روہنگیا مسلمان کون ہیں؟کس حال میں ہیں؟

کڑکتی دھوپ ہے توسر پر سائباں نہیں ،پاؤں ہیں لیکن ان کے تلے زمیں نہیں۔بھوک سے تڑپتا اورہڈیوں کا ڈھانچہ بناجسم ہے لیکن کھانے کو ایک لقمہ نہیں۔تاحد نگاہ پھیلے کھلے سمندر میں تیر رہے ہیں لیکن پینے کو پانی کا قطرہ نہیں۔50لوگوں کے بیٹھنے والی بوسیدہ کشتی ہے تو اس میں سوار 500سے زائد، اور ایسے افراد 8 ہزار سے زائد جنہیں یوں سمندروں میں دھکے کھاتے تین ماہ ہو چکے ہیں۔کیسے سوتے ہوں گے؟کیسے بیٹھتے؟کیسے دن رات گزارتے ہوں گے؟ 7ارب انسانوں کی دنیا میں کروڑوں انہیں دیکھ رہے ہیں لیکن کسی کے منہ میں ان کے لئے زبان نہیں کہ ان کی بات ہی کر سکے۔یہ ہیں برما (میانمار)کے روہنگیا مسلمان جو زندگی بچانے کی کوشش میں ڈوب ڈوب کر مرتے ہیں ۔انہیں بیچا بھی جاتا ہے، اغوا بھی کیا جاتا ہے اور اگر ان سے کچھ نہ ملے تو انہیں مار کر اجتماعی قبروں میں دفن کر دیا جاتا ہے۔جس طرح یورپ میں آج بھی ترک ہونے کامطلب مسلمان ہوناہے۔ چین میں ’’اویغور‘‘ نسل سے تعلق کامطلب بھی مسلمان ہونا ہے۔اسی طرح برما میں ’’روہنگیا‘‘ ہونے کامطلب بھی مسلمان ہونا ہی ہے۔

بارہ سو سال قبل اسلام اس خطے میں داخل ہوا تھا تواس ساحلی علاقے میں بھی مسلمانوں نے بود وباش اختیار کرلی۔ پندرھویں صدی کے آغاز میں یہاں کے بادشاہ نے دشمنوں سے لڑنے کے لیے شاہ بنگال جلال الدین محمد سے مدد مانگی، یوں بنگالی فوجی روہنگ (برما) کے علاقے میں پڑاؤڈال کر یہیں کے ہو گئے۔ پھر مسلمانوں نے اس علاقے کا نام ارکان اسلام کی نسبت سے ’’ارکان‘‘ رکھ دیا جو انگریزی میں ’’اراکان‘‘ اوربرمی میں ’’راکین‘‘ یا ’’راکھین‘‘ کہلاتا ہے۔ رکھ دیا گیا۔ اس طرح یہاں کے لوگ روہنگیا کہلائے تو ان کی زبان بھی روہنگیائی کہلانے لگی۔ انیسویں صدی میں انگریزوں نے برصغیر میں سامراجی قدم رکھا تو اراکان بھی ان کی زد میں آ گیا۔ برما کے بدھ بھکشو انگریزوں کے لیے کسی کام کے نہ تھے، اس لیے بنگال سے انگریزوں نے کام کے سلسلے میں مسلمانوں کو یہاں لاکرآباد کیا۔

