لیکچر نمبر ۴ عورت کے حقوق (حصہ دوئم)

تا ر یخ میں ایک مشہور وا قع بیا ن ہوا ہے کہ کسی ہندو را نی نے ستی ہو نے سے بچنے کے لیئے مغل حکمران ہما ئیو ں سے مدد ما نگی تھی اور ہما ئیو ں ا سکی مدد کو پہنچا تھا یہی حا ل بہت سے دو سر ے علا قو ں کا تھا عیسا ئی پا دری عورت اور گنا ہ کو ا یک ہی چیز قرار د یتے تھے یہو د یو ں کا یہ طر یقہ تھا کہ بعض خا ص حالات میں عورتو ں کو گھرو ں ہی سے نکا ل د یا کر تے تھے اور ا یرا ن میں مردو ں نے عو رت کو مشتر کہ ملکیت قرار د ے ر کھا تھا ما ضی قر یب تک بعض ایسے علا قو ں میں بھی جو ا پنے آپ کو مہذ ب قرار د یتے ہیں عورت کو و ر ثے کا حق حا صل نہیں تھا اور و ہ ا پنی ذا تی جا ئیداد میں بھی غیر مشرو ط طور پر تصرف نہیں کر سکتیں تھیں جب پیغمبر اسلام حضرت محمد ﷺخدا کا آ خر ی پیغا م لیلے کر د نیا میں تشر یف لا ئے تو عورت اس مظلو می کی حا لت میں تھی آ پ ﷺ نے دو سرے مظلو مو ں کیطر ح اس مظلو م صنف کی بھی داد ر سی کی اور اسے مخصو ص حقوق عطا فر ما ئے اور مخصو ص فرا ئض اس کے ذ مے لگا کر اسے معا شر ے میں ا یک با و قار اور ذ مہ دار ر تبہ عطا فر ما یا اسلام نے عورت کی بحیثیت ما ں ،بہن،بیٹی ،بیو ی ،خا لہ و غیرہ کا کیا مقا م عطا فر ما یا ہے۔۔۔۔۔۔۔

اور کس طر ح اسے وا لد ین خا و ند اور بیٹے کے تر کے کا وا ر ث قرار دے کر اور اسے مہر اور نا ن و نفقے کا حق دار بنا کر ا سکی ما لی حا لت کو مضبو ط کیا ہے و ہ ا پنی ذا تی ملکیت میں غیر مشروط طو ر پر تصرف کر نے کی حق دار ہے اور کو ئی شخص بھی اسکی ر ضا مندی کے بغیر ا سکے ما ل میں سے کچھ لے لینے کا حق دار نہیں ا سی طر ح بیو ی کے حقو ق میں یہ وا ضح کیا جا چکا ہے کہ ا گر کو ئی عورت خا ند کے ہا تھو ں نا لا ں ہو اور خا ند اسے طلا ق د ینے پر بھی آ ما دہ نہ ہو تو وہ خلع کے ذر یعے اس سے نجا ت حا صل کر سکتی ہے ا یسے ہی بیو ہ کے حقوق میں وہ حد یث بھی بیان کی جا چکی ہے جس میں حضور ﷺ نے ہدا ئیت فر ما ئی ہے کہ کنواری لڑ کی کی شا دی نہ کی جا ئے جب تک ا سکا اذن نہ لے لیا جا ئے اور بیو ہ کا نکا ح نہ کیا جا ئے جب تک ا سکا حکم نہ حا صل کر لیا جا ئے اب یہا ں قر آن و حد یث کی رو شنی میں اس با ت کی کچھ مز ید صرا حت کی جا ر ہی ہے کہ ا سلا م نے کس طر ح عورت کو معا شر ے میں ا یک با و قار مقام عطا فر ما یا ہے ۔۔۔۔۔۔۔

