درجاتِ ایمان (darjat-e-Aman)

تحریر: عنبرین میغیث سروری قادری ایم۔اے (ابلاغیات)
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو حکم دیتا ہے کہ ’’اپنے پرودِگار کی عبادت اس حد تک کر کہ تجھے یقین حاصل ہوجائے۔‘‘ یعنی اللہ کی عبادت کا مقصد اس بات کا کامل یقین حاصل کرنا ہے کہ وہ واحد ہے، اس کے جیسا کوئی نہیں، ہر عمل اس کے حکم سے ہو رہا ہے، وہ ہر جگہ حاضرو ناضر ہے اور ہمارے ہر عمل کو دیکھ رہا ہے اور یہ کہ انسان اپنے ہر عمل کے لیے اللہ کے ہاں جواب دہ ہے اور اللہ اسے اس کے عملوں کی جزا اور سزا بھی دے گا۔زبان سے یہ کہہ دینا نہایت آسان ہے کہ ہمیں ان تمام باتوں پر یقین ہے لیکن اگر واقعی ہمیں اس بات کا پختہ یقین ہو کہ اللہ ہماری شہ رگ سے بھی نزدیک ہے، ہر وقت ہمارے قریب ہے اور ہمارے ہر عمل کو واقعی دیکھ رہا ہے تو اس کے خوف سے ہم کبھی گناہ کے قریب بھی نہ پھٹکیں ۔ اگر ہمیں اس بات کا پورا یقین ہو کہ اللہ دِلوں کے حال بھی جانتا ہے تو اس عظیم بادشاہ کی پکڑ کے ڈر سے دِل میں بھی کوئی بُرا خیال نہ آنے دیں، ہم لوگوں کے سامنے گناہ کرنے سے احتراز کرتے ہیں اس خیال سے کہ وہ ہمیں دیکھ رہے ہیں لیکن اکیلے میں چھپ کر گناہ کرلیتے ہیں، وہاں ہمیں خیال کیوں نہیں آتا کہ ایک ذاتِ واحد ہے ہمیں دیکھ رہی ہے بلکہ یہ تو وہ ذات ہے جس کے پاس ہمیں سزا دینے کی قوت بھی ہے۔ اکیلے گناہ کرتے وقت اللہ کی ذات کے قرب کا خیال نہ آنے کی وجہ ہمارے اس یقین کی کمزوری ہے کہ اللہ ہمیں دیکھ رہا ہے۔

اللہ کی ہر جگہ موجودگی اور اس کی تمام قوتوں کا مکمل یقین کے ساتھ اقرار ہی ایمان ہے۔ اور یقین کی پختگی کے حساب سے ایمان کے تین درجے ہیں۔(۱) علم الیقین (۲) عین الیقین (۳) حق الیقین ۔

علم الیقین ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے اس سے مراد یہ ہے کہ ہم کسی کے بتانے پر یا پڑھ کر اس بات کا یقین کرلیں کہ اللہ موجود ہے،عبادت کے لائق ہے، ہمارے ہر عمل کو دیکھ رہا ہے اور جزا و سزا کا مالک ہے جیسا کہ آجکل تقریباً تمام مسلمانوں کا ایمان اسی درجے پر ہے۔ بزرگوں نے بتا دیا اور ہم نے مان لیا۔ نہ سمجھنے کی کوشش کی نہ اس بات کی گہرائی میں جھانکا۔ یقین و ایمان کا درجہ اس وقت صحیح ہے جب اس بات کو سن کر اس کی حقیقت تک پہنچنے کی خواہش دِل میں پیدا ہو ۔ اگر ایسا نہ ہو تو اس سے یہی مراد لیا جائے گا کہ انسان نے ایمان کے پہلے درجے تک بھی رسائی حاصل نہ کی اور اللہ کے متعلق حاصل ہونے والے علم کو کوئی اہمیت نہ دی جیسے کوئی بچہ سبق کو رٹ کر دہرا تو دیتا ہے لیکن سمجھنے کی کوشش نہیں کرتا۔

عین الیقین کا مطلب ہے آنکھوں سے دیکھ کر یقین کرنا اور سنی ہوئی خبر کو دیکھ کر اس کی تصدیق کرنا۔ یہ ایمان کا بہتر درجہ ہے ، جب ایک مسلمان اللہ کو دیکھ کر پہچان کر اس کی عبادت کرتا ہے جیسا کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا: (مفہوم)‘‘اللہ تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرو جیسے تم اسے دیکھ رہے ہو ورنہ وہ تو تمہیں دیکھ ہی رہا ہے۔‘‘

