سکھ مت

سکھ مت
سکھ کی تعریف:
’’سکھ‘‘کے معنی شاگرد یا مُرید کے ہیں۔ ہر وہ شخص سکھ کہلاتا ہے جو اپنے آپکو سکھ کہے اوردس گروؤں کاشاگردمانے اور ان کی تعلیمات اورملفوظات پرایمان رکھے اور اس پر عمل کرئے۔ ایسا شخص سکھ کے نام سے موسوم ہوتا ہے۔
سکھ مذہب کا مختصر تعارف:
سکھ مذہب ایک غیر سامی،آریائی اور غیر وَیْدِکْ مذہب ہے ۔ اگرچہ یہ دنیا کے بڑے مذاہب میں تو شامل نہیں ہوتا مگر یہ مذہب ہندومت سے نکلنے والی ایک شاخ ہے۔ جس کا آغاز پندرھویں صدی کے آخر میں ہوا ۔ اس کا مسکن پاکستان اور شمالی بھارت کا وہ علاقہ ہے جس کو پنجاب بھی کہا جاتا ہے۔ جس کا مطلب ہے پانچ دریاؤں کی سرزمین۔
سکھ مت کا پس منظر:
سکھ مت دنیا کے جدید ترین مذاہب میں سے ایک ہے۔ اس کا آغاز سولہویں صدی میں ہوا۔ یہ بنیادی طور پر دو مذہب کا مجموعہ ہے۔ کچھ لوگ اسے الگ سے ایک مذہب نہیں مانتے۔ ان کے نزدیک یہ مذہب کی تعریف پر پورا نہیں اترتا۔ کیونکہ اس میں نہ عقائد کی تفصیل ہے اور نہ معاملات کی تشریح۔ اس لیے وہ اسے کوئی باقاعدہ مستقل مذہب شمار نہیں کرتے بلکہ وہ اسے ہندومت کی ایک اصلاحی تحریک قرار دیتے ہیں ۔ جو ہندومت میں اصلاح چاہتا ہے۔ البتہ یہ مذہب دینِ اسلام کے چند عناصر کی بھی تبلیغ کرتا نظر آتا ہے اس لیے اپنی بقاء کو قائم رکھے ہوئے ہے۔
سکھ مت ہندوستان میں ہمیشہ اقلیت کی حیثیت سے رہا ہے۔ موجودہ دور میں اس کی آبادی ایک کروڑ سے زیادہ نہیں ہے۔ سکھ حضرات مرکزی طور پر شمال مغربی ہندوستان کے پنجاب کے علاقے میں رہتے ہیں ۔ اور یہ ہی انکا آبائی علاقہ ہے۔
برصغیر پاک وہند ہمیشہ سے مختلف مذاہب کی آماجگاہ رہا ہے ۔ لیکن بارہویں صدی میں مذہب اسلام کے آنے سے یہاں کا مذہبی ماحول بدل گیا۔ اب تک کی تاریخ بتاتی تھی کہ جو بھی یہاں آیا یہاں کے رنگ میں رنگا گیا۔ لیکن جب دین اسلام نے برصغیر پاک وہندمیں قدم رکھا تو اِس دین نے یہاں کا رنگ قبول نہیں کیا بلکہ اپنا رنگ جمایا ۔
اس دور میں ہندوستان کے گوشے گوشے میں صوفیاء کرام کے سلسلے بھی پھیل چکے تھے جو اپنے ،اپنے مسلک میں ذاتی مشاہدے اور باطنی تجربے پر زور دیتے تھے۔ ہندوستان میں مذہبی زندگی کا ایک مخصوص مذہبی ماحول پیدا ہوچکا تھا۔ ایسے ہی مذہبی ماحول میں سکھ مت کے بانی گرونانک صاحب نے آنکھیں کھولیں۔ اور اپنے مذہبی احساس کی شدت اور مسلک کونئی بلندیوں سے متعارف کرایا۔
گرونانک کا تعارف:
تاریخ پیدائش:
باباگرونانک کی پیدائش 15اپریل 1469 ؁ء ہے۔
جائے پیدائش:
باباگرونانک کی جائے پیدائش لاہور کے جنوب مغرب میں 125میل کے فاصلے پر ایک گاؤں ’’تلونڈی ‘‘ میں ہوئی ۔جسکا موجودہ نام ’’ننکانہ صاحب‘‘ ہے۔
والد کا نام اور پیشہ:
آپ کے والد کا نام ’ ’کَلْیان چند‘‘ عرف کالو تھا۔ جوکہ متوسط درجے کے پڑھے لکھے تھے۔ بابا گرونانک کے والدمحترم ایک مقامی مسلم زمیندار ’’را ئے بُلد د‘‘ کے منشی تھے۔ ایک اور قول کے مطابق بابا گرونانک کے والدمحترم دوکاندار تھے۔ اس کے علاوہ گاؤں کے پٹواری بھی تھے۔ آپ کی والدہ کا نام ’’ ترپتا ‘‘ تھا۔

خاندان :
بابا گرونانک کا تعلق کھشتری خاندان سے تھا۔
تعلیم:
بابا گرونانک نے اپنے علاقے میں مروجہ علوم کے مطابق عربی اور فارسی کی تعلیم ایک مسلمان استاد سے حاصل کی۔ اس کے علاوہ بابا گرونانک نے سنسکرت زبان بھی سیکھی اور ہندومذہب کی مقدس کتب کا علم بھی حاصل کیا۔
رجحان:
آپ کے بڑھتے ہوئے روحانی رجحان کو دیکھتے ہوئے آپ کے والد ’’کالو‘‘ بہت پریشان رہتے تھے۔ ایک مرتبہ آپ پندرہ سال کے تھے کہ انہوں نے آپ کو کچھ رقم(40روپے)دیے تاکہ بازار سے تجارت کی غرض سے سودا سلف خریدکر لائیں اور اپنا کاروبارشروع کرلیں۔ راستے میں جنگل میں آپ کی ملاقات چند’’ ساد ھوؤں‘‘ سے ہوئی جو کئی دن سے فاقے سے تھے ۔ آپ نے وہ تمام رقم ان کے کھانے پینے پر خرچ کردی اور اپنی طرف سے ’’نفع بخش سودا‘‘ کرکے گھر پہنچے جس پر آپ کے والد محترم نے آپ کو بہت سخت ڈانٹا۔ جہاں یہ واقعہ پیش آیا تھا اس جگہ کو آج بھی سکھ مذہب میں ’’سچا سودا‘‘کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔
سفر:
16یا 18یا19سال کی عمر میں آپ اپنے بہنوئی ’’جے رام ‘‘کے پاس سلطان پور آگئے۔ جے رام ’’نواب دولت خان لودھی‘‘کا ملازم تھا۔
شادی:
یہاں سلطان پور میں نواب صاحب کے پاس قیام کے دوران آپ کے بہنوئی اور بہن ’’نانکی‘‘ کی کوششوں سے گرونانک کی شادی موضع لکھنو، تحصیل بٹالہ، ضلع گور داس پورکے ایک کھشتری خاندان میں ’’سُلکھنی‘‘ نامی خاتون سے ہوگئی۔ جس سے آپ کے دوصاحبزادے ’’پری چند‘‘ اور ’’ لکشمی داس‘‘پیدا ہوئے۔ ’’پری چند‘‘ اور’’ لکشمی داس‘‘کی اولاد اب بھی پنجاب کے مختلف علاقوں میں آباد ہے۔ ایک قول کے مطابق آپ کی شادی 12سال کی عمر میں ہوئی تھی۔
ملازمت:
اپنی تعلیمی قابلیت ،ذاتی صلاحیت ، خاندانی شرافت اور نواب صاحب کے دربار میں تعلقات کی وجہ سے آپ کو نواب صاحب کی انتظامیہ میں سرکاری گودا م کا نگران مقرر کردیا گیا۔ گرونانک صاحب نے یہ ملازمت آٹھ یا نو سال تک کی۔ لیکن پھر کچھ حاسدوں نے نواب صاحب سے ان کے کام کی شکایت کی۔ نواب صاحب نے جب ’ ’خیرا ت گھر‘‘ کا معائنہ کیا تو معاملات کو درست پایا۔لیکن باباگرونانک نے ان حاسدوں کے رویے سے دل برداشتہ ہوگئے اور ملازمت سے استعفیٰ دے دیا۔
شعروشاعری:
باباگرونانک میں شاعری کاذوق اور شعر کہنے کی ملکہ قدرتی تھی۔ اس لیے باباگرونانک اپنی روحانی کیفیت کے دوران خدائے واحد کی حمد وثناء اور عشق حقیقی میں ڈوبے اشعار مرتب کرتے تھے۔ باباگرونانک کا معمول تھا کہ اپنے بچپن کے ساتھی ’’مردانہ‘‘ کے ساتھ شہر سلطان پور کے پاس ایک ندی کے کنارے پر جاکر ندی کے ٹھنڈے پانی سے غسل کرنے کے بعد وہیں پر بیٹھ کر اپنی شاعری میں خدائے واحد کی حمد وثناء موسیقی کے ساتھ ترنم میں پڑھتے تھے۔ جبکہ آپکا دوست مردانہ’’رُباب‘‘ کی موسیقی کے ساتھ ان کا ساتھ دیتا۔ شام کو بھی اپنے معمولات سے فارغ ہونے کے بعد وہ اسی طرح یاد الہٰی کی محفل سجاتے ۔ جس میں باباگرونانک کے چند عقیدت مند بھی حاضر ہوتے اس طرح ایک مدت گزر گئی۔

