امام حسین رضی اﷲ عنہ

تحریر:علامہ محمد راغب حسین نعیمی

خانوادۂ آغوش رسالت کے اہم فرد حضرت امام حسین ؓ کا پورا نام حسین بن علی بن ابو طالب ہے۔ آپ باب ِ مدینۃ العلم حضرت علی کرم اﷲ وجہہ اور بضعۃ رسول اﷲ سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا کے چھوٹے صاحبزادے اور حضرت امام حسن رضی اﷲ تعالی عنہ کے چھوٹے بھائی ہیں۔ امام حسین رضی اﷲ عنہ کے والد گرامی سید علی کرم اﷲ وجہہ الکریم نے آغوش نبوت میں پرورش پائی اور بچوں میں سب سے پہلے اسلام کو قبول فرمایا۔ جرأت و بہادری کی بنا پر اسد اﷲ کا لقب عطا ہوا۔ علم کی زیادتی کی بنا پر باب مدینۃ العلم کا ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنی چھوٹی اور لاڈلی صاحبزادی سیدہ فاطمۃ الزہرہ سے آپ کا نکاح فرمایا۔ آپ چوتھے امیر المومنین و خلیفہ المسلمین ہیں۔ حضرت امام حسین رضی اﷲ عنہ کی والدہ ماجدہ سیدہ فاطمۃ الزہرہ رضی اﷲ عنہا محبوب خدا صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی محبوب بیٹی تھیں۔ نبی کریم نے آپ کے بارے میں فرمایا کہ جس نے فاطمہ کو تکلیف دی اس نے مجھے (محمد ﷺ) کو تکلیف دی۔ آپ کو نساء العالمین کی سردار ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔

حضرت امام حسین رضی اﷲ عنہ کی تاریخ پیدائش کی دو روایات 3 شعبان المعظم اور 5 شعبان المعظم سن 4 ہجری ہے۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم نے آپ کے دائیں کان میں اذان اور بائیں میں اقامت کہی اور اپنے لعاب دہن سے پہلی غذا مرحمت کی اورآپ کا نام حسین رکھا۔

حضرت امام حسین رضی اﷲ عنہ کی کنیت ابو عبد اﷲ اور زکی، رشید طیب ، وفی سید، مبارک، سبط اور تابع لمرضاۃ اﷲ آپ کے القابات ہیں۔ پیغمبر اسلام کی گود میں جو اسلام کی تربیت کا گہوارہ تھی۔ ان دو بچوں کی پرورش میں مصروف ہوئی۔ ایک حسن اور دوسرے حسین، آغوش رسالت میں دونوں پروان چڑھ رہے تھے۔ ایک طرف پیغمبر اسلام جن کی زندگی کا مقصد ہی اخلاق انسانی کی تکمیل تھی اور دوسری طرف امیر المومنین حضرت علی کرم اﷲ وجہہ جو اپنے عمل سے خدا کی مرضی کے خریدار بن چکے تھے۔ تیسری طرف حضرت فاطمۃ الزہرہ جو خواتین کے طبقہ میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی سیرت کو عملی جامہ پہنانے کی کامل تصویر تھیں۔ ان تینوں ہستیوں کے زیر سایہ حضرت امام حسن و حسین رضی اﷲ تعالی عنہم نے پرورش پائی اور ظاہری و باطنی علم کو حاصل کیا۔
نبی کریم ﷺ دونوں بھائیوں سے یکساں محبت فرماتے تھے اور دونوں شہزادے اپنے نانا کی تصویر تھے۔ حضرت فاطمۃ الزہرہ فرماتی ہیں کہ میر ے دونوں بیٹے میرے نبی (صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم)کے مشابہ ہیں اور حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کے مشابہ نہیں ہیں۔ سیرا علام النبلاء میں ہے کہ امام حسین سر سے سینہ تک اور امام حسین سینہ سے قدم تک نبی کریم ﷺ کے مشابہ تھے۔

نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کے بیشمار فرمان محبت حسین پر دلالت کرتے ہیں جیسے ترمذی شریف میں ہے کہ ’’حسین منی وانا من الحسین ، احب اﷲ من احب الحسین ،حسین سبط من الاسباط یعنی حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں۔ جو حسین سے محبت کرے اﷲ اس سے محبت کرے۔ حسین میری اولاد ہے۔ ایک مرتبہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم حضرت فاطمۃ الزہرا کے گھر میں تشریف لائے اور حضرت علی ؓ حضرت فاطمہ ، حضرت حسین ؓ اور حضرت حسین ؓ سب کو چادر میں لے کر فرمایا الھم ھؤلآ اھل بیتی ۔ اللھم اذھب عنھم الرجس و طھرِ ھم تطھیرا پروردگارِ! یہ میرے اہل بیت ہیں ان سے ہر قسم کے عیب و رجس کو دور رکھنا اور انہیں کما حقہ پاک رکھنا۔ اس کے بعدآیت نازل ہوئی۔ انما یرید اﷲ لیذھب عنکم الرجس اھل البیت ویطھر کم تطہیرا(سورۃ الاحزاب)