حق الیقین یہ ہے کہ خبر کی اچھی طرح تحقیق کرکے اس کے تمام پہلوؤں کو شناخت کرلیا جائے، اس کے بارے میں ہر تفصیل دینے کے لائق ہو جائے۔ یہ تفصیل اس علم کا خود حصہ بنے بغیر یا اس کا تجربہ کئے بغیر حاصل نہیں ہو سکتی۔

واضح ہو کہ یقین کرنا کانوں آنکھوں یا دماغ کا کام نہیں بلکہ دِل کا کام ہے اور دِل صرف سن یا دیکھ کر یقین نہیں کرتا جیسا کہ کئی بار ہم بات کو سن کر یا واقع کو دیکھ کر بھی اس پر یقین نہیں کرتے اورکہتے ہیں کہ’’میرا دِل نہیں مانتا۔‘‘ دِل تب تک یقین نہیں کرتا جب تک بات کی اچھی طرح خود تحقیق نہ کرلے یا خود اس تجربے سے نہ گزرے۔ آپ ایک بچے کو لاکھ خبر دیں کہ بیٹا یہ آگ ہے اس کے قریب نہ جاؤ جل سکتے ہو لیکن وہ نہیں مانتا، آپ اسے آگ سے کچھ جلا کر بھی دکھاتے ہیں تاکہ وہ یقین کرلے کہ آگ کا کام جلانا ہے اور اس سے بچ جائے لیکن جب تک وہ خود کئی بار تجربے سے اچھی طرح سمجھ نہیں جاتا کہ آگ گرم ہوتی ہے اور جلا دیتی ہے تب تک اس سے کھیلتا رہتا ہے۔ اسی طرح کئی اور مثالیں سن کر یا دیکھ نہیں کرتا جب تک تجربہ نہ کرے۔

ایمان کے تین درجوں علم الیقین،عین الیقین، حق الیقین کو ایک مثال کے ذریعے واضح کیا جاسکتا ہے، ایک انسان جس نے کبھی سمندر نہ دیکھا ہو اسے الفاظ کے ذریعے کتنا بھی علم دیا جائے کہ سمندر کیسا ہوتا ہے، وہ بات کو مان تو لے گا لیکن سمندر کے متعلق اسی کا علم کمزور ہوگا۔ یہ علم الیقین ہے، البتہ جب وہ سمندر کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لے گا تو اس کا یقین بہتر ہوجائے گا کہ اس کو جو خبر دی گئی تھی وہ واقعی سچ ہے، لیکن سمندر کے متعلق اس کا علم اب بھی مکمل نہیں۔ یہ صرف سمندر کے ظاہر کا علم ہے ۔ جب تک وہ خود سمندر میں اتر کر نہ دیکھ لے کہ سمندر کتنا وسیع ، کتنا گہرا اور اپنے اندر کیسے کیسے موتی چھپائے ہے۔

ذاتِ الٰہی سمندر سے بھی گہری اور کہیں زیادہ خوبصورت ہے دینِ الٰہی میں بے شمار حسین موتی چھپے ہیں۔ عام مسلمان تو اس کے کنارے تک بھی نہیں پہنچتا اور نہ پہنچنا چاہتا ہے۔ بس صرف زبانی علم کو ہی اپنے لیے کافی سمجھتا ہے۔اللہ کے قرب کو کبھی اپنی روح کے اندر محسوس نہیں کرتا حالانکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے’’وفی انفسکم افلا تبصرون‘‘ ’’میں تمہارے اندر ہوں کیا تم غور سے نہیں دیکھتے۔‘‘ اتنی قریب ذات کی پہچان اور علمِ معرفت حاصل نہ کیا، تو چاند ستاروں کا علم بھی بے فائدہ ہے، ایک عام مسلمان تو بچے سے بھی گیا گزرا ہے ایمان جیسی اہم ترین چیز کے بارے میں صرف سن لینے کو کافی سمجھنا اور تحقیق کے ذریعے اس کی حقیقت تک رسائی حاصل نہیں کرنا۔
Nasir Hameed
About the Author: Nasir Hameed Read More Articles by Nasir Hameed : 29 Articles with 48010 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.