معرفت الہٰی :
سلطان پور میں گرونانک صاحب نے بھگتی رحجانات کے زیر اثر خدائے واحد کی پرستش اختیار کر رکھی تھی ۔ کہا جاتا ہے کہ ایک روز باباگرونانک اپنے معمول کے مطابق ندی میں نہانے کے لیے اترے تو واپس باہر نہ نکلے۔ ندی میں ہر طرف آپ کی تلاش کی گئی ۔ آپ نواب صاحب کے بہت قریب تھے اس لیے انہوں نے غوطہ خوروں اور ندی میں جال کے ذریعے آپ کی تلاش کی لیکن بے کار رہی۔ جب سب مایوس ہوگئے تو باباگرونانک تیسرے دن ندی سے برآمد ہوئے۔ سب نے باباگرونانک کے غائب ہونے کی وجہ دریافت کی تو باباگرونانک نے ایک جواب دیا کہ’’نہ کوئی ہندو نہ کوئی مسلمان‘‘ سکھ مذہب کے ایک قول کے مطابق باباگرونانک صاحب کو خدا کے حضور عشق الہٰی کا جام عطاء ہوا اورذکر الہٰی کی اشاعت کی ذمہ داری سونپی گئی۔
نئی راہیں:
اس واقعہ کے بعد باباگرونانک نے تمام افراد اور ذمہ داریوں سے کنارہ کشی اختیار کرلی اور جنگل میں گوشہ نشینی اختیار کرلی۔ گویا کہ یہ واقع باباگرونانک کی زندگی میں اہم موڑ لایا۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اس واقعے نے باباگرونانک کی زندگی کی راہیں ہی بدل دیں۔ چنانچہ آپ کچھ مدت کے بعد اپنے علاقے میں تشریف لائے۔ لیکن رہنے کے لیے نہیں بلکہ ایک نئے سفر پر جانے کے لیے۔ باباگرونانک سیروسیاحت کے ذریعے سے معرفت الہٰی(ل) کی تلاش کرنا چاہتے تھے ۔ چنانچہ باباگرونانک کے عزیزواقارب نے باباگرونانک کو بہت سمجھانے کی کوشش کی۔ لیکن آپ نے اپنے عزیزواقارب کو یوں جواب دیا۔
’’میں ایک بے کار گوّیا تھا مجھے مالک نے کام سے لگا لیا*شروع ہی سے اس نے مجھے دن رات اپنی حمد وثناء کا حکم دیا ہے*مالک نے گوّیے کو اپنے دربار میں حاظر ہونے کا حکم دیا ہے*جہاں اس نے تعریف اور سچی عزت کی خلعت پائی *اس وقت سے اسم حق کا ورد اس کی خوراک بن گیا*جو بھی اس خوراک کو کھائے گا وہ مکمل مسرت سے بہرہ یاب ہوگا*خدا کی حمد وثناء کرکے میں اس کی تعریفوں کو عام کررہا ہوں*نانک نے خدا کی سچی تعریفیں بیان کرکے اس کو مکمل طور پر پایا‘‘*
سیاحت اور پہلا سفر:
اس کے ساتھ ہی باباگرونانک کی 25سالہ سیاحت کا دور شروع ہوتا ہے۔ جو چار مرحلوں پر مشتمل ہے۔ جس میں سے پہلا سفر 12سال پر محیط ہے۔ جو 1497 ؁ پر محیط ہے ۔ جو 1497 ؁ سے 1509 ؁ تک کے عرصے پر محیط ہے۔ اس میں آپ نے مشرقی ہندوستان میں بنگال،آسام تک کا سفر کیا اور واپسی میں اڑیسہ کی طرف سے ہوتے ہوئے وسط ہنداور پھر راجستان کے راستے واپسی اختیار کی۔
ا س سفر میں باباگرونانک نے تمام ہندومذہبی مقامات کادورہ کیا اور وہاں اپنے مسلک کی تبلیغ کی۔ اس سفر میں باباگرونانک کے ساتھ انکا خاندانی مراثی’’لہنا‘‘جو بعد میں آپکا جانشین بنا ، باباگرونانک کا دوست ’’مردانہ‘‘ جو رباب بجانے کا ماہر تھا۔ باباگرونانک کا خاندانی ملازم ’’بالا‘‘ اور ’’رام داس بدھا‘‘ بھی شامل تھا۔ اُس وقت باباگرونانک کی عمر36سال تھی۔
دوسرا سفر:
باباگرونانک نے دوسرا سفر 1510 ؁ میں شروع کیا ۔ یہ سفر جنوب کی طرف تھا ۔ باباگرونانک کا یہ سفر پانچ(5)سال پر مشتمل تھا۔باباگرونانک اس سفر میں سری لنکا تک گئے۔جب باباگرونانک اس سفر سے واپس آئے تو ان کے ایک مرید اور کچھ کسانوں نے نہیں کچھ اراضی نذر کی۔ جہاں گرونانک صاحب نے گاؤں’’ کرتارپور‘‘کی بنیاد ڈالی۔


تیسرا سفر:
باباگرونانک کا تیسرا سفر شمال کی طرف تھاجس میں آپ نے کوہ ہمالیہ میں واقع پہاڑی ریاستوں اورکشمیر سے ہوتے ہوئے تبت تک گئے۔ یہ سفر 1515 ؁ ہی سے شروع ہو کر 1517 ؁ تک جاری رہا۔ آپ نے اس سفر سے واپسی پر تھوڑا عرصہ اپنے وطن میں قیام کیا اور پھر آپ نے اپنے اگلے سفر پر چل دیئے۔
چوتھا سفر:
آپکا یہ چوتھا اور آخری سفر تھا ۔ اس سفر میں آپ ایران ،عراق،وسط ایشیاء سے ہوتے ہوئے سعودی عرب تک گئے۔ اس سفر میں آپ نے ایک حاجی اورمسلم فقیر کا لِبادہ اوڑھا ہوا تھا ۔اس چوتھے سفر کے دوران سکھ مذہب کے اقوال میں موجود ہے کہ انہوں نے بیت اللہ کا حج کیا اور کعبہ آپ کی طرف موڑا۔ اس سفر میں بھی آپ نے اپنے مخصوص انداز سے اپنے مخصوص نظریات کا پرچار کیا۔ آپ کا یہ سفر 1521 ؁ میں پنجاب پہنچنے پر ختم ہوا ۔
سکونت:
چوتھے سفر سے واپس آکر باباگرونانک نے اپنی سیاحت کے دور کو ختم کیا اور اپنے بنائے ہوئے گاؤں میں سکونت اختیار کی۔لہٰذا وہاں پر ہی آپ نے اپنے والدین کواور اہل خانہ کو بلالیا۔ایک سال کے بعد ہی آپ کے والدین یکے بعد دیگرے انتقال کرگئے۔
ذریعہ معاش:
باباگرونانک نے اپنی مستقل سکونت اختیار کرنے کے بعد کھیتی باڑی کو اپنا ذریعہ معاش بنایا۔ اور اس طرح حلال روزی کی تعلیم وتلقین کو عملی جامہ پہناتے ہوئے بطور نمونہ پیش کیا۔


