اور اس فعل کو بری نظر سے دیکھا جاتا ہے میں نے ان قوانین کے حق میں کسی کو ان الفاظ میں بھی بولتے دیکھا کہ میں یہ نہیں چاہتا کہ میرے بچے اس فعل کو کریں نہ ہی میں اس فعل کو پسند کرتا ہوں لیکن میں پھر بھی ان قوانین کے حق میں ہوں کیونکہ یہ بنیادی انسانی حقوق کا معاملہ ہے اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ اخلاقی پستی اور ذہنی پستی کا کیا معیار ہے ایسے طبقے میں ، ایک ایسا عمل جسکو ہم اپنے لئے اور اپنے بچوں کے لئے برا سمجھیں تو اسے کسی دوسرے کے لئے کیسے صحیح سمجھ سکتے ہیں ؟ اﷲ تعالی نے قرآن پاک میں ارشاد رفرمایا ہے جسکا مفہوم یہ ہے کہ ’’ لوگوں کو ایسے کام کرنے کا کیوں کہتے ہو جو تم خو د نہیں کرتے ‘‘ نبی کریم ﷺ نے بھی لوگوں کے لئے وہی چیز پسند کرنے کی تلقین فرمائی ہے جو ہم اپنے لئے پسند کرتے ہیں ۔

انسان فطری طور پر باغی ثابت ہوا ہے لہٰذا معاشرے کی بقا کے لئے کچھ ایسے قوانین ضرور بنائے جاتے ہیں جس سے ہر شخص اپنی حدود سے تجاوز نہ کرنے کا پابند ہوتا ہے مثال کے طور پر اپنی بہن اور ماں کے ساتھ جنسی تعلقات کو کسی بھی معاشرے میں اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا اسکی بنیادی وجہ معاشرے کو وہ طور طریقے ہیں جو صدیوں سے اس نے اپنی بہتری کے لئے اپنا رکھے ہیں اگر ہم ان لوگوں کا مطالبہ کو جائز سمجھیں جو ایسے قوانین کے حق میں ہیں تو کل کو یہ مطالبہ بھی سامنے آسکتا ہے کہ بہن بھائی کو بھی آپس میں جنسی تعلقات قائم کرنے کی اجازت ہونی چاہئے اور اندازہ کریں کس تیزی کے ساتھ یہ انسانی معاشرے کے بگاڑ کا سبب بنے گا خاص طور پر ان معاشروں میں جہاں پر لوگ جائداد یں تقسیم ہونے سے بچانے کے لئے لڑکیوں کی شادیاں تک نہیں کرتے ۔ انسان چونکہ فطری طور پروہ چیز جو اسکی دسترس میں نہ ہو کی طرف مائل ہوتا نظر آتا ہے لہذا اسکی طرف سے پھر یہ مطالبہ بھی آئے گا کہ عورت اور مرد دونوں کو مشترکہ جائیداد سمجھا جائے اور جو کوئی بھی جس سے چاہے جنسی تعلقات قائم کر لے اس سے نہ صرف بچوں کا بوجھ اٹھانے سے انسان کی جان چھوٹے گی بلکہ انسان اپنی ذمہ داریوں سے دور بھاگے گا ، بنی نوع انسان نے ایک عرصے کے بعد خاندان کی اہمیت کو سمجھا اور پھر خاندان سے معاشرے کے جانب بڑھا معاشروں کا بگاڑ کسی بھی صورت انسانیت کے لئے ٹھیک نہیں ہوگا اور ایسے قوانین معاشرے کے بگاڑ کی نشانی ہیں ، لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے تمام قوانین جو انسانوں کے درمیان خلیج حائل کردیں اور معاشرتی تباہی کے ذمہ دار بنیں کی مخالفت کی جائے ، انسانی آزادی کو اس حد تک رکھا جائے جس سے کسی دوسرے انسان کی آزادی متاثر نہ ہو کسی دوسرے کے جذبات پر ضرب نہ پڑے، ایسے قوانین بنانے کی ضرورت ہے جو معاشرے کو مضبوط کریں اور اسی کالم کی وساطت سے اپنی ایک اور خواہش کا اظہار بھی کرتا چلوں کہ کسی کی بھی مذہبی اقدار کی تضحیک اور تذلیل کے خلاف قانون سازی بھی کی جائے اور کسی کی مذہبی اقدار کا مذاق اڑانے کو قابل سزا جرم قرار دیا جائے ، ہمارے نبی ﷺ کی شان میں جو گستاخی ہر کچھ عرصے کے بعد بولنے اور لکھنے کی آزادی کی آڑ میں کی جاتی ہے کے تدارک کے لئے بھی ایسے قوانین بہت ضروری ہیں ایسا کرنے سے صرف مسلمان ہی محفوظ نہیں ہونگے بلکہ تمام اقلیتیں جو دوسرے مذاہب سے تعلق رکھتی ہیں اور مسلمان ممالک میں رہتی ہیں بھی تحفظ محسوس کریں گی۔

ریاست کو اپنے نظم و نسق چلانے میں کسی قسم کی مذہبی ضرورت کو آڑے نہیں آنے دینا چاہئے دائیں بازو کے لوگ مجھ سے اختلاف کریں گے ۔

معاشرے کو کسی بھی صورت لادین نہیں ہونا چاہئے اور اپنی اقدار کی حفاظت کرنی چاہئے بائیں بازو کے لوگ میر ی اس بات سے اختلاف کریں گے ۔

Zahid Mehmood
About the Author: Zahid Mehmood Read More Articles by Zahid Mehmood: 57 Articles with 75815 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.