لیکچر نمبر ۳ عورت کے حقوق (حصہ اول)

 حضر ت عمر ؓ بیا ن کر تے ہیں خدا کی قسم ہم ز ما نہ جا ہلیت میں عور تو ں کو کسی شما ر میں نہ لا تے تھے یہا ں تک کہ ا ﷲ نے ان کے حقوق میں نا زل کیا جو کچھ کہ نا ز ل کیا اور مقرر فر ما یا جو کچھ کہ مقرر فر ما یا (بخا ر ی)حضر ت عمر فا رو ق کے اس بیا ن اور اس کے علا وہ ز ما نہ جا ہلیت کے با رے میں ملنے وا لے تا ر یخی مواد سے اس با ت کی و ضا حت ہو جا تی ہے کہ ا سلا م سے پہلے عورت کو حقارت کی نگا ہ سے د یکھا جا تا تھا اور بیٹی کی پیدا ئش کو ننگ و عار کی بات سمجھا جا تا تھا سو رۃ ا لنحل آ یا ت ۵۸،۵۹میں فر ما یا گیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔

جب ان میں سے کسی کو بیٹی کے پیدا ہو نے کی خو شخبر ی د ی جا تی ہے تو اسکے چہر ے پر کلو نس چھا جا تی ہے اور وہ بس خو ن کا گھو نٹ پی کر رہ جا تا ہے
لو گو ں سے چھپتا پھر تا ہے کہ اس بڑ ی خبر کے بعد کیا کسی کو منہ د کھا ئے سو چتا ہے کہ ذلت کے سا تھ بیٹی کو لیئے ر ہے یا اسے مٹی میں د با دے ۔۔۔

ز ما نہ جا ہلیت کی تا ر یخ بتا تی ہے کہ بعض قبا ئل میں سنگد لی اس ا نتہا تک پہنچی ہو ئی تھی کہ بیٹی پیدا ہو نے پر اسے ز ند ہ د فن کر د یا جا تا تھا سید ا بو ا علیٰ مو دودی جا ہلیت کی اس قبیح ر سم پر تبصر ہ کر تے ہو ئے فر ما تے ہیں عر ب میں لڑ کیو ں کو ز ند ہ د فن کر نے کا یہ بے ر حما نہ طر یقہ قد یم ز ما نے میں مختلف و جو ہ کے با عث را ئج ہو گیا تھا ا یک معا شی خستہ حا لی جس کے با عث لو گ چا ہتے تھے کہ کھا نے وا لے کم ہو ں اور او لاد کو پا لنے پو سنے کا با ر ان پر نہ پڑ ے بیٹو ں کو تو اس ا مید پر پا ل لیا جا تا تھا کہ بعد میں وہ حصو ل معیشت میں ہا تھ بٹا ئیں گے مگر بیٹیو ں کو اس لیئے ہلا ک کر د یا جا تا تھا کہ ا نھیں جوا ن ہو نے تک پا لنا پڑے گا اور پھر ا نھیں بیا ہ د ینا ہو گا ۔۔۔۔۔۔

دو سر ے عا م بد ا منی جسکی و جہ سے بیٹو ں کو اس لیئے پا لا جا تا تھا کہ جس کے جتنے ز یا دہ بیٹے ہو نگے اسکے ا تنے ہی حا می و مدد گا ر ہو نگے مگر بیٹیو ں کو اس لیئے ہلا ک کر د یا جا تا تھا کہ قبا ئلی لڑا ئیو ں میں ا لٹی ان کی حفا ظت کا نی پڑ تی تھی اور د فا ع میں و ہ کسی کا م نہ آ سکتیں تھیں تیسر ے عا م بد ا منی کا شا خسا نہ یہ بھی تھا کہ د شمن قبیلے جب ایک دو سر ے پر ا چا نک چھا پے ما ر تے تھے تو جو لڑ کیا ں بھی ان کے ہا تھ لگتیں تھیں انھیں لے جا کر وہ یا تو لو نڈ یا ں بنا کر ر کھتے تھے یا بیچ د یتے تھے ان و جو ہ سے عر ب میں یہ طر یقہ چل پڑا تھا کہ کبھی تو ز چگی کے و قت ہی عور ت کے آ گے ا یک گڑ ھا کھود ر کھا جا تا تھا تا کہ ا گر لڑ کی پیدا ہو تو اسی و قت اسے گڑ ھے میں پھینک کر او پر مٹی ڈا ل د ی جا ئے اور کبھی ا گر ما ں اس پر را ضی نہیں ہو تی یا اس کے خا ندا ن وا لے اس پر ما نع ہو تے تو با پ با دل نخوا ستہ اسے کچھ مد ت تک پا لتا اور پھر کسی و قت صحرا میں لے جا کر ز ند ہ د فن کر د یتا ا یسے معا ملے میں شقا وت بر تی جا تی تھی ۔۔۔۔۔۔

