فاران کلب کے تحت’مولانا محمد علی جوہر لائبریری ‘بیاد’ خالد ایم اسحاق‘ مرحوم کا افتتاح

کراچی میں قائم فلاحی و سماجی ادارے ’فاران کلب‘ کے زیر اہتمام ’مولانا محمد علی جوہر لائبریری‘ بیاد’ خالد اسحاق مرحوم‘ کی افتتا حی تقریب بروز اتوار 7جون 2015منقعد ہوئی۔ لائبریری کا باقاعدہ افتتاح سابق ناظم کراچی نعمت اﷲ خان ایڈووکیٹ نے کیا۔لائبریری کا ایک خاص وصف اور انفرادیت یہ ہے کہ اس لائبریری میں موجود 20ہزار کتابیں لندن سے دو کنٹینروں میں طویل سفر طے کرکے کراچی پہنچی اور اس لائبریری کی خوبصور الماریوں کی ذینت بنیں۔پاکستان کی تاریخ میں شاید یہ پہلی مثال ہے کہ مغرب سے بڑی تعداد میں علمی مواد ہمارے ملک میں آیا ، ورنہ ہماری 68 سالہ تاریخ میں ہمارا علمی مواد ، جائز و ناجائز طریقے سے مغرب کے کتب خانوں کی ذینت بنتا رہا ہے۔ پاکستان سے شائع ہونے والا بعض علمی مواد تو ایسا بھی ہے کہ وہ ہمارے کتب خانوں میں ناپید ہے لیکن وہ مغرب کے کتب خانوں میں موجود ملتا ہے۔ لندن سے بیس ہزار کتب کا تحفہ دینے کی کہانی پروگرام کے کمپیئر اور فاران کلب کے سیکریٹری ندیم اقبال جو جناب نعمت اﷲ کے صاحبزادے ہیں نے سنائی کچھ اس طرح ہے کہ حاشر فاروقی معروف صحافی ہیں جو کبھی لندن سے Impactنکالا کرتے تھے ، کتابیں بھی جمع کرتے رہے۔ اِن بیس ہزار کتابوں میں اسی فیصد کتب Impactلائبریری کی ہی ہیں۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ کو ہے نور کے ھیرے کی چوری کا ذکر تو کیا جاتا لیکن اصل چوری تو وہ تھی کہ رنجیت سنگھ کے دور میں کشمیر سے قیمتی لائبریری لندن ٹرانسفر ہوگئی۔ ندیم اقبال صاحب نے بتایا کہ مطالعہ حاشر فارقی صاحب کا محبوب مشغلہ ہے ، ان کی ذاتی لائبریری جو انہوں نے تحفہ میں فاران کلب کو دی ہر کتاب پر ان کے نوٹ اور یادداشتیں موجود ہیں۔ انہوں نے اپنی ذاتی لائبریری کی تمام تر کتابیں تحفے میں فاران کلب کو دیں ساتھ ہی ان کی یہ بھی خواہش تھی جس کو فاران کلب نے پائے تکمیل کو پہنچایا کہ اس لائبریری کا نام ’مولانا محمد علی جوہر لائبریری ‘ رکھا جائے۔ فاران کلب نے حاشر فاروقی کی خواہش کو عملی جامعہ دیتے ہوئے لائبریری کا نام ’مولانا محمد علی جوہر لائبریری ‘رکھا لیکن نام کے ساتھ ایک لائحقہ کا اضافہ کیا وہ یہ کہ یہ لائبریری ’بیاد خالد ایم اسحاق مرحوم ‘ کی گئی۔ خالد اسحاق پاکستان کے نامور قانون دان، معروف وکیل اور سب سے بڑھ کر مطالعہ کے عادی، کتاب دوست اور کتب جمع کرنے میں اپنا ثانی نہ رکھتے تھے۔ خالد اسحاق مرحوم کا ذاتی کتب خانہ جس کو دیکھنے اور اس لائبریری میں بیٹھ کر خالد اسحاق سے گفتگو کا راقم کو کئی بار موقع ملا۔ یہ لائبریری ہر اعتبار سے قیمتی اور وسیع تھی۔ افسوس یہ ذخیرہ کتب اہل کراچی کی دس ترس سے دور ہوگیا ۔ لاہور کی ایک پرائیویٹ جامعہ LUMSنے اس کتب خانے کو حاصل کر لیا۔ ’مولانا محمد علی جوہر لائبریری ‘ کو خالد اسحاق مرحوم کی یاد میں کردینا ایک اور اچھا قدام ہے۔