باقی حیات :
آپ نے اپنی عمر کے بقایا 18سال ایک فقیر اور درویش کے روپ میں کرتار پور میں گزارے۔ آپ کی زندگی کا یہ دور سکھ مذہب کے اعتبار سے زیادہ معنی خیز ثابت ہوا۔ یہاں پر آپ کا ’’ڈیرہ‘‘ایک روحانی مرکز کی حیثیت سے مشہور ہوگیا۔ یہاں آپ کے بہت سے مریدین دور ونزدیک سے حاظر ہوتے اور آپ سے روحانی فیض حاصل کرتے۔
جانشینی کا انتخاب:
جیسا کہ آپ کے کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ نے تمام عمر رب باری تعالیٰ واحدہ لاشریک کی حمدوثناء کی۔ آپ کے اس طرز عمل سے آپ کے گرد ایک حلقہ عقیدت مندوں کا جمع ہوگیا۔ آپ نے اپنی زندگی کے اختتام پر اپنے ایک مرید ’’لہنا‘‘ کو جب فنافی الشیخ کے مقام پر پایا تو اس کو اپنا جانشین مقرر کردیا۔ اور کہا یہ میری روح کا حصہ ہے ۔ ایسی سے آپ کی روحانیت کا ایک سلسلہ چل پڑا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ سکھ مذہب میں ہر گرو اپنے آپ کو نانک بھی کہتا ہے ۔ اور ایسی جانشینی کی وجہ سے باقاعدہ ایک مذہبی تنظیم کی بنیاد ڈالی اور یوں سکھ مذہب وجود میں آیا۔
وصال:
آپ اپنا جانشین مقرر کرنے کے 20دن بعد 22ستمبر 1539 ؁ کو 71سال کی عمر میں اس دار فانی سے کوچ کرگئے۔
ماحول کا اثر:
گرونانک نے جس ماحول میں آنکھ کھولی تھی وہ پنجاب کا علاقہ تھا۔ جو روحانی مراکز کا گڑھ سمجھا جاتا تھا۔ جہاں بڑی قدآور شخصیات موجود ہیں۔ جہاں ایک طرف سید علی ہجویری رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ تو دوسری طرف بابا فرید گنج شکر رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ ہیں۔ یہاں مخدوم جہانیاں اور شیخ اسمٰعیل بخاری رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ ، مادھولال حسین رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ ، حضرت میاں میر رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ ،حضرت شاہ جمال رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ ،شیخ سرہندی رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ ، جیسی شخصیات اور انتہائی محترم بزرگ موجود ہیں ۔ ان کی پارسائی ، پرہیزگاری اور شفقت کی وجہ سے ہندوومسلمان یکساں ان سے مستفیدہوتے تھے۔ اوروہ چشمہ ہائے معرفت تھے جن سے بابا گرونانک نے اپنی معرفت کی پیاس بجھائی تھی۔
اتحاد کا حامی:
گرونانک بھی ہندومسلم اتحاد واتفاق کے حامی تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ یہ دونوں قومیں باہم مل جائیں۔ جس کا ان کے نزدیک ایک ہی راستہ تھا کہ ان دونوں قوموں کو خدا کی توحید اور معرفت پر جمع کیا جاسکتا ہے۔
سکھ مت میں داخلِ کا طریقہ:
کوئی شخص سکھ خاندان میں پیدا ہو کر سکھ نہیں بنتابلکہ پختہ عمر میں پاہل لینے کے بعد سکھوں میں شامل ہوتا ہے۔ اس رسم میں میٹھے پانی کے پیالے میں کرپان پھیری جاتی ہے اور نئے سکھ کو عقیدئے کی سچائیاں اورممنوعات کی تعلیم دی جاتی ہے۔ اس کے بعد اس پر اس پانی کے چھنیٹے مارے جاتے ہیں۔ اس کے بعد وہ فرد یا شخص مذہب میں شامل ہوتا ہے۔
گرونا نک کی تعلیمات:
اوہام پسندی، ضعیف الاعتقادی۔ رسوم پرستی ان کے نزدیک بے معنی اشیاء تھیں ۔ وہ ہندوؤں سے کہتے کہ پتھروں پر جاکر بے معنی رسوم ادا کرنا۔ گنگا کے پانی کو مُعتبر جاننا اور چارویداوراٹھارہ پران اٹھائے پھیرنا بے کار ہے ۔ جب تک معرفت الہٰی نہ حاصل ہوجائے۔وہ مسلمانوں سے کہتے شفقت کو اپنی مسجد، خلوص کو اپنا مصلیٰ، اور عدل وانصاف کو اپنا قرآن بنا۔ حیاکو اپنا ختنہ، تہذیب کو اپنا روزہ ، تقویٰ کو اپنا کعبہ ، راستی کو اپنا مرشد، نیک عمل کو اپنی نماز بنا۔ جب جا کر تو مسلمان بنے گا۔ اور اللہ تجھے آبرومند کرئے گا۔
اسلام سے عقیدت:
بابا گرونانک کا اسلام کی طرف رجحان بہت زیادہ تھا۔ آپ نے اسلامی تعلیمات کے متعلق عقیدت ومحبت میں ڈوب کر نہ صرف اسلام اور ارکان اسلا م پر کوئی تنقید نہیں کی بلکہ کلمہ، نماز، روزہ، قرآن پاک ، صحابہ کرام رضوان اللّٰہ تعالیٰ علیھم اجمعین اور نبی پاک ﷺ کی شان میں بڑھ چڑھ کر کلام کیا۔
سکھ مت کے عناصرد ین:
اعتقادات :
۱۔ ایمان باللہ ۲۔ ایمان بالرسول ۳۔ ایمان بالآخرۃ
عبادات:
۱۔ بدنی عبادات ۲۔ مالی عبادات ۳۔ مالی وبدنی عبادت
۴۔ صوم وصلوٰۃ ۵۔ زکوٰۃ ۶۔ حج
اخلاقیات:
۱۔ اخلاق حسنہ
اعتقادات
توحید:
سکھوں کی مذہبی کتاب گرنتھ صاحب میں’’مول منتر‘‘ کلام کو ان کے تمام کلام میں سب سے زیادہ مقدس سمجھا جاتا ہے ۔ جو کہ ان کا سب سے پہلا شاعری میں اظہار کا کلام تھا۔ جو انہوں نے سلطان پور کے قیام کے دوران کہا تھا اس میں بابا گرونانک نے بڑی جامیعت سے ذات خداوندی کا تصور پیش کیا ہے۔ انہوں نے بت پرستی کی سخت مخالفت کی ۔ گرونانک کی رب باری تعالیٰ کے بارے میں رائے کچھ یوں تھی:
’’کہ وہ نہ تو کسی شخصیت کا مالک ہے اور نہ ہی کسی صفت کا مالک ہے۔ وہ اکیلا ہے، جوناقابلِ تقسیم ہے۔ وہ زمان اورمکان سے ماوراء ہے۔ وہ ایسا آزاد ہے جو ہر شئے میں سمایا ہوا ہے‘‘۔
وہ کہتے کہ!
’’ اگرچہ اس کی تعریف کرنا ممکن نہیں لیکن پھر بھی اسے کسی نام سے یاد تو کرنا ضروری ہے۔ اس لیے آپ واضح طور پر خداکے نام کا ذکر کرتے تھے‘‘۔ وہ ’’اوتار‘‘اور’’ حلول‘‘کے عقیدے کے منکر تھے۔
رسالت:
نعت نبی کریم ﷺ:
حضور پاک ﷺکی شان کے بارے میں گرونانک لکھتے ہیں:
کیتھے نورمحمدی ڈیتھے نبی رسول
نانک قدرت دیکھ محر خودی گئی سب بھول
تمام انبیاء کے نور کا ،نور محمدی سے ظہور ہوا۔ نانک خدا کی یہ قدرت دیکھ کر اپنی خودی بھول گیا۔
اٹھے پہر بھوندا پھرے کھاون سنڈرے رسول
دوزخ پوندا کیوں رہے جال چت نہ ہوئے رسول
جن لوگوں کے دلوں میں نبی پاک ﷺکی عقیدت ومحبت نہ ہوگی وہ اس دنیا میں بھی بھٹکتے پھریں گے اور مرنے کے بعد ان کا ٹھکانا جہنم ہوگا۔ دنیا کی نجات حضور ﷺکی غلامی ہی سے وابستہ ہے۔
ہند و کہن نا پاک ہے دوزخ سولی
کہودو اللّٰہ اور رسول کو اور نہ بوجھو کوئی
ہندو رسول(ﷺ) اور اللہ(ل) کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے ناپاک الفاظ بکتے ہیں۔ وہ یقیناًجہنمی ہیں۔ سچے دل سے تصدیق کرو کہ اللہ(ل) اور اس کا رسول (ﷺ) برحق ہیں ۔ اس کے سوا کچھ نہ پوچھو۔
عبادات
نماز:
گرونانک نماز کے بارے میں اپنے خیالات ان الفاظ میں پیش کرتا ہے۔
فریدا بے نماز اکیتا
ا یہہ نہ بھلی ریت
کبھی چل نہ آیا
پنجے وقت مسیت
اٹھ فریداوضوساج
صبح نماز گزار
جو سر سائیں نہ ہنویں
سوسرکپ اتار
جو سرسائیں نہ ہنو یں
سوسر کیجئے کاٹیں
کنے ہیٹھ جلائیے
بالن سندڈتے تھائیں
بابا فرید گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ جی کہتے ہیں کہ اے بے نمازی کتے!تیرا یہ طریق پسندیدہ نہیں ہے کہ کبھی بھی پانچ وقت چل کر نماز پڑھنے کے لیے مسجد میں نہیں جاتا۔ اے فرید صبح اٹھ کر وضو کرو اور نماز پڑھو۔ جو سر خدا تعالیٰ کے حضور نہیں جھکتا اسے جسم سے الگ کردو۔ جو سرخدا تعالی کے حضور نہیں جھکتا وہ کس کام کا !وہ تو بے کار ہے۔ ایسے سرکوچولھے میں ہنڈیا کے نیچے ایندھن کی طرح جھونک دو۔ اسی طرح ایک جگہ آتا ہے!
جمع کرنام دی پنج نماز گزار
باجھوں یاد خدائے دلے لہو سیں بہت خوار
پانچوں نمازیں باجماعت پڑھا کر، اگر تونے اس طرح یاد خدا سے غفلت کی تو بہت ذلیل ہو گا۔
زکوٰۃ :
بابا گرونانک زکوٰۃ کے بارے کہتے ہیں:
لعنت برسے نت نہاں جو زکوٰۃ نہ کڈھدے مال
دھکا پوندا غیب دا ہونداسب زوال
ان پر اللہ تعالیٰ کی لعنت جو اپنے مال سے زکوٰۃ نہیں نکالتے ایسوں پر اچانک غیب سے عذاب آتا ہے اور سارا مال ودولت ختم ہو جاتا ہے۔
روزہ:
روزے کے بارے میں گرونانک کہتے ہیں:
’’تیہہ کررکھے پنج کر ساتھی ناؤں شیطان مت کٹ جائی‘‘
’’ تو نے تیس روزے رکھے اور پانچ نمازیں ساتھ پڑھیں لیکن دیکھنا جس کا دوست شیطان ہے ۔ وہ کہیں سارے اعمال کو ہی ضائع نہ کردے‘‘۔اسی طرح ’’سکھ کتب میں صاف لکھاہے کہ گرونانک جی دوسال مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں ٹھرے تھے اور گروجی کا اکثر وقت روزہ داری ہی میں گزرتا تھا۔
نیز سکھ کتب سے یہ بھی ثابت ہے کہ گرو جی نے اوروں کو بھی روزہ رکھنے کی تلقین کی ہے۔ ؂
حج:
آخر کار گرونانک اسلام کی طرف مائل ہوئے اور مزارات پر جانا شروع ہو گئے اور پھر یہ تڑپ اتنی بڑھی کہ دل میں آرزوئے حج پیدا ہوئی ۔ جیسا کہ جنم ساکھوں میں ایک ان کا قول موجود ہے۔ ’’مردانہ‘‘ ان حاجیوں کو جانے دو۔ اگر ہماری قسمت میں حج کعبہ ہے تو ہم بھی پہنچ جائیں گے۔ مردانہ یہ راہ ایسی ہے کہ اگر مہر ،محبت خدمت کرتے جائیں تو فیض حاصل ہوتا ہے اور اگر ہنسی مذاق کرتے جائیں تو حاجی نہیں بن سکتے۔
آخر جب یہ عزم بالجزم بن گیا تو ’’ ایک دن بابا جی نے مردانہ سے کہا کہ چل ہم بھی دیدار اور حج مکہ کریں‘‘ گورونانک جی نے مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ میں ایک سال تک قیام کیا تھا۔
قرآن مجید:
قرآن مجید کلام الہٰی ہے ۔ اسلام کی تعلیمات کا سرچشمہ ہے۔ حیات اسلامی دستور ہے ۔ یہ حضور پاک ﷺکا ایسا معجزہ ہے جس کا آج تک کوئی رد نہیں کرسکا۔ چیلنج کے باوجود اس کے مقابلے میں کوئی آج تک کچھ نہیں بنا سکا ہے۔ گرونانک اس کی حقانیت وسچائی سے متاثر ہو کر لکھتے ہیں:
کل جگ کے زمانہ میں صرف قرآن شریف ہی منظور شدہ کتاب ہے دوسری تمام کتابیں منسوخ ہوگئیں ہیں۔ اب اللہ تعالی کی صفت رحمانی جلوہ گرہے۔

