غیر سامی مذاہب کا باہمی تقابل

سامی اور غیرسامی مذاہب کی تعریف:
(۱)سامی مذاہب:
سامی مذاہب سے مراد وہ مذاہب جو سام بن نوح کی اولادسے نکلے ہوں۔ انہیں الہامی مذاہب بھی کہتے ہیں۔ انہیں الہامی مذاہب کہنے کی وجہ یہ ہے کہ ان تینوں مذاہب کی بنیاد الہام الہٰی یا وحی الہٰی پر ہے۔ سامی مذاہب میں شامل مذاہب یہ ہیں:
1. یہودیت
2. عیسائیت
3. اسلام

حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹوں کا مختصر تعارف:
مذاہب کی اقسام حضرت نوح علیہ السلام کے تینوں بیٹوں کی نسلوں سے ہوتی ہے۔ مثلاً نوح علیہ السلام کے تین بیٹے "سام"، "حام" اور " یافث" تھے۔ ان میں سے سام کی اولاد "سامی" کہلاتی ہے۔ تمام انبیائے کرام سامی نسل ہی سے پیدا ہوئے۔ "حام" کی اولاد میں سے اس کے پوتے "حت" کی اولاد "حتی" (حطی)کہلاتی ہے۔ جس میں آریائی مذاہب اور دیگر اقوام شامل ہیں۔ انہیں " غیر سامی" مذاہب کہتے ہیں۔ (۱)

موٴرخین کا نظریہ یہ ہے کہ زمین کی اس وقت کی تمام نسل انسانی کی بازگشت انہیں تینوں فرزندوں کی طرف ہے ایک گروہ “حامی” نسل ہے جو افریقہ کے علاقہ میں رہتے ہیں دوسرا گروہ "سامی "نسل ہے جوشرق اوسط اور مشرق قریب کے علاقوں میں رہتے ہیں اور "یافث " کی نسل کو چین کے ساکنین سمجھتے ہیں ۔

(۲)غیر سامی مذاہب:
اس سے مراد وہ مذاہب ہیں جن کا تعلق سام بن نوح کی اولاد سے نہیں ہے۔ دوسرے الفاظ میں ہم یوں کہ سکتے ہیں کہ یہودیت ، عیسائیت اور اسلام کے علاوہ باقی مذاہب غیرسامی میں شمار ہوتے ہیں۔ (۲)

مذاہب عالم کی تقسیم:
مذاہب عالم کو عام طور پر تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ جن کی مختصرتفصیل کچھ یوں ہے:
1. سامی مذاہب
(یہودیت،عیسائیت اور اسلام)
2. منگولی
(تاؤازم،شنوازم،بدھ مت اورکنفیوشزم ،یہ تمام مذاہب منگول قوم کی طرف منسوب ہیں۔بعض علماء بدھ مت کو آریائی مذاہب میں شمار کرتے ہیں اور بعض منگولی مذاہب میں شمارکرتے ہیں)
3. آریائی مذاہب
(ہندومت،جین مت،سکھ مت اور زرتشت یہ تمام مذاہب کی نسبت آریہ قوم کی طرف منسوب ہیں)
تبلیغی اور غیرتبلیغی مذاہب:
اسلام اور عیسائیت کے علاوہ تمام مذاہب غیر تبلیغی ہیں ۔ جیسے یہودیت، ہندومت اورزرتشت وغیرہ انکی تبلیغ دیگر مذاہب کے لوگوں کو نہیں کی جاتی۔ (۳)

تَقابُل کے لغوی معنی:
اس کے لغوی معنی ہیں مقابلہ یا آمنے سامنے کھڑے ہونا۔ (۴)
تقابل کے اصلاحی معنی:
اس سے مراد کیسی بھی دومذاہب کی تعلیمات اور ملفوضات کا آپس میں مقابلہ ہے۔
پانچ مشہورغیرسامی مذاہب کا آپس میں تقابل:
ادیان عالم میں پانچ مشہور مذاہب ایسے ہیں جن کے پیروکار دنیا میں کیسی نا کیسی حالت میں آج بھی موجود ہیں۔ ان مذاہب میں ہندومت، بدھ مت، زرتشت،کنفیوشس اور سکھ مت شامل ہیں۔ان سامی مذاہب کی تعلیمات اور ملفوضات کا تقابل کچھ یوں ہے:
خدا کا تصور:
1. ہندومت میں خدا کا تصورشخصی ہے۔
2. بدھ مت میں خدا کے تصور کا کلی طور پر انکار ہے۔
3. زرتشت کے ہاں دوخداؤں کا تصور پایا جاتا ہے۔
4. کنفیوشزم میں یہ تصور غیر واضح اورمبہم ہے تاہم وہ کسی اعلیٰ ذات کے لیے ثین (یعنی آسمان) یا آسمانی طاقت کا ذکر کرتا ہے۔
5. سکھ مت میں خدا کا تصور موجود ہے۔