لائبریری کا افتتاح شہر کراچی کے سابق ناظم نعمت اﷲ خان صاحب نے کیا۔ وہ وقت مقرہ پر تقریب گاہ پہنچ گئے۔ راقم کو تقریب کے انعقاد کے بارے میں اطلاع قیصر خان صاحب نے دی جو ان دنوں فاران کلب کی انتظامیہ میں شامل ہیں، میرے ہمسائے اور دوست بھی ہیں۔ میرے ایک اور دوست اور مہربان ’ہماری ویب رائیٹرز کلب‘ کے سیکریٹری جناب عطا محمد تبسم صاحب کی جانب سے بھی دعوت نامہ موصول ہوا۔

عطا صاحب پیشے کے اعتبار سے صحافی ہیں ۔ کالم نگار ی خوب کرتے ہیں،۔راقم کو ’ہماری ویب رائیٹرز کلب‘ کے صدر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔مَیں جو ہی فاران کلب پہنچا میرے ساتھ ہی حکومت سندھ کے ایک اعلیٰ افسر اپنی سرکاری گاڑی میں مُحافِظوں کی حفاظت میں اور پروفیسر انوار احمد زئی صاحب بھی پہنچے۔ پروفیسر انوار احمد زئی صاحب سے اکثر تقریبات ہی میں علیک سلیک ہوجاتی ہے۔خوب بولتے ہیں، بلکہ بولنے میں ماہر القادری ہیں۔ ابتداء میں مہمانوں کو انتظار گاہ میں بٹھایا گیا، تقریب کا باقاعدہ آغاز نماز عصر کے بعد ہوا۔ لائبریری کے مرکزی دروازہ پر افتتاحی تختی آویزاں تھی ،جناب نعمت اﷲ خان صاحب نے باقاعدہ تختی کی نقاب کشائی کرکے لائبریری کا افتتاح کیا، دعا کی گئی، لائبریری میں ہی افتتاحی تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا۔ گویا یہ نئی لائبریری اتنی کشادہ ہے کہ اچھی خاصی تعداد کے لیے تقریب گاہ کا کام بھی دے سکے۔لائبریری ہال کے چاروں طرف لکڑی کی جاذب نظر الماریوں میں کتابیں ترتیب وار رکھی ہوئی تھیں۔ کتابوں کے درمیاں بڑی تعداد میں مہمان موجود تھے۔ کتاب ، لائبریری اور اچھے اچھے مقرروں نے ماحول کو خوبصورت اور جاذب نظر بنا یا ہوا تھا۔

بہت عرصے کے بعد فاران کلب آکر خوش گوار احساس ہوا ، ساتھ ہی فاران کلب کے بانیوں میں سے جناب عبدالرحمٰن چھاپرا مرحوم یاد آگئے۔ ان سے سلام دعا تھی ، کئی تقاریب میں ان کے ساتھ شرکت کا موقع ملا۔ اچھے اورنفیس انسان تھے۔ اﷲ ان کی مغفرت کرے۔ میں چھاپرا صاحب کی دعوت پر فاران کلب کئی بار آچکا تھا اور اس ادارے سے بخوبی واقف بھی تھا۔ در اصل چھاپرا صاحب سے میری ملاقات اور تعارف میرے استاد پروفیسر سید لطف اﷲ مرحوم نے جمعیت الفلاح میں کرایا تھا۔ لطف اﷲ صاحب ایس ایم کالج سے میرے کالج(حاجی عبد اﷲ ہارون گورنمنٹ کالج، لیاری) میں آگئے تھے ۔اس طرح ان سے دوستی اور شفقت کا رشتہ بھی قائم ہوگیا تھا، وہ میرے کالج کے بعد سراج الدولہ گورنمنٹ کالج کے پرنسپل ہوئے ۔ لطف اﷲ صاحب طویل عرصے تک جمعیت الفلاح کے سیکریٹری اور صدر رہے۔ انہوں نے مجھے بھی جمعیت الفلا ح سے منسلک رکھا، جمعیت الفلاح کی لائبریری کی ترتیب و تنظیم میں میرا بھی کچھ حصہ ہے۔لطف اﷲ صاحب بڑے نفیس ، خوش گفتار، نرم مزاج انسان تھے۔ اﷲ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔

تقریب کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ بعد ازں ندیم اقبال صاحب نے جو فاران کلب کے اِس وقت سیکریٹری ہیں اسٹیج سیکریٹری کے فرائض انجام دیتے ہوئے تقریب کی غَرَض و خایَت بیان کی۔انہوں نے لند ن میں مقیم ایک پاکستانی برطانوی’ حاشر فاروقی‘ صاحب کی شخصیت ، کتابوں سے ان کے تعلق اور Impactسے ان کی وابستگی پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔ تقریب میں کئی چہرے شناسا نظر آئے۔ ان میں سے کچھ تو مقررین میں شامل تھے بعض میری ہی طرح تقریب کے عام مہمان تھے۔ ان احباب میں ادریس بختیار ، اعجاز رحمانی ، پروفیسر انوار احمد زئی، پروفیسر ہارون رشید صاحب ، آرٹس کونسل کے احمد شاہ صاحب، کراچی بار کے نعیم قریشی صاحب، خواجہ رضی حیدر صاحب، قیصرخان صاحب، عطا محمد تبسم صاحب اور دیگر شامل تھے ۔ لوگ تو اور بھی تھے لیکن میں جن جن سے واقف تھا ان کے نام تحریر کیے ہیں۔

تقریب کے پہلے مقررکراچی بار کے جناب نعیم قریشی تھے انہوں نے اپنے ہم پیشہ خالد اسحاق مرحوم کے بارے میں تفصیل سے گفتگو کی اور اس لائبریری کو ان کی بیاد بنانے کے عمل کو سراہا۔ آرٹس کونسل کے موجودہ سیکریٹری جنرل احمد شاہ صاحب نے تقریر کرتے ہوئے منتظمین ِ فاران کلب کو کراچی شہر میں ایک اچھی جگہ اور خوبصورت لائبریری بنانے پر مبارک باد دی۔ انہوں اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ خالد اسحاق مرحوم کی بہترین لائبریری سے اہل کراچی مستفید نہیں ہوسکے اور وہ لاہور کے ایک تعلیمی ادارہ نے حاصل کر لی۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب کی اشرافیہ نے یہ اچھا کام کیا انہوں نے کہا کراچی کی اشرافیہ کو پہلے اس بات کا خیال آجاتا تو ہم ایک اچھے کتب خانے سے دور نہ ہوتے۔ جناب احمد شاہ نے اعلان کیا کہ انہیں آرٹس کونسل میں جو کتب موصول ہوتی ہیں وہ کتاب دینے والوں سے یہ کہیں گے کہ وہ کتاب کے دو نسخے دیا کریں اورمیں ان دو میں سے ایک کتاب اس لائبریری کو دے دیا کروں گا۔انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک سے کتاب کلچر اور لائبریریاں رفتہ رفتہ ختم ہورہی ہیں۔ بڑی بڑی کتابوں کی دکانوں کی جگہ پلازے اور شاپنگ سینٹر قائم ہورہے ہیں جس کے نتیجے میں ہماری موجودہ نسل کتاب سے ، کتب خانوں سے دور ہوتی جارہی ہے۔