آخرت
پل صراط:
گرونانک پل صراط کے بارئے میں لکھتے ہیں:
پل صراط کا راستہ بڑا کھٹن ہے۔وہاں کوئی کسی کا ساتھ نہ دے گا۔ ہر ایک کواکیلا گزرنا ہوگا۔ اس طرح ایک او رجگہ آتا ہے۔
پل صراط بال سے باریک ہے۔ کیا اس پر چلنے کی مصیبت کے بارے میں نے تو کچھ سنا نہیں۔ بابافرید جی کہتے ہیں کہ ظالم خود کواپنے ہاتھوں بربادنہ کر ۔
جواں مردی:
اس تمام کے باوجود ان کایہ بھی عقیدہ تھا کہ اپنی ذات کے فرائض ضروری ہیں۔ جب تک کہ انسان اپنی دنیاوی زندگی میں عشق الہٰی میں کمال نہ حاصل کرلے ۔ اس وقت تک وہ بار،بار اس دنیا میں مختلف شکلوں میں جنم لیتا رہے گا۔ جن کی تعداد چوراسی (۸۴)لاکھ تک بتائی جاتی ہے۔ اسے اس دوران ایک بار ضرور ایسانادر موقعہ ملتا ہے جس میں وہ عشق الہٰی میں کمال حاصل کر لیتا ہے۔ اور یہ صرف انسان کی صورت میں پیدا ہوکر ہی ممکن ہوتا ہے۔
اگر انہوں نے سچے طریقے سے عشق حقیقی کو نہ پایا تو انہیں ۸۴لاکھ مختلف زندگیوں سے گزرکر ایک طویل مدت کے بعد یہ موقعہ ملے گا۔
انا کی نفی:
گرونانک کے نزدیک خدا تک پہنچنے میں سب سے بڑی رکاوٹ انسان کی انا یعنی’’میں‘‘ ہے۔ ان کے نزدیک انسان اس ’’میں ‘‘ کی حقیقت کو سمجھ جائے تو اس کی نفی کرکے اپنے مالک حقیقی سے جڑ سکتا ہے۔ جیسا کہ آپ لکھتے ہیں:
اگر انسان اس ’’میں‘‘ کی حقیقت کو سمجھ لے تو اس کو خدا کا دروازہ مل جائے ۔ انسان معرفت کے بغیر فضول کی بحث میں پڑا رہتا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ گرونانک نے بعض دوسری نفسانی بیماریوں کا بھی ذکر کیا ہے۔ ان کے خیال میں جب تک انسان ان بیماریوں سے پاک نہ ہو اس وقت تک وہ اپنے رب کو نہیں پاسکتا ۔ جیسے کہ وہ اپنی تبلیغ میں کہتے تھے خواہشات،لالچ،دنیا سے تعلق اور غصہ وغیرہ سے انسان فلاح نہیں حاصل کرسکتا۔
رہبانیت:
گرونانک رہبانیت کے سخت خلاف تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اس معاشرے میں رہتے ہوئے ازدواجگی زندگی گزار کر خدا کو یاد رکھنا ہی زندگی کا کمال ہے۔ ایسی لیے وہ نیک صحبت،خدمت خلق ، ایمانداری، سے روزی کمانا اور اس میں دوسروں کو شریک کرنا ، انکساری اور محبت کے ساتھ مخلوق سے پیش آنے، جیسے امور کو وہ عشق الہٰی کے حصول کے لیے معاون سمجھتے تھے۔
مساوات:
گرونانک کی تعلیمات میں سے ایک اہم ترین جزء اخوت ومساوات کا تھا۔ گرونانک کہتے تھے کہ ’’نہ کوئی ہندو ہے اورنہ کوئی مسلمان ‘‘۔ سب بھائی بھائی ہیں۔ گرونانک ذات پات کا سخت دشمن تھا۔ گرونانک کا نظریہ تھا کہ سب انسان اللہ کے نزدیک برابر ہیں۔
گرونانک کے تبلیغی نکات:
گرونانک صاحب کی تعلیمات سے ایک چیز جو سامنے آتی ہے وہ یہ کہ آپ کوئی مذہبی مفکر یا فلسفی نہیں تھے ۔ بلکہ آپکا سارا زور عشق الہٰی اور عرفان الہٰی کی تلقین پر ہی رہاہے۔ گرونانک کی تبلیغ کے اہم نکات درجہ ذیل یہ ہوتے تھے:
1۔ گرونانک نیکی کی دعوت دیتے رہے۔
2۔ بُرائی سے روکتے تھے۔
3۔ ریاکاری سے روکتے تھے۔
4۔ خود غرضی سے روکتے تھے۔
5۔ دنیاداری سے روکتے رہے۔
6۔ جھوٹ کے خلاف تبلیغ کرتے رہے۔
7۔ تمام کو اللہ کے ہاں حساب دینا ہے۔
8۔ نجات نیک عمل سے ہوگی۔
9۔ حضور پاک ﷺکی نعت پڑھتے تھے۔
10۔ قرآن مجید کو سرچشمہ ہدایت کہا کرتے تھے۔
11 ۔ کسی اسلامی عقیدے کی نفی نہیں کرتے تھے۔

