اے اللہ! میں تجھ سے تجھی کو مانگتا ہوں۔

تحریر: مسز عنبرین میغیث سروری قادری ایم۔اے(ابلاغیات)

اے حسنِ کامل ، اے سوہنے جہاں کے سوہنے ربّ مجھے تیری اس بے حد و حساب خوبصورت کائنات میں تجھ سے زیادہ حسین، اور چاہے جانے کے لائق کوئی نہیں دِکھا۔ اے میرے پیارے ربّ تونے مجھے ’’زندگی‘‘ کی نعمت دے کر مجھ پر بے حد احسان کیا ، یہ جسم ، یہ روح، یہ جان تیرا کرم ہے، یہ رشتے یہ ناطے تیرا احسان ہے، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا امتی بنا کر کرم کی انتہا کردی۔ان سب احسانوں پر میں پھر بھی تیرے مزید کرم کا طلبگار ہوں ۔ اے ربّ تونے مجھے ا تنا سب عطا کر دیا لیکن اپنی ذات کا سچا اور شدید عشق عطا نہ کیا تو یہ زندگی، یہ روح، یہ رشتے ناطے میرے کس کام کے۔ اے میرے ربّ میرا پہلا رشتہ، پہلا تعلق تو ہے۔

ازل میں جب تونے مجھے تخلیق کیا تو میری روح نے آنکھ کھولتے ہی سب سے پہلے تیرا دیدار کیا ، تیرے جلوے ، تیرے قرب کے ’’رزق‘‘ اور عبادت پر میری روح کی پرورش ہوئی ۔ میرا کوئی نہ تھا تیرے سوا۔ میرے لیے بس ایک توہی سب کچھ تھا ۔ میں تو تجھ سے ، تیرے حسین قرب سے ایک پل کے لیے بھی جدا نہ ہونا چاہتا تھا۔ لیکن تیری رضا اس میں تھی کہ تو میرے اور اپنے اس مضبوط رشتے کو آزمائش کی کڑی بھٹی سے گزار کر تاابد قائم و دائم کر دے ۔پس تونے یہ حسین کائنات تخلیق کی، مجھے ایک خوبصورت جسم عطا کیا جس میں خواہشوں سے بھرا دِل رکھ دیا اور پھر ایک انتہائی کٹھن امتحان کے لیے اس دنیا میں بھیج دیا۔ اس دنیا میں ماں، باپ، بہن، بھائی، دوست، محبوب کے خوبصورت رشتوں نے مجھے اپنی محبتوں میں جکڑ لیا۔ بھوک ، لباس، صحت کی فکروں نے مجھے گھیرنا شروع کیا۔ اور میں ان شکنجوں میں پھنستے پھنستے تجھ سے اپنے ا نتہا ئی قریبی اور محبت بھرے تعلق کو بھولنے لگا۔تیری یاد ، تیرا قرب مجھ سے چھوٹنے لگا۔ میں ان ضرورتوں میں اس قدر گِھرا کہ میں نے یہ سمجھنا شروع کر دیا کہ زندگی کا مقصد صرف ان ضرورتوں کو پورا کرنا اور ان رشتوں کو نبھانا ہی ہے ۔ یہاں تک کہ میرے دل و دماغ پر میرے جسم کی ان ضرورتوں نے اس قدر قبضہ کیا کہ میں نے تجھ سے بھی اپنا روحانی تعلق بھلا کر صرف ضرورت کا رشتہ قائم کر لیا۔ تیری عبادت کی لیکن اپنی غرض سے ، اپنی خواہشوں کی تکمیل کے لیے ۔ یہ عبادت بھی صرف جسم کے ساتھ کی بغیر روح کے، آدھی ادھوری ،نامکمل ،ہوس و لالچ سے پُر۔

