جھوٹ, مسائل

 1سُوال:ایک شخص نے کسی بات پر بِلا اجازتِ شَرعی جھوٹ بولا۔ اس پر جب اُس کو کسی نے ٹوکا تو اُس منہ پھٹ نے بکا:''آج کل سچّائی کازمانہ نہیں ہے میں نے جھوٹ بولا تو کیا بُرا کیا!''اِس طرح کہنے والے کیلئے کیا حکم ہے؟

جواب:اس طرح کہنے والے پر حکمِ کفر ہے۔ اِمامِ اَہلسنّت ، مولیٰنا شاہ امام اَحمد رضا خان عليہ رحمۃُ الرَّحمٰن کی خدمت میں استِفتا(اِس۔تِفْ۔تا)پیش ہوا:عَمرو نے جان بوجھ کر کچہری (کورٹ)میں جھوٹی گواہی دی۔ لوگوں نے اِس پر اِعتِراض کیا تو کہنے لگا: کچہری میں آج کل سچ کون بولتا ہے!جتنے جاتے ہیں سبھی وہاں جھوٹ ہی بولتے ہیں، اگر میں نے جھوٹ کہا تو کیا بُرا کیا!الجواب:حدیث میں فرمایا:جھوٹی گواہی دینے والا وہاں سے قدم ہٹانے نہیں پاتاحتّٰی کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ اُس کیلئے جہنَّم واجِب فرما دے گا ( اِبنِ ماجہ ج 3 حدیث2373) یہاں تک تو گناہِ کبیرہ ہی تھا جو آدَمی کی ہلاکت و بربادی کو بس ہے۔ آگے اس کا کہنا کہ''میں نے جھوٹ بولا تو کیا بُرا کیا!''صَریح کلمۂ کُفر ہے۔ اِس پر لازِم ہے کہ تجدیدِ اسلام کرے اور اگر عورت رکھتا ہو تو از سرِ نو اسلام لانے کے بعد اُس سے تجدیدِ نکاح ضَرور ی ہے۔ (فتاوٰی رضویہ ج 15ص149۔150)

2 سُوال:مُرید سے جھوٹ بولنے کا گُناہ صادِر ہوا، اِس پر اُس کے پیر صاحِب نے ٹوکا ۔ مُرید کہنے لگا:''حُضور ! آپ جیسی کامِل ہستی سے میری نسبت ہے، اِس طرح کی چھوٹی موٹی باتیں توچل جائیں گی ۔''حُکمِ شَرعی بیان کیجئے ؟

جواب:مُریدِ بے باک کا یہ جُملۂ ناپاک کُفر ہے کیوں کہ اِ س نے ایسے گناہ کو ہلکا جانا جس کا معصیَّت(نافرمانی) ہونا ضَروریاتِ دین میں سے ہے۔

(8) ایک آدمی نے جھوٹ بولا ،دوسرے نے کہا :اللہ تعالیٰ تیرے جھوٹ میں بَرَکت دے۔ یہ کہنا کفر ہے۔ (( عالمگیری ج2 ص260)
3
سُوال: کُفّار کے مَمَالِک میں نوکَری حاصل کرنے کیلئے ویزا فارم پر اپنے آپ کو جھوٹ مُوٹ یہودی لکھ دینا کیسا ہے؟

جواب:کفر ہے ۔ بعض لوگ جو اِزالۂ قرض و تنگدستی یا دولت کی زیادتی کیلئے کُفّار کے یہاں نوکری کی خاطِریا ویزا فارم پر یا کسی طرح کی رقم وغیرہ کی بچت کیلئے درخواست پر خودکو عیسائی(کرسچین)، یہودی،قادِیانی یا کسی بھی کافِر و مُرتد گُروہ کا''فر د'' لکھتے یا لکھواتے ہیں ان پر حکمِ کفر ہے

حضرتِ سیِّدنابِلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی اکرم، نورِ مُجَسَّم ، شاہِ آدم وبنی آدم ، رسُولِ مُحتَشَم صَلَّی اللہُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّم کی خدمتِ معظَّم میں حاضِرہوئے، اُس وقت حضور پُرنو ر ، شافِع یوم النّشور صَلَّی اللہُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّم ناشتہ کررہے تھے، فرمایا : اے بِلال ! ناشتہ کرلو، عرض کی: صَلَّی اللہُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّم! میں روزہ دار ہوں، تو رسول اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالیٰ عَلَیْہِ وَاٰلہ وَسَلَّم نے فرمایا :ہم اپنی روزی کھارہے ہیں، اور بلال کا ر ِزق جنت میں بڑھ رہا ہے،اے بلال ! کیا تمہیں خبر ہے کہ جب تک روزے دار کے سامنے کچھ کھایا جائے تب تک اُس کی ہڈیاں تسبیح کرتی ہیں، اسے فرشتے دُعائیں دیتے ہیں۔( شُعَبُ الْاِیمانج ۳ ص ۲۹۷حدیث ۳۵۸۶)

مُفَسّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر تِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحَمَۃُ الرَّحْمٰن فرماتے ہیں:اس سے معلوم ہوا کہ اگر کھانا کھاتے میں کوئی آجائے تو اُسے بھی کھانے کے لیے بُلانا سُنَّت ہے، مگر دِلی ارادے سے بُلائے جھوٹی offrتواضع نہ کرے، اور آنے والا بھی جھوٹ بول کر یہ نہ کہے کہ مجھےبھوک،طلب، خواہش نہیں، تاکہ بھوک اور جھوٹ کا اجتماع نہ ہوجائے، بلکہ اگر ( نہ کھانا چاہے یا) کھانا کم دیکھے تو کہہ دے : بَارَکَ اللہ( یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ برکت دے) یہ بھی معلوم ہوا

فون پر کی جانے والی فُضول باتوں کی 5مثالیں
فون پر بھی اکثر غیر ضَروری سُوالات کی ہوتے رہتے ہیں، پانچ مثالیں حاضرِ خدمت ہیں:(1)کیا کر رہے ہو؟(2)کہاں ہو؟(3)گاڑی میں فون آیا تو سامنے سے سُوال ہو گا اس وقت آپ کے پاس کون کون ہے؟(4)کدھر سے گزر رہے ہو؟ (5)کہاں تک پہنچے؟وغیرہ۔ہاں جوجو سُوال ضرورتاً کیاجائے وہ فُضُول نہیں کہلائے گا مگربعض سُوالات آدمی کو شرمندہ کر کے جھوٹ پر مجبور کر سکتے ہیں مَثَلاًہو سکتا ہے کہ سوال نمبر 3-2-1کا جواب وہ دُرُست نہ دے پائے کیوں کہ وہ نہیں چاہتا کہ کسی کو پتا چلے کہ کیا کررہا ہے یا کہاں ہے یا اُس کے پاس کون کون ہے۔ بس کام کی بات وہ بھی حسبِ ضرورت کرنے ہی میں دونوں جہاں کی عافیّت ہے۔

جھوٹ پر مجبور کرنے والے سُوالات کی14 مثالیں

قارئین کرام! بعض اوقات لوگ ایسے سُوالات کر دیتے ہیں کہ جواب دینے میں بے احتیاطی اور مُرُوَّت کی وجہ سے آدمی کے منہ سے جھوٹ نکل سکتا ہے اگر چِہ سوال کرنے والا گنہگار نہیں تاہم مسلمانوں کو گناہوں سے بچانے کیلئے بِلاضَرورت اِس طرح کے سُوالات سے اِجتناب (یعنی پرہیز) کرنا مناسب ہے۔ سُوالات کی 14مثالیں حاضِر ہیں: (1) ہمارا گھر ڈھونڈنے میں کوئی پریشانی تو نہیں ہوئی؟(2)ہمارے گھر کا کھانا پسند آیا ؟ (3)میرے ہاتھ کی چائے کیسی تھی؟ (4)ہمارا گھر آپ کو اچّھا لگا؟ (5) میرے لئے دُعا کرتے ہیں یا نہیں؟ (6)میں نے ابھی جو بیان کیا آپ کو کیسا لگا ؟(7) میں نے جو نعت شریف پڑھی تھی اس میں آپ کو میر ی آواز کیسی لگی ؟(8) میری بات آپ کو بُری تو نہیں لگی ؟(9) میرے آنے سے آپ کو تکلیف تو نہیں ہوئی ؟(10)میری وجہ سے آپ کو بوریت تو نہیں ہو رہی؟ (11) میں آکر آپ کی باتوں میں کہیں مُخِل تو نہیں ہو گیا؟(12)آپ مجھ سے ناراض تو نہیں؟(13)آپ مجھ سے خوش ہیں نا؟(14)میرے بارے میں آپ کا دل تو صاف ہے نا؟وغیرہ۔