گور نانک کی کرامات:
اگرچہ بابا گرونانک نے اپنی پوری زندگی میں کبھی بھی کرامت دیکھانے بات نہیں کی ۔ بلکہ وہ اپنے آپ کو عام انسان اور گنہگار ہونے کا اعتراف کرتے تھے۔ مگر اس کے باوجود پھر بھی ان سے کچھ کرامات کو منسوب کیا جاتا ہے۔
کالے ناگ کا چہرے پر سایہ کرنا:
نوجوانی کے ایام میں اپنے مویشیوں کو کھیتوں میں چرا رہے تھے ۔ بڑی سخت دھوپ اور گرمی کے دن تھے۔ بابا نانک دھوپ سے بچنے کے لیے ایک درخت کے سائے کے نیچے تھوڑی دیر کے لیے لیٹ گئے اور نیند آگئی ۔ تاہم سورج کی کچھ کرنیں آپ کے چہرے پر پڑرہی تھیں، پاس ہی ایک کالا ناگ جس نے آپ کے چہرے پر سایہ کر رکھا تھا اپنے منہ کی کھال سے ۔ یہ سارا منظر تلونڈی کے سردار رائے صاحب نے دیکھا تو فوراً گھر واپس آکر نانک کے والدین کویہ خوشخبری سنائی کہ آپ کا بیٹا عظیم انسان بنے گا۔ لیکن ان کے والدین نے کہا خدا ہی بہتر جانتا ہے۔

آبِ حیات:
ایک دن نانک صاحب کو سخت پیاس لگی تو انہوں نے گاؤں کے قریب تالاب سے پانی لانے کے لیے ایک چرواہے سے کہا کہ جاو تالاب سے پانی لاؤ۔ تو اس نے جواب دیا حضور میں صبح وہاں گیا تھا تالاب خشک تھا اس میں پانی کا ایک قطرہ بھی نہیں تھا۔ تو بابا گرونانک نے نہیں کہا جاکردیکھو پانی اس میں ہے؟ جب وہ چرواہا تالاب پر آیا تو دیکھ کر حیران ہو گیا کہ واقعی تالاب پانی سے بھرا ہوا ہے ۔ حالانکہ صبح سویرے وہ یہاں سے گزرا تھا تو تالاب میں ایک قطرہ بھی پانی نہ تھا۔ آج بھی یہ تالاب امرت سر میں موجود ہے ۔ جس کو آبِ حیات کے نام سے بھی موسوم کیا جاتا ہے۔

پنجہ صاحب:
کابل قندھار جاتے ہوئے راستے میں انہوں نے ایک بڑی چٹان جو کہ گررہی تھی اسے گرنے سے روک دیاتھا۔ اس پر آپ کے پنجہ کا نشان آج بھی موجود ہے ۔ اس مقام کو ’’ پنجہ صاحب‘‘ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔
انتقال کے بعد جسم کا غیب ہو جانا:
آپ کی وفات کے بعد ہندو اور مسلمانوں میں سخت تنازع ہوا۔ ہندوؤں کا کہنا تھا کہ نانک ہندوؤں کے گھر پیدا ہوا ہے لہٰذا ہندو ہے اور ہم اس کے جسدے خاکی کو جلائیں گے، جبکہ مسلمان اسے خدا پرست اور خدا شناس سمجھتے تھے وہ اسے دفن کرنا چاہتے تھے۔ کوئی فیصلہ نہ ہوسکا تو دونوں طرف سے تلواریں نکل آئیں ،آخر کچھ لوگوں نے فیصلہ دیا کہ نانک کے جسدے خاکی کو نہ جلایا جائے اور نہ ہی دفن کیا جائے بلکہ اسے بعد کفنانے اور خوشبو لگانے کے راوی میں بہادیا جائے۔ مسلمان اس پر راضی نہ ہوئے اور ہلہ بول کر اندر جاگھسے، جہاں پر نانک کا جسدے خاکی پڑا ہوا تھا۔ اندر جاکر چادر ہٹائی تو اس میں بابا نانک کی لاش غائب تھی اور چندپھول چادرکے نیچے سے برآمد ہوئے، خیال ظاہر کیا گیا کہ شاید کوئی نانک کی لاش کو اٹھا کر لے گیا ہے۔ مسلمانوں نے چاہا کہ اس چادر اور پھولوں کو لے جاکر دفن کردیا جائے مگر ہندو بھی تیزی سے آگے بڑھے اور انہوں نے مسلمانوں کے ہاتھوں سے آدھی چادر کھینچ لی۔ سو مسلمانوں نے آدھی چادر دفن کردی اور ہندوؤں نے اسے جلاڈالا۔ بعد ازاں سکھوں نے کرتارپور میں ان کی یاد میں ایک مقبرہ تعمیر کیا، جہاں ہر سال سکھ بڑی تعداد میں اپنی مذہبی رسوم ادا کرتے ہیں۔
سکھ مت کا ارتقاء:
سکھ مت کے بانی گرونانک نے اپنی مذہبی زندگی کو باقاعدہ جماعت کی تشکیل کے نظریہ سے نہیں گزارا بلکہ اپنے ذاتی تجربے کی روشنی میں گزارہ اور اس سے حاصل ہونے والے مشاہدات وطریقے کار کی روشنی میں تبلیغ کے فرائض انجام دے۔جس کی وجہ سے سکھ مت ابتداء میں ایک تحریک اور پھر بعد میں آنے والے گروؤں نے اس کو ایک مذہب کی شکل دی۔ بعد میں آنے ولے گروؤں کی سکھ مذہب میں خدمات کا مختصر خلاصہ کچھ یوں ہے:


2۔ گرو اَنْ گد:
یہ بابا گرونک کے بعد پہلے گرو ہیں۔ان کو یہ رتبہ حاصل ہے کہ نہیں بابا گرونانک نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں گرو کے رتبے پر فیض کیا۔ انہوں نے مقامی رسم الخط میں کچھ تبدیلیاں کرکے ایک نیا رسم الخط ایجاد کیا ۔ اور اس کا نام ’’گرمکھی‘‘ رکھا۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے گرونانک کے جملہ کلام کو جو انہوں نے اپنی سیاحت کے دوران جمع کیا تھا اور سنتوں کے کلام کو ’’گرمکھی‘‘میں لکھوایا ۔
دوسرا کام انہوں نے یہ کیا کہ گرونانک کے ایک قریبی ساتھی’’بالا‘‘ کے ذریعے سے گرونانک کی سوانح حیات مرتب کرائی ۔ جس میں انہوں نے گرونانک کی تعلیمات کو بھی تلخیص کے ساتھ تحریر کیا۔
3۔ گروامرداس:
سکھوں کے تیسرے گرو’’گرو امرداس‘‘ (1574 ؁ تا 1552 ؁)تھے۔ گرو انگد نے گرونانک کے طریقے پر چلتے ہوئے اپنے بیٹوں کی بجائے انہیں منتخب کیا تھا۔ انہوں نے سکھوں کو جو کہ پورے پنجاب میں منتشر تھے۔ پہلی مرتبہ منظم کرنے کے لیے اصلاحات کیں۔ ایسی گرو کے شہنشاہ اکبر کے ساتھ بہت اچھے تعلقات تھے۔
4۔ گرو رام داس:
سکھ مت کے چوتھے گرو رام داس (1518 ؁ تا 1574 ؁) تھے ۔ انہوں نے سکھوں کی شادی اور مرنے کی رسومات ہندو مذہب سے الگ متعین کیں۔ ’’ ستی‘‘ کی رسم کی مخالفت کی اور بیواؤں کی شادی پر زور دیا۔
انہوں نے گرونانک سے منسوب ایک قدرتی چشمہ پر قائم حوض کو مزید وسعت دے کر ایک تالاب کی شکل دی۔ جس کا نام امرت سر(چشمہ آب حیات )تھا۔ جو بعد میں ایک مقدس مقام بن گیا اور اس کے گرد ایک شہر آباد کیا۔ اور اس شہر کا بھی یہی نام ’’ امر ت سر‘‘ پڑگیا۔