تقریب کے تیسرے مقرر تعلیمی بورڈ کراچی کے چیرٔمین پروفیسر انوار احمد زئی صاحب تھے۔ انہوں نے اپنے مخصوص انداز ، خوبصورت الفاظ ، ادبی جملوں اور موضوع کی مناسبت سے تاریخی واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے گفتگو کی۔ انہوں نے کہا کہ ایک شخص کسی بڑے ہال جہاں پر اندھیرے تھا،ایک چراغ جلائے بیٹھا تھا۔ جس کی مَدَھم مَدَھم روشنی ہورہی تھی کسی نے شخص سے کہا کہ اتنے بڑے ہال میں تم ایک چراغ چلائے ہوئے ہو اس سے کیا فائدہ ، کیوں اپنا وقت ضائع کررہے ہو اس شخص نے جواب دیا کہ میں اس وجہ سے یہ چراغ جلائے ہوئے ہوں کہ میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اندھیرے اور اجالے میں فرق ہوتا ہے، چاہے وہ روشنی مدھم ہی کیوں نہ ہو۔پروفیسر انوار احمد زئی نے لائبریری کا نام مولانا محمد علی جوہر رکھنے کے حوالے سے مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی جوہر اور سرسید احمد خان کے حوالے سے بھی گفتگو کی۔ انہوں نے ڈاکٹر یوسف میمن کے انتقال کی خبر بھی تھی جو کہ میرے لیے زیادہ افسوس ناک تھی کیونکہ ڈاکٹر یوسف میمن سے میرے قدیمی اور بہت اچھے تعلقات تھے۔ وہ کافی عرصہ سے بیمار چل رہے تھے۔ کراچی علاج کی غرض سے آتے تو مجھے فون ضرور کیا کرتے تھے۔ تاریخ ان کا موضوع تھا۔ کتاب دوست اور کتابوں کے عاشق، میر پور خاص جیسے چھوٹے شہر میں ان کی ذاتی لائبریری کئی ہزار کتب اور نایاب ذخیرہ پر مشتمل ہے۔ کچھ عرصہ قبل جب میں نے اپنی ذاتی لائبریری کو کسی بھی لائبریری کو تحفہ دینے کا فیصلہ کیا تو ڈاکٹر یوسف کو بھی چند سو کتابیں ان کی ذاتی لائبریری ’یوسف لائبریری‘ کے لیے بھی دیں تھیں۔ ڈاکٹر صاحب از خود اپنی گاڑی میں وہ کتابیں لے گئے تھے۔ میں کافی عرصہ سے پروگرام بنا رہا تھا کہ میر پور خاص جاکر ڈاکٹریوسف میمن سے ملاقات کروں ، ان کی خیریت دریافت کروں اور ان کی لائبریری کو بھی دیکھوں۔ افسوس میری یہ حسرت پوری نہ ہوسکی ۔آج پروفیسر انوار احمد زئی کی زبانی معلوم ہوا کہ میرا وہ مخلص دوست جس نے مجھے آموں کا تحفہ بھی دیا، شربت اور اچار بھی تحفے کے طور پر لائے۔ یہ خلوص اور محبت اب ناپید ہوتا جارہا ہے۔ انشاء اﷲ زندگی رہی تو ڈاکٹر یوسف اور ان کی لائبریری پر کچھ لکھوں گا۔ میر پور خاص جیسے چھوٹے اور پسماندہ شہر کے لوگوں کو یوسف لائبریری کا تحفہ دینے والے کا تنا حق تو ہے کہ ہم اسے اپنے ٹوٹے پھوٹے الفاظ سے خراج تحسین پید کریں۔ اﷲ تعالیٰ ڈاکٹر یوسف کی مغفرت فرمائے اور انہیں جنت الفروس میں اعلیٰ مقام نصیب کرے ۔ آمین۔

