سندھ میں اردو مخطوطات از ڈاکٹر نسیم فاطمہ

علم و ادب کی دنیا میں پروان چڑھنے والی سنجیدہ خاتون جن کو ڈاکٹر نسیم فاطمہ کے نام سے جانا جاتا ہے ان کا تعلیمی و تدریسی دور قابل قدر، شاندار اور انفرادی ہے۔ یہ لگن، محنت اور ذوق و شوق سے منزلیں طے کرتی ہوئی لائبریری اینڈ انفارمیشن سائنس کی دنیا میں مقبول ہوئیں ان کے شاگرد دنیا کے مختلف ممالک میں ان کا نام روشن کر رہے ہیں۔

ڈاکٹر صاحبہ بے شمار کتابوں کی مصنفہ ہیں۔ اس کے علاوہ لا تعداد مضامین اور مقالے شائع ہو چکے ہیں۔با صلاحیت محققہ ہونے کے ساتھ ساتھ نئی نئی راہوں کے لئے کوشاں رہتی ہیں۔

پاکستان میں لائبریرین شپ کے شعبہ میں بعض افراد نے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد بیرون ملک ملازمت کو ترجیع دی۔ لیکن ڈاکٹر صاحبہ نے حب وطنی کے جذبے کے تحت اپنے ملک میں خدمات کو اپنا شعار بنایا اور ریٹائرمنٹ تک جامعہ کراچی سے منسلک رہیں۔ گھریلو مصروفیات کے باوجود انتھک محنت سے ترقی کی طرف گامزن ہیں۔ نہایت ہی محنتی، ذہین، سادگی پسند اور تواضع پسند ہونے کی ساتھ ساتھ بہت ہی مخلص اور تحقیق کے کاموں میں مصروف نظر آتی ہیں۔ ڈاکٹر صاحبہ پختہ کردار کی حامل ہیں۔ نیک نیتی سے آج کل سندھ آرکائیو میں پرنسپل انویسٹی گیٹر کی حیثیت سے کام کر رہی ہیں۔

پروفیسر ڈاکٹر نسیم فاطمہ کی زیر تبصرہ کتاب "سندھ میں اردو مخطوطات" جلد اول کی حیثیت سے شائع ہوئی ہے۔ بقول ڈاکٹر صاحبہ " اس کام کا مقصد صرف فہرست کی اشاعت ہی نہیں بلکہ مخطوطات کا اعدادی تجزیہ کرنا بھی ہے۔ دوسرا نسبتا اہم مقصد یہ ہے کہ کمپیوٹر پر ایسا ڈیٹا بیس بنایا جائے جو سندھ میں اردو مخطوطات کا احاطہ کرتا ہو"۔

مصنفہ نے یہ تصنیف اپنے محترم استاد ڈاکٹر جمیل جالبی صاحب کے نام منسوب کی ہے۔ ابتدائیہ آپ کے استاد گرامی ڈاکٹر غنی الاکرم سبزواری نے تحریر کیا ہے ۔ فرماتے ہیں،" پروفیسر ڈاکٹر نسیم فاطمہ جو ماءشااللہ علمی اور تحقیقی جہاد میں ہمہ تن مصروف ہیں، نے کئی کتابیں لائبریری سائنس پر تصنیف کیں اور ان کے بے شمار مقالے اور مضامین مختلف مجلات اور اخبارات میں شائع ہوئے۔ یہ کتاب بھی انکی انتھک محنت اور عرق ریزی کا کرشمہ ہے۔ خاتون نے سترہ کتب خانوں، اداروں اور ذاتی ذخائر کا نہایت دقت نظر سے جائزہ اور مطالعہ کیا اور انکی تفصیلات قلم بند کیں۔ اس محنت شاقہ کو دیکھتے ہوئے حیرت ہوتی ہے کہ ڈاکٹر صاحبہ نے کتنے شب وروز اس عظیم کتاب کی تیاری میں صرف کئے"۔
اس تصنیف کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔

حصہ اول میں سترہ کتب خانوں کا تعارف بیان کیا ہے۔ ان کتب خانوں میں مخطوطات کی موجودگی کا اظہار کیا ہے اس کے علاوہ موضوعات اور ان کے اعداد و شمار کی شکل میں پیش کئے ہیں۔ سب سے قدیم اور اہم مخطوطات کے بارے میں تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔

حصہ دوئم میں ان مخطوطات کا اشاریہ ترتیب دیا گیا ہے۔ اس اشاریہ کی ترتیب کچھ یوں ہے۔ سلسلہ نمبر، کتاب ، سن تصنیف، مصنف، موءلف، مترجم، کاتب، سن کتابت، موضوع،اوراق، سائز، سطور اور کیفیت۔ کتاب کے عنوانات کو حروف تہجی کے اعتبار سے ترتیب دیا ہے۔کتاب کے آخر میں حواشی اور حوالے اردو اور انگریزی کے پیش کئے ہیں۔

ساڑھے تین سو صفحات پر مشتمل کتاب کا سر ورق نہایت خوبصورت اور جاذب نظر ہے۔ پائیدار کاغذ پر مبنی یہ کتاب محقیقن اور لائبریری سائنس کے طالبعلموں کےلئے معلوماتی تخلیق ہے۔ جلد کے آخر میں مصنفہ کی تمام تصانیف پر ایک نظر ڈالی جا سکتی ہے۔

اردو ڈیٹا بیس بنانے کے لئے یہ چراغ راہ ثابت ہوگی اور مصنف، عنوان نیز موضوع پر تلاش کی جا سکے گی۔ یہ کتاب کتب خانوں اور افراد کی ضروریات علمی و ادبی کو ملحوظ رکھ کر مرتب کی گئی ہے۔ اسے ہر کتب خانہ میں ہونا چاہئے۔ امید ہے کہ جلد دوم کی ترتیب کا کام بھی شروع ہو چکا ہوگا۔

میں ڈاکٹر صاحبہ کو ان کی اس تصنیف پر دلی مبارکباد پیش کرتی ہوں۔ اس کتاب کی اشاعت سندھ کے کتب خانوں میں موجود اردو مخطوطات کے حوالے سے بہت اہمیت کی حامل ہے۔ یہ جلد اول ہے اسکی وسعت میں انشاءاللہ اضافہ ہوتا رہے گا۔

ڈاکٹر نسیم فاطمہ کی اردو مخطوطات پر تحقیق جس کمال کی حامل ہے۔ اس میں انکا کوئی حریف نہیں اور اسی کمال نے ان کو یہ انفرادیت بھی عطا کی ہے کہ وہ سندھ میں ذخیرہ اردو مخطوطات اور اس کا اشاریہ مخطوطات پر مشتمل کتاب کی مصنفہ قرار پائیں۔ یہ کتاب لائبریری پروموشن بیورو، کراچی سے ۲۰۱۰ء میں شائع ہوئی۔ ۳۵۱ صفحات پر مشتمل ہے۔
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