را ، راہداری اور راحیل شریف

ہندوستانی خفیہ ایجنسی را(R&AW Research and Analysis Wing)کا قیام 1968اندرا گاندھی کے دور میں ہوا جس کی وجہ ہند چین جنگ (1962)اورپاک ہندجنگ( 1965 ) میں ہونے والی intelligence failureتھی۔ اس کا مین ہیڈ ٓافس لودھی روڈ ، نئی دہلی پر واقع ہے اور اس کے موجودہ سربراہ کا نام رجندر کھنہ ہے ۔ را کا سربراہ سیکریٹری ریسرچ کہلاتا ہے جو براہراست بھارتی وزیر اعظم کی کمانڈ میں کام کرتا ہے۔ انتظامی معاملات پر وہ کیبنٹ سیکریٹری اور روزانہ کی بنیاد پر نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر کو رپورٹ کرتا ہے ۔

را کوئی الگ سے ایجنسی نہیں بلکہ یہ انڈین کیبنٹ سیکریٹیریٹ کا ایک حصہ ہے اسی بنا پر Wingکا لفظ استعمال کیا جاتا ہے ۔کیبنٹ سیکریٹیریٹ کا حصہ ہونے اور ایک مکمل ایجنسی statusنہ ہونے کی وجہ سے را اپنے کسی بھی فعل کے لئے بھارتی پارلیمنٹ کو جوابدہ نہیں ہے۔ را بارے معلومات کو Right to Information Actکی دفعہ 24 کے تحت استثنا ء حاصل ہے اور را سے متعلق معاملات پر معلومات تک رسائی کا قانون لاگو نہیں ہوتا یہ ایک قانونی تحفظ ہے جو را کے معاملات کو خفیہ رکھنے کے لئے دیا گیاہے۔

راء میں چین اور پاکستان سے متعلق معلومات اور نظر رکھنے کے لئے الگ الگ ڈیسک قائم ہیں ۔ را نے اپنے operationsکے حساب سے دنیا کو area wiseتقسیم کیا ہوا ہے جن میں Area One: Pakistanاور Area two: Chinaہے ۔ را کے امریکی ، روسی، برطانوی اور اسرائیلی ایجنسیوں سے قریبی رابطے ہیں اور ان ممالک میں اس کے افسران کو تربیت بھی دی جاتی ہے ۔ را اپنے مقاصد کے حصول کے لئے نفسیاتی حربے، قتل و غارت ، معاشرتی قدروں پر حملہ اور اپنے شکار کی ہر طرح کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتی ہے ۔

2011میں ہندوستان نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ وہ را اور دیگر intelligenceافسران کی economic intelligenceکے حوالے سے تربیت کے لئے ایک Multi-disciplinary School of Economic Intelligenceقائم کرئے گا بعد ازاں National Academy of Custom, Excise and Norcotics Mumbai (NACEN)کو ہی Designated Multi-disciplinary School of Economic Intelligenceقراردیاگیااوراب اس ادارے میں را کے افسران کو economic intelligenceکی تربیت دی جاتی ہے ۔