بلا شبہ اﷲ نے ارادہ کیا ہے کہ اے اہل بیت تم سے ہر قسم کے رجس کو دور رکھے اور جس طرح طہارت کا حق ہے اس کمال طہارت سے تمہیں آراستہ رکھے۔

حضرت امام حسین نہ تولمبے اور نہ ہی چھوٹے قد کے تھے۔ سرخی مائل سفید رنگ کشادہ پیشانی ، چوڑا سینہ، وسیع کندھے، بڑے قدم، خوبصورت آواز، اخلاق راضی ہونے والے عبادت گزار اور صوم و صلوۃ میں کثرت کرنے والے تھے۔

علم ایک نور ہے اور یہ نور چہروں سے چھلکتا ہے۔ اس چھلکتے ہوئے نور کی تابانیوں کو دیکھنا ہے تو اس لاٹ پادری کے الفاظ کو غور سے پڑھیے اور سنیے کہ میں ان روشن چہروں کو اپنے سامنے دیکھ رہا ہوں اگر تم ان کا مقابلہ پر نکل پڑے تو تم غارت ہو جاؤ گے۔ بقا چاہتے ہو تو ان کا مقابلہ نہ کرو۔ امام حسین وہی ہیں کہ جن کے بارے میں مدینہ میں ایک شخص نے کہا کہ میں حضرت حسین سے ملنا چاہتا ہوں تو بتانے والے نے بتایا کہ مسجد نبوی میں چلے جاؤ وہاں حلقہ لگا ہو گا۔ حلقے میں جو ہستی بول رہی ہو گی وہی امام حسین ہوں گے۔ جب وہ سائل مسجد نبوی پہنچا تو دیکھا کہ ایک حلقہ ہے جس میں سب لوگ خاموشی سے ایک ایسی ہستی کو سن رہے ہیں جو علم و عرفان کے موتی بکھیر رہی ہے اور یہ حضرت امام حسین تھے۔
جو ایک طرف اشعار کی صورت میں اپنا مافی الضمیر یوں بیان کررہے تھے۔

فان تکن الدنیا تعد نفیسۃ
فان ثواب اﷲ أعلی و أنبل
وان تکن الأبدان للموت نشٔت
فقتل امریٔ فی اﷲ بالسیف أفضل
وان تکن الأ رزاق قسما مقدرا
فقلۃ حرص المرء فی السعی اُجمل
وان تکن الأموال للترک جمعھا
فما بال متروک بہ المرء یبخل

اور دوسری طرف نثر کی صورت میں اپنے دل کی کیفیات اور حالت کو بیان کرتے ہیں۔ اور حاصل کیے ہوئے علم کو اپنے عمل سے بیان کر کے بتا دینا چاہتے ہیں کہ یہ علم ہے اور یہ اس کا عمل یہ ہے۔ طبرانی کی بیان کردہ روایت کے مطابق نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہٖ وسلم کی شجاعت حضرت امام حسین کو ملی ہے اور اس علم شجاعت کا مظہر حقیقی اس وقت نظر آتا ہے جب کربلا میں علم شجاعت پر عمل کر کے دیکھا دیا کہ علم کو ایسے عمل میں لاتے ہیں۔

حضرت امام حسین ؓ کی تربیت کو دیکھنے کے لیے ہمیں اس واقعہ کو بھی سامنے رکھنا ہو گا جب محمد بن حنفیہ نے آپ ؓ کو خط لکھا اور کچھ الفاظ ایسے تحریر کیے جس سے حضرت امام سمجھ گئے کہ مجھے میرے بھائی سے ملے ہوئے تین دن ہونے والے ہیں آپ فوراً اٹھے اور اپنے بھائی محمد بن حنفیہ کو ملنے چلے گئے اور اس حدیث پر عمل کیا کہ کسی مسلمان کے لیے روا نہیں کہ وہ تین دن تک اپنے مسلمان بھائی سے نہ ملے اور اس کے معاملات سے آگاہی حاصل کرے۔

امام حسین ابتدائی عمر ہی سے اصلاح و تعلیم کی طرف رجحان رکھتے تھے۔ اکابر مدینہ اسلامی مسائل میں ان سے رجوع کرتے حضرت امام قرآن مجید کے مطالب اور رسول اﷲ کی احادیث بیان فرماتے تھے ۔ عبادت و ریاضت آپ کا معمول تھا۔ بکثرت نوافل پڑھتے تھے۔ قیام اللیل آپ کا عام دستور تھا۔ روزے کثرت سے رکھتے تھے۔ آپ نے پچیس پیادہ حج کیے ۔ حسب و نسب کی کرامت و شرافت اور بلندی کے باوجود حد درجہ کا تواضع و انکسار پایا جاتا تھا۔ آپ کے مکتوبات ، خطبات ملفوظات آپ کی فصاحت و بلاغت اور علم و حکمت کی شہادت دیتے ہیں۔
abdul rehman jalalpuri
About the Author: abdul rehman jalalpuri Read More Articles by abdul rehman jalalpuri: 22 Articles with 26376 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.