5۔ گروارجن دیو:
سکھ مت کے پانچویں گرو، گرو ارجن دیو(1606 ؁ تا 1581 ؁) تھے۔ ان کا سکھ مت کو ایک باقاعدہ الگ مستقل مذہب بنانے میں سب سے اہم کردار ہے۔ گرو ارجن دیو کا سب سے بڑا کارنامہ ’’ گرنتھ صاحب‘‘ کا مرتب کروانا ہے۔ جو اس سے پہلے سینہ با سینہ چلی آرہی تھی۔
انکا دوسرا کار نامہ ’’ ہری مندر‘‘ کی تعمیر بھی ہے۔ یہ مندر انہوں نے امرت سر تالاب پر بنوایا۔ جسے اب ’’دربارصاحب‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
گرو ارجن سنگھ نے سکھوں سے ’’دس ونتھ‘‘ یعنی عشرہ وصول کرنے کا انتظام کیا اور تین شہر ’’ترن تارن‘‘، ’’کرتارپور ‘‘، اور ’’ہر گو بند پور‘‘ آباد کئے۔ پھر اس کی بادشاہ وقت جہانگیر سے مخالفت ہوگئی، جہانگیر نے گرو ارجن سنگھ کو قتل کروا دیا اس کا مال واسباب سب ضبط کرلیا۔
6۔ گرو ہر گوبند:
گرو ارجن دیو کے بعد اُس کا بیٹا گرو ہر گو بند (1644 ؁ تا 1606 ؁ ) اس کا جانشین ہوا ۔ یہ سکھ مت کے چھٹے گرو تھے ۔ گرو گوبند نے اپنی مسند نشینی کے موقع پر عام اعلان کیاکہ سکھ مذہب میں دین اور سیاست دونوں یک جان ہیں۔ ان کے اس علان کے بعد سکھ مذہب میں سیاست کی بنیاد پڑی۔ اب گرو کا پرانا تصور جو کہ ایک مذہبی راہنماکا تھا تبدیل ہو گیا اور اس پر سیاسی راہنما کا پہلو غالب آچکا تھا۔
انہوں نے پنجاب کے مغل گورنر کے ساتھ تین اہم جنگیں لڑنی پڑیں جن میں انکا پلہ بھاری تھا۔ انہیں جہانگیر نے ’’گوالیار‘‘ کے قلعہ میں کچھ دنوں کے لیے نظر بند کردیا تھا۔ جہاں سے وہ لاہور کے مشہور صوفی بزرگ میاں میر رحمتہ اللہ تعالیٰ علیہ کی سفارش سے رہائی پاسکے ۔
انہوں نے امرت سر سے اپنی رہائش ختم کرکے شمال مشرق کے پہاڑی علاقے میں ایک باغی راجہ کے پاس اپنے لیے محفوظ ٹھکانہ تلاش کرلیا۔ اور وہیں اپنے آخری ایام گزارے۔

7۔ گرو ہری رائے:
ساتویں گرو ہری رائے(1661 ؁ تا 1664 ؁) تھے۔ یہ نرم مزاج اور صلح پسند انسان تھے۔ انہوں نے صرف ایک موقع پر جب شہزادہ داراشکوہ اورنگزیب کی فوجوں سے بچ کر فرار ہورہا تھا تو انہوں نے اس کی مدد کی تھی اس کے علاوہ انکا کوئی سیاسی اقدام نہیں ہے۔

8۔ گرو ہر کشن:
آٹھویں گرو، گرو ہرکشن (1644 ؁ تا 1664 ؁) تھے۔ یہ گرو ہری رائے کے چھوٹے بیٹے تھے۔ ان کے بڑے بیٹے رام رائے اور نگزیب کے دربار میں مقیم تھے۔ اور اپنے والد سے ناراض تھے اس لیے گروہرکشن کو پانچ سال کی عمر میں اس عہدے پر فائز کیا گیا۔ رام رائے کے کہنے پر اورنگزیب نے انہیں دہلی بلایا۔ جہاں پر چیچک کے مرض میں انکا انتقال ہو گیا۔
9۔ گرو تیغ بہادر:
نویں گرو، گروتیغ بہادر(1664 ؁ تا 1675 ؁)تھے۔ جو کہ ایک صلح پسند اور صوفی پسند انسان تھے۔ یہ قتل وغارت کی بجائے سخاوت ومہمان نوازی کے نام سے منسوب ہونا زیادہ پسند کرتا تھا۔ اورنگزیب نے انہیں دہلی بلوایا اور مسلمان ہونے سے انکار کرنے پر قتل کروایا۔
10۔ گرو گو بند سنگھ:
دسویں گرو، گرو گوبندسنگھ (1675 ؁ تا 1708 ؁) تھے۔ یہ گرو نانک کے بعد سکھوں کے اہم ترین گور ثابت ہوئے۔ اگرچہ سکھ مت میں تمام گروؤں میں باہم کوئی فرق نہیں ہے۔ یہ گرو تیغ بہادر کے بیٹے تھے۔ انہوں نے سکھوں کو منظم کرنے کے لیے باضابطہ ارادت کا سلسلہ شروع کیا۔
وفاداری کے سخت ترین امتحان کے بعد مختلف ذاتوں سے تعلق رکھنے والے پانچ سکھوں کو ایک مخصوص رسم ’’ امرت چکھنا‘‘ کے ذریعے حلقہ مریدین میں داخل کیا اور انہیں ’’خالصہ‘‘ کا لقب دیا، اس کے بعد اس حلقہ میں عمومی داخلہ ہوا اورہزاروں سکھ ’’خالصہ‘‘ میں داخل ہوئے۔
اس گرو نے شرعی قوانین بھی بنائے۔ ان احکامات میں تمباکو سے اجتناب، حلال گوشت کی ممانعت، مردوں کے لیے ’’سنگھ‘‘ (شیر)کے نام کا استعمال اور عورتوں کے لیے ’’کَور‘‘ (شہزادی) کا استعمال لازمی قراد دیا اور پانچ چیزوں کو ہمیشہ اپنے پاس رکھنے کا کہا۔ جن کی ابتدا ’’ک‘‘سے ہوتی ہے۔
’’پانچ ‘‘ ک:
سکھ مذہب میں ہر سکھ کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی شناخت کے لیے پانچ چیزوں کو اپنائے یا اپنے پاس رکھے:
1۔ کیش: بال نہ کاٹے جائیں کیونکہ تمام گرو بھی بال نہیں کاٹتے تھے۔
2۔ کنگھا: سرکے بالوں کو ہموار اور صاف رکھنے کے لیے۔
3۔ کڑا: اسٹیل یا دھات کی موٹی چوڑی جو قوت کے لیے پہنی جاتی ہے۔
4۔ کرپان: خنجر جو اپنے دفاع کے لیے رکھا جاتا ہے۔
5۔ کچھا: پھرتی اور چستی کے لیے پہناجانے والا زیر جامہ جس کی لمبائی گھٹنوں تک ہوتی ہے۔
گرو گو بند سنگھ کی شروع سے ہی مغل حکومت سے مخالف رہی’’ خالصہ‘‘ کی تشکیل کے بعد مغل حکومت سے لڑنے کے لئے انہوں نے فوجی کار وائیاں شروع کیں۔ لیکن اورنگ زیب عالمگیر کے مقابلہ میں انہیں سخت فوجی مزاحمت اٹھاناپڑی۔ ان کی فوجی قوت پارہ ،پارہ ہوئی اور ان کے خاندان کے تمام افراد بھی مارے گئے۔ گروگوبند سنگھ نے بھیس بدل کر زندگی کے آخری ایام ’’دکن‘‘ میں گزارے جہاں دوافغانیوں نے انہیں قتل کردیا۔
گرو گوبند سنگھ نے یہ طے کردیا تھا کہ آئندہ سکھوں کا گرو کوئی نہیں ہوگا۔ بلکہ انکی مذہبی کتاب’’گرنتھ صاحب ‘‘ہمیشہ گروکا کام دے گئی۔
11۔ گرو گرنتھ صاحب:
یہ سکھ مذہب کی مذہبی کتاب ہے ۔ گرونانک نے اپنے فرقہ کے لئے مذہبی نظمیں اور مناجاتیں چھوڑی تھیں جن کو سکھوں نے بڑی احتیاط سے محفوظ رکھا ۔ دوسرے گرو نے گور مکھی (پنجابی)رسم الخط ایجاد کیا۔ پانچویں گرو نے ان سب کو جمع کرکے ایک کتاب بنادی۔ جس میں کبیر اور پندرہ دیگر رہنماؤں کے اقوال اور گیت شامل ہیں۔ یہ آدی گرنتھ یا اصلی گرنتھ کہلاتی ہے۔ دسویں گرو نے اس میں بہت سا نیا اضافہ کیا جس کا نتیجہ یہ ہو کہ یہ سکھ مذہب کی مقدس کتاب بن گئی۔ مرنے سے پہلے دسویں گرو نے سکھوں سے کہا کہ اب وہ نیا گرو نہ مقرر کریں بلکہ ’’گرنتھ‘‘ کو اپنا گرو قراد دیں ۔
اس وقت سے یہ مقدس کتاب(گرنتھ صاحب ) سکھ فرقہ کا مرکزی اور روحانی سرچشمہ ہے۔ یہ کتاب ساری کی ساری منظوم ہے جس میں گرونانک اور بابافرید شکر گنج کے علاوہ گرو امرداس ، گرو ارجن، گروتیغ بہادر اور 25دوسرے بھگتوں اور صوفی شاعروں کا کلام شامل ہے۔ گرو ارجن نے ادی گرنتھ کی ترتیب وتدوین کا کام 1604 ؁ میں مکمل کیا اور تمام سکھوں کو اس کا مطالعہ کرنے کی ترغیب دی۔

