نجوم پرستی

ہمارے معاشرے میں جہاں بہت سی نئی روایات اور بدعات آن بسی ہیں وہاں تیزی سے ترویج پاتی ہوئی ایک رسم توہم پرستی یا نجوم پرستی ، پانسے پھینکنا (cards)بھی ہے ۔قرآن و سنت کی تعلیمات کی وجہ سے مسلمانوں نے سورج ، چاند اور ستاروں کی پوچا سے لاتعلقی کو اختیار کیا اور ان کو اﷲ تعالی ٰ کی تخلیق اور نشانی کے طور پر قبول کیا لیکن اب حالت کہ ہے ستاروں کے حوالے سے انسانی زندگی پر پڑنیوالے اثرات کے بارے میں کئی طرح کے عقائد مسلمانوں میں نشوونما پاتے جا رہے ہیں ۔ مسلمان بھی بارہ بروج پر یقین رکھتے ہیں اور ستاروں کی روشنی میں اپنے ماہ و سال اور آئندہ آنے والے ہفتوں اور ایام کا جائزہ لیتے ہیں ۔ صبح کا آغاز ہوتے ہی تمام ٹی وی چینلز پر چلنے والے مارنگ شوز میں چاہے مرد ہو یا عورت ایک نہ ایک شخص ایسا شامل ہوتا ہے جو یہ بتاتا ہے کہ آپ کے دن کا حال کیسا گزرے گا؟ ۔ ستارے کیا کہتے ہیں ۔ آپ کو کیا کرنا چاہیے ؟ اور کیا نہیں کرنا چاہیے ؟ صرف مارننگ شوز نہیں بہت سے پروگرام بالخصوص اس موضوع کے لیے مختص کیے جا چکے ہیں۔ یہاں تک کہ بعض چینلز کے مذاحیہ پروگراموں میں بھی ستاروں کی چال اور مستقبل کا حال بتانے والوں کو بہت زیادہ اہمیت دی جانے لگی ہے۔دفاتر ، گھروں میں صبح کا آغاز اخبارت میں موجود ستاروں کے حال بتانے والے صفحہ سے ہوتا ہے ۔بہت سے لوگ کاروبار اور سفر کے حوالے سے ستاروں کے اثرات پر غورو خوض کرتے ہیں اور اس حوالے سے بہت سے رسائل ، جرائد اور اخبارات میں مستقل مضامین بھی شائع ہوتے رہتے ہیں ۔آپ کو مختلف طرح کی جنتریاں بازاروں میں عام ملیں گی ۔ جن میں ماہانہ اور پورے سال کے بارے میں پیشن گوئیاں ملتی ہیں ۔ ابلکہ یہاں تک دیکھا گیا ہے کہ بعض افراد اکوئی بھی کام کرنے یا سفر کرنے سے پہلے مستقبل کا حال بتانے والوں سے رابطہ کرتے ہیں ۔ معاشرے میں ستاروں کی چالیں اور مستقبل کا حال بتانے والے دن بدن نہ صرف ایک اہم حیثیت اور مقام حاصل کرتے جا رہے ہیں بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ان افراد کی حیثیت اہم ہوتی جا رہی ہے ۔ اب تو بعض بڑے شہروں میں مستقبل کا حال بتانے والوں کے دفاتر بھی کھل چکے ہیں ۔ان نجی دفاتر میں مستقبل کا حال بتانے والے لوگوں سے منہ مانگی قیمت وصول کرتے ہیں اگرچہ علم ِنجوم اور دست شناسی ایک قدیم علم ہیں ۔ لیکن ایک علم کو ایمان کی حیثیت دے دینا انتہائی افسوس ناک عمل ہے ۔

اﷲ نے آسمان کو ستاروں ، چاند اور سورج سے سجایا ۔ رات کو سفر کرنے والوں کے لیے ستاروں کو سمت معلوم کرنے کا ذریعہ بنایا ۔چاند اور ستاروں کو بنانے کا دوسرا مقصد یہ تھا کہ انسانوں کو اندھیری رات کے خوف سے نجات دلائی جائے اور آسمان کو خوبصورتی عطاء کی جائے ۔ اس کے ساتھ ساتھ اجسام ِفلکی کو غورو فکر کا ایک ذریعہ بنایا گیا کہ انسان ان اجسام ِ فلکی کو دیکھ کر اﷲکی بڑائی کا اعتراف کرے اور غور کرے کہ وہ ذات کس قدر با اختیار اور بلند مرتبہ ہے جس نے اس قدر خوبصورتی کے ساتھ چاند ستاروں کو نہ صرف تخلیق کیا بلکہ وہ نہ تو ایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں اور نہ ہی گرتے ہیں ۔بلکہ ایک حساب ِ مقرر سے اپنے اپنے دائرے میں سفر کر رہے ہیں ۔ یہ اجسام ِ فلکی اﷲکی بڑائی تسلیم کرنے کی بھی وجہ ہیں ۔ قرآن پاکی سورت نور میں اﷲتعالیٰ نے یوں فرمایا

وہی بڑی برکت و عظمت والا ہے جس نے آسمانی کائنات میں کہکشاؤں کی شکل میں سماوی کروں کی وسیع منزلیں بنائی اور اس میں سورج کو تپش دینے والا چراغ بنایا اور چاند کو چمکنے والااور وہی ذات ہے جس نے دن اور رات کو ایک دوسرے کے پیچھے گردش کرنے والا بنایا اس کے لیے جو غوروخوض کرنا چاہے یا شکر گزاری کا ارادہ کرے ( ان تخلیقی قدرتوں میں نصیحت و ہدایت ہے ) ۔ آیت ۲۶