لیکن اے میرے رب میں ’’انسان ‘‘ ہوں بھول جانے والا ، غرضی۔ لیکن تُو تو ربّ ہے ، بے عیب ، بے غرض ۔اپنے بندوں کو ہر حال میں یاد رکھنے والا۔ توہی تو تھا جو ماں باپ بہن بھائیوں کے روپ میں مجھے اپنی محبتوں سے نواز رہا تھا لیکن میری نظر تجھ پر نہیں ان کے جسمانی وجود وں پر تھی ۔ اے میرے ربّ اس سے پہلے کہ ’’زندگی‘‘ کے اس امتحان کا وقت ختم ہوجائے اور میں تجھ سے اپنی محبت اور اپنے سچے تعلق کو واپس جوڑے بغیر اس جہانِ فریب سے واپس تجھ تک لوٹوں اور سب کے سامنے اپنی ناکامی پر شرمساری اور ندامت میرا مقدر ہو جائے، آج میں تجھ سے التجا کر تا ہوں کہ ان تمام دنیاوی شکنجوں سے رہائی عطا کر کے مجھے اپنی خالص محبت سے نواز دے ۔ میں اپنے اور تیرے ازلی رشتے کو بھول چکا تھا اس کے لیے مجھے معاف کر دے۔ تو نہ ملا، تیرا قرب نہ ملا، تو نہ دنیا میرے کام کی، نہ رشتے ناطے میرے کام آئیں گے،نہ جنت ہی کچھ سکون دے پائے گی۔ اس لیے آج میں ہر شے کی خواہش کو ترک کر کے تجھ سے صرف اور صرف تجھی کو مانگتا ہوں کہ تو ہی ہے جو ازل میں میرا اول رشتہ تھا اور تو ہی ہے جو ابد میں میرا آخری رشتہ ہوگا۔اس سب کے درمیان جو کچھ تھا صرف ایک آزمائش تھی جسے میں نہ سمجھا۔مجھ پر رحم کر میرے ربّ ،مجھے میرا ازل والا وہی اپنااور میرا بے لوث رشتہ لوٹا دے جب میرے اور تیرے درمیان کچھ نہ تھا۔ اگر تونے مجھے اپنے قرب کی خواہش عطا نہ کی اور اس قرب کے لیے جد و جہد کی توفیق عطا نہ کی تو میں اس دنیا کی دلدل میں دھنس کررہ جاؤں گا۔ میں جانتا ہوں کہ تیرے قرب کا حصول آسان نہیں لیکن اگر تو خود مد د کرے اور میرا ہاتھ پکڑ لے تو کچھ مشکل نہیں۔ اے میرے ربّ میں نے تیری طرف، تیری طلب میں اپنا ہاتھ بڑھایا ، اسے تھام کر مجھے اس دنیا کی دلدل سے نکال کر اپنے قریب کرنا اب تیرا کام ہے۔ اگر تونے میرے گناہوں پر نظر کرکے مجھے نہ تھاما تو پھر توہی بتا میرا اور کون سہارا ہے۔
میرے سوہنے ربّ اس تمام کائنات میں تجھ سے اچھا ہے ہی کیا جو میں مانگوں۔ تونے خود ہی فرمایا کہ مجھ سے مانگو میں عطا کر وں گا۔ یہ میری نادانی تھی کہ میں تجھ سے وہی کچھ مانگتا رہا جو تونے پہلے سے ہی میرے مقدر میں لکھ رکھا تھا۔ تونے تو مجھے بن مانگے ہر شے عطا کر رکھی ہے۔ تو کیا آج اگر میں تجھ سے تجھ کو ہی مانگوں گا تو تو انکار کر دے گا ؟ ہر گز نہیں۔ تو بھی تو اپنے بندوں سے یہی چاہتا ہے نا کہ وہ تجھ سے بڑھ کر کسی اور شے کی طلب نہ کریں۔

اے میرے رب مجھے اپنے قرب کی پناہ میں لے لے۔ صرف توہی ہے جو مجھے شیطان، نفس اور دنیا کی چالوں سے بچا سکتا ہے ۔ مجھ عاجز میں تو اتنی طاقت بھی نہیں کہ ان سے مقابلہ کر سکوں ۔اے اللہ دنیا کے سرداروں کا بھی یہ اصول ہے کہ وہ اپنی پناہ میں آنے والوں کو دشمن کے حوالے نہیں کر تے ۔ میں شیطان، نفس اور دنیا سے بچ کر تیری پناہ میں آنا چاہتا ہوں مجھے واپس ان کے حوالے نہ کرنا۔

اے میرے رب مجھے عطا کر اپنی وہ خاص محبت جو تو صرف اپنے خاص محبوبوں کو عطا کر تا ہے۔بُرا ہی سہی میں بھی تو تیرا بندہ ہوں۔ اے میرے رب مجھے عطا کر اپنا وہ خاص قرب جو تونے اپنے دوستوں کے لیے مخصوص کر رکھا ہے، مانا میں آج تک تیرا دوست نہ تھا مگر آج مجھے بھی اپنے دوستوں میں شامل کر لے۔ گنہگار ہی سہی تیرے محبوب کا اُمتی تو ہوں۔ کبھی تو تیرے اور میرے بیچ خالص محبت رہی تھی۔ اس ازل کی محبت کا واسطہ ، جسے میں تو دنیا کے اپنے مسئلوں میں الجھ کر بھلا چکا ہوں لیکن تو تو نہیں بھولا ، مجھے وہی محبت دے دے ۔ تیری محبت کی قوت ہی مجھے سہارا دے گی ان تمام فریبوں ، جالوں، ضرورتوں اور ظاہری رشتوں کے لمبے دریا کو عبور کرکے تجھ تک پہنچنے کا ۔ میں راستے میں ضرور ڈگمگاؤں گا کہ میں عاجز انسان ہوں، شیطان مجھ پر بار بار حملہ کرے گا اور مجھے پھر سے دنیا کی خوبصورتیوں اور رشتوں کی ضرورتوں میں الجھائے گا، مجھ سے بار بار تیرا دامن چھوٹے گا،لیکن اگر تونے مجھے تھامے رکھا تو مجھے کوئی خوف نہیں، دنیا کی کوئی طاقت مجھے تجھ سے دور نہ کر سکے گی۔ اے میرے ربّ آج مجھے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تھام لے۔ اپنا بنا لے۔اپنا بنالے۔
Nasir Hameed
About the Author: Nasir Hameed Read More Articles by Nasir Hameed : 29 Articles with 48014 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.