جد ید سکھ مت:
اگر چہ دنیا کے مختلف ممالک میں سکھ حضرات موجود ہیں ۔ البتہ جدید سکھ مت کے پیروکار مرکزی طور پر ہندوستان کے صوبہ پنجاب میں پائے جاتے ہیں۔ ان میں بنیادی طور پر تین فرقے ہیں ۔ ہرفرقہ گرونانک کی تعلیمات کو قبول کرتا ہے ۔ گرنتھ صاحب کو مقدس مذہبی کتا ب مانتا ہے ۔ اور دس گروؤں کو الہام یافتہ تصور کرتا ہے۔ سکھ مت مختلف فرقوں میں منقسم ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے۔
۱۔ اداسی فرقہ:
ان کو ’’نانک پترا‘‘ کہتے ہیں۔ یہ بنیادی طور پر مقدس افراد کا فرقہ ہے ۔ انکا جدامجد گرونانک کا بڑا بیٹا تھا۔ یہ گرو گو بند کی گرنتھ کو مسترد کرتے ہیں ۔ جبکہ گرونانک کے آدھے حصے کی گرنتھ کو مانتے ہیں۔ یہ حضرات ہندومت، بدھ مت ، جین مت، کے کئی قوائد واصول پر عمل پیرا ہیں۔ یہ کھردرے پیلے کپڑے پہنتے ہیں۔ ان کے پاس صرف ایک برتن کشکول ہوتا ہے۔ یہ سرگرم مبلغ ہوتے ہیں۔ گھوم پھر کر اپنے نظریات وعقائد کی تبلیغ کرتے ہیں ۔ اور اپنے مذہب سے دوسروں کو متعارف کراتے ہیں۔ یہ لوگ رہبانیت پسند ہوتے ہیں۔ اداسی کا مطلب ہی تارک دنیا ہے۔
۲۔ سہج دھاری سکھ:
یہ دوسرا فرقہ ہے ۔ یہ جارحیت پسندی کو مسترد کرتے ہیں۔ جو اب سکھ مذہب کی پہچان بن چکی ہے۔ یہ داڑھی منڈواتے ہیں۔انکا دوسرا نام ’’ نانک پنتھی‘‘ بھی ہے۔
۳۔ نامداری سنگھ سکھ:
یہ تیسرا فرقہ ہے ۔ جو عموماً سکھ مت کے پیروکاروں پر بولا جاتا ہے۔ اس فرقہ کی ابتداء بھائی رام سنگھ نے کی۔ جو مہاراجہ رنجیت سنگھ کے زمانے میں سپاہی کی حیثیت سے ملازم ہوا۔ یہ مذہبی مزاج کا آدمی تھا۔ اس کے پیروکار بابا بالک رام کو گیارہویں اور اس کو بارہویں گرو سمجھتے ہیں۔ یہ غیر نامداری سکھوں کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا نہیں کھاتے۔
۴۔ اکالی فرقہ:
’’ اکالی‘‘ کا معنی ’’ اللہ ‘‘ کے ہیں ۔ یعنی خدا کی پوجا کرنے والا فرقہ یہ لوگ انتہائی جنگجو ہوتے ہیں۔ اور دوسرے فرقوں کی بانسبت زیادہ کٹر ے عقائد کے حامل ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ بندہ پنتھی فرقہ، مذہبی فرقہ اور امداس فرقہ بھی ہیں۔
اسلام ا ور سکھ مت کا موا زنہ
سکھ مت دینِ اسلام
1 معرفت الہٰی کی تلاش میں گم مذہب ہے۔ معرفت الہٰی کے حصول کی تعلیم دیتا ہے۔
2 اصلاح معاشرہ کی تحریک ہے۔ اصلاح امور کے لیے نازل ہوا۔
3 عبادت مزامیر کے ذریعے کی جاتی ہے۔ مز امیر کی نفی کرتا ہے۔
4 ہندومسلم اتحاد کا داعی ہے۔ دوقومی نظریہ کا علمبردار ہے۔
5 پاہل کے ذریعے مذاہب میں داخل ہوا جاتا ہے۔ کلمہ طیبہ پڑھ کر داخل ہوا جاتا ہے۔
6 عبادات میں رسومات واسلوب کو اس کی روح کے منافی تصور کیا جاتا ہے۔ ہر عبادت کے طریقے ومناسک کا پابند بناتا ہے۔
7 عبادات میں رسومات واسلوب کو اس کی روح کے منافی تصور کیا جاتا ہے۔ ہر عبادت کے طریقے ومناسک کا پابند بناتا ہے۔
8 انانیت کی نفی کرتا ہے۔ اسلام بھی انانیت کی نفی کرتا ہے۔
9 مساوات کا قائل ہے۔ اسلام مراتب میں مساوات کا قائل ہے۔
10 اوہام پرستی، ضعیف الاعتقادی اور رسوم پرستی کی نفی کرتا ہے۔ اسلام بھی ان کی نفی کرتا ہے۔
11 تقدیر الہٰی پر زور دیتا ہے۔ تقدیر الہٰی پر ایمان کو واجب قرار دیتی ہے۔
12 حضور پاک ﷺکی تعظیم وشان کا اقرار کرتا ہے۔ ’’ورفعنک لک ذکر ‘‘کا تصور پیش کرتا ہے۔
13 آوا گون کا قائل ہے۔ اسلام اس کی نفی کرتا ہے۔
14 ایک خدا (گہری)کا تصور پیش کرتا ہے۔ اسلام بھی توحید کا قائل ہے۔