ہندوستان کا Main Focus اور پاک چین راہداری ؟

دنیا میں چار Emerging Economiesتسلیم کی جا رہی ہیں جن میں برازیل، رشیا،انڈیا اور چائنا شامل ہیں (Brazil, Russia, India, China = BRIC)جنہیں BRIC Economies or BRIC Countriesبھی کہا جاتا ہے ۔ہندوستان اور روس کے پرانے تعلقات ہیں اور برازیل اس میدان میں ابھی تھوڑا پیچھے ہے باقی رہ جاتا ہے چین جو کہ معیشت کے میدان میں ہندوستان کا immediate rivalہے جس کی وجہ سے ہندوستان چین کے ساتھ economic warfareمیں ہے اور اس کا main focus چین ہے پاکستان نہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ہندوستان کا main focusچین ہے تو پھر وہ پاک چین راہداری کو ناکام کرنے کے لئے را کے ذریعہ پاکستان کے اندر کیوں کاروائیاں کر رہا ہے ؟اس کا جواب یہ ہے کہ پاک چائنا راہداری کا منصوبہ بنیادی طور پر چین کا ہے اور تمام سرمایہ کاری بھی چین ہی کر رہا ہے تو ظاہری بات ہے کہ اس کا سب سے زیادہ فائدہ چین کو ہوگا۔مال کی ٓامد و رفت اور وسطی ایشیائی ریاستوں تک چین کی رسائی ٓاسان ہو جائے گی ۔چین کو گوادر کے ذریعہ نہ صرف گلف ممالک بلکہ یورپ تک بھی ایک مختصر routeمل جائے گاجس سے چین کی معاشی سرگرمیوں میں ہندوستان کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ تیزی ٓائے گی اور چین تھوڑے وقت میں معیشت کے میدان میں ہندوستان پر سبقت لے جائے گا ۔ یہ ساری حقیقت ہندوستان کو دیوار پر لکھی نظر ٓارہی ہے جسے ہضم کرنا تنگ نظر ہندو ذہنیت کے لئے بڑا مشکل ہو گیا ہے ۔ مودی اس منصوبے کے ناقابل قبول ہونے کا اظہاربذبان خود چین میں کر چکے ہیں جس کے جواب میں چین نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ ہم پاکستان کے ساتھ ملکر یہ منصوبہ ضرور مکمل کریں گے ۔ایسی صورت میں ہندوستان کے پاس زور زبردستی کے سوا کوئی راستہ نہیں رہ جاتا ۔ را جیسا کہ میں نے اوپر ذکر کیا ہے براہراست بھارتی وزیر اعظم کے انڈر کام کرتی ہے اور پی ایم ہاؤس سے ہی ordersلیتی ہے لہذا را کا اس منصوبے کے خلاف متحرک ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ مودی سرکار نے اس منصوبے کو ناکام بنانے کی ذمہ داری را کو دی ہے ۔منصوبہ چونکہ چین کا ہے تواصل ہدف بھی چین ہی ہے لیکن را کا modus operandiچونکہ third partyیعنی proxiesکے ذریعہ operate کرنا ہے اسلئے را اس منصوبے کو ناکام بنانے کے لئے پاکستان میں ایک پراکسی وار لڑ رہی ہے اور پاکستان میں ایسی صورت حا ل پیدا کرنا چاہتی ہے جس سے چین یہ منصوبہ ترک کر دے۔ چین نے بھی پاکستان کو اس منصوبہ پر را کے حملوں بارے خبردار کر دیا ہے۔ دوسری طرف پاکستان میں کاروائیاں کرنے سے پاکستان کو دہشتگردی کے معاملات میں الجھائے رکھنا بھی مقصود ہے تاکہ پاکستان اپنی معاشی ترقی کی طرف توجہ نہ دے سکے یعنی ایک تیر سے دو شکار۔

اسی وجہ سے جنرل راحیل شریف کو واضح طور پر کہنا پڑا کہ کسی کو بھی پاکستان میں بیٹھ کر پراکسی وار نہیں لڑنے دی جائے گی جو اس بات کا ثبوت ہے کہ پاک فوج اور قومی سلامتی کے ادارے را کی سرگرمیوں اور ہندوستان کی نیت سے بڑی اچھی طرح ٓاگاہی رکھتے ہیں ۔راحیل شریف نے ہندوستان کو ایک واضح پیغام دیا ہے کہ پاک فوج پاکستان کے مفادات کے تحفظ کے لئے پوری طرح چاک و چوبند ہے اور ہندوستان کی کوئی ایسی حرکت جس سے ان مفادات کو نقصان پہنچے برداشت نہیں کی جائے گی۔