پروفیسر انوار احمد زئی کا کہنا تھا کہ فاران کلب کی منتظمہ اگر مناسب سمجھے تو وہ ان کے ہمراہ ڈاکٹر یوسف کے گھر جانے کو تیار ہیں اور ان کی بیگم سے درخواست کریں گے کہ وہ ڈاکٹر یوسف کی لائبریری فاران کلب کو عطیہ کردیں۔ پروفیسرزئی کی تجویزمناسب ہے لیکن میرا ذاتی خیال ہے کہ ڈاکٹر یوسف نے اپنی زندگی میں اپنی ذاتی لائبریری جو کہ عام لوگوں کے استعمال کے لیے بھی تھی کا کوئی نہ کوئی اہتمام کردیا ہوگا۔ ذئی صاحب نے بڑی پیاری بات کہی کہ مولانا محمد علی جوہر کا جاری کردہ ’کامریڈ‘ کا تبدیل شدہ ورژن حاشر فاروقی نے Impactکے نام سے لندن سے جاری کیا اورImpact کا تسلسل فاران کلب کے زیر اہتمام قائم ہونے والی یہ مولان محمد علی جوہر لائبریری ہے۔ انہوں نے مولانا محمد علی جوہر کی والدہ کابھی ذکر کیا۔ آخر میں انہوں نے کہا کہ حاشر فاروقی نے جو کچھ حاصل کیا تھا اسے منافے کے ساتھ واپس کردیا ہے ۔ جس کے لیے وہ قابل مبارک باد ہیں۔

پروفیسر ہارون رشید صاحب نے طویل تقریر کی۔ اپنے دیر سے پہنچنے کی تفصیل بیان کی۔ہارون رشید صاحب کراچی کے کالجوں میں استاد رہے، اساتذہ تنظیم کے سرگرم کارکن رہے، انیتہ غلام علی موحوم کے ساتھیوں میں سے رہے، پروفیسر ہوئے، پرنسپل ہوئے اور پھر ای ڈی او بھی ہوئے اس اعتبار سے کراچی کے کالجوں میں قائم کتب خانوں کی ابتر حالی کا ذکر بھی تفصیل سے کیا۔ کراچی کے تعلیمی حالات ان سے بہتر کون جان سکتا ہے۔انہوں نے اس بات کا ذکر بھی کیا کہ کالجوں میں لائبریری کے لیے بجٹ نہیں دیا جاتا ، یہ صورت حال اس وقت بھی جب ہارون رشید صاحب کالجوں کے انتظامی معاملات ان کے دائرہ اختیار میں تھے ، کتنا اچھا ہوتا کہ یہ اپنے دور میں کتب خانوں کا بجٹ بحال کرادیتے۔ستم ظریفی ہے کہ جب ہم بہ اختیار ہوتے ہیں تو سب کچھ بھولے ہوئے ہوتے ہیں اور جب بے اختیارہوجاتے ہیں توسب کچھ یاد آجاتا ہے۔ خواجہ رضی حیدر نے اپنے خطاب میں ہندوستان کے کتب خانوں کا ذکر کیا، مطالعہ کی اہمیت پرروشنی ڈالی، تحریک خلافت کا ذکر کیا۔ انہوں نے مولانا محمد علی اور قائد اعظم محمد علی جناح کے تعلق سے بھی گفتگو کی۔