اس کا قصہ ایک شخص نے خود نبیﷺ سے بیا ن کیا کہ میر ی ایک بیٹی تھی جو مجھ سے بہت ما نو س تھی جب میں اسکو پکا رتا تو دو ڑی دوڑی میر ے پا س آ تی تھی ایک رو ز میں نے اس کو بلا یا او ر ا پنے سا تھ لے کر چل پڑا را ستے میں ایک کنوا ں آ یا میں نے ا سکا ہا تھ پکڑ کر ا سے کنو ئیں میں د ھکا دے د یا آ خر ی آ وا ز جو ا سکی میر ے کا نو ں میں آئی وہ تھی ہا ئے ا با ۔۔۔ہا ئے ا با ۔۔یہ سن کر آپ ﷺ رو د یئے اور آ پ کے آ نسو بہنے لگے حا ضر ین میں سے ایک شخص نے کہا کہ ا ے شخص تو نے تو حضور ﷺ کو غمگین کر د یا حضور ﷺ نے فر ما یا کہ ا سے مت رو کو جس چیز کا اسے س خت ا حسا س ہے اسکے با رے میں اسے سوا ل کر نے دو پھر آ پ ﷺ نے فر ما یا کہ ا پنا قصہ پھر بیا ن کر اس نے دو با ر ہ اسے بیا ن کیا اور آ پﷺ سن کر اسقدر رو ئے کہ آ پ ﷺ کی دا ڑ ھی آ نسو و ں سے تر ہو گئی ۔۔۔۔۔۔

یہ حا لت تو عو رت کی بحیثیت بیٹی کے تھی بیو ی کی حیثیت سے بھی وہ گو نا گو ں پر یشا نیو ں کا شکا ر تھی مر دو ں کا ان کے سا تھ یہ رو یہ تھا کہ نکا حو ں کی تعداد پر کو ئی قید نہ تھی چا ہے کو ئی مرد سو عورتو ں سے شا دی کر لے نہ طلا ق کے معا ملے میں کو ئی پا بندی تھی چا ہے شو ہر بیو ی کو سو مر تبہ طلا ق دے اور سو د فع ر جو ع کر لے ا سلا م میں طلا ق کا طر یقہ یہ ہے کہ شو ہر بیو ی کو صر ف دو د فع طلا ق د ے کر ر جو ع کر سکتا ہے جب و ہ تیسری د فعہ طلا ق دے گا تو پھر اسے ر جو ع کر نے کا حق نہیں ر ہے گا اور و ہ عورت پو ر ے طور پر ا سکے نکا ح کی قید سے آ زاد ہو جا ئے گی جا ہلیت میں چو نکہ ا یسی کو ئی حد نہیں تھی جہا ں جا کر ر جو ع کر نا حرا م ہو تا ہے اس لیئے بعض خا و ند بیو یو ں کو عمر بھر لٹکا ئے ر کھتے ۔۔۔۔با ر با ر طلا ق د یتے ۔۔۔با ر با ر ر جو ع کر لیتے اور ا سطر ح نہ تو عورت کو ڈ ھنگ سے ر کھتے اور نہ ا سے آ زاد ہی کر تے کہ وہ کہیں اور نکا ح کر ے ا سلا م نے ر جو ع کر نے کی ا یک حد قرار د ے کر عورت کو بہت بڑے عذاب سے نجا ت دے دی ۔۔۔۔۔۔۔

ز ما نہ جا ہلیت میں عورت پر جو مظا لم ڈھا ئے جا تے تھے ان میں ایک یہ بھی تھا کہ جب کو ئی شخص و فا ت پا جا تا تو اسکا بیٹا با پ کی جا ئیداد کے علا وہ بیو ہ سو تیلی ما ں کا بھی ما لک بن بیٹھتا تھا عو رت کے سا تھ سا تھ یہ معا ملہ سر ف عر ب ہی میں نہیں تھا بلکہ تا ر یخی بیا نا ت سے پتہ چلتا ہے کہ دو سرے علا قو ں میں بھی عورت کی حا لت خراب تھی مثلا ہندو ستان میں بد ھ مت اور جین مت کے پیرو عورت کو ا پنی رو حا نی تر قی کی را ہ میں بہت بڑ ی ر کا و ٹ سمجھتے تھے اور اس سے علید ہ ر ہنے اور تا ر ک ا لد نیا بن کر ز ند گی گزا ر نے کو رو حا نی اور ا خلا قی بلند ی کا ذر یعہ گر دا نتے تھے بد ھ مت اور جین مت کے علا وہ خود ہندوو ں کے ہا ں ستی ہو نے کی ظا لم ر سم کا مد تو ں روا ج ر ہا جب کسی مرد کی بیو ی مر جا تی تو ا سے پو را حق حا صل ہو تا کہ دو سر ی شا دی کر لے لیکن جب کسی عو رت کا خا و ند مر جا تا تو بیو ی کو میت کے سا تھ ہی چتا میں لٹا کر ز ندہ جلا دیا جا تا جب مسلما ن ہندو ستا ن میں آئے تو یہ ظا لما نہ ر سم و ہا ں مو جو د تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جا ری ہے
naila rani riasat ali
About the Author: naila rani riasat ali Read More Articles by naila rani riasat ali: 104 Articles with 151272 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.