مسلم کانفرنس ،مسلم لیگ اور قائد اعظم

 تحریر ! ماجد خان ،،،کراچی

مسلم کانفرنس ریاست جموں کشمیر کی پہلی سیاسی جماعت اس کا قیام 1932میں عمل میں آیا۔ اس کے قیام کا بنیادی مقصد مسلمانان کشمیر کے بنیادی حقوق کا حصول تھا کیوں کہ اس وقت کشمیر میں مسلمان بے پناہ مصائب کا شکار تھے۔مسلم کانفرنس اپنے قیام کے بعد مہاراجہ سے کسی حد تک کچھ مطالبات منوانے میں کامیاب ہو گئی تھی ، جس میں اخباری اشاعت ، تنظیم سازی ، تحریر و تقریر کی اجازت شامل تھی، اس بات کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ مسلم کانفرنس نے مہاراجہ کے اقتدار سے دستبردار ہونے یا کشمیر سے نکلنے کا مطالبہ نہیں کیا تھا بلکہ اس کی حکومت میں رہتے ہوئے مرحلہ وار بنیادی حقوق کا حصول ہی بنیادی مقصد تھا۔انہیں کوششوں کی وجہ سے ریاست میں1934 میں انتخابات ہوئے،حالانکہ اس میں مسلمانوں کو آبادی کے تناسب سے سیٹیں نہیں دی گئی تھیں یعنی کل75 نشستوں میں سے 35ارکان بذریعہ نامزدگی اور باقی45پر انتخابات ہونا تھے۔اس اسمبلی سے اس وقت تمام اراکین مستعفی ہوگئے جب انہیں علم ہوا کہ یہ برائے نام اسمبلی ہے جس میں انہیں کوئی اختیار حاصل نہیں۔ اس کے بعد1937میں از سر نو انتخابات ہوئے جس میں مسلم کانفرنس نے مسلمانوں کی کل ۲۱ میں سے ۱۹نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔اس اسمبلی کا پہلا اجلاس راج گڑھ سری نگر دسمبر 1938 میں ہوا۔اس اسمبلی کے قیام سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ کشمیری مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے درمیان میل جول بڑھنے اور ایک دوسرے کو سمجھنے کا موقعہ ملا۔ انہیں یہ احساس ہوا کہ الگ الگ مذاہب سے تعلق ہونے کے باوجود ان کے روز مرہ کے مسائل ایک جیسے ہیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ سرکاری ملازمتیں صرف ڈوگرہ ہندوؤں یا تھوڑی بہت ڈوگرہ مسلمانوں کو حاصل تھیں جبکہ باقی ماندہ لوگوں کو اس سے دور رکھا جاتا۔ یہ مسائل کشمیریوں کو ایکدوسرے کے قریب لائے اور بالآخر 1938میں ایک تاریخی قدم اٹھایا گیا۔ مسلم کانفرنس کا نام تبدیل کر کے نیشنل کانفرنس رکھ دیا گیا۔ اس موقعہ پر شیخ عبداﷲ نے اپنے خطاب میں کہ۔۔۔ بعض مسلمان اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ آٹھ لاکھ غیر مسلم نہایت آرام کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ یہ خیال خام ہے در حقیقت چند ہزار ہی ایسے ہوں گے جو مصائب سے بچے ہوئے ہوں۔ ہماری یہ مظلوم جماعت ان مظلوموں کے ساتھ براہ راست تعلق پیدا کرے اور اپنے اندر ایک ایسی لچک پیدا کرے کہ ان کی شمولیت میں کوئی بات مانع ہو تو اسے دور کیا جا سکے۔اس لئے ہم نے یہ قدم اٹھایا ہے ۔۔۔اس موقعہ پر مسلم کانفرنس کے رہنماء چودھری غلام عباس نے کہا کہ ۔۔۔!مسلم کانفرنس کا لباس بوسیدہ اور تار تار ہوچکا ہے۔ اب ہمیں ایک نئے قومی چولے کی ضرورت ہے۔لہٰذا اب وقت ّگیا ہے کہ ہم اس کرم خوردہ اور بوسیدہ لبادے کوٹکڑے ٹکڑے کر کے پھینک دیں۔۔۔جموں کے ایک اور صف اول کے رہنما اے آر ساغر نے کہا ۔۔!متحدہ قومیت وقت کی پکار ہے۔ جس نے اسے نہ سنا اسے مستقبل میں پشیمان ہونا نہیں پڑے گا۔۔۔نیشنل کانفرنس کے قیام کے ساتھ ہی اختلافات شروع ہوگئے۔ اس اختلاف کی بنیادی وجہ شیخ عبداﷲ کا نہرو اور کانگریس کی طرف جھکاؤ تھا۔اور وہ نیشنل کانفرنس کو نہرو کے تابع بنانے لگے۔ شیخ عبداﷲ کی ان قدامات پر کشمیر کے نامور مورخ اور صحافی دانشور پنڈت پریم ناتھ بزاز یہ کہنے سے باز نہ رہ سکے کہ (شیخ عبداﷲ) نے اپنے آپ کو کانگریس کی جھولی میں ڈالنے کا فیصلہ کرلیا۔

