’ تنقید برائے تنقید‘۔ (معاشرتی رویہ)

ـ تحریر: ثمین عزیزلاہور، پاکستان

دنیا کا سب سے دلچسپ اور آ سان کام جس کے لیے نہ تو دفتر کے چکر لگانے کی ضرورت ہے اور نہ اعلیٰ ڈگریوں کی۔ مشرق سے مغرب تک، ائیر کنڈیشنڈ کمرے سے لے کر دھوپ میں جلتے فٹ پاتھ تک، ان پڑھ سے تعلیم یافتہ تک ، بچے سے لے کر بوڑھے تک، مرد اور خواتین سب ہی اس’ بہترین‘ کام میں مصروف نظر آتے ہیں۔ کچھ لوگ تو بنا تنخواہ کے یہ کام اتنی دلجمی سے کرتے ہیں کہ دل کرتا ہے انہیں نو بل انعام کے لیے منتخب کر دوں۔ باتی زبانوں کا تو پتہ نہیں مگر اردو میں اس عظیم کام کو’ تنقید‘ ــ کہتے ہیں۔ ویسے تو ہم سب ایک سے بڑھ کر ایک ہیں مگر ہمارے سیاستدان سب پر بازی لے گئے ہیں۔ اتنے جوش اور خوشی سے تو شادیوں میں مبارک باد نہیں دی جاتی جتنے جوش سے ہمارے سیاستدان ایک دوسرے پر تنقید کرتے ہیں۔ کہیں مخالفین کو حکومت کی پالیسیوں سے اختلاف ہے تو کہیں حکومت مخالفین کی فرمائشوں سے تنگ ہے۔ تنقید کے اس کھیل میں مذہبی رہنما بھی کسی سے پیچھے نہیں ہیں۔ مولویوں اور علما ء کو لبرل حضرات سے شکایت ہے کہ انہوں نے کچھ زیارہ ہی آسان بنا دیا ہے اسلام کو، ماڈرن سکالرز اس بات کو روتی ہیں کہ مولویوں نے اسلام کو تنگ نظر اور ڈنڈے کا مذہب بنا دیا ہے۔ اﷲ ہی جانے کس کا شکوہ جائز ہے۔
عام عوام ویسے تو سیاستدانوں اور مذہبی پیشوا وٗں پر کھل کر تنقید کرتی ہے اور اگر کسی کا یہاں بس نا چلے تو ’امریکہ‘ حاضرِ خدمت ہے۔ کوئی سوسائٹی کو کوستا ہے تو کوئی اخلاقی اقدار کو۔مشرق کو مغربی تہذیب سے الجھن ہے اور مغرب مشرقی روایات کو فرسودہ قرار دیتا ہے۔ ساس بہو کے کام میں کیڑے نکالتی ہے اور کہیں بیوی شوہر کی جان بخشنے پر تیار نہیں۔لباس سے رہن سہن تک، صورت سے سیرت تک، تعلیمی اداروں سے دفاتر تک، شوبز سے سپورٹس تک،ہر جگر تنقید اور صرف تنقیدکیونکہ زبان اپنی ہے کون سا پیسے لگتے ہیں۔ کہیں اس کو ’اظہارِ رائے کی آزادی‘ کا نام دیا جاتا ہے اور کہیں ’ نصحیت‘ کا مگر ان تمام چیزوں میں فرق ہے۔

کچھ لوگوں کو میرا یہ آرٹیکل بھی ’تنقید‘ لگے گا مگر بعض اوقات اپنی بات سمجھانے کے لیے تنقید کا سہارا لینا پڑتا ہے۔’ تنقید‘ بے شک اچھے مقصداور نیت سے کیوں نہ کی گئی ہو کبھی کبھی یہ دل اور رشتے دونوں کے ٹوٹنے کا سبب بن جاتی ہے۔ دوسروں پر تنقید کرنے سے پہلے اپنا محاسبہ کر لینا چاہیے اور اگر کوئی کچھ کہ بھی دے تو جوابی حملہ کرنے سے پہلے سوچ لینا چاہیے کہ کہیں یہ دل آزاری کا باعث تو نہیں۔ یہ ہی انسانیت کا تقاضہ ہے۔۔!!
تحریر: ثمین عزیزلاہور، پاکستان
Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1027919 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.