این جی اوز کو قانون کے دائرے میں لانے کے لیے حکومت پر عزم؟

گزشتہ روز بین الاقوامی این جی او ”سیودی چلڈرن“ کے پاکستان میں دوبارہ کام شروع کرنے کے لیے امریکی دباﺅ بڑھا تو حکومت نے اس کے سامنے سرِ تسلیمِ خم کر دیا۔ این جی او کے افسروں نے مختلف سیاستدانوں اور بیورکریٹس سے رابطے کیے، جس کے بعد وزارت داخلہ نے نیا نوٹیفکیشن جاری کیا، جس میں سیو دی چلڈرن کی بندش کے حکم کو تاحکم ثانی موخر کر دیا گیا۔ نوٹیفکیشن کے مطابق اگلے حکم نامے تک امریکی این جی او پاکستان میں اپنے آپریشنز جاری رکھ سکتی ہے اور متعلقہ حکام کی اجازت سے سیو دی چلڈرن کے دفاتر دوبارہ کھولنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ اقتصادی امور ڈویژن کے ذرایع کے مطابق وزارت داخلہ نے سیو دی چلڈرن پر عاید پابندی اٹھانے کا فیصلہ امریکی اور مختلف ڈونرز کے شدید دباؤ کے بعد کیا۔ اقتصادی امورڈویژن نے یہ بھی انکشاف کیا کہ پاکستان میں127غیرملکی این جی اوز غیر قانونی طور پر کام کر رہی ہیں۔ واضح رہے گزشتہ ہفتے حکومت نے سیو دی چلڈرن نامی این جی او پر پابندی لگاتے ہوئے اسے اپنے دفاتر بند کرنے کا حکم دیا تھا۔ جس کے بعد امریکا اور دیگر ممالک نے سیو دی چلڈرن پر پابندی کے فیصلے مذمت کرتے ہوئے تشویش کا اظہار کیا تھا۔ جس پر وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کا کہنا تھا ایک تنظیم پر پابندی لگنے سے کئی ممالک میں طوفان برپا ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ بہت سی این جی اوز ملک کے مفاد کے خلاف کام کر رہی ہیں، لیکن اب انہیں مادر پدر آزادی نہیں ہو گی۔ گزشتہ کئی سال سے کئی این جی اوز بغیر کسی ضابطے کے یہاں کام کر رہی ہیں۔ غیرملکی این جی اوز کو پاکستانی قوانین اور مفاد کی پاسداری کرنا ہوگی۔ قومی مفاد پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا۔

ملک کے متعدد مذہبی و سیاسی رہنماﺅں نے بھی وزیر داخلہ کے بیان کی تائید کرتے ہوئے کہا تھا کہ دشمن کے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے کام کرنے والی این جی اوز کو پاکستان میں کام جاری رکھنے کا کوئی حق حاصل نہیں، کیونکہ این جی اوز کے بھیس میں مغربی طاقتیں پاکستان میں اپنی ثقافت پھیلا رہی ہیں اور اس نظریاتی ملک کو توڑنا چاہتی ہیں۔ ایسی این جی اوز پر فی الفور پابندی لگائی جائے اور پاکستان کے خلاف سازشیں کرنے والوں کے خلاف غداری کا مقدمہ چلایا جائے۔ واضح رہے کہ رواں سال مئی کے شروع میں ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث این جی اوز پر پابندی عاید کرنے کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی گئی تھی، جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ پاکستان میں کام کرنے والی رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ این جی اوز ملک کی تباہی میں ملوث ہیں اور دیگر ممالک سے فنڈز لے کر پاکستان دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ این جی اوز کی تفصیلات طلب کی جائیں اور ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث این جی اوز کی رجسٹریشن منسوخ کی جائے۔گزشتہ چند ماہ سے حکومت ملک دشمن این جی اوز کو کنٹرول کرنے کے لیے کوشاں ہے۔