جب برما کے خطے میں برطانوی راج قائم ہوا تو 1891ء کی مردم شماری کے مطابق مسلمانوں کی آبادی 58255 شمارہوئی۔1911ء میں یہ آبادی 178647شمارہوئی۔ اس وقت روہنگیا مسلمانوں کی آبادی 7 سے 8 لاکھ کے درمیان ہے۔ مسلمان سب سے پسماندہ تھے۔ نہایت ہی کم اجرت پرمزدوری کرتے اورزندگی کی سانسیں پوری کرتے۔اسی عرصے میں راکھین کے مسلمانوں کے خلاف بودھوں کی مسلم دشمنی پروان چڑھتی رہی اور وہ مسلمانوں پرحملہ آور بھی ہوتے رہے۔ دوسری جنگ عظیم میں برطانیہ نے یہ علاقہ چھوڑ دیا اورجاپان کاقبضہ ہوا۔ یہ مسلمانوں کے لیے بدترین دور ثابت ہوا۔صرف 28 مارچ 1942ء کے دن ہزاروں مسلمانوں کو (5ہزار سے زائد) منبیا اور مروبانگ کے علاقوں میں بودھوں نے قتل کر ڈالا ۔ دوسری جنگ عظیم کے آغاز کے دوران علاقے پر برطانیہ کاقبضہ تھا۔اس لیے مسلمانوں کو جبری طورپر لڑنے اور برطانوی فوج کی مدد و تعاون کے لیے کام کرنا پڑتا تھا لیکن جب یہ علاقہ جاپان نے فتح کر لیا تواس وجہ سے بھی مسلمانوں پربہت برا وقت آیا اوربودھوں کے ساتھ ساتھ جاپانیوں نے ہزاروں مسلمانوں کوبے دردی سے شہیدکرڈالا۔ بے شمار عورتوں کی عزتوں کی پامالی ہوئی اور سینکڑوں بستیاں جلا دی گئیں۔ لٹے پٹے لاکھوں مسلمانوں نے مسلمان بنگلہ دیش (اس وقت مشرقی پاکستان) چٹاگانگ کارخ کرلیا۔ ہزاروں نے برما اور بنگلہ دیش کے درمیان جنگلوں‘ ساحلی پٹیوں اور دلدلی زمینوں میں بسیرا کیاجو آج تک ان کا مسکن ہے۔
برما میں پہلا فوجی انقلاب1962ء جبکہ دوسرا 1978ء میں آیااور پھر مسلمانوں پرظلم کی وہ آندھی چلی کہ انسانیت شرماگئی۔1982میں ان مسلمانوں کی برمی شہریت ختم کر کے انہیں سرے سے مٹانے پر کام تیز ہو۔مظالم کا اگر جاننا ہو تو اس کے لیے ایمنسٹی انٹرنیشنل ایسے ادارے کی رپورٹ سے ہی آپ کو کچھ اندازہ ہوگاکہ ’’روہنگیا کی تمام معمولی آزادیاں تک کچل کررکھ دی گئی ہیں۔اب تو ان کی شادیوں تک پرپابندی ہے۔ ملک میں جہاں کہیں ترقیاتی اورتعمیراتی کام ہوں‘ ان میں روہنگیا مسلمانوں کوعورتوں بچوں سمیت جبری مزدوری پر لگا دیا جاتاہے جس کا کوئی معاوضہ نہیں ملتا۔ کھانااس قدر گھٹیا کہ محض زندہ رہا جاسکتا ہے۔کوئی زخمی یا بیمار ہوجائے تومعمولی دوا تک نہیں۔یوں اس کامقدر موت ہے۔ یہ سلسلہ گزشتہ ایک دہائی میں کچھ ہی کم ہوسکاہے۔‘‘

1978ء میں فوج نے آپریشن ’’ناگمین‘‘(اژدہوں کابادشاہ)کاآغاز کیا ۔ ظلم کی اس آندھی میں 2لاکھ مسلمان بنگلہ دیش کی طرف بھاگے۔جو سامنے آیا‘اسے گولی ماردی گئی۔بے شمار مسلمان قتل ہوئے۔ مسلم خواتین کی وسیع پیمانے پرعصمت دری ہوئی۔ بے شمار مساجد برباد اور ہزاروں گھر جلادئیے گئے۔ مسلمانوں پر ایسا دوسرا طوفان1991-92ء میں آیا ۔ فوج کے انتہائی خوفناک آپریشن میں5لاکھ مسلمان بنگلہ دیش کی جانب بھاگے۔ بے شمارقتل ہوگئے ۔جو کچھ صحت مند تھے‘ وہ خرکارکیمپوں کی نذرہوئے۔ اس کے بعد برمابھرمیں آج تک جتنے تعمیراتی اور ترقیاتی کام ہوئے‘ان سب میں مفت مزدوریہی مسلمان تھے جنہیں مارمار کرکام کروایا جاتا تھا ،وہ حالات آج بھی ویسے ہی ہیں۔