عام طور پر یہی چلتا ہے کہ مخاطب کا دل رکھنے کے لیے جھوٹ بولا جاتا ہے جو کہ غضب الٰہی عزوجل کا موجب ہے۔ہاں سچ بول دینے سے کون سا ہمیں منہ میں ڈال لے گامثلا اگر گھر ڈھونڈنے میں کوئی پریشانی ہوئی تو سوال کرنے پر آپ بلاجھجک عرض کر دین ہاں ہوئی ہے اسی طرح دیگر سوالات کا بھی سچ میں جواب دیں یہی اسلام کی منشا ہے

بعض لوگ تو بڑے ہی عجیب ہوتے ہیں ،بات بات پر خوامخواہ اس طر ح تائیدطلب کرتے ہیں:(1) ہاں بھئی کیا سمجھے؟(2)میری بات کا مطلب سمجھ گئے نا؟ (البتّہ ضرورتاً شاگردوں یا ماتحتوں سے استاذ یا بزرگوں وغیرہ کاپوچھنا کبھی مُفید بھی ہو تا ہے تا کہ کسی کو سمجھ میں نہ آیا ہو تو سمجھایا جا سکے۔ایسے موقع پر سمجھ میں نہ آنے کی صورت میں سامنے والے کو چاہئے کہ جھوٹ موٹ ہاں میں ہاں نہ ملائے)(3) کیوں بھئی ! ٹھیک ہے نا ! '' (4) ''میں غَلَط تو نہیں کہہ رہا!'' (5) ''کیا خیال ہے آپ کا؟''اب بات لاکھ ناقابلِ قبول ہو مگرمُرُوَّ ت میںہاں میں ہاں ملا کر بار ہا جھوٹ بولنے کا گناہ کرنا پڑتا ہے۔ ایسے با تونی لوگوں کی اصلاح کی ہمّت نہ پڑتی ہو تو پھر ان سے کو سو ں دوررہنے ہی میں عافیت ہے کہ ان کی گناہوں بھری باتوں میں بھی ہاں میں ہاں ملانا کہیں جہنَّم میں نہ پہنچا دے! یہاں تک دیکھا ہے کہ اس طر ح کے بکواسی لوگ کبھی تو گمراہی کی باتیں بلکہ مَعا ذَ اللہ عزوجل کفریات بک کر بھی حسبِ عادت تائید حاصل کرنے کیلئے: ''کیوں جی ٹھیک کہہ رہا ہوں نا؟'' کہہ کر سامنے والے سے ہاں کہلوا کر بعض اوقات اس کابھی ایمان برباد کروا دیتے ہیں۔ کیوں کہ ہوش وحواس کے ساتھ کفر کی تائیدبھی کفر ہے ۔ اَلعِیاذُ بِاللہ عزوجل

فُضُول بات کی تعریف

بات کرنے میں جہاں ایک لفظ سے کام چل سکتا ہو وہاں مزید دوسرا لفظ بھیشامل کیا تو یہ دوسرا لَفظ'' فُضُول ''ہے۔چُنانچِہ حُجَّۃُ الْاِسلام حضرت سیِّدُنا امام محمدبن محمد غَزالی علیہ رحمۃ اللہ الوالی ''اِحیاءُ الْعُلُوم'' میں فرماتے ہیں:اگر ایک کلمے ( یعنی لفظ) سے اِس (بات کرنے والے) کا مقصود حاصِل ہو سکتا ہو اور وہ دو کلمے استِعمال کرے تودوسرا کلمہ فُضُول ہو گا۔ یعنی حاجت سے زیادہ ہو گا اور جو لفظ حاجت سے زائد ہے وہ مذموم ہے۔

(اِحْیاءُ الْعُلُوم ج۳ ص۱۴۱)

