روہنگیا کے مسلمان کیا مسلم نہیں ؟

روہنگیا برما ؍ میانمار کے علاقہ’ اراکان‘ اور بنگلہ دیش کے علاقے چٹا گانگ میں بسنے والے مسلمانوں کا نام ہے ، صوبہ اراکان پر برمی تسلط کے بعد ظلم و تشددد کے دور سے تنگ آکر بڑی تعداد میں مسلمان تھائی لینڈ میں مہاجر ہوگئے ۔28مارچ 2008کو تھائی وزیراعظم شماک ارواج نے کہا کہ " تھائی بحیریہ کوئی ویران ڈھونڈ رہی ہے تاکہ روہنگیا مسلمانوں کو وہاں رکھا جاسکے "۔ 2013ء میں پھر برما میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف فسادات کئے گئے ، میانمار کے دو صوبوں میں مسلمانوں پر دو بچے پیدا کرنے پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔اہم بات یہ ہے کہ میانمار روہنگیا مسلمانوں کو نسلی تعصب کی بنیاد پر اپنا شہری تصور نہیں کرتا اس لئے اقوام متحدہ روہنگیا مسلمانوں کے مسائل پر توجہ دینے میں بہانے تلا ش کر رہا ہے۔ ایشیائی تارکیں وطن کے مسائل پر بنکاک میں گذشتہ ہفتے عالمی اجلاس میں 17ایشیائی ممالک کے ساتھ امریکا ، سوئز لینڈ اور بین الالقوامی تنظیموں نے شرکت کی تھی میانمار نے بظاہرمیانمار اور بنگلہ دیش میں بھی تارکین وطن کے مسائل بنیادی وجوہات پر بات چیت کیلئے اقدامات کا وعدہ کیا ، لیکن یہ سب باتیں ہوا میں کی گئی باتیں ثابت ہوئیں۔روہنگیائی مسلمانوں کی انتہائی ابتر صورتحال یہ ہے کہ اقوام متحدہ کے مطابق ساڑھے تین ہزار مسلمان جو میانمار میں تشدد کے سبب فرار ہونے پر مجبور ہوئے کھلے سمندروں میں اپنی جانوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔ سرگرداں ان مہاجریں میں بچوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ اسی طرح سینکڑوں روہنگیائی مسلمان انسانی اسمگلروں کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں اور میانمار سے فرار ہوے والے جنوب مشرقی ایشیا کے علاقے میں ہزاروں کی تعداد میں ہلاک ہو رہے ہیں۔جبکہ سینکڑوں روہنگیائی مسلمانوں کو انسانی اسمگلروں نے غیر آباد جزیروں پر بے یار و مددگار چھوڑ دیا ہے۔
روہنگیائی مسلمانوں کی حالت زار اسق قدر تباہ کن ہوچکی ہے کہ برمیویوں کے روحانی پیشواادلائی لامہ نے میا نمار میں روہنگیا مسلمانوں کے تحفظ کیلئے میانمار کی رہنما آنگ سان سوچی سے کئی مرتبہ اپیل کی ۔ لیکن اس مسئلے کو بڑا پیچیدہ مسئلہ بھی قرار دیا جارہاہے کہ ایسے اتنے آسانی سے حل نہیں کیا جاسکتا۔
روہنگیا ئی مسلمانوں کو زندہ جلایا جا رہا ہے ان کی جائیدایں ضبط کیں جا رہی ہیں ان کی خواتین کی عصمتیں لوٹی جا رہی ہیں۔ الم ناکیوں کی اذیت ناک داستانیں رقم ہو رہی ہیں لیکن مسلم ممالک کے لبوں پر خاموشی کا تالا لگا ہوا ہے ۔ مساجد کو شہید کیا جارہا ہے ، سیکورٹی فورسز روہنگیائی مسلمانوں کو تحفظ فراہم کرنے میں مکمل ناکام ہوچکی ہیں اقوام متحدہ مسلمانوں کی تباہی بربادی و قتل و غارت پر تماشہ دیکھ رہا ہے ۔ مسلم ممالک فرقہ وارنہ بنیادوں پر خطے میں قبضے کی جنگیں لڑ رہے ہیں روہنگیائی مسلمانوں کو کھانا پینامناسب دستیاب نہیں ہے ، مردہ انسانوں کا گوشت کھانے پر مجبور ہو رہے ہیں ، سمندر کے پانی سے پیاس بجھاتے بجھاتے ان کی اپنی زندگیوں کے چراغ گل ہوتے جا رہے ہیں ، کوئی مسلم ممالک ان کے لئے سفارتی انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ایک قدم بھی نہیں اٹھا رہا۔