شیخ عبداﷲ سے اختلاف کی بنیاد پر چودھری غلام عباس اور دیگر مسلم زعماء نے مسلم کانفرنس کے احیاء کا فیصلہ کر لیا۔1940میں قرارداد پاکستان پاس ہونے کے بعد مسلم کانفرنس کی قیادت نے مسلم لیگ کے ساتھ دوستی بڑھائی۔ اس طرح ریاست جموں کشمیر کی دونوں جماعتیں نیشنل کانفرنس اور مسلم کانفرنس بالترتیب ہندوستان اور مجوزہ پاکستان کی حمایت میں تقسیم ہوگئے۔دلچسپ بات یہ کہ مہاراجہ کشمیر اور اس کا وزیر اعظم کشمیر کو ہندوستان اورپاکستان کے اثرات سے دور رکھنا چاہتے تھے۔

مسلم کانفرنس کا 1932میں اپنے قیام سے لے کر 1947کے وسط تک کا کردار اور اس کی جدوجہد کا مرکز کشمیری عوام کے حقوق کا حصول رہا اور اس نے مرحلہ وار کشمیری مسلمانوں کے حقوق میں سے کافی حد تک حاصل کر لئے ۔ ۱۹۴۴میں نیشنل کانفرنس اور مسلم کانفرنس کی الگ الگ دعوت پر قائد اعظم کشمیر تشریف لے گئے ،اس موقعہ پر امرسنگھ کلب میں ان کے اعزاز میں استقبالیہ دیا گیا۔ وہاں کشمیری نوجوانوں کے ساتھ بات چیت ہوئی۔ اس موقعہ پر ان سے کافی سوالات کئے گئے۔
انجینئر عبدالمنان خلیفہ جو کہ اس وقت وہاں موجود تھے انھوں نے اپنی کتابKASHMIR STORY کے صفحہ 66میں لکھا

I am told by a staunch Muslim Coferencite that he inquired from Quaid e Azam in presence of Ghulam Abbas, if they should openly propogate for acccession of the State with Pakistan. The reply was....No. You should only try to win independence from Dogra Ruler. Muslim League is non-committal on States..

اس موقعہ پر ایک اور نوجوان یوسف خان جو اس وقت وہاں موجود تھے اپنی یاد داشتوں کے حوالے سے جموں کے روزنامہ اڑان 7جون2012 کی اشاعت میں دیئے گئے انٹرویو میں کہتے ہیں۔۔۔قائد اعظم نے ہم سے کہا کہ ۔۔۔آپ لوگوں کو پاکستان کا نعرہ نہیں دینا چاہیئے ۔آپ کے لئے پاکستان سے الحاق ٹھیک نہیں ہے۔جو سیاسی جدوجہد ہم( مسلم لیگ) کر رہے وہ برٹش انڈیا کی سیاست ہے،آپ اس میں ملوث نہ ہوجائیں۔آپ کی ایک ریاست ہے۔ آپ کا راجہ ہندو ہے۔ہم تو ہماری جدوجہد کی وجہ سے ایک مخمصہ میں
پڑے ہوئے ہیں۔اب آپ بھی دوسرے مخمصہ کا شکار نہ ہوجائیں۔آپ کا نعرہ ٹھیک ہے،آپ آزاد کشمیر کے نعرہ پر ہی ڈٹے رہیں۔۔۔