اگر ایک لفظ سے مقصود حاصِل نہ ہوتا ہو تو ایسی صورت میں دویا حسبِ ضَرورت جتنے بھی الفاظ بولے گئے وہ فُضُول نہیں۔بَہر حال فُضُول بات اُس کلام کو کہا جائے گا جو بے فائدہ ہو۔ ضَرورت ، حاجت یا مَنفَعَت ان تینوں دَرجوں میں سے کسی بھی '' دَرَجے'' کے مطابِق جو بات کی گئی وہ فُضُول نہیں اور بعض اوقات زینت کے دَرَجے میں کی جانے والی گفتگو بھی فُضُول نہیں ہوتی مَثَلاًاَشعار، بیان یا مضمون میں تحسینِ کلام (یعنی بات میں حُسن پیدا کرنے )کیلئے حسبِ ضَرورت مُقَفّٰی و مَسَجَّع (یعنی قافیے دار) الفاظ استِعمال کئے جاتے ہیں یہ بھی فُضُول نہیں کہلاتے ۔ کبھی مخاطَب (یعنی جس سے بات کی جارہی ہے اُس کے) تَفَہُّم ( تَ۔فَہْ۔ہُم)یعنی سمجھنے کی صلاحیّت کومدِّنظر رکھتے ہوئے بھی ضَرورتاً الفاظ کی کمی اور زیادَتی کی صورت بنتی ہے ۔ جو کہ فُضُول نہیں تَفْہِیم (تَفْ۔ہِیم) یعنی سمجھانے کے اعتِبار سے لوگوں کی تین قِسمیں کی جا سکتی ہیں(1) انتہائی ذِہین(2) مُتَوَسِّط یعنی درمیانے دَرَجے کا ذِہین (3) غَبی یعنی کُند ذِہن۔ جو'' اِنتہائی ذِہین'' ہو تا ہے وہ بعض اوقات صِرف ایک لفظ میں بات کی تہ تک جا پہنچتا ہے جبکہ درمیانے دَرَجے کی سمجھ رکھنے والے کو بِغیر خُلاصے کے سمجھنا دُشوار ہوتا ہے ، رہا کُندذِہن تو اس کو بَسا اوقات دس بار سمجھایا جائے تب بھی کچھ پلّے نہیں پڑتا ۔ مُخاطَبِین کی اِس تقسیم کے مطابِق یہ بات ذِہن نشین فرما لیجئے کہ جو ایک لَفظ میں بات سمجھ گیا اُس کو اگر اُسی بات کیلئے دوسرا لفظ بھی کہا تو یہ دوسرا لفظ فُضُول قرار پائے گا، اِسی طرح درمِیانی عَقل والا اگر 12الفاظ میں سمجھ پاتا ہے تو اُس کے سمجھ جانے کے باوُجُوداُسی بات کا 13واں یا اِس سے زائد جو لفظ بِلامَصلحت بولا گیا وہ فُضُول ٹھہرے گا اور رہا کُند ذِہن کہ اگر 100الفاظ کے بِغیر بات اِس کے ذِہن میں نہیں بیٹھتی تو یہ 100 الفاظ بھی چُونکہ ضَرورت کی وجہ سے بولے گئے لہٰذا فُضُول گوئی نہیں کہلائیں گے۔

’’ اگر ماں باپ جھوٹ بولنے کا حکم دیں یا داڑھی مُنڈوانے یا ایک مٹھی سے گھٹانے کا کہیں تو ان کی یہ باتیں ہر گز نہ مانیں چاہے وہ کتنے ہی ناراض ہوں ، آپ نافرمان نہیں ٹھہریں گے، ہاں اگر مان گئے تو ربّ کے نافرمان قرار پائیں گے۔‘‘

حد قذف تہمت کی سزا ہے یعنی اسی کوڑے یعنی اگر تو جھوٹ کہہ رہا ہے تو اقرار کرلے اسی۸۰ کوڑے کھا کر تیری رہائی ہو جائے گی،آخرت کا عذاب رسوائی و دوزخ کی آگ بہت سخت ہے۔

مسئلہ ۷: جس قسم کے مبالغہ کا عادۃً رواج ہے لوگ اسے مبالغہ ہی پر محمول کرتے ہیں اس کے حقیقی معنی مراد نہیں لیتے وہ جھوٹ میں داخل نہیں، مثلاً یہ کہا کہ میں تمھارے پاس ہزار مرتبہ آیا یا ہزار مرتبہ میں نے تم سے یہ کہا۔ یہاں ہزار کا عدد مراد نہیں بلکہ کئی مرتبہ آنا اور کہنا مراد ہے، یہ لفظ ایسے موقع پر نہیں بولا جائے گا کہ ایک ہی مرتبہ آیا ہو یا ایک ہی مرتبہ کہا ہو اور اگر ایک مرتبہ آیا اور یہ کہہ دیا کہ ہزار مرتبہ آیا تو جھوٹا ہے۔ (1) (ردالمحتار)
syed imaad ul deen
About the Author: syed imaad ul deen Read More Articles by syed imaad ul deen: 144 Articles with 320366 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.