یہ سب کچھ بدھ مت کے وہ پیروکار کر رہے ہیں جن کے پیروں کے نیچے چیونٹی آجاتی تھی تو وہ رو پڑتے تھے ۔ لیکن اب یہی بدھ مت کے داعی مخلتیا، رنگون تک پہنچ رہے ہیں رنگون کے علاقے بیگو اسد کی لیپٹ میں اٹے جا رہے ہیں ، روہنگیائی مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کیا جا رہا ہے ، ان کی املاک کو جلایا جارہا ہے۔۔ برما کے صوبہ اراکان کے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف برما کے عدم تشدد کے پرچاری بدھ مت کے افراد نسلی و مذہبی بنیادوں پر عرضہ دراز سے قیامت برپا کر رکھی ہے۔ روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام کی مہمات کئی کئی روزجاری رہتی ہیں لیکن کسی مسلم ملک اور اقوام متحدہ کو اتنی تکلیف نہیں ہوئی کہ اس سلسلے کو روکا جاسکے ، غالباََ دنیا عالم میں مسلمانوں کی بڑی تعداد کو یہ بھی نہیں معلوم ہوگا کہ برما میں لاکھوں روہنگیائی مسلمان بھی بستے ہیں اﷲ تعالی اور نبی اکرم ﷺ پر ایمان والوں پر جو ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں ان سے وہ بے خبر ہیں ، یا جان بوجھ کر اس لئے نظر انداز کر رہے ہیں کہ ان میں برما جیسے چیونٹی برابر ملک کو آنکھیں دیکھانے کا حوصلہ بھی موجود نہیں ہے۔ بین الااقومی تنطیم ہومین رائیٹس نے متنبہ کیا ہے کہ اگر برما نے روہنگیا مسلمان مہاجرین کی آباد کاری کیلئے اقدامات نہ کئے تو ملک میں وسیع مذہبی تقسیم کا خطرہ ہے ، حکومت کی ناکامی سے آبادی میں مذہبی تقسیم سے متعلق خشات میں اضافہ ہوگیا ہے۔ ا میہ یہ ہے کہ ان ہزاروں لاکھوں مسلمانوں کیلئے ہنگامی امداد ناکافی ہے سیلابی دنوں میں ان کی تباہ کاریوں میں اضافہ ہوجاتا ہے۔

برما کی فوجی حکومت نے1982کے سیٹزن شپ قانون کے تحت روہنگیا نسل کے 8لاکھ افراد اور برما میں موجود دوسرے دس لاکھ چینی و بنگالی ،مسلمانوں کو شہری ماننے سے انکار کردیا تھا ان مسلمانوں کو اپنے علاقوں سے باہر جانے کی اجازت نہیں ہے فورسز ہر جگہ ان کو چیک کرتے ہیں غیر شہری کے قانون کی وجہ سے روہنگیا اور دوسرے مسلمان برما کے کسی بھی حصے میں ملکیت نہیں رکھ سکتے ، فورسز کے افراد ان کا ریپ کرتے ہیں ، جبری مشقت لیتے ہیں ، زبردستی ان سے رقم چھین لیتے ہیں۔ شادیوں پر قانین لاگو ہیں دو بچوں سے زیادہ پیدا نہیں کرسکتے -