قائد اعظم ہندوستانی ریاستوں سے متعلق اپنی الگ رائے رکھتے تھے اور ان کی اس رائے سے برطانیہ بھی متفق تھا۔ کیبنٹ مشن کے مطابق 1947میں برطانوی راج کے خاتمہ پر ہندوستانی ریاستیں آزاد ہو جائیں گی ان کے حکمرانوں کو یہ حق حاصل ہوگا کہ ہندوستان یا پاکستان سے الحاق کریں یا پھر آزاد رہیں۔ قائد اعظم نے شروع دن سے ہی کشمیر کو ہندوستان کی سیاست سے الگ کر کے دیکھا تھا اور وہ اسے برطانوی ہند کی سیاست کا حصہ نہیں بنانا چاہتے تھے۔اسی بناء پر جب 1940میں جب قرارداد پاکستان منظور ہوئی تو اس میں جن مجوزہ علاقوں پر ممکنہ پاکستان کا ظہور پزیر ہونا تھا ان میں کشمیر شامل نہیں تھا۔ قائد اعظم نے اپنے دورہ کشمیر میں بھی کشمیریوں کو برطانوی ہند کی سیاست کے بجائے اپنی آزادی کے لئے جدوجہد کا مشورہ دیا،جیسا کہ مضمون کے آغاز میں بتایا گیا ہے کہ مسلم کانفرنس کی جدوجہد کا مرکز کشمیریوں کے حقوق کا حصول رہی تھی جس میں وہ خاصی حد تک کامیاب رہی تھی۔ اس جدوجہد کے نتیجے میں کشمیر مین انتخابات ہوئے، اخبار نکالنے کی اجازت ملی ، تحریر و اظہار آزادی کا حق ملا۔ اس دوران مسلم کانفرنس نے کبھی مہاراجہ سے کشمیر چھوڑنے کا مطالبہ نہیں کیا اور نہ ہی اس کی حکمرانی کو چیلنج کیا۔ جولائی1946میں مسلم کانفرنس نے ایک تاریخی قرارداد منظور کی جس کے مطابق مہاراجہ سے ایک ایسی آئین ساز اسمبلی کا قیام عمل میں لایا جائے جو بالغ رائے دہی کے اصولوں پر منتخب کی جائے جس میں معاشرے کے ہر فرقے اور قومیت کے لوگوں کو اپنی آبادی کے تناسب سے اپنے نمائندے چننے کا موقعہ دیا جائے۔اور اس اسمبلی کو ریاست کا آئین مرتب کرنے کا اختیار ہو۔۱۱مئی۱۹۴۷کو صدر مسلم کانفرنس چوھدری حمید اﷲ خان کو اخباری بیان کے ذریعہ مہاراجہ سے مطالبہ کیا کہ وہ بلا تاخیر ریاست جموں کشمیر کی خود مختاری کا اعلان کردے اور ایک دستور ساز اسمبلی بلائے تاکہ ریاستی عوام اپنی خواہش کے مطابق دستور مرتب کر سکیں، ۲۸ مئی۱۹۴۷میں مسلم کانفرنس کے قائم مقام صدر چودری حمید اﷲ خان نے جموں میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ۔۔

ہم سب کے لئے بہتر یہی ہے کہ ہم مسلم لیگ اور کانگریس سے الگ تھلگ رہیں۔ہم ہندوستان اور پاکستان دونوں سے اپنے آپ کو علیحدہ رکھنا چاہتے ہیں لیکن ہم دونوں کے ساتھ سیاسی اور معاشی تعلقات رکھنا چاہتے ہیں لیکن ہم ان دونوں میں سے کسی کو اپنے اوپر اثر انداز نہیں ہونے دیں گے۔اس طرح مسلم کانفرنس کے مئی ۱۹۴۷تک کی سر گرمیوں سے اس بات کا انداذہ لگایا جا سکتا ہے کہ مسلم کانفرنس کی پالیسی قائدا عظم کے افکار کے مطابق تھی۔لیکن جولائی۱۹۴۷کے بعد سے ایسا کیا ہوا کہ مسلم کانفرنس کا ہر اقدام قائد اعظم اور ان کی مسلم لیگ کی کشمیر پالیسی کے الٹ ہی رہا۔قائد اعظم سے مسلم کانفرنس کے قائم مقام صدر چودھری حمیداﷲ خان اور پروفیسر اسحق قریشی کی قیادت میں ایک وفد نے ملاقات کی۔ اس ملاقات میں کشمیر کے حوالے سے تفصیلی گفتگو ہوئی۔ اس ملاقات کے بعد قائد اعظم نے ایک تفصیلی بیان جاری کیا جس میں انھوں نے کہا کہ۔۔۔کشمیر کے مسلمانوں کے ذہن پر چھایا ہوا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے کہ آیا کشمیر پاکستان میں شامل ہو رہا ہے۔میں ایک سے زائد مرتبہ واضح کرچکا ہوں کہ ہندوستانی ریاستیں اس امر کا فیصلہ کرنے میں آزاد ہیں کہ وہ پاکستان کے ساتھ شامل ہوں یا ہندوستان کے ساتھ یا آزاد رہیں،جو ریاستیں مکمل آزاد اور خود مختار رہنا پسند کریں گی ہم ان کی اس خواہش کا احترام کریں گے اور باہمی اور دو طرفہ مفاد کی خاطر ان سے مفید اوراچھے معاہدہ کریں گے۔قائد اعظم نے نہ صرف بیان جاری کیا بلکہ مسلم کانفرنس کی اعلیٰ قیادت کے نام ایک خط بھی روانہ کیا جس میں انھوں نے مسلم کانفرنس کی قیادت کو ریاست کے مستقبل کے حوالے سے کسی بھی قسم کے فیصلہ اور مہاراجہ پر زیادہ دباؤ نہ ڈالنے کا مشورہ دیا تھا۔