ایمان بالرسول:

1. ہندومت، بدھ مت اور کنفیوشزم میں ایمان بالرسول کی کوئی ٹھوس شہادت موجود نہیں۔
البتہ ہندومت میں کچھ ایسی شہادتیں ضرور موجود ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ہندو راہنماؤں اور شعراء نے پیغمبر اسلام ﷺ کی تعریف وستائش میں بہت عمدہ تحریریں پیش کیں ہیں۔ ان میں مہاتماگاندھی،ڈاکٹر رابندر ناتھ ٹیگور،لالہ رام ورما وغیرہ ،وغیرہ شامل ہیں۔
2. زرتشت پیغمبروں کے مبعوث ہونے کا قائل تھا۔
3. سکھ مت میں ایمان بالرسول کی شہادت بابا گرونانک نے اپنی تعلیمات میں دی ہے۔

ایمان بالآخرۃ:

1. ہندومت میں جونی چکر اور تناسخ سے حصول کے لئےنروان کا عقیدہ پایا جاتا ہے ۔ اس لئے ہندو آخرت کے قائل نہیں بلکہ جونی چکر کے قائل ہیں۔
2. بدھ مت کا بانی گوتم بدھ قیامت کا قائل تھا۔
3. زرتشت کے نزدیک انسانی زندگی کے دو حصّے ہیں ۔ دنیاوی زندگی اور دنیا کے بعد کی زندگی ۔ وہ زندگی جو آخرت میں ہوگی وہ حصّہ اوّل کی زندگی کے نتیجے میں ملے گا۔
4. کنفیوشس کی تعلیمات میں جزاوسزا کا کوئی تصور نہیں ملتا۔
5. بابا گرونانک کی تعلیمات میں ایمان بالآخرۃ کا تصور ملتا ہے۔
راہبانیت:

1. ہندومت راہبانیت کی تعلیم دیتا ہے۔
2. گوتم بدھ نروان کے لئے رہبانیت کو ضروری قرار دیتا ہے۔
3. زرتشت رہبانیت کا شدید مخالف ہے اور شادی کو ضروری قرار دیتا ہے۔
4. کنفیوشس مذہب میں بھی راہبانیت کی نفی کی واضح دلیل موجود نہیں ہے۔ بلکہ اس کی تعلیمات اس بارے میں خاموش نظر آتی ہیں۔
5. سکھ مت میں راہبانیت کی نفی موجود ہے۔ اور نجات کے لیے گرونانک کی تعلیمات اور دس گروؤں کی تعلیمات اور ملفوضات پر عمل کرنا ضروری ہے۔

مذہبی کُتب پر ایمان کا تصور:

1. ہندومت میں مذہبی کُتب پر ایمان لانا لازمی نہیں۔ یہ دین بہت ساری مذہبی کُتب کا مجموعہ ہے۔ نہ اِن کتابوں کی تحریروں اور نہ اُن کے مُصنف کا کوئی خاص پتا چلتا ہے۔ کہ کس مُصنف نے کب یہ کتاب تحریر کی۔
2. بدھ مت میں مذہبی کُتب غیر الہٰامی ہیں ۔ ان پر ایمان لانا ضروری نہیں۔
3. زرتشت میں مذہبی کُتب غیرالہٰامی ہیں۔ جن میں کافی مرتبہ اُس کے پیروکاروں نے تبدیلی کی۔ ان پر ایمان لانا ضروری نہیں۔
4. کنفیوشزم نے اپنی یااس کے پیروکارؤں نے کہیں بھی اس کی تصانیف کو الہٰامی قرار نہیں دیا ۔ اس لئے ان میں تحریف وترمیم یا ان کا ضیاع کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اس کی تصانیف کی تعداد نو بتائی جاتی ہے لیکن صرف ایک کتاب"تاریخ چین کا خلاصہ" کے نام سے آج بھی موجود ہے۔
5. سکھ مت میں بھی مذہبی کتاب غیر الہٰامی ہے۔ یہ کتاب گرونانک اور بعد کے گروؤں کی تعلیمات اور ملفوظات پر مشتمل ہیں۔ اس کو گیاویں گرو کا درجہ حاصل ہے ۔ "گرنتھ صاحب" سکھ مت کی مذہبی کتاب ہے۔