اس آیت مبارکہ سے ثابت ہوا کہ اجسام ِ فلکی کی تخلیق کا مقصد ہدایت ، نصیحت ، غورو خوض اور اس بات کا شکر کے رب ِ کائنات نے انسان کے دل کو بہلانے کے لیے کس قدر اہتمام فرمایا ۔اور یہ سب تخلیق اس انسان کے لیے ہے کہ وہ خدا کا شکر ادا کرتا رہے کہ اس نے آسمان کو بے رونق نہیں بنایا۔ اس کے علاوہ سائنس نے انسان کو ستاروں کی حقیقت بھی بتا دی کہ یہ دھکتے ہوئے سورج ہی ہیں جو زمین سے بہت زیادہ فاصلہ ہونے کی وجہ سے ستارے دکھتے ہیں ۔ان ستاروں کو انسان کے لیے مسخر کر دیا گیا کہ وہ ان پر تحقیق کرے ۔ سائنسی بنیادوں پر دیکھا جائے تو ان ستاروں سے مستقبل کا حال معلوم کیا ہی نہیں جا سکتا تاہم علم نجوم اور علم اعداد از خود علوم ہیں جو قدیم زمانے سے چلے آرہے ہیں ۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان علوم کا غلط استعمال کیا جانے لگا یہاں تک کہ انسان ان علوم کی بنیاد پر کفر کی ٖحدود تک جا پہنچا ۔ ستاروں کی چالوں پر اس حد تک اعتبار کیا جانے لگا کہ نہ صرف اﷲ پر توکل کا خاتمہ ہو ا بلکہ تقدیر پر سے ایمان بھی گیا ۔

ﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ نے جس طرح ستارہ پرستی کی نفی کی ہے اسی طرح ان انسانی زندگی اور قدرتی معاملات پر اثرات کو قبول نہیں کیا ۔ ایک حدیث مبارکہ ﷺ میں کچھ اس طرح ارشاد ہوتا ہے
سیدنا زید بن خالد جہنی ؓ فرماتے ہیں کہ رسول ﷺ نے ایک دن صبح کی نماز حدیبیہ میں پڑھائی اور رات کو بارش ہوئی تھی ۔جب آپ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو آپ نے فرمایا : کیا تم جانتے ہو تمہارے پروردگار نے کیا فرمایا ہے ؟ ہم نے کہا اﷲاور اس کے رسول ﷺ خوب جانتے ہیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اﷲ تعالی ٰ نے فرمایا میرے بندون میں سے بعجوں کی صبح تو ایمان پر ہوئی اور بعضوں کی کفر پر ۔ تو جس نے یہ کہا کہ بارش اﷲ کی رحمت سے ہوئی تو وہ ستاروں کے بارش برسانے کا منکر یوا اور مجھ پر ایمان لایا اور جس نے کہا کہ بارش شتاروں کی گردش کی وجہ سے ہوئی ہے تو اس نے میرے ساتھ کفر کیا اور ستاروں پر ایمان لایا ۔

بالکل اسی طر ح کا ایک واقع کتابوں میں کچھ یوں مذکور ہے کہ بعض لوگوں نے دیکھا کہ چند ستارے آسمان پر جب دیکھائی دیتے ہیں تو بارش ہوتی ہے ۔ ایسے ہی چند اصحاب کرام ؓ نے نبی پاک ﷺ سے فرمایا کہ یا رسول اﷲ ہم دیکھتے ہیں کہ فلاں ستارے جب آسمان پر نمودار ہوتے ہیں تو بارش ہوتی ہے ۔ نبی پاک ﷺ نے اس بات پر قدرے غصہ فرمایا اور فرمایا جس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ ۔افسوس ! میری امت کی حالت اب یہ ہے کہ وہ اﷲ پر توکل کرنے کی بجائے ستاروں پر اعتقاد کرنے لگے ہیں ۔ آنحضرت ﷺ کے اس فرمان کے بعد لوگوں کو شرمندگی کا احساس ہوا اور انھوں نے توبہ استغفار کی ۔ اس واقع سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام ستارہ پرستی کی اجازت نہیں دیتا ۔ نجوم کی چالوں پر اعتبار کرنے کی بجائے اﷲپر توکل کا حکم دیتا ہے ۔

مذکور واقعہ اور حدیث اس حقیقت کو واضع کرتی ہے کہ صرف ایک بارش کی نسبت اﷲکی ذات کو چھوڑ کر ستاروں سے کی جائے تو انسان اﷲکی ذات کا منکر ہو جاتا ہے ۔ توجہ طلب امر یہ ہے کہ جو شخص اپنے آنے والے ماہ و سال اور آئندہ کے سفر ، کاروبار ، شادی بیاہ اور دیگر معاملات کو ستاروں کی روشنی میں دیکھتا ہے تو اس کی کیفیت کیا ہو گی ؟ اسلام لانے کے بعد ہم سب کے لیے اجرام ِ سماویہ کی پوجا کو چھوڑنا اور ان کو صرف اﷲ تعالی ٰ کی تخلیق اور نشانی سمجھنا ضروری ہے ۔
 
Maemuna Sadaf
About the Author: Maemuna Sadaf Read More Articles by Maemuna Sadaf: 165 Articles with 151478 views i write what i feel .. View More