ان لوگوں کی بے بسی اور کیا ہوگی کہ برما انہیں بنگالی کہتا اورمارمارکراسی طرف دھکیلتاہے، تو بنگلہ دیش بھی مارکرواپس بھیجتا ہے۔ وہ بھاگ کر کبھی تھائی لینڈ کا رخ کرتے ہیں تو کبھی انڈونیشیا اور ملائشیا کا لیکن انہیں کہیں بھی جائے پناہ نہیں ملتی۔ ان کی بوسیدہ کشتیاں غرق ہو تی ہیں تو یہ بھوکے پیاسے سمندری مخلوق کی خوراک بنتے ہیں۔یوں یہ مسلمان چکی کے پاٹوں میں پس رہے ہیں۔ یہ دنیا کی واحد انسانی مخلوق ہے جس کے پاس کوئی دستاویزی ثبوت اور کاغذات نہیں،سویہ کوئی ملکیت رکھ سکتے ہیں، نہ کسی جگہ شکایت کر سکتے ہیں۔ اسی لیے تو برماکے طاقتور اورظالم بودھ عوام و مسلح افواج جب چاہیں انہیں گاجرمولی کی طرح کاٹ کررکھ دیتے ہیں لیکن کوئی ان سے معمولی بازپرس نہیں کرسکتا۔ کسی مسلمان کوپختہ دیوار تک بنانے کی اجازت نہیں۔روہنگیا اس قدربے کس و بے بس ہیں کہ کسی کے پاس زمین ‘جائداد‘گاڑی یاکوئی اور ملکیت نہیں ۔ مسلمانوں پریہ تک پابندی ہے کہ وہ کوئی ایسی چیز کھانے کے لیے نہیں خریدسکتے جس سے ان کے جسم کے موٹا یا طاقتور ہونے کا امکان ہو۔ یہاں مسلمان معمولی علاج نہیں کروا سکتے……ان کی زندگی کیسے گزرتی ہے……؟ برما اور بنگلہ دیش کی سرحدکے درمیان سمندرکے کنارے ہی سمندروں سے مچھلیاں پکڑتے ہیں،وہیں سے اپنی خوراک حاصل کرتے ہیں۔ سمندر کنارے کاعلاقہ بارشی ہونے کی وجہ سے جڑی بوٹیاں اورخودروسبزیاں پیدا ہوتی ہیں۔یہی ان کی خوراک ہے۔ گھاس پھونس کی جھونپڑیاں بناکر وہ زندگی کی سانسیں پوری کرتے ہیں۔ ان مسلمانوں کواراکان سے نکل کر ملک کے دیگر حصوں میں جانے کی قطعاً اجازت نہیں بلکہ وہ توایک گاؤں سے دوسرے گاؤں نہیں جاسکتے۔ حکومت نے چونکہ مارمار کردلدلی ساحلی علاقے میں دھکیل رکھاہے‘اس لیے یہاں نہ سکول ہیں نہ ہسپتال نہ کوئی سڑک اورنہ کوئی دوسری سہولت۔اس صورتحال سے تنگ آکر لاکھوں برمی مسلمان کئی دہائیوں سے بنگلہ دیش کی سرحدپر گل سڑ رہے ہیں۔ 2 لاکھ پاکستان خصوصاًکراچی میں آبادہیں۔ 1لاکھ تھائی لینڈ کے ساحلی دلدلی علاقوں میں واقع پناہ گزین کیمپوں میں ایسی فلاکت کی زندگی بسر کررہے ہیں جسے دیکھ کر زمین وآسمان بھی کانپ اٹھے۔ 40 ہزار ملائشیا، 4 لاکھ سعودی عرب،چند ہزار انڈونیشیا توچندہزار دنیاکے باقی ملکوں میں دھکے کھارہے ہیں۔ان کی سب سے اچھی اوربہترصورتحال پاکستان اور ملائشیا میں ہے۔ اگر آپ کو کبھی اتفاق ہوتو تھوڑی دیر کے لیے کراچی میں ہی واقع برمی کالونیوں کاچکر لگاکردیکھئے کہ سب سے بہترحال میں بسنے والے برمی پاکستان میں کس طرح خانہ بدوشوں سے بدتر زندگی بسر کر رہے ہیں۔اس سے بخوبی اندازہ ہوگا کہ سب سے بہتربرمی مسلمان اگریہ ہیں توپھر برما اور بنگلہ دیش میں کیسے ہوں گے……؟15سال کی عمرکوپہنچنے والے برمی بچوں کی اوّلین کوشش ہوتی ہے کہ وہ بھاگ کردوسرے ملک چلے جائیں۔ اسی کوشش میں ہرہفتے ‘مہینے کتنے روہنگیا سمندرکی نذرہوجاتے ہیں۔ انڈونیشیا اور سوڈان توڑ کر دو عیسائی ملک مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان بنانے والے صلیبی ممالک خاموش ہیں۔ ادھر میانمار کی سیاسی رہنما آنگ سان سوچی کو مسلمانوں نے نجات دہندہ سمجھ کر اس کی بھر پور حمایت کی تھی لیکن آج سوچی مکمل خاموش ہے۔اقوام متحدہ سمیت سارا عالم تماشائی ہے کہ یہ لوگ مسلمان ہیں۔
Ali Imran Shaheen
About the Author: Ali Imran Shaheen Read More Articles by Ali Imran Shaheen: 189 Articles with 122666 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.