مسلم کانفرنس نے 18جولائی کو اپنی مجلس عاملہ کا اجلاس منعقد کیا جس میں قائد اعظم کاوہ خط پڑھ کر سنایا گیا اورجموں جیل سے چوہدری غلام عباس کا خطبھی پیش کیا گیا ان کی ہدایت کے مطابق ریاست جموں کشمیر کی خود مختاری کی حق میں قرارداد منظور کر لی گئی۔اس قرارداد کے دوسرے دن مسلم کانفرنس نے دوبارہ اجلاس بلایا اور قائد اعظم کے خط کو پھاڑ دیا اور الحاق پاکستان کی قرارداد منظور کرلی۔ اس اجلاس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ عجلت میں طلب کیے گئے اس اجلاس مین مجلس عاملہ کا کورم بھی پورا نہیں تھا۔ اس دن سے مسلم کانفرنس نے قائد اعظم کی کشمیر پالیسی کو خیر باد کہہ دیا۔
قائد اعظم نے مسلم کانفرنس کی اس حرکت کا نوٹس لیا اور 30جولائی1947کو ایک اخباری بیان میں ایک بار پھر اپنی کشمیر پالیسی کاا عادہ کیا اور مہاراجہ کو اس حوالے سے اطمینان دلانے کی کوشش کی کہ وہ کشمیر کے مستقبل کے حوالے سے اطمینان سے فیصلہ کرے۔۱۴ اگست کو پاکستان کا قیام عمل میں آگیا اور15اگست کو قائد اعظم نے مہاراجہ کشمیر کے ساتھ ایک معاہدہ جاریہ کیا اور مہاراجہ کو کشمیر کا حکمران تسلیم کرلیا۔ اس معاہدہ کے مطابق کشمیر کے محکمہ مواصلات یعنی جی پی او پر ریاستی پرچم کے ساتھ پاکستان کا پرچم بھی لہرانے لگا جو بعد میں بھی کئی برس تک لہراتا رہا۔

یہاں مسلم کانفرنس نے ایک بار پھر قائد اعظم کی کشمیر پالیسی کو اپنے قدموں تلے روندا اورریاست کے سرحدی اضلاع میں بغاوت کر دی ۔مسلم کانفرنس کی اس حرکت سے ریاست کے ان علاقوں جہاں مسلمان اقلیت میں تھے وہاں مسلمانوں کا قتل عام شروع ہوگیا۔ مہاراجہ اپنے سرینگر محل سے نکل کر جموں منتقل ہو چکا تھا۔ مہارانی نے وہاں اپنے بال کھول کر دہائی دی اور جموں کے آر ایس ایس کے ہندو غنڈوں نے وہاں مسلمانوں کا قتل شروع کر دیا۔ سونے پہ سہاگا 22اکتوبر 1947پاکستانی بیوروکریسی نے ان قبائلیوں جن کی نظر پشاور و اٹک پر تھی کا رخ کشمیر کی طرف موڑ دیا اور اس طرح ریاست جموں کشمیر پر کھلی جارحیت کردی گئی۔مہاراجہ نے کئی بار ٹیلگرام کے ذریعہ پاکستان سے احتجاج کیا کہ اس کے ساتھ معاہدہ جاریہ کیا گیا تھا اور اب اس معاہدہ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس پر حملہ کردیا گیا۔یہاں مسلم کانفرنس کے حوالے کچھ حقائق سامنے آتے ہیں۔

۱۔ خود کو قائد اعظم کا سچا پیروکار کہلانے کا دعویٰ کرنے والی مسلم کانفرنس نے قائد اعظم کے ۱۱ جولائی کے فیصلہ کے خلاف19جولائی کو الحاق پاکستان کی قرارداد کیوں منظور کی۔۲۔۱۵اگست کے قائد اعظم اور مہاراجہ کے معاہدہ جاریہ کرنے کے باوجود23اگست یعنی ایک ہفتے بعد ہی مہاراجہ کے خلاف مسلح جنگ کا اعلان کردیا۔۳۔ مسلم کانفرنس کے اس اعلان کے بعد مہاراجہ پر ہندوستان کا ریاست کا اس سے الحاق کے لئے دباؤ بڑھ گیا۔۴۔مسلم کانفرنس کی مسلح جنگ نے جموں میں آر ایس ایس کے غنڈوں کو جموں کے مسلمانوں کے قتل کا جواز مہیا کردیااور وہ ملک جو ہزاروں سال آزاد وخود مختار تھا اس کے حصے بخرے کر ڈالے اوراس پر ستم کہ آج تک اس جبراً تقسیم کے کارنامے کو کیش کرواتے ہوئے اقتدار کے مزے لوٹتے رہے ۔۔۔آفرین

Niaz Ahmad
About the Author: Niaz Ahmad Read More Articles by Niaz Ahmad: 98 Articles with 75338 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.