تقریب کے مہمان خصوصی شہر کراچی کے سابق ناظم نعمت اﷲ خان صاحب نے اپنے خطاب میں فرمایا کہ ندیم اقبال جو ان کے فرزند ہیں اور ادارہ فاران کلب کے سیکریٹری بھی ہیں کے کسی پروگرام میں بطور مہمان خصوصی پہلی بار شرکتب کررہا ہوں۔ انہوں نے کراچی کے قلب میں ایک شاندار لائبریری کے قیام پر منتظمین ِفاران کلب کو مبارک باد دی۔ انہوں نے کہا کہ فاران کلب نے کراچی میں ہونے والی دہشت گردی اور منفی حالات میں علم کے فروغ اور مطالعہ کی سہولتیں فراہم کرنے کے لیے جو علمی قدم اٹھایا ہے وہ قابل تعریف ہے۔ نعمت اﷲ خان صاحب نے کتب خانوں کی اہمیت اور ضرورت پر روشنی ڈالی۔ آپ نے کہا کہ جب میں ناظم کراچی تھا تو کتب خانوں کے قیام اور ان کی بہتری کے لیے بہت سے اقدامات کیے۔ انہوں نے کہا کراچی میں قائم محمد علی سوسائٹی کے بارے میں عام خیال یہ تھا کہ یہ محمد علی بوگرا کے نام سے منسوب ہے لیکن جب میں نے تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ محمد علی سوسائیٹی مولانا محمد علی جوہر کے نام سے آباد کی گئی تھی۔ انہوں نے خالد دینا ہال کا ذکر بھی کیا جہاں پر مولانا محمد علی جوہر پر مقدمہ چلا تھا۔ انہوں نے کہا اس لائبریری کی کتابیں دو کنٹینروں میں سفر کرکے لندب سے کراچی ایسے وقت میں آئیں ہیں اور حاشر فاروقی نے ایسے حالات میں یہ تحفہ اہل کراچی کو دیا ہے جب کہ یہاں دہشت گردی کا دور دورہ ہے۔ یہ تو پر امن شہر رہا ہے، روشنیوں کا شہر، امن کا شہر، بھائی چارے کا شہر نہیں معلوم اسے کس کی نظر لگ گئی کہ یہاں پر دہشت گردی نے ڈیرے جمالیے ہیں۔ میرے خیال میں دہشت گردی کا بہترین جواب یہ لائبریری ہے۔کتاب ہی وہ بہترین تحفہ ہے جس کے ذریعہ دہشت گردوں کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔انہوں نے اپنی تقریر میں دہشت گردی کے بارے میں تفصیل سے روشنی ڈالی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس لائبریری کی ایک ایک کتاب کراچی کے دہشت گردوں کا جواب ہے ۔یہ ایک ایسا تحفہ ہے جس کی ہم قدر کرسکتے ہیں ناقدری نہیں کرسکتے۔یہ کراچی کے لوگوں کے لیے پاکستان کے لوگوں کے لیے بیش بہا قیمتی تحفہ ہے جو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

نعمت اﷲ خان صاحب نے خالد اسحاق مرحوم سے اپنے تعلق کا حوالہ بھی دیا۔ انہوں نے کہا کہ خالد اسحاق کتابوں سے بے پناہ عقیدت اور شوق رکھتے تھے۔انہیں کتابوں سے دیوانگی کی حد تک لگاؤ تھا۔ ان کی لائبریری پرائیویٹ لائبریریوں میں سب سے بڑی تھی۔ حاشر فاروقی صاحب نے ان کتابوں کوطویل سفر کراکے ہمیں بھیجا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہماری زندگی کتاب سے شروع ہوئی۔ اﷲ تعالیٰ نے ہمیں بتا دیا ہے کہ تمہیں اس کتاب سے جسے قرآن کہتے ہیں روشنی ملے گی تمہیں کہیں اور جانے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہمیں قرآن کو سمجھ کر پڑھنا چاہیے ۔ لاکھوں مسلمان اسے ہر روز پڑھتے ہیں انہیں یہ نہیں معلوم ہوتا کہ وہ کیا پڑھ رہے ہیں۔ ثواث کی خاطر تو ٹھیک ہے لیکن ہمیں اس کے معنی و مطب بھی معلوم ہونے چاہیے۔ آج ہم دنیا میں ذلیل ہیں اس کی وجہ ہی یہ ہے کہ ہمارا رویہ قرآن کے ساتھ مختلف ہوگیا ہے۔ نماز مغرب کے باعث تقریب اختتام کو پہنچی۔ مہمانوں کی تواضع چائے سے کی گئی ا س طرح یہ پروقار تقریب اختتام کو پہنچی۔(8جون2015)
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1282012 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More