ذرایع کے مطابق پاکستان میں 56 ہزار 219 رجسٹر ڈ این جی اوز کام کر رہی ہیں، جن کے ارکان کی تعداد 60 لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔ یہ تعداد پاک فوج سے 10 گنا، پولیس سے 20 گنا زیادہ ہے۔ اسی طرح ان تنظیموں کے باقاعدہ ملازمین کی تعداد 3 لاکھ اور رضاکار دو لاکھ ہیں۔ یہ دنیا بھر میں سب سے بڑی تعداد ہے۔ این جی اوز کے ظاہری فنڈز 12 ارب 40 کروڑ روپے ہیں، باطنی فنڈز کو حکومتی اداروں کے نوٹس میں نہیں آنے دیا جاتا۔ پاکستان میں سب سے زیادہ این جی اوز بلوچستان میں کام کرتی ہیں،جہاں ان کی تعداد 35 ہزار 367 ہے۔ 33 ہزار 168 این جی اوز پنجاب میں مصروف عمل ہیں۔ صرف لاہور شہر میں 6 ہزار پانچ سو این جی اوز ہیں۔ سند ھ میں 16 ہزار 891 اور خیبرپختونخوا میں تین ہزار 33 این جی اوز رجسٹر ڈہیں۔ ان تنظیمو ں کے تحت ملک میں 20 لاکھ 78 ہزار لوگ شہری حقوق کے لیے کام کرتے ہیں، جبکہ 16 لاکھ 3 ہزار ماہرین کاروباری و پیشہ ورانہ ایسوسی ایشن کے لے کام کرتے ہیں۔ سماجی خدمات میں 3 لاکھ ماہرین اپنی مہارت پیش کرتے ہیں۔ ان سب تنظیموں میں 78 فیصد تنظیمیں شہروں تک محدود ہیں۔ بعض غیر سرکاری تنظیموں کو جاسوسی کے مقاصد کے لیے استعمال کیے جانے کی رپورٹس بھی سامنے آئی ہیں۔ حکومت این جی اوز کے معاملے کو سنجیدگی سے لے رہی ہے۔ ملکی قوانین پر پورا نہ اترنے والی این جی اوز کی سخت نگرانی شروع کر دی گئی ہے اور صوبائی حکومتوں سے این جی اوز کا تازہ ترین ڈیٹا مانگ لیا گیا ہے۔ نئے مجوزہ قانون کے تحت غیر ملکی ایجنڈے کے لیے کام کرنے والی این جی اوز پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے لائحہ عمل طے کر لیا گیا ہے۔ وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان اپنے بیان میں اس بات کا انکشاف کر چکے ہیں کہ بعض این جی اوز نے اپنی مشکوک سرگرمیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے بعض سابقہ ارکان پارلیمینٹ اور بااثر شخصیات کو اپنے بورڈز آف گورنر میں شامل کر رکھا ہے۔

دوسری جانب حکومت نے قومی سلامتی کے معاملات کو مدنظر رکھتے ہوئے این جی اوز بالخصوص غیرملکی امداد حاصل کرنے والی غیرسرکاری تنظیموں کی رجسٹریشن کے موجودہ قانون کو تبدیل کرنے کے لیے کام شروع کردیا۔ وزیرداخلہ خود اس سارے کام کی نگرانی کر رہے ہیں۔ قانون پر صوبوں سے بھی مشاورت متوقع ہے۔ این جی اوز کو اپنے مینڈیٹ اور ٹاسک سے حکومت پاکستان کو آگاہ کرنے کا پابند بنایا جا رہا ہے۔ حسابات کی مصدقہ جانچ پڑتال بھی ہوگی۔ ذرایع کے مطابق این جی اوز اور خیراتی اداروں کے لیے نیا قانون بنانے، آمدنی اور اخراجات کا آڈٹ کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ این جی اوز اور خیراتی اداروں کی رجسٹریشن کے لیے مرکزی سطح پر نیا میکنزم بنے گا اور تمام این جی اوز کا اسلام آباد میں ڈیٹا بیس تیار کیا جائے گا، جس سے متعلقہ این جی اوز کے کام کرنے کے مقاصد اور حدود کا تعین ہو سکے گا۔ سرکاری ذرایع کے مطابق این جی اوز حکومت سے کیے گئے معاہدوں کی پاسداری نہیں کر رہی ہیں، حکومت نے تمام کی جانچ پڑتال کا حکم دیا ہے۔ ذرایع کے مطابق این جی اوز سے متعلق صورتحال کاجائزہ لینے کے لیے وزیر داخلہ کے اجلاس میں وزارت خارجہ، وزارت اقتصادی امور اور حساس اداروں کے حکام کی موجودگی میں واچ لسٹ پر موجود این جی اوز کے مستقبل کے حوالے سے فیصلے کیے جائیں گے۔ ذرایع کے مطابق حکومت سیو دی چلڈرن کا معاملہ اقوام متحدہ کی اکنامک سوشل خصوصی کمیٹی میں لے جانے کا فیصلہ کر چکی ہے اور اس این جی او کی مینڈیٹ کے منافی سرگرمیوں سے خصوصی کمیٹی کو آگاہ کیا جائے گا۔ سیو دی چلڈرن کے بعد حکومت نے تحقیقات کا دائرہ وسیع کیا ہے اور کئی دیگر انٹرنیشنل این جی اوز کے معاملات کی جانچ پڑتال بھی شروع ہو گئی ہے۔ نئے قانون کے تحت تمام این جی اوز کو اپنی آمدنی اور اپنے سالانہ اخراجات کی مکمل تفصیلات ظاہر کرنا ہوں گی اور ان کا باقاعدہ آڈٹ کیا جائے گا۔ معاہدے کے مطابق این جی اوز مقررہ کردہ علاقوں کے علاوہ کسی دوسرے علاقے میں نہیں جاسکیں گی اور انہیں ملک کے سیکورٹی تقاضوں اور سماجی روایات کا مکمل احترام کرنا ہوگا۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 638645 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.