حضر ت ا نس ؓ بن ما لک بیا ن کر تے ہیں کہ رسول خدا ﷺ سفر میں تھے اور آپ ﷺ کے سا تھ آپ ﷺ کا ا یک حبشی غلا م تھا جسے ا نجشہ کہا جا تا تھا وہ حد ی پڑ ھتا تھا جس سے او نٹ تیز چلنے لگتے اس پر آپ ﷺ نے اسے فر ما یا کہ تیر ی خرا بی ہو اے ا نجشہ ان شیشو ں کو آ ہستہ لے چل (بخا ری)حد ی و ہ گیت ہو تا ہے جو سا ر با ن گا تے ہیں تو او نٹ تیز چلنے لگتے ہیں اور شیشو ں سے حضور کی مراد خوا تین تھیں جو ا نٹو ں پر سوار تھیں آ پ ﷺ نے ا نجشہ کو ہدا ئیت فر ما ئی کہ او نٹو ں کو تیز نہ چلا ئے تا کہ خوا تین کو تکلیف نہ ہو ا حا د یث سے یہ با ت بھی وا ضح ہو جا تی ہے کہ عو رت کو کسی کو پنا ہ د ینے کا حق حا صل ہے اور اسے گھر سے نکلنے مسجد کی جما عت میں شر کت کر نے مجا لس خیر میں شر یک ہو نے اور جہا د میں حصہ لینے کی بھی ا جا زت ہے اور و ہ اس با ت کی حقدار ہے کہ اسے ز یو ر علم سے آ را ستہ کیا جا ئے حضر ت علیؓ کی ہمشیر ہ حضر ت ام ہا نیؓ بنت ا بی طا لب بیا ن کر تی ہیں کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میں فتح مکہ کے سا ل حضور کی خد مت میں حا ضر ہو ئی اور آ پ کو غسل کر تے پا یا ا سطر ح کہ آ پ کی صا حبزاد ی حضر ت فا طمہؓ آ پ ﷺ کے سا منے پر دہ کیئے ہو ئے تھیں میں نے آ پ ﷺ کو سلام کیا تو آ پ ﷺ نے فر ما یا کہ کو ن ہے میں نے عر ض کیا کہ میں ہو ں ام ہا نی ؓ بنت ا بی طا لب تو آپ ﷺ نے فر ما یا کہ خو ش آ مدید ا م ہا نیؓ پھر آپ ﷺ جب غسل سے فا ر غ ہو ئے تو آپ ﷺ نے کھڑے ہو کر آ ٹھ ر لعت پڑ ھیں ا سطر ح کہ آ پ ﷺ ایک ہی کپڑا لپیٹے ہو ئے تھے پھر جب آ پ ﷺ نما ز سے فا رغ ہو ئے تو میں نے عر ض کیا کہ یا ر سو ل ﷲ ﷺ میں نے فلا ں شخص ابن ہبیر ہ نا می کو پنا ہ دی مگر میرا ما ں جا یا بھا ئی کہتا ہے میں اسے قتل کر دوں گا اس پر حضور نے فر ما یا کہ اے ا م ہا نیؓ جس کو تم نے پنا ہ دی اسکو ہم نے پنا ہ د ی (بخا ری)۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حضر ت عا ئشہ ؓ بیا ن کر تیں ہیں کہ ا م ا لمو منین حضر ت سو دہ ؓ بنت ز معہ را ت کے و قت کسی کا م کے لیئے با ہر نکلیں تو حضرت عمر نے ا نھیں د یکھ کر پہچا ن لیا اور فر ما یا کہ خدا کی قسم سودہ ؓ آ پ ہم سے چھپ نہیں سکتیں (یعنی ہمیں پتہ چل گیا کہ آ پ با ہر نکلی ہیں )حضر ت سو دہ ؓ لو ٹ کر رسول خدا کی خد مت میں حا ضر ہو ئیں اور آ پ سے اس با ت کا ذ کر کیا ا سو قت حضور میر ے حجر ے میں شا م کا کھا نا تنا ول فر ما ر ہے تھے اور آپ ﷺ کے ہا تھ میں ا یک ہڈ ی تھی اسی حا لت میں آ پ ﷺ پر و حی نا زل ہو نا شرو ع ہو گئی اور جب آپ ﷺ سے و حی کی کیفیت دور ہو ئی تو آ پ ﷺ فر ما ر ہے تھے کہ اے عورتو تمہیں ا پنے ضرو ری کا مو ں کے لیئے با ہر نکلنے کی ا جا زت دے دی گئی ہے (بخار ی)۔۔۔۔۔۔۔

حضر ت عبد اﷲ بن عمر ؓ بیا ن کر تے ہیں کہ ر سو ل خدا نے ا ر شا د فر ما یا کہ ا پنی عورتو ں کو رات کے و قت مسجد جا نے کی ا جا زت دے دیا کرو (بخاری)حضر ت عمر کی ا ہلیہ محتر مہ فجر اور عشا ء کی نما زو ں میں شر کت کر نے کے لیئے مسجد جا یا کر تیں تھیں اور حضرت عمر چا ہتے تھے کہ وہ نہ جا ئیں مگر صا ف ا لفا ظ میں منع نہیں فر ما تے تھے لو گو ں نے ان سے کہا کہ آ پ ؓ کیو ں مسجد جا تی ہیں جبکہ آپ کو معلوم ہے کہ حضرت عمر ؓ اسے پسند نہیں کر تے اس پر ا نھو ں نے کہا کہ پھر وہ مجھے رو کتے کیو ں نہیں لو گو ں نے جوا ب د یا کہ و ہ اس لیئے نہیں رو کتے کہ حضور ﷺ نے فر ما یا ہو ا ہے کہ خدا کی کنیزو ں کو یعنی عورتو ں کو خدا کی مسا جد میں جا نے سے مت رو کو حفصہ ؓ بنت سیر ین بیا ن کر تیں ہیں کہ ہم ا پنی لڑ کیو ں کو عید کے دن با ہر نکلنے سے منع کیا کر تے تھے ایک عورت آ ئی جو قصر بنی خلف میں ا تری میں اس کے پا س گئی تو اس نے مجھے بتا یا کہ میر ی بہن کا خا وند ر سو ل خدا ﷺ کے سا تھ با رہ غزوا ت میں شر یک ہو ا تھا اور میر ی بہن چھے غزوات میں اسکے ساتھ تھی اس نے بتا یا کہ ہم لو گ مر یضو ں کی د یکھ بھا ل کر تے تھے اور ز خمیو ں کا علا ج کر تے تھے۔۔۔۔۔جا ری ہے
naila rani riasat ali
About the Author: naila rani riasat ali Read More Articles by naila rani riasat ali: 104 Articles with 150809 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.