خلاصہ بحث
سکھ مذہب کے بانی اور ان کے اولین روحانی پیشوا بابا گرونانک ہیں۔ 15اپریل ان کی تاریخ پیدائش ہے۔ لیکن سکھوں کے ہاں نومبرکے مہینے میں چوہدویں کے چاند کی رات کو جشن پیدائش منایا جاتاہے۔ اس لحاظ سے ہر سال یہ تاریخ تبدیل ہو جاتی ہے۔
بابا گرونانک لاہور کے قریب ایک گاؤں ’’ ننکانہ صاحب‘‘ میں ایک کھشتری نسل کے ہندوگھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام ’’ کلیان چند‘‘ عرف ’’کالو‘‘ تھا ۔ان کے والد علاقے کے مشہور مسلمان جاگیردار ’’رائے بلوار بھٹی‘‘ کے ہاں پٹواری تھے۔
ان کے والد نے انہیں سات سال کی عمر میں روایتی تعلیم کے لیے اسکول میں داخل کروا دیا۔ فطری ذہانت کے باعث بہت جلد اپنے ہم جولیوں سے آگے نکل گئے۔ ویدوں اور سنسکرت پر عبور حاصل کرنے کے بعد انہوں نے عربی اور فارسی بھی سیکھی۔
بابا گرونانک کا بچپن انکی ہمشیرہ کے سسرال میں گزار۔ ان کی ہمشیرہ کا نام ’’نانکی ‘‘تھا اور یہ اولین خاتون تھیں جنہوں نے گرونانک کو اپنا روحانی پیشوا تسلیم کیا ۔گویا سکھ مذہب کی پہلی پیروکار یہی خاتون تھیں۔بابا گرونانک کے بہنوئی لاہور میں گورنر کے ہاں ناظم جائیداد کی حیثیت سے ملازم تھے۔ سرکاری امور کی ادائیگی میں بابا گرونانک اپنے بہنوئی کا ہاتھ بھی بٹاتے تھے۔
بابا گرونانک روزانہ سورج نکلنے سے پہلے ندی کے ٹھنڈے پانی میں نہاتے تھے اور خدا کی حمد بیان کیا کرتے تھے۔ سکھ روایات کے مطابق تیس(۳۰) سال کی عمر میں آپکو معرفت الہٰی حاصل ہوئی جب آپ ندی کے اندرسے تین (۳) بعد نکلے تھے۔ ایک دن آپ (بابا گرونانک)مکمل خاموش رہے ۔ اگلے دن خاموشی توڑی اور یوں بولے کہ!’’نہ کوئی مسلمان ہے اور نہ کوئی ہندو ہے تو پھر میں کس کے راستے پر چلوں؟؟؟میں تو بس اس کے راستے پرچلوں گا جو نہ مسلمان ہے نہ ہندوہے‘‘ ۔
بابا گرونانک نے بتایا کہ ان تین دنوں میں انہیں خدا کے دربار میں لے جایا گیا جہاں انہیں معرفت الہٰی سے بھر ایک پیالہ دیا گیا اور کہا گیا کہ یہ خدا کی محبت کا جام ہے اسے پیو اور میں (خدا ) تمہارے ساتھ ہوں ، میں تم پر اپنی رحمتیں کروں گا اور تمہیں بالا دستی عطاکروں گا اور جو تمہارے ساتھ دے گا اسے بھی میری حمایت حاصل ہوگی پس اب جاؤمیرا نام لیتے رہو ۔ دوسروں کو بھی یہ سب کچھ کرنے کا کہتے رہو ۔یہیں سے سکھ مذہب کا آغاز ہوتا ہے اس واقعہ کے بعد بابا گرونانک نے اپنی کل جمع پونجی غریبوں میں بانٹ دی اور اپنے ایک مسلمان دوست ’’مردانہ‘‘ کے ساتھ اپنے عقائد کی تبلیغ کے لیے روانہ ہوگئے۔
بابا گرونانک کی زندگی میں چار سفر بہت مشہور ہوئے ۔’’ پہلاسفر‘‘انہوں نے بنگال اور آسام کی طرف کیا۔ ’’دوسرے ‘‘سفر میں وہ تامل ناڈو کی طرف گئے۔ ’’تیسری ‘‘ دفعہ انہوں نے کوہ ہمالیہ میں واقع پہاڑی ریاستوں اورکشمیر سے ہوتے ہوئے تبت گئے تھے۔ جبکہ ’’چوتھا‘‘ سفر بغداد ، مکہ،ر مدینہ اور دیگر عرب ریاستوں کی جانب تھا۔
ان کی تعلیمات میں جھوٹ کوترک کرنا، مذہب کی بے جارسومات سے پرہیز اور مذہبی کتب کی تحریروں کے مطابق زندگی گزارنا، بغیر کسی مخصوص مذہبی طبقے کے براہ راست خدا تک رسائی حاصل کرنا اور انسان کے اندر چھپے ہوئے پانچ چوروں تکبر، غصہ، لالچ، ناجائز لگاؤ اور شہوت سے بچنا شامل ہے۔ انہوں نے سکھ مذہب کو تین بڑے بڑے راہنما اصول دیے جن کی تفصیل کچھ یوں ہے:
1۔ نام جپنا:
اس سے مراد خدا کا نام لیتے رہنا ، اس کے گیت گاتے رہنا اور ہر وقت اسی کو ذہن وزبان میں تازہ رکھنا ہے۔
2۔ کرت کرنی:
اس سے مراد دیانت داری سے محنت کرکے رزق حلال کمانا ہے۔
3۔ ونڈچکنا:
اس سے مراد دولت کو بانٹنا ہے اور مل جل کر کھانا ہے۔
لمبے لمبے سفر کرنے کے بعد بقیہ زندگی گزارنے کے لیے بابا گرونانک نے ’’ کرتارپور‘‘ کا قصبہ 1522 ؁ میں آباد کیا ۔ کرتان اور لنگر یہاں کی روزانہ کی تقریبات تھیں۔ کرتار سے مراد سکھوں کا خدا ہے اور لنگر سے مراد کھانے کی مفت تقسیم ہے ۔ آخر کاراسی مقام پر 1539 ؁ء میں بابا گرونانک نے فرشتہ اجل کو لبیک کہا۔ ہندو اور مسلمان دونوں نے آخری رسومات کی ادائیگی کے لیے جسدے خاکی پر اپنا حق جمانا چاہا ۔ مگر آپکی لاش غائب ہوگئی۔



حوالہ جات وحواشی
۱۔ https://algazali.org/index.php
۲۔ https://www.irfglobal.net/comparative-relagion/sikhism
۳۔ ادیان ومذاہب کا تقابلی مطالعہ،ڈاکٹر محمد عارف نعیمی،صفحہ۵۷۲،طباعت ایورنیوبک پیلس اردوبازار لاہور۔
۴۔ حوالہ سابقہ،صفحہ ۵۷۳تا۵۷۴اور۵۷۵۔
۵۔ گرو گرنتھ :۱۵۰
۶۔ ادیان ومذاہب کا تقابلی مطالعہ،ڈاکٹر محمد عارف نعیمی،صفحہ۵۷۵تا۵۷۷،طباعت ایورنیوبک پیلس اردوبازار لاہور۔
۷۔ حوالہ سابقہ،صفحہ۵۷۸
۸۔ حوالہ سابقہ،صفحہ۵۷۹
۹۔ گرو گرنتھ صاحب:۱
۱۰۔ جنم ساکھی بھائی بالا ص۳۴۹
۱۱۔ گورگرنتھ صاحب گوڑی کی وارشلوک محلہ ۵،ص۳۲۰،اردوص۴۸۴
۱۲۔ جنم ساکھی بھائی منی سنگھ ص۳۴۹
۱۳۔ گروگرنتھ صاحب شلوک فریدا،ص۱۳۸۱،اردوص۲۱۶۹
۱۴۔ تواریخ گوروخالصہ ص۸۸
۱۵۔ جنم ساکھی بھائی منی سنگھ ص۹۹
۱۶۔ سری راگ محلہ ۱،ص۲۴
۱۷۔ جنم ساکھی بھائی بالا،ص۱۹۴،جنم ساکھی گرونانک دیوجی ص۴۵۲
۱۸۔ جنم ساکھی بھائی بالا،ص۱۳۰،جنم ساکھی گرونانک دیوجی ص۱۴۷
۱۹۔ گورو گرنتھ صاحب وار ماحجد شلوک محلہ ۱،ص۱۴۰،اردوص۱۹۱
۲۰۔ جنم ساکھی بھائی بالاص۱۲۵،ص۱۴۲،جنم ساکھی بھائی منی سنگھ ص ۴۱۶
۲۱۔ ادیان ومذاہب کا تقابلی مطالعہ،ڈاکٹر محمد عارف نعیمی،صفحہ۵۸۰،طباعت ایورنیوبک پیلس اردوبازار لاہور۔
۲۲۔ حوالہ سابقہ،صفحہ۵۸۵
۲۳۔ اسلام اور مذاہب عالم (تقابل ادیان )،اسرار الرحمٰن بخاری،ترمیم واضافہ : پروفیسر محمدنوید بٹ،پروفیسر پروین اختر،صفحہ ۴۴۰،طباعت ایورنیوبک پیلس اردوبازار لاہور۔
۲۴۔ گرو گرنتھ صاحب داگ تلنگ کبیر جی ص ۷۲۷
۲۵۔ جنم ساکھی بھائی بالاص ۱۳۰، جنم ساکھی ارود ص ۱۴۷
۲۶۔ ہماپرکاش قلمی ص۹۳
۲۷۔ داراں بھائی گورداس دار پہلی پوڑی ص ۳۲
۲۹۔ گوربانی گرروتا ص ۵۲
۳۰۔ رسالہ سنت سیاہی امر تسر نومبر ۱۹۵۹ء
۳۱۔ گروگرنتھ صاحب، ص ۹۰۳
۳۲۔ گروگرنتھ صاحب’’راک سوہی روداس‘‘ ص ۷۹۳اردوص۱۲۵۷
۳۳۔ گروگرنتھ صاحب شلوک فرید ص۱۳۷۷،اردوص۲۱۶۵
Hafiz Irfan Ullah Warsi
About the Author: Hafiz Irfan Ullah Warsi Read More Articles by Hafiz Irfan Ullah Warsi: 19 Articles with 259614 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.