را کی economic intelligence تربیت کا ظاہری مقصد تو منی لانڈرنگ اور دہشتگردی کی مالی عیانت کا سراغ لگانے کی صلاحیت حاصل کرنا بیان کیا جاتا ہے تاہم اس میں کارپوریشنز اور کمپنیوں کے مالی معاملات کی چھان بین ، بینک اکاؤنٹس اور اپنے حریف ممالک کے مالی منصوبوں اور وہاں ہونے والی اندرونی و بیرونی سرمایہ کاری پر نظر رکھنا بھی شامل ہے ۔ را اس منصوبہ کو صرف پاکستان میں تخریب کاری کے ذریعہ ہی نہیں بلکہ دیگر طریقوں سے بھی روکنے کے لئے سر گرم ہے ۔ واضح رہے کہ اس منصوبہ میں ساری سرمایہ کاری حکومت چین خود نہیں کر رہی بلکہ اس میں چین کی کچھ بڑی کمپنیاں اور بینک بھی سرمایہ مہیا کریں گے ۔ را ایک طرف تو on groundاس منصوبہ کی تباہی کا سامان کرنے کی کوشش کرئے گی تو دوسری طرف وہ سرمایہ فراہم کرنے والی کمپنیوں اور بینکس کے لئے بھی ایسے حالات پیدا کرسکتی ہے کہ ان کے لئے اس منصوبہ کے لیئے فنڈز مہیاکرنے میں مشکلات پیدا ہو جائیں۔یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ معاملہ صرف پاک چین اقتصادی راہداری کا نہیں بلکہ چین توانائی کے بحران سے نکلنے میں بھی پاکستان کی مدد کرئے گا اور اس سلسلے میں حکومت پاکستان اور چین کی کچھ بڑی کمپنیوں کے مابین معاہدوں پر دستخط ہو چکے ہیں اور کام بھی جلد ہی شروع ہو جائے گا۔ یہ سارے پہلولازمی طور پر پاک چین حکومتوں اور قومی سلامتی اور دفاع کے اداروں کے مد نظر ہونگے یا ہونے چاہیے ۔

پاکستان میں ابتدائی طور پر را کو ناکامی اسطرح سے ہوئی ہے کہ اس منصوبہ سے متعلق جتنی دھول پاکستان میں میڈیا کے ذریعہ اڑائی جا رہی تھی اور اس منصوبہ کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی جارہی تھی وہ تمام سیاسی جماعتوں کے اس منصوبہ پر اتفاق رائے کے بعد ختم ہو گئی ہے ۔ دوسری اچھی بات یہ ہے کہ اس منصوبہ اور را کی پاکستان میں کاروائیوں کے حوالے سے سول اور فوجی قیادت ایک ہی نقطہ نظر رکھتی ہے ۔ بڑے عرصہ کے بعد پاکستان میں سول اور فوجی قیادت کے درمیان رابطے بہتر سطور پر استوار ہوئے ہیں اور اس کا سہرا موجودہ عسکری قیادت کے سر ہے جو مکمل پیشہ ورانہ طور پر معاملات کو چلا رہے ہیں ۔جنرل راحیل شریف کا عمل ان کی سوچ کی عکاسی کرتا ہے کہ وہ صیح معانوں میں پاکستان میں امن کے قیام اور معاشی خوشحالی میں سول حکومت کو پورا تعاون فراہم کر رہے ہیں ۔

پاکستان کے معاشی اور دیگر قومی مفادات کے تحفظ کی ذمہ داری صرف فوج یا سیاستدانوں کی نہیں بلکہ پوری پاکستانی قوم کی ہے ۔ بطور قوم ہماری یہ ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے اردگرد کے ماحول پر نظر رکھیں ۔ را کو پراکسیز کی تلاش ہمیشہ رہتی ہے اور وہ ہمارے ہی لوگوں کو ٹریپ کرکے ہمارے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کرتی ہے ۔ پیسے ، عہدے وغیرہ کا لالچ دیکر ۔ را میں کثیر تعداد میں عورتیں بھی کام کرتی ہیں جنہیں معصوم لوگوں کو پھنسانے اور اپنے مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی تربیت دی جاتی ہے ۔ پاکستان کی ترقی ، حوشحالی ، بقا ء اور سلامتی میں ہی پاکستان میں بسنے والوں کی ترقی و سلامتی ہے لہذا اس کے لئے ہم سب کو ایک ہو کر کام کرنا ہوگا تاکہ دشمن کے عزائم کو ناکام بنایا جا سکے۔ (پاکستان زندہ باد)
Zahid M. Abbasi
About the Author: Zahid M. Abbasi Read More Articles by Zahid M. Abbasi : 14 Articles with 13962 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.