روہنگیاا راکان صوبے پر برما ے 1700ء میں قبضہ کیا اس وقت روہنگیا میں 8لاکھ ، بنگلہ دیش میں میں 3 لاکھ ، پاکستان میں 2 لاکھ ، تھائی لینڈ میں ایک لاکھ ، ملائیشیا میں 24ہزار کے قریب روہنگیا مسلمان بستے ہیں۔ایسٹ انڈیا کمپنی نے بنگال ایڈمنسٹریشن کو اراکان تک توسیع دی اور اراکان کے درمیان کوئی سر حد موجود نہیں تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد انگریزوں نے ارکان کا اقتدار چھوڑ دیا اور برطانیہ کے انخلا کے بعد روہنگیا مسلمانوں نے حملہ آور جاپنی فوج اور برٹش ہندوستان کے درمیان بفر زون کا کام کیا ۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد برٹش تو چلی گئی لیکن جاپانی فوجوں نے مسلح مزاحمت کی جاپانی فوجیوں نے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف ریپ ، قتل کے سینکڑوں واقعات کئے ، ُاس وقت چالیس ہزار روہنگیا مسلمان سرحد عبور کرکے برٹش علاقے چلے گئے ۔1947ء میں روہنگیا رہنماوں نے شمالی اراکان میں حریت پسند تحریک شروع کی تاکہ اراکان کو ایک مسلم ریاست بنا سکیں 1962ء تک یہ تحریک کافی متحرک تھی لیکن برما کی فوج نے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف جنگی کاروائیاں کرتے ہوئے بڑی تعداد میں قتل عام کیا 1978ء میں ـ"آپریشن کنگ ڈریگون " کیا ، اس دوران کافی تعداد پاکستان بھی آئی ۔ 1991-92کے دوران روہنگیا ،مسلمانوں کو برمی فوج، پولیس کی طرف سے بھی جبری مشقت اور معمولی بات پر قتل کرنا عام سی بات بن چکی تھی۔

روہنگیا کے مسلمانوں کے ساتھ کئی عشروں سے ایسا ظلم و ستم کیا جارہا ہے کہ ایسے تحریر کتے ہوئے دل پھٹ جاتا ہے ، ایٹمی مسلم طاتیں خاموش کیوں ہیں ، برما ، امریکا تو نیہں ہے کہ عرب ، ایران اور مسلم ممالک خاموش ہوجائیں۔ مسلمانوں کو زندہ جلایا جا رہا ہے ، خواتیں کی بے حرمتیاں کیں جا رہی ہیں۔انڈیا کی طرح برما میں بھی مسلمانوں کو زندہ جلانا مرغوب مشغلہ بن چکا ہے۔عالمی برادری تو مسلمانوں کی تباہی پر ہمیشہ خاموش رہتی ہے لیکن یہ مسلم ممالک کو کیا ہوگیا ہے ان کو سانپ کیوں سونغ گیا ہے کہ کوئی عالمی برادری کو جھنجوڑنے کیلئے اپنے سفارتی ذرائع استعمال نہیں کرتے ، اقوام متحدہ کی نیٹو فوج نہیں آتی ، کلسٹر بم نہیں گرائے جاتے ، انسانوں کے حقوق کے نام پر مسلم ممالک پر قابض پونے عالمی استعماری قوتیں خاموش ہیں ، پاکستان میں سیاسی جماعتوں کے لب سلے ہوئے ہیں ، ریلیاں اور موم بتیاں مافیا خاموشی سے تماشہ دیکھ رہی ہیں ، بھلا کیوں اس کی کیا وجہ ہے ؟۔ کیا روہنگیا کے مسلمان ، مسلم نہیں ہیں ۔ ان کی حفاظت کا ذمہ ہمارے پر نہیں ہے ، ہم عراق ، شام ،یمن ، فلشطین ، کشمیر ۔ سعودیہ ، امریکا ، افغانستان۔ لیبیا ، صومالیہ جیسے کتنے ممالک کے لئے امن فوج بھیج سکتے ہیں ، حملے کرکے انھیں سبق دلانے کی باتیں کرتے ہیں ، ان نام کے مسلمان کہلانے والے کیا جب آسمان پھٹ جائے گا ، زمین پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں گے تب ان میں ایمانی غیرت جاگے گی۔ سول سوسائٹی والوں ، مذہبی سیاسی جماعتوں والوں، سماجی تنظیموں والوں ، اے دنیا کے مسلمانوں ( اگر ہو)مجھے صرف یہ بتا دو کہ کیا روہنگیا کے مسلمان ، مسلم نہیں ہیں ؟۔۔۔
Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 661739 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.