ذات ،پات کا تصور:

1. ہندومت ذات،پات کا قائل ہے اور ظلم وبے انصافی پر مبنی ہے۔ ہندومت انسانوں کو مختلف ذاتوں اور طبقوں میں تقسیم کرتا ہے۔ جن میں برہمن،کھشتری،ویش اور شودر یہ ہندومت کی مشہور ذاتیں ہیں۔ یہ تقسیم معاشرتی زندگی کا نہایت ہی بھیانک پہلو ہے۔ ہندومت میں عزت واحترام کی بنیاد یہ ہی ذاتیں ہیں۔
2. گوتم بدھ نے بدھ مت میں ذات ، پات کی تقسیم کے خلاف آواز اُٹھائی اور ایسے مذہب کی بنیاد ڈالی جس میں ذات،پات کی نفی شامل تھی۔
3. زرتشت مذہب میں بھی ذات ،پات کی نفی موجود ہے۔
4. کنفیوشس نے بھی ذات پات کی نفی کی اپنی تعلیمات میں۔
5. سکھ مت میں بھی ذات ،پات کی نفی موجود ہے۔ بلکہ باباگرونانک کا ایک قول ہے "ناکوئی ہندو ناکوئی مسلمان "۔
عقائیدکا جائزہ:

1. ہندومت عقیدہ تناسخ کا قائل ہے۔ جس سے مراد بار بار جینے اور مرنے کا ایک سلسلہ ہے ۔ ایسے جونی چکر بھی کہتے ہیں۔
2. بدھ مت کا بنیادی عقیدہ"نظریہ علت" ہے۔ اس نظریہ کے مطابق انسان کا مسلسل وجود اور بقاعلت کے ایک چکر سے وابستہ رہنا ہے۔
3. جدید زرتشت مذہب میں عقیدہ ثنویت کا قائل ہے۔
4. کنفیوشس مذہب میں کسی اعلیٰ ہستی کا تصور ہے اور نہ ہی مذہبی عقائدکا تذکرہ ہے اور نہ ہی اس میں جزاوسزا کا کوئی پہلو ہے۔
5. سکھ مت کے مذہبی عقائدان کے دسویں گرو ،گروگوبندسنگھ نے مرتب کیے ہیں۔ ان عقائدکی تفصیل "گروگرنتھ صاحب" میں موجود ہے۔

عورتوں کا مقام:

1. ہندوؤں کے ہاں عورت کوبرائی کی جڑ قرار دیا گیا ہے۔
2. بدھ مہاراج کا کہتا تھا کہ "اگرعورتوں کو تنظیم میں نہ لیا جاتا تو دھرم زیادہ دیر نہ چلتا"۔گویا کہ بدھ مت میں عورتوں کو تھوڑا بہت تحفظ دیا گیا ہے۔
3. زرتشت کے نزدیک وہ شخص جس کی بیوی ہو اس شخص سے بہتر ہے جس کی بیوی نہ ہو۔
4. کنفیوشس نے مرد اور عورت کی برابری کا تصور دیا ہے۔
5. سکھ مت میں عورتوں کے حقوق کومُطعین کیا گیا ہے۔

رسم قربانی:

1. ہندوؤں کے ہاں قربانی سےدیوتاؤں کو قوت دینے کا طریقہ چلا آرہا ہے۔ قربانیوں کی وجہ سے دیوتاؤں سے اپنے کام کروائے جاسکتے ہیں۔
2. بدھ مت میں جانوروں کی قربانی کی ممانیت ہے۔
3. زرتشت مذہب میں جانور عام ہے ۔یہاں تک کہ ان کی کھالوں کا زبردست احترام کیا جاتا ہے۔ کیونکہ ان کے متعلق ان کا خیال تھا کہ ان کی کھالوں میں دیوتا کی قوت ہوتی ہے۔
4. کنفیوشس نہایت پابندی کے ساتھ مردوں کوقربانی پیش کیا کرتا تھا اور مُردوں کے سامنے اس طرح نذرونیاز دیتا گویا وہ زندہ ہیں۔
5. سکھ مت میں حلال گوشت کی ممانیت کی جاتی ہے۔

سامی مذاہب کی تعلیمات کا خلاصہ:

سامی مذاہب کی تعلیمات اور ان کے عقائد کا مطالعہ کیا جائے تو مندرجہ ذیل نکات واضح طور پر نظر آتے ہیں۔
1. غیر سامی مذاہب کا سرچشمہ عقول ونظریات ہیں۔
2. غیرسامی مذاہب میں خدا کا تصور واضح نہیں ہوتا۔
3. غیر سامی مذاہب میں موت وحیات کے الگ الگ خالق ومالک تصور کئے جاتے ہیں۔
4. غیر سامی مذاہب میں دین اور دنیا کو الگ الگ تصور کیا جاتا ہے۔
5. غیر سامی مذاہب میں کائنات کی ابتداء وانتہا کے سلسلہ میں متضاد نظریات پائے جاتے ہیں۔
6. غیرسامی مذاہب مشرقی وسطی سے باہر پیداہوئے۔
7. غیرسامی مذاہب کے بانی خدا تعالیٰ کے مبعوث کردہ نہیں ہوتے وہ نبی یا رسول کے بجائے "مصلح" کہلاتے ہیں۔
8. غیرسامی مذاہب تبلیغی مذاہب نہیں۔
9. غیر الہامی مذاہب میں خدا کی وحدت کا تصور موجود نہیں۔ اگر کوئی مذہب خدا کو مانتا بھی ہے تو وہ خدا کے ساتھ دوسری طاقتوں کو شریک کرتا ہے۔ علاوہ ازیں غیر الہامی مذاہب میں بتوں کی پوجا بھی کی جاتی ہے۔
10. غیرالہامی مذاہب کے مطابق ہر انسان گنہگار پیدا ہوتا ہے یا پھر پیدائشی طور پر اعلیٰ یا ادنیٰ ہوتا ہے، اس کے اعمال اسے کوئی فائدہ نہیں دے سکتے۔
11. غیر الہامی مذاہب میں اخروی زندگی کا تصور نہیں پایا جاتا۔ ہاں بعض مذاہب میں "سرگ"(جنت)اور "نرک" (دوزخ) کا تصور ضرور موجود ہے جو الہامی مذاہب کے جنت ودوزخ کے تصور سے جداگانہ ہے۔
12. غیرسامی مذاہب پیچیدہ ہیں۔
13. غیر الہامی مذاہب میں دین اور دنیا ہم آہنگ نہیں ہوتے ۔ ان میں مادی یا روحانی زندگی کے کسی ایک شعبے کو پروان چڑھایا جاسکتا ہے۔
14. غیرسامی مذاہب میں انسان کی انفرادی حیثیت پر زیادہ زور دیا جاتا ہے۔ بعض غیر الہامی مذاہب میں اگرچہ سماجی بھلائی کاتصور پایا جاتا ہے مگر اس کا عقائد وایمانیات سے گہرا تعلق نہیں ہوتا۔
15. غیر الہامی مذاہب الہامی مذاہب سے بعد کی پیداوار ہیں۔
16. غیر الہامی مذاہب میں تدریج، آسانی اور انسان کی صلاحیت کو سامنے نہیں رکھا گیا ہر ایک کو مساوی بوجھ اٹھانا پڑتا ہے۔
17. غیر الہامی مذاہب کے پیروکار مُردوں کو جلادیتے ہیں۔
18. غیر سامی مذاہب میں حلال وحرام پر اتنا زور نہیں دیا گیا۔
19. غیر الہامی مذاہب صرف روحانی زندگی کے ضابطہ کار فراہم کرتے ہیں اور انہیں دنیاوی زندگی گزارنے کے لئےبادشاہوں اور حکمرانوں کے واضع کردہ قوانین پر عمل کرنا پڑتا ہے۔ (۵)

حوالہ جات وحواشی
۱۔ماسٹر گائیڈ ایم ۔اے اسلامیات،سال اوّل،پروفیسر محمد حبیب سلطان،صفحہ نمبر ۸۴۶،ایورنیوبک پیلس اُردو بازار لاہور۔
۲۔معروضی سوالات،حافظ محمدصدیق،صفحہ نمبر۹۳،سبحان پبلی کیشنز ایس ای کالج روڈ یونیورسٹی چوک بہاول پور۔
۳۔ حوالہ ،سابقہ صفحہ نمبر ۹۴
۴۔رنگین فیروز اللغات جامع اردو،الحاج مولوی فیروزالدین مرحوم ،صفحہ نمبر ۳۹۶،فیروز سنز پرائیویٹ لمیٹڈ لاہور۔راولپنڈی ۔کراچی۔
۵۔ ماسٹر گائیڈ ایم ۔اے اسلامیات،سال اوّل،پروفیسر محمد حبیب سلطان،صفحہ نمبر ۸۴۸،ایورنیوبک پیلس اُردو بازار لاہور۔
Hafiz Irfan Ullah Warsi
About the Author: Hafiz Irfan Ullah Warsi Read More Articles by Hafiz Irfan Ullah Warsi: 19 Articles with 259201 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.